لوہار اور حکیم کے وعدے
پتہ نہیں کیوں ہم نے بار ہا کوشش کی کہ اعتبار کرنے کی اس بری عادت کو ترک کر دیں لیکن کامیاب نہیں ہو پائے۔
پشتو میں ایک کہاوت ہے کہ کچھ تو ''چکی'' خراب تھی اور کچھ دانے گیلے تھے، ایک اورکہاوت بھی ایسی ہی ہے کہ کچھ تو ''تلوار'' تیز تھی اور کچھ اماں ''بوسیدہ'' تھی، اس کا پس منظر یہ ہے کہ ایک نوجوان نے ایک لوہار سے تلوار بنوالی گھر میں آزمانے کو کچھ اور نہ ملا تو اس نے بستر پر پڑی ہوئی بیمار ماں پر تلوار کی تیزی آزما لی، پھر کوئی ماجرا پوچھتا تو یہی بتاتا کہ کچھ توکم بخت تلوار زیادہ تیز تھی اورکچھ اماں بھی گلی سڑی تھی، مطلب صرف یہ واضح کرنا تھا کہ ایک تو لوگ جھوٹے بہت ہیں اوردوسرے ہم اعتبار بھی جلد کر لیتے ہیں:
عادتاً تم نے کر لیا وعدہ
عادتاً ہم نے اعتبار کیا
لیکن اس وقت ہم ان وعدوں کا ذکر نہیں کر رہے جو ''ستر'' سال سے عادتاً کیے جاتے رہے اور عادتاً لوگ ان پر اعتبار کرتے ہیں کہ پورے ستر سال کے وعدوں کا حساب کتاب کرنے کے لیے کم ازکم ''ستر منشیوں'' کی ضرورت پڑے گی، اس لیے ہم صرف اپنے ستر سالہ تجربے تک محدود رہیں گے۔
پتہ نہیں کیوں ہم نے بار ہا کوشش کی کہ اعتبار کرنے کی اس بری عادت کو ترک کر دیں لیکن کامیاب نہیں ہو پائے، بار ہا ارادہ کیا کہ کسی کے وعدے پر اعتبار نہیں کریں گے لیکن پھر ادھر کسی نے عادتاً وعدہ کر لیا اور ادھر ہم نے عادتاً اعتبار کر لیا۔
اس سلسلے میں ہمارے پاس بے شمار دلچسپ کہانیاں ہیں کیونکہ نہ تو ہم عادت چھو ڑ رہے ہیں اور نہ ہی لوگ جھوٹ بولنا چھوڑتے ہیں۔
سب سے پہلا واقعہ تو اسی وقت ہوا جب ہم اپنے ایک شاعر + لوہار کے دوست کے پاس چاقو تیز کرانے گئے، چاقو تیز کرتے ہوئے بولے ایک مرتبہ میں نے ایک چاقو بنا کر اجمل خٹک کو تحفے میں دیا تھا کہیں کسی دعوت میں اجمل صاحب نے پھل کاٹنے کے لیے وہ چاقو نکالا تو افغان سفیر نے دیکھ لیا اور ضد پکڑ لی کہ یہ چاقو مجھے دے دیجیے، اجمل صاحب نے چاقو سفیر کو دے دیا، پھر کابل میں کسی دعوت کے دوران وہ چاقو بادشاہ ظاہر شاہ نے دیکھ لیا تو سفیر سے وہ چاقو لے لیا اور یہ بھی پوچھ لیا کہ یہ چاقو کس نے بنایا ہے اس نے میرا نام لے دیا تو ظاہر شاہ اتنے خوش ہوئے کہ میرے لیے ایک اعلیٰ درجے کی قراقلی اور ساتھ بہت سارے میوہ جات بجھوائے اور مجھے کابل آ کر ملنے کی خواہش بھی ظاہر کی، ملاقات کے لیے تو میں نہیں جا سکا لیکن وہ قراقلی اب بھی صندوق میں رکھی ہوئی ہے۔
یہ کہانی سن کر ہم نے بھی خواہش ظاہر کی کہ ایسا چاقو اگر ایک ہمارے لیے بھی بنا دو تو بولا بسر و چشم آپ کے لیے نہیں بنائوں گا تو کس کے لیے بنائوں گا، لیکن ایک شرط ہے کہ وہ چاقو کسی اور کو نہیں دو گے، ہم نے بھی وعدہ کر لیا اور اس وعدے پر ہم آج تک قائم ہیں وہ چاقو کسی کو دینا تو کیا ہم نے کسی کو دکھایا بھی نہیں، کیونکہ چاقو بنا ہوتا تو دکھانے کی نوبت آتی۔
پورے آٹھ سال تک ہم اس کے پاس جاتے رہے اور آتے رہے پھر جاتے رہے اور آتے رہے ساتھ ہی کچھ نہ کچھ سبزی وغیرہ بھی لے جاتے رہے کہ شہروالوں سے ملنے کے لیے ہم دیہاتیوں کی یہی روایت ہے۔
ہر بار وہ کہتے کہ بس ذرا مجھے اپنے مطلب کا صحیح ''لوہار'' مل جانے دو چاقو تیار سمجھو۔ لیکن افسوس کہ آٹھ سال اسے مطلب کا لوہا تو نہیں ملا لیکن وہ خود مالک حقیقی سے جا ملے، شاید وہاں کا لوہا مل جائے اور آگ تو بہت ہو گی البتہ درمیان میں اس نے ایک اور پنترا یہ کھیلا کہ ایک دن تنگ آ کر ہم نے ذرا سختی سے پوچھا یہ کیسا لوہا ہے اور کیسا چاقو؟
کمال کا آدمی تھا ہماری شکایت کو ہم پر ہی الٹ دیا بلکہ ہماری شکایت کو مناسب لوہا سمجھ کر اور چاقو بنا کر ہمارے ہی پیٹ میں گھونپنا شروع کیا ۔ بولا اچھا تو تم اپنی ''غرض'' کے لیے آتے ہو، میں نے تو سمجھا تم مجھ سے ملنے آتے ہو، لیکن تم تو غرض کے بندے نکلے۔ اور اب اسی سے ملتا جلتا ایک تازہ ترین واقعہ: ایک اخبار میں ہم نے ایک حکیم صاحب کا کالم پڑھا جس میں ایک ایسے مرض کا علاج درج تھا جو ہمیں بھی کچھ کچھ لاحق ہے، نسخہ تو آسان تھا لیکن آخر میں لکھا تھا کہ دو ا کسی اچھے حکیم سے بنوائیں، بازار میں ملنے والے دواخانوں کی دوا سے بہتر ہے کہ استعمال ہی نہ کی جائے۔
اب کوئی ''اچھا حکیم'' تو ہمیں معلوم نہ تھا اور بازار میں مروجہ دوائیں رد کی گئی تھیں۔ چنانچہ فون کر کے حکیم صاحب سے دریافت کیا کہ ایسا کوئی اچھا حکیم اگر آپ جانتے ہو ں پشاور میں تو ہمیں بتائیں۔ بولے ہم کس لیے ہیں جناب بے فکر رہیں دوا آپ کو مل جائے گی۔ خوشی کے مارے ہم یہ بھی بھول گئے کہ وعدوں پر اعتبار کرنے کی سزائیں تو ہم بہت بھوگ چکے ہیں۔ ڈیڑھ دو سال ہو گئے، پہلے تو فون اٹھاتے نہیں غلطی سے اٹھاتے ہیں تو وہی اس لوہار کا سا۔ کہ اس میں ایک چیز پڑتی ہے جو سعودی عرب میں ملتی ہے۔ میں نے کئی آنے جانے والوں سے کہا ہے جیسے ہی وہ ''جزو'' مل گیا دوا تیار۔
پھر شاید وہ جزو مل گیا یا وہ اپنی بات بھول گئے تھے کہ بس جناب پیر منگل کو دوا مل جائے گی ''پیر'' بھی آتے منگل بھی آتے رہے اور جنگل میں گم ہوتے رہے۔ لیکن اس کے بعد اس نے ٹیلیفون اٹھانا ہی چھوڑ دیا۔ چوبیس گھنٹے کے مختلف اوقات اور گھنٹوں میں کوشش کی لیکن واں ایک خامشی ترے سب کے جواب ہیں۔ پھر اچانک اپنی ایک فاش بلکہ فحش غلطی کا احساس ہوا کہ شاید چاقو اور دوا کی داستان میں اصل رکاوٹ وہی بات ہو جس کا ذکر ہم نے نہیں کیا چنانچہ میسج بجھوا دیا کہ حضور اگر قیمت کی بات ہو تو بلا دھڑک پیک کر کے بجھوا دیں یا بتا دیں کہ میں ''ہدیہ شریف'' روانہ کر دوں۔
لیکن شاید اب وہ بات ''بنانے'' کی حد سے گزر چکی ہے۔ لیکن ایک فائدہ البتہ ہمیں ہوا کہ اب اگر کسی سے پانی بھی مانگیں تو پیسے پہلے دیں گے پھر کہیں گے ذرا ثواب کے لیے پانی تو پلا دو۔ وعدے، سچائی خلوص وغیرہ کے سکیّ اب کھوٹے ہو چکے ہیں سیدھا سیدھا معاملہ اس ہاتھ دے اور اس ہاتھ لے کا ہے۔ لیکن ایسے لوگوں سے بھی استدعا ہے کہ خدا کے لیے خلق خدا کو مصیبت میں مبتلا کرنے کے لیے ''اچھا'' بننے یا بڑ ہانکنے سے باز آ جائیے، تمہاری تو عادت ہے لیکن دوسروں کو کیوں غارت کرتے ہو، سیدھی سیدھی بات اور سیدھی سیدھی دکانداری کیجیے۔
عادتاً تم نے کر لیا وعدہ
عادتاً ہم نے اعتبار کیا
لیکن اس وقت ہم ان وعدوں کا ذکر نہیں کر رہے جو ''ستر'' سال سے عادتاً کیے جاتے رہے اور عادتاً لوگ ان پر اعتبار کرتے ہیں کہ پورے ستر سال کے وعدوں کا حساب کتاب کرنے کے لیے کم ازکم ''ستر منشیوں'' کی ضرورت پڑے گی، اس لیے ہم صرف اپنے ستر سالہ تجربے تک محدود رہیں گے۔
پتہ نہیں کیوں ہم نے بار ہا کوشش کی کہ اعتبار کرنے کی اس بری عادت کو ترک کر دیں لیکن کامیاب نہیں ہو پائے، بار ہا ارادہ کیا کہ کسی کے وعدے پر اعتبار نہیں کریں گے لیکن پھر ادھر کسی نے عادتاً وعدہ کر لیا اور ادھر ہم نے عادتاً اعتبار کر لیا۔
اس سلسلے میں ہمارے پاس بے شمار دلچسپ کہانیاں ہیں کیونکہ نہ تو ہم عادت چھو ڑ رہے ہیں اور نہ ہی لوگ جھوٹ بولنا چھوڑتے ہیں۔
سب سے پہلا واقعہ تو اسی وقت ہوا جب ہم اپنے ایک شاعر + لوہار کے دوست کے پاس چاقو تیز کرانے گئے، چاقو تیز کرتے ہوئے بولے ایک مرتبہ میں نے ایک چاقو بنا کر اجمل خٹک کو تحفے میں دیا تھا کہیں کسی دعوت میں اجمل صاحب نے پھل کاٹنے کے لیے وہ چاقو نکالا تو افغان سفیر نے دیکھ لیا اور ضد پکڑ لی کہ یہ چاقو مجھے دے دیجیے، اجمل صاحب نے چاقو سفیر کو دے دیا، پھر کابل میں کسی دعوت کے دوران وہ چاقو بادشاہ ظاہر شاہ نے دیکھ لیا تو سفیر سے وہ چاقو لے لیا اور یہ بھی پوچھ لیا کہ یہ چاقو کس نے بنایا ہے اس نے میرا نام لے دیا تو ظاہر شاہ اتنے خوش ہوئے کہ میرے لیے ایک اعلیٰ درجے کی قراقلی اور ساتھ بہت سارے میوہ جات بجھوائے اور مجھے کابل آ کر ملنے کی خواہش بھی ظاہر کی، ملاقات کے لیے تو میں نہیں جا سکا لیکن وہ قراقلی اب بھی صندوق میں رکھی ہوئی ہے۔
یہ کہانی سن کر ہم نے بھی خواہش ظاہر کی کہ ایسا چاقو اگر ایک ہمارے لیے بھی بنا دو تو بولا بسر و چشم آپ کے لیے نہیں بنائوں گا تو کس کے لیے بنائوں گا، لیکن ایک شرط ہے کہ وہ چاقو کسی اور کو نہیں دو گے، ہم نے بھی وعدہ کر لیا اور اس وعدے پر ہم آج تک قائم ہیں وہ چاقو کسی کو دینا تو کیا ہم نے کسی کو دکھایا بھی نہیں، کیونکہ چاقو بنا ہوتا تو دکھانے کی نوبت آتی۔
پورے آٹھ سال تک ہم اس کے پاس جاتے رہے اور آتے رہے پھر جاتے رہے اور آتے رہے ساتھ ہی کچھ نہ کچھ سبزی وغیرہ بھی لے جاتے رہے کہ شہروالوں سے ملنے کے لیے ہم دیہاتیوں کی یہی روایت ہے۔
ہر بار وہ کہتے کہ بس ذرا مجھے اپنے مطلب کا صحیح ''لوہار'' مل جانے دو چاقو تیار سمجھو۔ لیکن افسوس کہ آٹھ سال اسے مطلب کا لوہا تو نہیں ملا لیکن وہ خود مالک حقیقی سے جا ملے، شاید وہاں کا لوہا مل جائے اور آگ تو بہت ہو گی البتہ درمیان میں اس نے ایک اور پنترا یہ کھیلا کہ ایک دن تنگ آ کر ہم نے ذرا سختی سے پوچھا یہ کیسا لوہا ہے اور کیسا چاقو؟
کمال کا آدمی تھا ہماری شکایت کو ہم پر ہی الٹ دیا بلکہ ہماری شکایت کو مناسب لوہا سمجھ کر اور چاقو بنا کر ہمارے ہی پیٹ میں گھونپنا شروع کیا ۔ بولا اچھا تو تم اپنی ''غرض'' کے لیے آتے ہو، میں نے تو سمجھا تم مجھ سے ملنے آتے ہو، لیکن تم تو غرض کے بندے نکلے۔ اور اب اسی سے ملتا جلتا ایک تازہ ترین واقعہ: ایک اخبار میں ہم نے ایک حکیم صاحب کا کالم پڑھا جس میں ایک ایسے مرض کا علاج درج تھا جو ہمیں بھی کچھ کچھ لاحق ہے، نسخہ تو آسان تھا لیکن آخر میں لکھا تھا کہ دو ا کسی اچھے حکیم سے بنوائیں، بازار میں ملنے والے دواخانوں کی دوا سے بہتر ہے کہ استعمال ہی نہ کی جائے۔
اب کوئی ''اچھا حکیم'' تو ہمیں معلوم نہ تھا اور بازار میں مروجہ دوائیں رد کی گئی تھیں۔ چنانچہ فون کر کے حکیم صاحب سے دریافت کیا کہ ایسا کوئی اچھا حکیم اگر آپ جانتے ہو ں پشاور میں تو ہمیں بتائیں۔ بولے ہم کس لیے ہیں جناب بے فکر رہیں دوا آپ کو مل جائے گی۔ خوشی کے مارے ہم یہ بھی بھول گئے کہ وعدوں پر اعتبار کرنے کی سزائیں تو ہم بہت بھوگ چکے ہیں۔ ڈیڑھ دو سال ہو گئے، پہلے تو فون اٹھاتے نہیں غلطی سے اٹھاتے ہیں تو وہی اس لوہار کا سا۔ کہ اس میں ایک چیز پڑتی ہے جو سعودی عرب میں ملتی ہے۔ میں نے کئی آنے جانے والوں سے کہا ہے جیسے ہی وہ ''جزو'' مل گیا دوا تیار۔
پھر شاید وہ جزو مل گیا یا وہ اپنی بات بھول گئے تھے کہ بس جناب پیر منگل کو دوا مل جائے گی ''پیر'' بھی آتے منگل بھی آتے رہے اور جنگل میں گم ہوتے رہے۔ لیکن اس کے بعد اس نے ٹیلیفون اٹھانا ہی چھوڑ دیا۔ چوبیس گھنٹے کے مختلف اوقات اور گھنٹوں میں کوشش کی لیکن واں ایک خامشی ترے سب کے جواب ہیں۔ پھر اچانک اپنی ایک فاش بلکہ فحش غلطی کا احساس ہوا کہ شاید چاقو اور دوا کی داستان میں اصل رکاوٹ وہی بات ہو جس کا ذکر ہم نے نہیں کیا چنانچہ میسج بجھوا دیا کہ حضور اگر قیمت کی بات ہو تو بلا دھڑک پیک کر کے بجھوا دیں یا بتا دیں کہ میں ''ہدیہ شریف'' روانہ کر دوں۔
لیکن شاید اب وہ بات ''بنانے'' کی حد سے گزر چکی ہے۔ لیکن ایک فائدہ البتہ ہمیں ہوا کہ اب اگر کسی سے پانی بھی مانگیں تو پیسے پہلے دیں گے پھر کہیں گے ذرا ثواب کے لیے پانی تو پلا دو۔ وعدے، سچائی خلوص وغیرہ کے سکیّ اب کھوٹے ہو چکے ہیں سیدھا سیدھا معاملہ اس ہاتھ دے اور اس ہاتھ لے کا ہے۔ لیکن ایسے لوگوں سے بھی استدعا ہے کہ خدا کے لیے خلق خدا کو مصیبت میں مبتلا کرنے کے لیے ''اچھا'' بننے یا بڑ ہانکنے سے باز آ جائیے، تمہاری تو عادت ہے لیکن دوسروں کو کیوں غارت کرتے ہو، سیدھی سیدھی بات اور سیدھی سیدھی دکانداری کیجیے۔