انتخابی نظام اور عوام کی عدم دلچسپی

یونہی چہرے بدلتے رہیں گے اور عوام مہنگائی کی چکی میں پستے رہیں گے۔

ہمارے ملک کے نام میں جمہوری شناخت موجود ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ملک میں نصف عرصہ جمہوریت کوبیڈ کی سائیڈ ٹیبل کی طرح سائیڈ میں رکھا گیا ۔ اسی طرح وطن ِ عزیز کے قیام سے اب تک پورا عرصہ عوامی فلاح بھی فوکس اختیار نہیں کرپائی ہے ۔

جمہوریت کے معنی ہیں رائے دہی کا حق اور اختلاف ِ رائے کے اظہار کے مساوی مواقع کا حامل معاشرہ، جس میں برداشت اور ہم آہنگی کوپروان چڑھنے کا موقع ملتا رہے ۔ عوامی رائے دہی کے لیے انتخابات ایک مؤثر طریقہ ہے اور جمہوریت کا تمام نظام اسی انتخابی عمل کے ڈھانچے پر کھڑا ہے ۔ اس عمل کی وجہ سے عوام خود کو ملکی اُمور و فیصلوں میں شامل سمجھتے ہیں ۔

یہی وجہ ہے کہ جب عوام کو 1970ء میں جمہوریت سے روشناس کرایا گیا اور انھیں رائے دہی کا حق دیا گیا تو عوام نے انتہائی جوش واعتماد کا اظہار کیا اور یہ اعتماد ہی کا اظہار تھا کہ جب ملک کو ایٹمی قوت بنانے کے لیے گھاس کھانے کی آراء سامنے آئی تو عوام نے بھرپور ساتھ دیا لیکن ملکی سیاست کا وہ ماحول ہے جس میں عوامی رائے دہی کو صرف بیلٹ پیپر پر ٹھپوں تک ہی محدود رکھا گیا ہے جب کہ ان ٹھپوں کی بنیاد پر معرض ِ وجود میں آنیوالی حکومتیں عوام سے کیے گئے وعدوں سے منحرف ہوکر عوامی مفاد کے بجائے دیگر غیر عوامی قوتوں کی آراء پر چلنے لگتی ہیں اور ان ہی قوتوں کے مفادات کا تحفظ کرنے میں مصروف رہتی ہیں ۔

پاکستان دنیا کے اُن 167ممالک میں سے ایک ہے جہاں ملکی اُمور چلانے کے لیے جمہوری نظام رائج ہے ۔ یہاں پارلیمنٹری نظام ِ جمہوریت ہے ۔ اس پارلیمنٹ کے اراکین کو براہ ِ راست عوام منتخب کرتے ہیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ ملک میں آمریتی ادوار میں کبھی بلدیاتی ارکان سے ووٹ کی بنیاد پر اسمبلیاں بنی ہیں تو کبھی غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کرائے گئے ہیں ۔ وہ پاکستان جو بقول قائد اعظم ''اسلام کی تجربہ گاہ ہوگا''، اسے انتخابی تجربہ گاہ بنادیا گیا۔

انتخابی عمل پر سے عوام کا اعتماد کم ہونے کی ایک وجہ منتخب اسمبلیوں کابار بار زبردستی تحلیل کیا جانا اور منتخب حکومتوں کو برطرف کرنا بھی ہے۔ ملک کی پہلی آئین ساز اسمبلی کو 1954میں اس وقت کے گورنر جنرل غلام محمد نے تحلیل کرکے اس کی بنیاد رکھی ۔وہ تاریخی موڑ تھا جہاں سے ملکی جمہوری نظام کی بساط کو لپیٹنے کی روایت کا آغاز ہوا ۔ 1973کا آئین بننے کے باوجود یہ سلسلہ رک نہ سکا ۔

خصوصاً 90کے عشرے میں تو اس عمل کو مسلسل 4مرتبہ دہرایا گیا ۔ پھر 2009ء میں آصف علی زرداری کی صدارت کے ایام میں آنیوالی 18ویں ترمیم کے بعد صدر مملکت کے اسمبلی تحلیل کرنیوالے اختیارات ختم کردیے گئے ۔ لیکن شاید غیر جمہوری قوتوں نے فیصلہ کرلیا تھا کہ جمہوری نظام کو سپریم رہنے نہیں دیا جائے گا۔یوں اپنا صدر ہونے کے باوجود پی پی پی اسمبلی میں اکثریت رکھنے والے اپنے وزیر اعظم کو نہ بچا سکی اور منتخب وزیر اعظم کو معزول ہونا پڑا ۔

ان قوتوں نے ایسے پتے کھیلے کہ اس کے بعد سے اسمبلیاں تو اپنی مدت پوری کرلیتی ہیں لیکن عدالتی کارروائی یا دیگر حربوں کے استعمال سے اب تک کسی بھی منتخب وزیر داخلہ کو اپنی آئینی مدت پوری نہیں کرنے دی گئی ۔ یوں بار بار اسمبلیوں کی تحلیل اور منتخب وزرائے اعظم کی آئینی مدت کی تکمیل سے قبل معزولیوں نے عوام کو یہ باور کرایا کہ ملک میں ووٹ کے ذریعے بننے والی اسمبلیوں اور حکومتوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے جب کہ ملک میں آمریتی ادوار میں کرائے گئے ریفرنڈم نے بھی ووٹ کی اہمیت کو گھٹانے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور عوام انتخابی عمل کو صرف دکھاوا سمجھنے لگے ہیں۔

انڈیا ایکٹ 1935کے قوانین کے ماتحت 23مارچ 1956میں الیکشن کمیشن آف پاکستان قائم ہوا ہے ۔یوں تو دنیا کے دیگر ممالک کی طرح ہمارے یہاں بھی الیکشن کمیشن انتخابات سے متعلق حلقہ بندیوں سے انتخابات کے انعقاد اور نتائج تک تمام انتظامی اُمور کاذمے دار ہے لیکن بدقسمتی سے یہ دنیا کی الیکشن کمیشنوں کی طرح اپنی غیر جانبدارانہ شناخت نہیں بنا سکا ہے اور یہ شروع سے ہی متنازعہ رہا ہے ۔


حالانکہ وقتاً فوقتاً اس کے قوانین میں ترامیم اور الیکشن کے نظام کے لیے پالیسیاں تبدیل ہوتی رہی ہیں لیکن ان تبدیلیوں کے پیچھے بھی بہتری کا عنصر کارفرما نظر نہیں آیا جب کہ گذشتہ 2الیکشن میں تو الیکشن کمیشن کی تشکیل میں پارلیمنٹ میں موجود حزب ِ اقتدار و حزب ِ اختلاف کے تمام فریقوں نے کردار ادا کیا لیکن پھر بھی ایسا نظام نہیں بن پایا جس کے تحت الیکشن کی شفافیت کو ملکی و بین الاقوامی سطح پر قبولیت کا اعزاز حاصل ہوتا ۔ 2013میں ہونیوالے ملک کے 12 ویں انتخابات کے نتائج کے کیسز اور پھر اُن کی بنیاد پر دھرنوں نے ملکی نظام کو مفلوج کیے رکھا ۔

ویسے بھی اس خطے میں انتخابی عمل کی شفافیت پر سوالیہ نشان بھی کوئی نئی بات نہیں جب کہ حالیہ انتخابات میں تو RTSسافٹ ویئر ، Click ECP اورووٹ و پولنگ اسٹیشن جاننے کے لیے SMSکی حامل ٹیکنالوجی بھی متعارف کرائی گئی لیکن عملے کو RTSکی مناسب تربیت نہ دینے اور دستاویزات کی بھرمار کی وجہ سے نتائج میں دیر ہونے کے ساتھ ساتھ ایجنٹس کو نتائج کے تصدیق شدہ فارم 45نہ دینے کی شکایتوں اور دیگر انتظامی لاپرواہیوں کی وجہ سے دھاندلی کے الزامات کی بناء پر انتخابات میں حصہ لینے والی جماعتوں کی اکثریت کی جانب سے انتخابات کی شفافیت پر شدید نکتہ چینی اور سوالات اُٹھائے اور کئی جماعتوں کی جانب سے قانونی راستہ بھی اختیار کیا گیا ہے۔

حالانکہ مختلف جماعتوں کی جانب سے الیکٹرانک ووٹنگ نظام کا مطالبہ کیا گیا تھا لیکن کم از کم 4عشروں سے دنیا میں رائج اس نظام کو اب تک ہمارے یہاں رائج کرنے سے کترایا جارہا ہے ۔ ورنہ موبائل سم کی تصدیق کے لیے جب گلی گلی بائیو میٹرک مشینیں پھیلائی جاسکتی ہیں تو ملکی استحکام سے جڑے انتخابی عمل جیسے اس اہم کام کے لیے یہ نظام کیوں لاگو نہیں کیا گیا؟ جب کہ عام انتخابات کے صرف دو ماہ بعد ہی ہونیوالے ضمنی انتخابات میں سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ کاسٹ کرنے کے لیے قلیل مدت میں اس سے بھی جدید اور مہنگا ترین انٹرنیٹ ووٹنگ سسٹم کا نظام لاگو کردیا گیا جس پر 15ہزار روپے فی ووٹ خرچہ آیا ۔ یعنی ان سب چیزوں کے پیچھے پیسے اور وسائل کی کمی کا معاملہ نہیں بلکہ نیت اور عزائم کا مسئلہ لگ رہا ہے۔

انتخابات کے ذریعے بننے والی حکومت کی جانب سے ملکی و عوامی فیصلوں کی عوام میں پذیرائی حاصل نہ کرپانے کی بھی کچھ وجوہات ہیں ۔ ملک کی 21کروڑ آبادی میں سے تقریباً 10کروڑ لوگوں کا ووٹرز فہرست میں اندراج ہے ۔ اس حساب سے ملک کا انتخابی نظام ہے ہی نصف آبادی کے لیے ، ان میں سے بھی بڑی مشکل سے حالیہ انتخابات میں 51فیصد یعنی صرف 5کروڑ لوگوں نے اپنے ووٹ کا حق استعمال کیا ہے ۔اب آپ اندازہ لگالیں کہ مختلف جماعتوں میں منقسم ہونے کے بعد حکومت بنانیوالی جماعت کو کتنے لوگوں نے ووٹ دیا ہوگا ۔

اس تناظر میں دیکھا جائے تو نظر آتا ہے کہ اکثر و بیشتر جگہوں پر تو حکومت کے جیتنے والے امیدواروں نے9سے 10 فیصد ووٹ حاصل کیے ہیں ۔ یعنی حکومت صرف مجموعی طور پر 18سے 20فیصد لوگوں کی نمائندہ ہوتی ہے جب کہ وہ ملک بھر کے لوگوں کی زندگیوں کے فیصلے کرتی ہے ۔ اور تعجب کی بات یہ ہے کہ درج ووٹروں میں سے نصف سے زیادہ ووٹروں کی جانب سے رائے دہی کا اظہار نہ کرنیوالوں پر بھی کبھی توجہ نہیں دی گئی کہ کیوں وہ اس نظام کا حصہ ہوتے ہوئے بھی اس عمل میں شرکت نہیں کرتے ؟

دوسری جانب غیر درج شدہ نصف آبادی ملکی معاملات اور مستقبل سے متعلق کیا رائے رکھتی ہے یہ جاننے کی بھی کوئی کوشش نہیں کرتا ۔یہی وجہ ہے کہ ملکی انتخابات میں ٹرن آؤٹ ہمیشہ کم ہی نظر آتا ہے ۔ملکی انتخابی تاریخ میں 1970ء کا الیکشن ٹرن آؤٹ کے لحاظ سے سب سے بلند شرح کا حامل رہا ہے جس میں 63%ٹرن آؤٹ دیکھنے میں آیا ۔ جس کے بعد ہونیوالے تمام انتخابات میں ٹرن آؤٹ ہمیشہ 50فیصد سے کم ہی دیکھنے میں آیا ہے ۔ ملک میں 12ویں انتخابات 2013میں ہوئے۔ اس میں حیرت انگیز طور پر ووٹ کاسٹنگ کی شرح میں 55% فیصد تک اضافہ نظر آیا لیکن رواں سال جولائی میں ہونیوالے ملکی 13ویں انتخابات میں بھی تبدیلی کی لہر کے باوجودانتخابات میں صرف 51%ٹرن آؤٹ عوام کی عدم دلچسپی کو ظاہر کرتا ہے ۔

یعنی 49%لوگوں نے اس عمل میں دلچسپی نہیں دکھائی جب کہ ملک بھرسے دھاندلیوںاور بدانتظامیوں کی الیکشن کمیشن کو 700شکایات موصول ہوئی ہیں جن میںسے 240کے قریب تعداد صوبہ سندھ سے ہے، جن پر مؤثر کارروائی نہ کرنے اور میڈیا پر بار بار نتائج تبدیل ہونے کی شکایات کی بناء پر تجزیہ کاروں کی جانب سے اس الیکشن اور الیکشن کمیشن و دیگر انتظامیہ پر کڑی تنقید کی جاتی رہی ہے۔ انتخابات جمہوریت کے قیام میں ریڑھ کی حیثیت رکھتے ہیں، جب ملک میں انتخابی نظام ہی حالت ِ مرگ میں ہوگا تو وہ جمہوریت کو جی دان کہاں سے دے سکے گا ؟

اس ساری صورتحال میں دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ ملکی اُمور اور اُن پر فیصلہ کن انتظامی اختیار کو اپنے کنٹرول میں رکھنے میں عوام کی جانب سے برتی گئی لاپرواہی کا بھی بڑا عمل دخل ہے۔ عوام کو سوچنا چاہیے کہ جب تک وہ جمہوریت کو نہیں اپنا ئیں گے اور جمہوریت کی بنیاد وانتخابی عمل کی مضبوطی و استحکام میں دلچسپی کے ساتھ بھرپور و ذمے دارانہ کردار ادا نہیں کریں گے تب تک اس ملک میں حقیقی تبدیلی آنا ممکن نہیں ہوگا ۔ بس یونہی چہرے بدلتے رہیں گے اور عوام مہنگائی کی چکی میں پستے رہیں گے ۔ جب کہ ملک کی تمام جمہوری قوتوں کوبھی اس بات پر سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیے کہ جب جمہوریت میں ''طاقت کا سرچشمہ عوام ہے '' تو پھر وہ عوام کو شعوری طاقت سے لیس کرنے کے بجائے کیوں غیر جمہوری اور جمہوریت دشمن قوتوں کے آگے منشی گیر و غلامانہ حیثیت سے نگوں سار رہتے ہیں ۔۔!

کہتے ہیں کہ 1970کے الیکشن میں شفافیت قدرے نظر آئی لیکن اس میںجیتنے والی جماعت کو اقتدار نہ سونپنے کی غیر جمہوری حرکت نے نہ صرف عوام کے انتخابی نظام پر اعتماد کو ضرب لگائی بلکہ اس سے ملک بھی دولخت ہوگیا ۔ نہ جانے ملک میں موجود نادیدہ قوتوں کے کیسے مفادات ہیں جو ملک کا ٹوٹنا تو گوارہ کرلیتی ہیں لیکن اپنی مرضی و منشا کے خلاف کوئی کام نہیں ہونے دیتیں ۔ اس لیے ملک کے دیدہ و نادیدہ کرتا دھرتاؤں کو بھی اس صورتحال پر سنجیدگی سے سوچنا چاہیے کہ عوام کا ملکی اُمور میں لاتعلقی کا یہ رجحان ملک کو درپیش خطرات میں اضافے کا باعث نہ بن جائے کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ اگر عوام اقتدار کے ساتھ ہو تو حکمراں ''شہنشاہ اکبر'' بن جایا کرتے ہیں ورنہ بادشاہ ''ہمایوں '' بن کر ملک بھی گنوا دیتے ہیں تو خود بھی دربدر کی ٹھوکریں کھاتے ہیں ۔
Load Next Story