ہر گز نہ چھوڑا جائے
بیسیوں سال کرپشن کر کے یک دم سا دھو کی زندگی گزارنے کا اعلان کر سکتے ہیں۔
پاکستان جمہوریت کے راستے پر آہستہ آہستہ اور قابل قدر ترقی کر رہا ہے مگر وہ منزل ابھی بہت دور ہے جہاں ریاست کی کمزوریوں کی گردن ناپنے کے بجائے بڑے مگر مچھوں کے منہ میں ہاتھ ڈال کر ہڑپ کی ہوئی قومی دولت نکالنے کی ہمت کر پائے۔
یہ میاں نواز شریف کی دوسری حکومت کا قصہ ہے۔ اقوام متحدہ کے اہم اجلاس میں شرکت کرنے سے پہلے میاں صاحب کا ایک انٹرویو کرنے کا موقع ملا۔ ٹائم میگزین کے بیورو چیف ٹم مگرک بھی میرے ساتھ تھے۔ میاں صاحب ان دنوںٹیلی فون پر عوام کی شکایات سنا کرتے تھے۔ طریقہ کار یہ تھا کہ وہ روزانہ گھنٹہ سوا گھنٹہ ٹیلی فون پر لوگوں کی شکایات سنتے اور پھران پر فوری احکامات جاری کرتے۔ جب ہماری ٹیم وہاں پر پہنچی تو وزیرِ اعظم مہمانوں کے میٹنگ روم کے ساتھ والے کمرے میں تمام تر سنجیدگی کے ساتھ ٹیلی فون پرعوام کے افسوس ناک حالات براہ راست جان رہے تھے۔ انٹرویو شروع ہونے سے پہلے آخری کال کسی ایسی خاتون کی تھی جس کی بچی کے ساتھ زیادتی ہوئی تھی اور ملزمان طاقتور تھے اور قانون کے لمبے ہاتھوں سے ہی قانون کے منہ پر طمانچے رسید کر رہے تھے۔ وزیراعظم صاحب کا غصے میں تھے۔ انھوں نے متعلقہ افسران کو جو آخری ہدایت دی وہ مجھے ابھی بھی یاد ہے۔ انھوں نے ملزمان کی جلد از جلد گرفتار ی کی نصیحت کرنے کے بعد کہا ''میری طرف سے یہ حکم واضح ہے تن دیو۔'' یعنی ملزموں کو کسی صورت نہ چھوڑا جائے۔
2013ء میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی بجٹ تقریر اور بعد ازاں انٹرویو سننے کے بعد مجھے میاں صاحب کے یہ الفاظ یاد آ رہے ہیں۔ انھوں نے ایک گھناؤنے جرم میں ملوث ملزمان کو قرار واقعی سزا دینے کے لیے جو جملہ1999ء میں کہا تھا' جناب وزیر خزانہ نے اس کو تقریبا چودہ سال بعد ملک کے تنخواہ دار طبقے پر لاگو کر دیا ہے۔ اس طبقے کا جرم صرف اتنا ہے کہ یہ نوکری پیشہ ہے اور اس کی محنت کی کمائی اس کے گھر تک پہنچنے سے پہلے ریاست کے خزانے میں اپنا حصہ ڈال دیتی ہے۔ اگرچہ یہ طبقہ محدود ہے لیکن پچھلی حکومتوں کی طرح اس مرتبہ بھی اس کو تُن دینے (کسی صورت نہ چھوڑنے )کی پالیسی کو مزید مضبوط کیا گیا ہے۔
تعلیم یافتہ، با صلاحیت اور اپنے شعبے میں ماہر نمایندگان جو کسی بھی ادارے کو چلانے اور اس کو منافع بخش بنانے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں اس بجٹ کا بالخصوص نشانہ بنے ہیں۔ ان میں سے بعض اپنی تنخواہ کا بیس فی صد ٹیکسوں میں کٹواتے تھے، اب عملاََ 30 سے 32 فی صد حکومت ان سے وصول کرے گی۔ کسی نے یہ وضاحت کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ یہ تیس فیصد اٹھائیس فی صد کیوں نہیں ہے؟ یا اڑتالیس فی صد کیوں نہیں کر دیا گیا؟ یعنی اگر ریاست نے حلال کمانے والوں پر جھپٹنا ہی ہے تو پھر ان کے پاس باقی تنخواہ بھی کیوں چھوڑی جائے؟ اگر وہ اس بس میں سوار ہے جہاں پر غلطی سے انھوں نیشنل ٹیکس نمبر کا ٹکٹ حاصل کر لیا ہے، تو پھر ان کو مکمل طور پر لوٹنے کا بندوبست کرنے میں کوئی حرج نہیں ہونا چاہیے۔
وزیر خزانہ کی پریس کانفرنس اور انٹرویوز سے یہ اندازہ ہوا کہ ان کے خیال میں یہ چند ہزار یا شاید اس سے کچھ لگ بھگ لوگ ہی اس ملک میں مراعات یافتہ طبقہ ہیں۔ لہذا بد عنوانی اور لوٹ کھسوٹ سے زخم خوردہ معیشت جس کو 1988ء سے تین مرتبہ پیپلز پارٹی (ن لیگ کے جمہوری اتحادی) اور اب تیسری مرتبہ ن لیگ خود چلا رہی ہے، صرف اس طبقے سے مزید ٹیکس وصول کرنے سے درست ہو سکتی ہے۔ اسحاق ڈار کی معاشی ٹیم کے کسی دانش مند نے ان کو اس امر پر توجہ دینے کی زحمت گوارا کرنے کو نہیں کہا کہ دنیا کے کسی ملک میں تنخواہ دار طبقے کو مراعات یافتہ نہیں گردانا جاتا۔ بالخصوص نجی شعبے میں کام کرنے والے۔ نہ ہی کسی نے انھیں یہ باور کرایا کہ ٹیکس لاگو کرنے والی حکومت اور ریاست ٹیکس لینے کے عوض شہریوں کو سہولتیں بھی فراہم کرتی ہے۔
دنیا میں بہت سے ترقی یافتہ ممالک ایسے ہیں جہاں پر آدھی آمدن ٹیکسوں کی مد میں چلی جاتی ہے مگر پھر ان ممالک میں ایمرجنسی کی صورت میں ایمبولینس دو منٹ میں، پولیس ڈیڑھ منٹ میں، آگ بجھانے والے پانچ منٹ میں اور ریٹائرمنٹ کے بعد تا حیات دیکھ بھال کا انتظام موجود ہوتا ہے۔ وزیرخزانہ نے جس طبقے کو سوشل میڈیا میں اپنی آواز بلند کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور اس بہادرانہ عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ تیس فی صد آمدن ٹیکس واپس نہیں لیں گے، وہ طبقہ جو اپنے بچوں کی تعلیم کا بندوبست خود کرتا ہے۔ صحت کی سہولیات کے پیسے جیب سے دیتا ہے، مصیبت میں پھنس جانے پر وکیل کی فیس خود ادا کرتا ہے، گھر کے سامنے کھڑا چوکیدار اس کا ہے۔ بجلی، پانی اور تمام نظام مواصلات اور نقل و حرکت کا انتظام اس کے ذمے ہے۔
اس کے علاوہ فطرانہ، زکوۃ اور ملک پر مصیبت پڑنے کی صورت میں چندہ۔ سب کچھ اس تنخواہ میں سے کرتا ہے جو وزیر خزانہ کو مراعات محسوس ہوتی ہیں۔ اگر وہ کسی دن اپنے مصروف وقت میں سے چند گھنٹے ہمیں عنایت کریں تو ہم ان کو آفس کی طرف سے دی گئی گاڑی میں مراعات یافتہ طبقے کے گھروں کا سفر کرا سکتے ہیں۔ جن میں جائیداد کی خرید و فروخت کرنے والے بڑے بڑے سیٹھ، درجنوں پلازوں کے مالکان، اسٹاک ایکسچینج میں اربوں کمانے والے اور وہ کاروباری طبقہ جو ناشتہ لاہور میں، لنچ دبئی میں اور ڈنر پیرس میں کرتا ہے۔ ( میں نے لندن کا حوالہ نکال دیا کہ کہیں اسحاق ڈار صاحب اس کو میاں نواز شریف پر ذاتی حملہ نہ سمجھیں)۔
مگر پھر اسحاق ڈار کو یہ سفر کرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ سڑکیں، یہ گھر، یہ کاروبار اور ان کے مالکان ان کے جانے پہچانے ہیں۔ ان میں سے بہت سوں کے ساتھ ان کا اٹھنا بیٹھنا ہے۔ اس لابی کی گردن پر وہ ہاتھ کیوں ڈالیں گے، وہ تو بہت موٹی ہیں۔ اس لابی کے پیٹ پر پتھر نہیں باندھا جا سکتا۔ اس پیٹ کا پھیلاؤ بہت ہے۔ اس لابی پر اظہار برہمی بھی نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ اس کا غضب نا قابل برداشت ہے۔ لہذا جو پرندہ جال میں پھنسا ہوا ہے، اسی پر کس کے ایک اور نشانہ لگانے میں عافیت سمجھی گئی ہے۔ محترم وزیر خزانہ کی بہادری کو سات سلام۔ ان کے ویژن کے لیے ایک ہزار واہ واہ۔
مگر کیا وہ اس سے ملک کی معیشت کو سنبھال لیں گے؟ کیا اس ملک میں رشوت خوروں، ٹیکس چوروں اور جانے پہچانے بدعنوانوں کو پکڑے بغیر وہ نیا پاکستان بنا پائیں گے؟ تاریخ گواہ ہے کہ وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ ٹیکسوں کو غیر مساویانہ، غیر جمہوری اور بے اصولی کی بنیاد پر لگانے سے ان کو کامیابی کا رستہ نہیں ملے گا۔
مگر پھر قصور ان کا بھی نہیں ہے۔ اس نظام میں جو طاقت ور ہے، وہ طاقت ور ہے اور جو کمزور ہے وہ کمزور۔ اگر آپ محمود خان اچکزئی ہیں تو آپ دو قومی نشستوں پر جیتنے کے ساتھ ساتھ اپنے ایک بھائی محمد خان حمید زئی کو گورنر بنوا سکتے ہیں، اپنے دوسرے بھائی حامد حمید زئی کو ایم این اے، بہنوئی مجید حمید زئی کو ایم پی اے اور دو رشتہ دار خواتین نسیمہ حمید زئی اور سپوزمئی حمید زئی کو ایم پی اے کا درجہ دلوا سکتے ہیں۔
اس طرح اگر آپ کا رشتہ کسی بڑے سیاسی گھرانے سے جڑا ہوا ہے تو آپ جی بھر کے ریاست کے وسائل سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ سینیٹر یا قومی اسمبلی کے ممبر بن سکتے ہیں یا جی بھر کر مال کما سکتے ہیں، مال کما کر باہر لے جا سکتے ہیں۔ اپنے اثاثوں میں حیران کن اضافہ کر سکتے ہیں، بیسیوں سال کرپشن کر کے یک دم سا دھو کی زندگی گزارنے کا اعلان کر سکتے ہیں۔ سب کچھ کرنے کے باوجود بجٹ میں ٹیکس دینے کی ذمے داری سے بھی بچ سکتے ہیں۔
پاکستان جمہوریت کے راستے پر آہستہ آہستہ اور قابل قدر ترقی کر رہا ہے مگر وہ منزل ابھی بہت دور ہے جہاں ریاست کی کمزوریوں کی گردن ناپنے کے بجائے بڑے مگر مچھوں کے منہ میں ہاتھ ڈال کر ہڑپ کی ہوئی قومی دولت نکالنے کی ہمت کر پائے۔ نہ ہی یہ توقع کی جانی چاہیے کہ اس نظام میں مساویانہ ذمے داری اور شہریوں کے حقوق کا ایسا تصور جنم پا چکا ہے جس کو کوئی حکومت نظر انداز نہیں کر سکتی۔ طاقت میں موجود طبقے ابھی بھی غصب کرنے کو اپنا وصف سمجھتے ہیں۔ یہ شہری پر حاوی ہونے کو اور طاقتوروں کی غلامی کو اپنی عظمت گردانتے ہیں۔ اسحاق ڈار اسی نظام کا حصہ ہیں، ہم ان سے اس سے کچھ مختلف توقع نہیں کرتے۔ ان سے درخواست ہے کہ اگلے بجٹ میں اس طبقے کو بھی مزید تُن کے رکھیں۔
یہ میاں نواز شریف کی دوسری حکومت کا قصہ ہے۔ اقوام متحدہ کے اہم اجلاس میں شرکت کرنے سے پہلے میاں صاحب کا ایک انٹرویو کرنے کا موقع ملا۔ ٹائم میگزین کے بیورو چیف ٹم مگرک بھی میرے ساتھ تھے۔ میاں صاحب ان دنوںٹیلی فون پر عوام کی شکایات سنا کرتے تھے۔ طریقہ کار یہ تھا کہ وہ روزانہ گھنٹہ سوا گھنٹہ ٹیلی فون پر لوگوں کی شکایات سنتے اور پھران پر فوری احکامات جاری کرتے۔ جب ہماری ٹیم وہاں پر پہنچی تو وزیرِ اعظم مہمانوں کے میٹنگ روم کے ساتھ والے کمرے میں تمام تر سنجیدگی کے ساتھ ٹیلی فون پرعوام کے افسوس ناک حالات براہ راست جان رہے تھے۔ انٹرویو شروع ہونے سے پہلے آخری کال کسی ایسی خاتون کی تھی جس کی بچی کے ساتھ زیادتی ہوئی تھی اور ملزمان طاقتور تھے اور قانون کے لمبے ہاتھوں سے ہی قانون کے منہ پر طمانچے رسید کر رہے تھے۔ وزیراعظم صاحب کا غصے میں تھے۔ انھوں نے متعلقہ افسران کو جو آخری ہدایت دی وہ مجھے ابھی بھی یاد ہے۔ انھوں نے ملزمان کی جلد از جلد گرفتار ی کی نصیحت کرنے کے بعد کہا ''میری طرف سے یہ حکم واضح ہے تن دیو۔'' یعنی ملزموں کو کسی صورت نہ چھوڑا جائے۔
2013ء میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی بجٹ تقریر اور بعد ازاں انٹرویو سننے کے بعد مجھے میاں صاحب کے یہ الفاظ یاد آ رہے ہیں۔ انھوں نے ایک گھناؤنے جرم میں ملوث ملزمان کو قرار واقعی سزا دینے کے لیے جو جملہ1999ء میں کہا تھا' جناب وزیر خزانہ نے اس کو تقریبا چودہ سال بعد ملک کے تنخواہ دار طبقے پر لاگو کر دیا ہے۔ اس طبقے کا جرم صرف اتنا ہے کہ یہ نوکری پیشہ ہے اور اس کی محنت کی کمائی اس کے گھر تک پہنچنے سے پہلے ریاست کے خزانے میں اپنا حصہ ڈال دیتی ہے۔ اگرچہ یہ طبقہ محدود ہے لیکن پچھلی حکومتوں کی طرح اس مرتبہ بھی اس کو تُن دینے (کسی صورت نہ چھوڑنے )کی پالیسی کو مزید مضبوط کیا گیا ہے۔
تعلیم یافتہ، با صلاحیت اور اپنے شعبے میں ماہر نمایندگان جو کسی بھی ادارے کو چلانے اور اس کو منافع بخش بنانے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں اس بجٹ کا بالخصوص نشانہ بنے ہیں۔ ان میں سے بعض اپنی تنخواہ کا بیس فی صد ٹیکسوں میں کٹواتے تھے، اب عملاََ 30 سے 32 فی صد حکومت ان سے وصول کرے گی۔ کسی نے یہ وضاحت کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ یہ تیس فیصد اٹھائیس فی صد کیوں نہیں ہے؟ یا اڑتالیس فی صد کیوں نہیں کر دیا گیا؟ یعنی اگر ریاست نے حلال کمانے والوں پر جھپٹنا ہی ہے تو پھر ان کے پاس باقی تنخواہ بھی کیوں چھوڑی جائے؟ اگر وہ اس بس میں سوار ہے جہاں پر غلطی سے انھوں نیشنل ٹیکس نمبر کا ٹکٹ حاصل کر لیا ہے، تو پھر ان کو مکمل طور پر لوٹنے کا بندوبست کرنے میں کوئی حرج نہیں ہونا چاہیے۔
وزیر خزانہ کی پریس کانفرنس اور انٹرویوز سے یہ اندازہ ہوا کہ ان کے خیال میں یہ چند ہزار یا شاید اس سے کچھ لگ بھگ لوگ ہی اس ملک میں مراعات یافتہ طبقہ ہیں۔ لہذا بد عنوانی اور لوٹ کھسوٹ سے زخم خوردہ معیشت جس کو 1988ء سے تین مرتبہ پیپلز پارٹی (ن لیگ کے جمہوری اتحادی) اور اب تیسری مرتبہ ن لیگ خود چلا رہی ہے، صرف اس طبقے سے مزید ٹیکس وصول کرنے سے درست ہو سکتی ہے۔ اسحاق ڈار کی معاشی ٹیم کے کسی دانش مند نے ان کو اس امر پر توجہ دینے کی زحمت گوارا کرنے کو نہیں کہا کہ دنیا کے کسی ملک میں تنخواہ دار طبقے کو مراعات یافتہ نہیں گردانا جاتا۔ بالخصوص نجی شعبے میں کام کرنے والے۔ نہ ہی کسی نے انھیں یہ باور کرایا کہ ٹیکس لاگو کرنے والی حکومت اور ریاست ٹیکس لینے کے عوض شہریوں کو سہولتیں بھی فراہم کرتی ہے۔
دنیا میں بہت سے ترقی یافتہ ممالک ایسے ہیں جہاں پر آدھی آمدن ٹیکسوں کی مد میں چلی جاتی ہے مگر پھر ان ممالک میں ایمرجنسی کی صورت میں ایمبولینس دو منٹ میں، پولیس ڈیڑھ منٹ میں، آگ بجھانے والے پانچ منٹ میں اور ریٹائرمنٹ کے بعد تا حیات دیکھ بھال کا انتظام موجود ہوتا ہے۔ وزیرخزانہ نے جس طبقے کو سوشل میڈیا میں اپنی آواز بلند کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور اس بہادرانہ عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ تیس فی صد آمدن ٹیکس واپس نہیں لیں گے، وہ طبقہ جو اپنے بچوں کی تعلیم کا بندوبست خود کرتا ہے۔ صحت کی سہولیات کے پیسے جیب سے دیتا ہے، مصیبت میں پھنس جانے پر وکیل کی فیس خود ادا کرتا ہے، گھر کے سامنے کھڑا چوکیدار اس کا ہے۔ بجلی، پانی اور تمام نظام مواصلات اور نقل و حرکت کا انتظام اس کے ذمے ہے۔
اس کے علاوہ فطرانہ، زکوۃ اور ملک پر مصیبت پڑنے کی صورت میں چندہ۔ سب کچھ اس تنخواہ میں سے کرتا ہے جو وزیر خزانہ کو مراعات محسوس ہوتی ہیں۔ اگر وہ کسی دن اپنے مصروف وقت میں سے چند گھنٹے ہمیں عنایت کریں تو ہم ان کو آفس کی طرف سے دی گئی گاڑی میں مراعات یافتہ طبقے کے گھروں کا سفر کرا سکتے ہیں۔ جن میں جائیداد کی خرید و فروخت کرنے والے بڑے بڑے سیٹھ، درجنوں پلازوں کے مالکان، اسٹاک ایکسچینج میں اربوں کمانے والے اور وہ کاروباری طبقہ جو ناشتہ لاہور میں، لنچ دبئی میں اور ڈنر پیرس میں کرتا ہے۔ ( میں نے لندن کا حوالہ نکال دیا کہ کہیں اسحاق ڈار صاحب اس کو میاں نواز شریف پر ذاتی حملہ نہ سمجھیں)۔
مگر پھر اسحاق ڈار کو یہ سفر کرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ سڑکیں، یہ گھر، یہ کاروبار اور ان کے مالکان ان کے جانے پہچانے ہیں۔ ان میں سے بہت سوں کے ساتھ ان کا اٹھنا بیٹھنا ہے۔ اس لابی کی گردن پر وہ ہاتھ کیوں ڈالیں گے، وہ تو بہت موٹی ہیں۔ اس لابی کے پیٹ پر پتھر نہیں باندھا جا سکتا۔ اس پیٹ کا پھیلاؤ بہت ہے۔ اس لابی پر اظہار برہمی بھی نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ اس کا غضب نا قابل برداشت ہے۔ لہذا جو پرندہ جال میں پھنسا ہوا ہے، اسی پر کس کے ایک اور نشانہ لگانے میں عافیت سمجھی گئی ہے۔ محترم وزیر خزانہ کی بہادری کو سات سلام۔ ان کے ویژن کے لیے ایک ہزار واہ واہ۔
مگر کیا وہ اس سے ملک کی معیشت کو سنبھال لیں گے؟ کیا اس ملک میں رشوت خوروں، ٹیکس چوروں اور جانے پہچانے بدعنوانوں کو پکڑے بغیر وہ نیا پاکستان بنا پائیں گے؟ تاریخ گواہ ہے کہ وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ ٹیکسوں کو غیر مساویانہ، غیر جمہوری اور بے اصولی کی بنیاد پر لگانے سے ان کو کامیابی کا رستہ نہیں ملے گا۔
مگر پھر قصور ان کا بھی نہیں ہے۔ اس نظام میں جو طاقت ور ہے، وہ طاقت ور ہے اور جو کمزور ہے وہ کمزور۔ اگر آپ محمود خان اچکزئی ہیں تو آپ دو قومی نشستوں پر جیتنے کے ساتھ ساتھ اپنے ایک بھائی محمد خان حمید زئی کو گورنر بنوا سکتے ہیں، اپنے دوسرے بھائی حامد حمید زئی کو ایم این اے، بہنوئی مجید حمید زئی کو ایم پی اے اور دو رشتہ دار خواتین نسیمہ حمید زئی اور سپوزمئی حمید زئی کو ایم پی اے کا درجہ دلوا سکتے ہیں۔
اس طرح اگر آپ کا رشتہ کسی بڑے سیاسی گھرانے سے جڑا ہوا ہے تو آپ جی بھر کے ریاست کے وسائل سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ سینیٹر یا قومی اسمبلی کے ممبر بن سکتے ہیں یا جی بھر کر مال کما سکتے ہیں، مال کما کر باہر لے جا سکتے ہیں۔ اپنے اثاثوں میں حیران کن اضافہ کر سکتے ہیں، بیسیوں سال کرپشن کر کے یک دم سا دھو کی زندگی گزارنے کا اعلان کر سکتے ہیں۔ سب کچھ کرنے کے باوجود بجٹ میں ٹیکس دینے کی ذمے داری سے بھی بچ سکتے ہیں۔
پاکستان جمہوریت کے راستے پر آہستہ آہستہ اور قابل قدر ترقی کر رہا ہے مگر وہ منزل ابھی بہت دور ہے جہاں ریاست کی کمزوریوں کی گردن ناپنے کے بجائے بڑے مگر مچھوں کے منہ میں ہاتھ ڈال کر ہڑپ کی ہوئی قومی دولت نکالنے کی ہمت کر پائے۔ نہ ہی یہ توقع کی جانی چاہیے کہ اس نظام میں مساویانہ ذمے داری اور شہریوں کے حقوق کا ایسا تصور جنم پا چکا ہے جس کو کوئی حکومت نظر انداز نہیں کر سکتی۔ طاقت میں موجود طبقے ابھی بھی غصب کرنے کو اپنا وصف سمجھتے ہیں۔ یہ شہری پر حاوی ہونے کو اور طاقتوروں کی غلامی کو اپنی عظمت گردانتے ہیں۔ اسحاق ڈار اسی نظام کا حصہ ہیں، ہم ان سے اس سے کچھ مختلف توقع نہیں کرتے۔ ان سے درخواست ہے کہ اگلے بجٹ میں اس طبقے کو بھی مزید تُن کے رکھیں۔