یاسین شیخ چراغ بجھ گیا روشنی باقی ہے
میری اولین تحاریر، جو اُچکے ہوئے خیالات پر مشتمل ہوتیں، اُدھر ہی چھپیں۔
SHABQADAR:
ایک روشن چراغ ہزاروں چراغوں کو اجالا عطا کر سکتا ہے۔ آدمی علم سے چھلکنے لگے، توآس پاس کی بنجر زمینوں کو سیراب کر دیتا ہے، وہ بھی ایک ایسا ہی چراغ تھا، جس کی روشنی دھیمی مگر مستقل تھی اور اس کا علم اس کے عمل میں پنہاں تھا۔اس کی درویشی میں ۔ اس ٹھہرائو میں، جو جیون کے آخری برسوں میں اس کی ذات کا جزو بن گیا۔ یہ اس شخص کا تذکرہ ہے، جس کے شیلف میں لگی کتابوں نے مجھے مطالعے کی راہ سجھائی، اس آدمی کا تذکرہ ، جس کی لکھنے کی میز نے مجھے قلم اٹھانے کی تحریک دی۔
ہاں، یہ وہی سرما کی دھوپ سا شخص ہے، جس نے حوصلہ دیا کہ زمانہ لاکھ علم سے بے زار ہو ، مسافر کو سفر جاری رکھنا چاہیے، تاآنکہ اختتام نہ آن پہنچے، جسے یوم عاشورکی صبح اُس کی زیست کا اختتام آن پہنچا اور وہ اطمینان سے دریا کے اُس پار اترگیا۔ وہ شخص، جس کے شیلف کے وسیلے میں منٹو، قاسمی، عصمت اور واجدہ تبسم سے متعارف ہوا ، جس نے بن کہے میری تربیت کی، میری غلطیوں کو درگزرکیا اور یہ جانتے ہوئے کہ میں کبھی کبھی اُس کے پیسے چرا لیتا ہو، چپ سادھے رکھی، وہ شخص میرا اولین استاد تھا۔ وہ آدمی جسے دنیا ایک گوشہ نشیں صاحب علم ، منکسر المزاج استاد کے طور پرجانتی ہے، عہد نبوی کا نظام تعلیم ، قائد اعظم اور قومی تعلیم اور'' عورت باحیثیت حکمراں'' جیسی تحقیقی کتب کے مصنف کے طور پرشناخت کرتی ہے ،پروفیسر صاحب کہہ کر احترام سے پکارتی ہے، میرا پہلا استاد تھا۔اور جس سے آپ کچھ سیکھتے ہیں، وہ آپ کی ذات کا حصہ بن جاتا ہے۔بے شک میںکمزورطالب علم ہوں۔ متذبذب، منتشر، خواہشات میں گھرا ہوا ، البتہ خوش نصیب ہوں کہ مجھے جید اساتذہ ملے۔
پروفیسر شاہدہ قاضی، احفاظ الرحمان، احسن سلیم۔ البتہ پہلا استاد تو وہی تھا، جوگھر میں میسر تھا، جسے ہم ''بڑے ابو'' کہہ کر پکارتے تھے، جسے اپنے باپ کی حیات ہی میں تھا، جو ماسٹر تھا، گھرکے سربراہ کی حیثیت حاصل ہوگئی تھی۔یاسین شیخ وہ پکھیرو تھا، جس نے دور دیس سے سندھ دھرتی کی اور اڑان بھری، اور پھر اِس دھرتی کی ہوائوں میں رچ بس گیا۔ ادھر ہی، ساحلی شہر میں ایک استاد، ایک محقق، ایک قلمکارکی حیثیت سے عزت کمائی، شناخت بنائی، پیار بانٹا، محبت سمیٹی۔ ادھر ہی ایک فانی انسان کی طرح بیماری جھیلی اور 22 ستمبرکوکوچ کیا۔
آب حیات ختم ہوا، تلچھٹ باقی ہے۔
اس سانحے کے بعد میں انھیں قصوں میں یاد کرتا ہوں۔ جیسے وہ قصہ ، جوگھرکی عورتیں ہمیں بچپن میں سنایا کرتی تھیں کہ ایک ہوسٹل میں اترنے والی تاریک سرد رات تمہارے بڑے ابو نے جنات سے لڑائی کی تھی اور اُس لڑائی کے عطا کردہ نشانات اب بھی اُن کے جسم پر ہیں، جب ہم بڑے ہوئے، مجھے یاد ہے، وہ ایک خوف ناک ٹرین حادثے کا شکار ہوئے تھے اور پھر ایک ٹریفک حادثہ اوراپنے باپ کی موت پرہمارے سامنے پہلی بار روئے اور گردوں کے مرض کے ساتھ اُنھوں نے عمرہ کیا ۔ جب میں تازہ تازہ صحافت میں آیا تھا اور اُس کے سخت تقاضوں سے بوکھلا ساگیا تھا، تب یہ وہی تھا، جنھوں نے میری رہنمائی کی۔ انٹرویو نگاری شروع کی، تو انھوں نے خبرکی کہ شہرکی معتبر شخصیات کون اور ان سے کیوں کر رابطہ ممکن۔
شروع شروع میں انٹرویوز کا اسکرپٹ فائنل کرنے سے قبل اُنھیں دکھا دیتا اور وہ میری زبان و بیان کی غلطیاں درست کردیتے اور یوں میری تحریر احفاظ الرحمان کے سامنے جانے سے قبل بڑی قابل قبول ہوجاتی۔ ایک بار تو یوں ہوا کہ وہ کسی سیمینار کے سلسلے میں اسلام آباد میں تھے، تو میں نے اپنی تحریر انھیں فیکس کردی، جسے درست کرکے اُنھوں نے فیکس ہی کے ذریعے لوٹا دیا۔یونہی ہمیشہ گھنے درخت کی طرح انھوں نے مجھ پر سایہ کیا۔خدا نے اُنھیں اولاد دی، مگر واپس لے لی ، ہم خاندان کے بچے ہی اُن کی اولاد تھے۔ آج کی اولاد کی طرح کم فہم ۔اُن کی جیون کہانی میں قربانی کا جذبہ کارفرما رہا۔
اوروں کو سنبھالنا، ان کے مسائل سننا، حل کرنا، یہ سب اُن کی ذات کا حصہ تھا ۔اُن کی رسائی خاندان کی اُن جڑوں تک بھی تھی، جن کا میں نے کبھی تذکرہ نہیں سنا تھا۔جب اِس صاحب علم کو بیماری نے آن لیا اور طبیعت بگڑنے پر اُسے آئی سی یو میں ٹھہرانا پڑا، یہاں تک کہ وینٹی لیٹر پر جانا پڑا، تو اس نے زندگی کو رد کرنے کے بجائے قبول کیا ۔ سفرکیا۔ نئے نئے ذائقے چکھے۔ مٹن اور پھل کے انتخاب کو کڑا کردیا ۔ میں نے ان کے ساتھ شہر قائد میں سائوتھ انڈین تھالی تلاش کی، سجی کھائی اور مزید ذائقوں کی کھوج کے منصوبے بنائے۔وہ سیاسی طور پر خاصے بیدار تھے۔ شاید استاد نہ بنتے، تو سیاست میں ہوتے ۔ بھٹو کے حامی تھے۔ بے نظیرکے قتل پر ان کی آنکھوں میں نمی تھی۔کچھ عرصہ کالم بھی لکھے۔ ماہنامہ ''بدلتی دنیا'' کے ایڈیٹر رہے۔
میری اولین تحاریر، جو اُچکے ہوئے خیالات پر مشتمل ہوتیں، اُدھر ہی چھپیں۔ اچھا ، انھوں نے اساتذہ کی تنظیموں میں بھی فعال کردار ادا کیا، مگر ان کی اِن سرگرمیوں سے میں لاعلم ہی رہا۔ذرا اُن کی کتاب زیست کے اوراق پلٹے ہیں: پروفیسر یاسین شیخ نے 15نومبر 1944 کو علی گڑھ میں ایک اسکول ماسٹرکے گھر آنکھ کھولی ۔ سن 50 میں ہجرت کی، تو کھوکھرا پارکے مہاجر کیمپ میں لگنے والی آگ کے شاہد بنے ۔ سکھرکا علاقہ پنوعاقل مسکن ٹھہرا ۔ 60ء میں میٹرک کے بعد معاشی مسائل ملازمت کی سمت لائے، تو باپ کی تقلید کی، اور تدریس کو چنا ۔ بعد ازاں اردو میں ایم اے کیا، بی ایڈ اور ایم ایڈ کی اسناد حاصل کی ۔ 72ء میں بہ طور لیکچرار جامعہ ملیہ کالج آف ایجوکیشن کا حصہ بنے ۔ 2000 میں پروفیسر ہوئے ۔ جامعہ ملیہ کالج آف ایجوکیشن کے پرنسپل بنے ۔
اِسی عرصے میں اپنے علم سے سیکڑوں چراغ روشن کیے۔ 2004 میں ریٹائر ضرور ہوئے، مگر پہلے سے زیادہ مصروف ہوگئے ۔ سندھ حکومت اور اقوام متحدہ نے اُن کی مہارت اور تجربے سے استفادہ کیا ۔ بہ طورٹیچر انسٹرکٹر اِس عرصے میں خاصا کام کیا۔اوپر چند غیرنصابی کتب کا تذکرہ آیا ، حج کا سفر نامہ''دیار حرم میں'' اور شعری مجموعہ''مدتیں ہوگئیں'' بھی اِس فہرست میں شامل ۔ نصابی کتب کی تعداد کتنی ہے؟ شاید اُنھوں نے کبھی بتایا ہو، مگر اب مجھے یاد نہیں ۔ ہاں یہ یاد ہے کہ رخصتی سے چند گھنٹوں قبل جب وہ خلاف توقع ہشاش بشاش تھے، ہمارے ساتھ محو سفر تھے، توانھوں نے ایک دعوت کا منصوبہ بنایا تھا، اور ٹھیلے سے پھل خریدے تھے اورجب میرے بیٹے احد نے انھیں بتایا کہ و ہ سائیکل چلانا 50 فی صد سیکھ گیا ہے، تو انھوں نے کہا '' جب 100 فی صد سیکھ جائوگے، تو ہم مٹھائی لائیں گے۔'' مگر ایسا ہو نہ سکا۔
اُسی رات بنا ہمیں خبرکیے، چند منٹ تکلیف برداشت کرنے کے بعد وہ رخصت ہوئے۔ وہ دس محرم تھا، جمعہ کا دن،اور بلا کی گرمی۔اُن کی کتابوں کا وہ شیلف ، جس نے مجھے منٹو، احمد ندیم قاسمی اور عصمت سے متعارف کروایا ، چپ ہے، مجھے تکتا ہے، مگر میں اُس تک نہیں جاتا کہ جس کے سبب میں پہلی بار اُدھر گیا تھا ، اب وہ نہیں رہا۔اب میں اندھیرے میں کھڑا ہوا ۔ مایوس ، متذبذب ، بنجر میدان میں کسی درخت کے مانند ۔ اور میں دیکھتا ہوں کہ دُور کہیں روشنی کی لو ہے، شاید کوئی چراغ روشن ہے۔
شاید جو چلا گیا ، وہ باقی ہے۔
ایک روشن چراغ ہزاروں چراغوں کو اجالا عطا کر سکتا ہے۔ آدمی علم سے چھلکنے لگے، توآس پاس کی بنجر زمینوں کو سیراب کر دیتا ہے، وہ بھی ایک ایسا ہی چراغ تھا، جس کی روشنی دھیمی مگر مستقل تھی اور اس کا علم اس کے عمل میں پنہاں تھا۔اس کی درویشی میں ۔ اس ٹھہرائو میں، جو جیون کے آخری برسوں میں اس کی ذات کا جزو بن گیا۔ یہ اس شخص کا تذکرہ ہے، جس کے شیلف میں لگی کتابوں نے مجھے مطالعے کی راہ سجھائی، اس آدمی کا تذکرہ ، جس کی لکھنے کی میز نے مجھے قلم اٹھانے کی تحریک دی۔
ہاں، یہ وہی سرما کی دھوپ سا شخص ہے، جس نے حوصلہ دیا کہ زمانہ لاکھ علم سے بے زار ہو ، مسافر کو سفر جاری رکھنا چاہیے، تاآنکہ اختتام نہ آن پہنچے، جسے یوم عاشورکی صبح اُس کی زیست کا اختتام آن پہنچا اور وہ اطمینان سے دریا کے اُس پار اترگیا۔ وہ شخص، جس کے شیلف کے وسیلے میں منٹو، قاسمی، عصمت اور واجدہ تبسم سے متعارف ہوا ، جس نے بن کہے میری تربیت کی، میری غلطیوں کو درگزرکیا اور یہ جانتے ہوئے کہ میں کبھی کبھی اُس کے پیسے چرا لیتا ہو، چپ سادھے رکھی، وہ شخص میرا اولین استاد تھا۔ وہ آدمی جسے دنیا ایک گوشہ نشیں صاحب علم ، منکسر المزاج استاد کے طور پرجانتی ہے، عہد نبوی کا نظام تعلیم ، قائد اعظم اور قومی تعلیم اور'' عورت باحیثیت حکمراں'' جیسی تحقیقی کتب کے مصنف کے طور پرشناخت کرتی ہے ،پروفیسر صاحب کہہ کر احترام سے پکارتی ہے، میرا پہلا استاد تھا۔اور جس سے آپ کچھ سیکھتے ہیں، وہ آپ کی ذات کا حصہ بن جاتا ہے۔بے شک میںکمزورطالب علم ہوں۔ متذبذب، منتشر، خواہشات میں گھرا ہوا ، البتہ خوش نصیب ہوں کہ مجھے جید اساتذہ ملے۔
پروفیسر شاہدہ قاضی، احفاظ الرحمان، احسن سلیم۔ البتہ پہلا استاد تو وہی تھا، جوگھر میں میسر تھا، جسے ہم ''بڑے ابو'' کہہ کر پکارتے تھے، جسے اپنے باپ کی حیات ہی میں تھا، جو ماسٹر تھا، گھرکے سربراہ کی حیثیت حاصل ہوگئی تھی۔یاسین شیخ وہ پکھیرو تھا، جس نے دور دیس سے سندھ دھرتی کی اور اڑان بھری، اور پھر اِس دھرتی کی ہوائوں میں رچ بس گیا۔ ادھر ہی، ساحلی شہر میں ایک استاد، ایک محقق، ایک قلمکارکی حیثیت سے عزت کمائی، شناخت بنائی، پیار بانٹا، محبت سمیٹی۔ ادھر ہی ایک فانی انسان کی طرح بیماری جھیلی اور 22 ستمبرکوکوچ کیا۔
آب حیات ختم ہوا، تلچھٹ باقی ہے۔
اس سانحے کے بعد میں انھیں قصوں میں یاد کرتا ہوں۔ جیسے وہ قصہ ، جوگھرکی عورتیں ہمیں بچپن میں سنایا کرتی تھیں کہ ایک ہوسٹل میں اترنے والی تاریک سرد رات تمہارے بڑے ابو نے جنات سے لڑائی کی تھی اور اُس لڑائی کے عطا کردہ نشانات اب بھی اُن کے جسم پر ہیں، جب ہم بڑے ہوئے، مجھے یاد ہے، وہ ایک خوف ناک ٹرین حادثے کا شکار ہوئے تھے اور پھر ایک ٹریفک حادثہ اوراپنے باپ کی موت پرہمارے سامنے پہلی بار روئے اور گردوں کے مرض کے ساتھ اُنھوں نے عمرہ کیا ۔ جب میں تازہ تازہ صحافت میں آیا تھا اور اُس کے سخت تقاضوں سے بوکھلا ساگیا تھا، تب یہ وہی تھا، جنھوں نے میری رہنمائی کی۔ انٹرویو نگاری شروع کی، تو انھوں نے خبرکی کہ شہرکی معتبر شخصیات کون اور ان سے کیوں کر رابطہ ممکن۔
شروع شروع میں انٹرویوز کا اسکرپٹ فائنل کرنے سے قبل اُنھیں دکھا دیتا اور وہ میری زبان و بیان کی غلطیاں درست کردیتے اور یوں میری تحریر احفاظ الرحمان کے سامنے جانے سے قبل بڑی قابل قبول ہوجاتی۔ ایک بار تو یوں ہوا کہ وہ کسی سیمینار کے سلسلے میں اسلام آباد میں تھے، تو میں نے اپنی تحریر انھیں فیکس کردی، جسے درست کرکے اُنھوں نے فیکس ہی کے ذریعے لوٹا دیا۔یونہی ہمیشہ گھنے درخت کی طرح انھوں نے مجھ پر سایہ کیا۔خدا نے اُنھیں اولاد دی، مگر واپس لے لی ، ہم خاندان کے بچے ہی اُن کی اولاد تھے۔ آج کی اولاد کی طرح کم فہم ۔اُن کی جیون کہانی میں قربانی کا جذبہ کارفرما رہا۔
اوروں کو سنبھالنا، ان کے مسائل سننا، حل کرنا، یہ سب اُن کی ذات کا حصہ تھا ۔اُن کی رسائی خاندان کی اُن جڑوں تک بھی تھی، جن کا میں نے کبھی تذکرہ نہیں سنا تھا۔جب اِس صاحب علم کو بیماری نے آن لیا اور طبیعت بگڑنے پر اُسے آئی سی یو میں ٹھہرانا پڑا، یہاں تک کہ وینٹی لیٹر پر جانا پڑا، تو اس نے زندگی کو رد کرنے کے بجائے قبول کیا ۔ سفرکیا۔ نئے نئے ذائقے چکھے۔ مٹن اور پھل کے انتخاب کو کڑا کردیا ۔ میں نے ان کے ساتھ شہر قائد میں سائوتھ انڈین تھالی تلاش کی، سجی کھائی اور مزید ذائقوں کی کھوج کے منصوبے بنائے۔وہ سیاسی طور پر خاصے بیدار تھے۔ شاید استاد نہ بنتے، تو سیاست میں ہوتے ۔ بھٹو کے حامی تھے۔ بے نظیرکے قتل پر ان کی آنکھوں میں نمی تھی۔کچھ عرصہ کالم بھی لکھے۔ ماہنامہ ''بدلتی دنیا'' کے ایڈیٹر رہے۔
میری اولین تحاریر، جو اُچکے ہوئے خیالات پر مشتمل ہوتیں، اُدھر ہی چھپیں۔ اچھا ، انھوں نے اساتذہ کی تنظیموں میں بھی فعال کردار ادا کیا، مگر ان کی اِن سرگرمیوں سے میں لاعلم ہی رہا۔ذرا اُن کی کتاب زیست کے اوراق پلٹے ہیں: پروفیسر یاسین شیخ نے 15نومبر 1944 کو علی گڑھ میں ایک اسکول ماسٹرکے گھر آنکھ کھولی ۔ سن 50 میں ہجرت کی، تو کھوکھرا پارکے مہاجر کیمپ میں لگنے والی آگ کے شاہد بنے ۔ سکھرکا علاقہ پنوعاقل مسکن ٹھہرا ۔ 60ء میں میٹرک کے بعد معاشی مسائل ملازمت کی سمت لائے، تو باپ کی تقلید کی، اور تدریس کو چنا ۔ بعد ازاں اردو میں ایم اے کیا، بی ایڈ اور ایم ایڈ کی اسناد حاصل کی ۔ 72ء میں بہ طور لیکچرار جامعہ ملیہ کالج آف ایجوکیشن کا حصہ بنے ۔ 2000 میں پروفیسر ہوئے ۔ جامعہ ملیہ کالج آف ایجوکیشن کے پرنسپل بنے ۔
اِسی عرصے میں اپنے علم سے سیکڑوں چراغ روشن کیے۔ 2004 میں ریٹائر ضرور ہوئے، مگر پہلے سے زیادہ مصروف ہوگئے ۔ سندھ حکومت اور اقوام متحدہ نے اُن کی مہارت اور تجربے سے استفادہ کیا ۔ بہ طورٹیچر انسٹرکٹر اِس عرصے میں خاصا کام کیا۔اوپر چند غیرنصابی کتب کا تذکرہ آیا ، حج کا سفر نامہ''دیار حرم میں'' اور شعری مجموعہ''مدتیں ہوگئیں'' بھی اِس فہرست میں شامل ۔ نصابی کتب کی تعداد کتنی ہے؟ شاید اُنھوں نے کبھی بتایا ہو، مگر اب مجھے یاد نہیں ۔ ہاں یہ یاد ہے کہ رخصتی سے چند گھنٹوں قبل جب وہ خلاف توقع ہشاش بشاش تھے، ہمارے ساتھ محو سفر تھے، توانھوں نے ایک دعوت کا منصوبہ بنایا تھا، اور ٹھیلے سے پھل خریدے تھے اورجب میرے بیٹے احد نے انھیں بتایا کہ و ہ سائیکل چلانا 50 فی صد سیکھ گیا ہے، تو انھوں نے کہا '' جب 100 فی صد سیکھ جائوگے، تو ہم مٹھائی لائیں گے۔'' مگر ایسا ہو نہ سکا۔
اُسی رات بنا ہمیں خبرکیے، چند منٹ تکلیف برداشت کرنے کے بعد وہ رخصت ہوئے۔ وہ دس محرم تھا، جمعہ کا دن،اور بلا کی گرمی۔اُن کی کتابوں کا وہ شیلف ، جس نے مجھے منٹو، احمد ندیم قاسمی اور عصمت سے متعارف کروایا ، چپ ہے، مجھے تکتا ہے، مگر میں اُس تک نہیں جاتا کہ جس کے سبب میں پہلی بار اُدھر گیا تھا ، اب وہ نہیں رہا۔اب میں اندھیرے میں کھڑا ہوا ۔ مایوس ، متذبذب ، بنجر میدان میں کسی درخت کے مانند ۔ اور میں دیکھتا ہوں کہ دُور کہیں روشنی کی لو ہے، شاید کوئی چراغ روشن ہے۔
شاید جو چلا گیا ، وہ باقی ہے۔