چائنا رے چائنا
چین کی اس بے مثال ترقی کا راز چینیوں کی انتھک محنت، حب الوطنی اور دیانت دارانہ قیادت میں مضمر ہے۔
پچھلے سال کسی کام سے ایک دن کے لیے لاہور جانا ہوا۔ ایک پرانے دوست سے ملنے کے لیے تھوڑا وقت نکالا اور پہنچ گئے موہنی روڈ۔ وہاں موصوف ایک چھوٹا سا الیکٹرک اسٹور چلاتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ ان کے پارٹنر کاروباری دورے پر چائنا گئے ہوئے ہیں۔
ہمیں حیرت ہوئی کہ ایک اسٹور کا سامان چائنا سے لایا جاتا ہے! اس نے یہ بتا کر ہماری حیرت میں اضافہ کردیا کہ دو تین مہینے میں ایسے چکر لگتے رہتے ہیں اور بہت سارے الیکٹرانک آئٹم وہاں سے بہت کم قیمت پر مل جاتے ہیں، جو پھیرے کے اخراجات نکال کر بھی بہت اچھا نفع دے جاتے ہیں اور اب ہم کئی دکانداروں کو ہول سیل میں بھی مال سپلائی کرتے ہیں۔ اگلے ایک سال میں ہمیں کراچی اور اندرونِ سندھ کے بھی کئی اوسط درجے کے کاروباری حضرات کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ لوگ باقاعدگی سے کاروباری دورے پر چین جارہے ہیں۔
یہ سن کر ہمیں نوے کی دہائی یاد آگئی، جب ہم سنتے تھے کہ فلاں شخص مہینے دو مہینے میں سنگاپور چکر لگاتا ہے اور وہاں سے گھڑیاں، الیکٹرک آئٹمز مثلاً کیمرے، ٹیپ ریکارڈر وغیرہ لاتا ہے،جو نہ صرف معیار میں اعلیٰ ہوتا تھا بلکہ مقامی مارکیٹ سے کافی کم قیمت پر بھی پڑتا تھا۔ اس وقت یہ پھیرے سنگاپور کے ساتھ بنکاک اور دبئی وغیرہ بھی جاتے تھے۔ان میں کچھ لوگ ''کھیپیے'' مشہور ہوئے۔
''یعنی اب اس فہرست میں چین کا اضافہ ہوگیا ہے۔'' ہم نے کہا تو وہ ہنس پڑا۔ ''اضافہ کیا مطلب اب تو پھیرے کی فہرست میں چائنا ہی چائنا ہے یا پھر دوسرے نمبر پر دبئی... سنگاپور، بنکاک وغیرہ تو اب پرانی بات ہوگئی۔''
شاید یہی وجہ ہے کہ آج انگریزی کے بعد پاکستان میں جس بیرونی زبان کے سیکھنے کا سب سے زیادہ رجحان نظر آرہا ہے، وہ چینی زبان ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہی نظر آتی ہے کہ پاکستان میں کئی چینی کمپنیاں سرمایہ کاری کر رہی ہیں، اور چینی زبان جاننے والے نوجوانوں کو چینی کمپنی میں ملازمت ملنے کا زیادہ چانس ہوتا ہے، اس کے علاوہ چونکہ چائنا کے مال کے لیے بھی اب مقامی پھیرے اور دکاندار بھی براہ راست چائنا کا رخ کررہے ہیں، اس لیے کاروبار بھی ایک وجہ بن گیا ہے چینی زبان سیکھنے کا، کیوں کہ چینی دنیا بھر میں رابطے کی بین الاقوامی زبان انگریزی میں عموماً بہت کمزور ہوتے ہیں اور جو کچھ انگریزی جانتے بھی ہیں تو وہ بھی حتی الامکان اپنی زبان کو ہی اولیت دیتے ہیں۔ یوں چینیوں کے اس قابل فخر عمل کی وجہ سے جو لوگ ان سے کاروبار کرنا چاہتے ہیں، اس پر مجبور ہیں کہ بہرطور چینی زبان کی سدھ بدھ حاصل کریں۔
چینی زبان سیکھنے کے رجحان میں اضافے کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جارہی ہے کہ اب اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے ہمارے نوجوانوں کی فہرست میں یورپ اور امریکا کے ساتھ چین بھی موجود ہے جہاں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا یورپ و امریکا کے مقابلے میں کہیں سستا بھی پڑتا ہے اور تعلیم کا معیار بھی کسی طرح یورپ کی یونیورسٹیوں سے کم نہیں۔ شاید یہی وجوہات ہیں کہ صرف پرائیوٹ سیکٹر میں ہی نہیں بلکہ چینی زبان کی اہمیت کا اعتراف پچھلے چند سال میں سرکاری سطح پر بھی ہوا ہے، جس کی مثال 2011 میں سندھ حکومت کا،2013 سے تمام اسکولوں میں درجہ ششم سے چینی زبان کی تعلیم لازمی کرنے کا فیصلہ تھا۔
یہ الگ بات ہے کہ ہمارے نظام تعلیم کا جو انفرااسٹرکچر اور معیار ہے اور چینی زبان جیسی دنیا کی سب سے مشکل زبان کے اسکول لیول میں سیکھنے کے لیے جو تیاری اور پلاننگ ضروری ہے، اس کی عدم موجودگی کے باعث ہمارے خیال میں یہ فیصلہ عملی صورت اختیار نہیں کرسکتا اور اگر اس پر عمل کر بھی لیا جائے تو سوائے وقت کی بربادی اور سرمائے کے زیاں کے کچھ حاصل نہیں ہوسکتا۔ خیر یہ الگ بحث ہے، بات ہورہی تھی چین کے دنیا کے ہر میدان میں دمادم کامیابیاں حاصل کرنے کی، جس کی وجہ سے وہ نگاہیں جو اعلیٰ تعلیم کے حصول یا محفوظ سرمایہ کاری کے لیے پہلے یورپ اور امریکا کی طرف اٹھتی تھیں اب چین کی طرف متوجہ ہیں۔
اس وقت کا سچ تو یہ ہے کہ چین جو مشرقی ایشیا میں واقع دنیا کی نہایت قدیم تہذیبوں میں سے ایک ہے، ہر طرف چھا رہا ہے۔ وہ عالمی کساد بازاری میں سرمایہ داروں کے لیے امید کی نئی کرن ہے۔ اس نے اپنی تجارتی پالیسیوں اور آسان ویزا شرائط سے یہ باور کرادیا ہے کہ اس وقت جو چین سے کاروبار کرے، وہ فائدے میںہے۔
چین، جس نے ہمیشہ دنیا کی ترقی میں اپنا بھرپور حصہ ڈالا (صرف چار بڑی ایجادات یعنی کاغذ، قطب نما، بارود اور چھاپہ خانہ کو دیکھ لیجیے، اور فیصلہ کرلیجیے کہ ان ایجادات کا انسان کی ترقی میں کتنا بڑا حصہ ہے) آج بھی دنیا میں سب سے زیادہ تیزی سے ترقی کرنے والا ملک ہے۔ معیشت سے لے کر دفاع تک صنعت سے لے کر کمپیوٹر ٹیکنالوجی تک، خلابازی سے لے کر سماجی سائنسی زرعی شعبوں تک انقلاب آفریں ترقی کی بدولت روئے زمین پر ہر جگہ چین کا ڈنکا بج رہا ہے۔ ماہرین چین کی اس برق رفتار ترقی پر انگشت بدنداں ہیں اور یہ پیش گوئیاں کررہے ہیں کہ مستقبل کا سپر پاور مغرب سے نہیں بلکہ مشرق سے ہوگا جو کوئی اور نہیں صرف چین ہے۔
ہمارے خیال میں چین کی اس بے مثال ترقی کا راز چینیوں کی انتھک محنت، حب الوطنی اور دیانت دارانہ قیادت میں مضمر ہے۔ چینی دنیا بھر میں اپنی انتھک محنت کے لیے مشہور ہیں۔ وہ کسی بھی کام کا بیڑا اٹھاتے ہیں تو شفٹوں میں کام کو اس طرح سے جاری رکھتے ہیں کہ ایک منٹ کے لیے بھی کام میں رخنہ نہیں پڑتا۔ گزشتہ سال سوشل میڈیا پر چین کے حوالے سے ایک ویڈیو بہت پاپولر ہوئی، جس میں دکھایا گیا تھا کہ بیجنگ سے باہر کسی شہر میں چینیوں نے ایک پندرہ منزلہ ہوٹل کی ساری عمارت صرف چھ دن میں تعمیر کردی۔ اسی طرح 2008 میں چین میں منعقد ہونے والے اولمپک میں بھی چینیوں نے اپنی اس مستعدی اور کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا، جب انھوں نے صرف تین ماہ میں اولمپک اسٹیڈیم تیار کر لیا تھا۔ چین کی یہ معرکۃ الآرا کارکردگی انٹرنیشنل میڈیا پر کئی روز چھائی رہی۔
چین کی دنیا بھر کی مارکیٹوں میں گرفت کا اندازہ اس سے کیجیے کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کی مارکیٹ پر ہی چائنا چھایا ہوا نہیں ہے، جہاں آپ کو کراچی اور لاہور جیسے بڑے شہروں کی مارکیٹوں میں پھیری والوں کی ''چائنا ہے چائنا'' کی صدائیں سنائی دیتی ہیں، بلکہ یورپ اور امریکا (جو ہر میدان میں چین کا سب سے بڑا حریف سمجھا جاتا ہے) میں بھی آپ کو 70 فیصد اشیا چین کی نظر آئیں گی، جو مزے کی بات یہ ہے کہ ان ترقی یافتہ ممالک کے معیار کی بھی ہوتی ہیں، ورنہ ہمارے ہاں عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ چائنا ہے تو معیار دو نمبر ہو گا، جب ہی اتنا سستا ہے، لیکن ہر جگہ ایسا نہیں ہے کیوں کہ چائنا ہر ملک کی ڈیمانڈ اور ریٹ کے مطابق اسی معیارکا مال بناکر دیتا ہے۔
قصہ مختصر آپ نے بچپن میں وہ مشہور کہانی پڑھی ہوگی جس میں بتایا گیا تھا کہ زمین کے نیچے دفن خزانے کسی ایک جگہ نہیں رہتے، یہ چلتے رہتے ہیں اور آواز دیتے رہتے ہیں کہ ہم یہاں ہیں، جو ان کی آواز پر دھیان دیتا ہے، وہ انھیں حاصل کرلیتا ہے۔ شاید یہی حال زمین کے اوپر موجود خزانوں کا ہے۔ سرمایہ وہاں جاتا ہے جہاں مزید سرمایہ ہوتا ہے، اور چینیوں کی ذہانت، قابلیت، علم اور محنت کی بدولت ساری دنیا کا سرمایہ تیزی سے کھنچ کر چائنا میں آرہا ہے۔
چین اور پاکستان ایک دوسرے کے دیرینہ دوست ہیں۔ چینی نومنتخب وزیراعظم کا حالیہ دورہ اس دوستی کے رشتے کو اور مضبوط کرگیا ہے۔ چینی وزیراعظم لی کی چیانگ نے سینیٹ میں خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ''ہمیں پاکستان سے دوستی پر فخر بھی ہے، ناز بھی، ہم سونا پھینک سکتے ہیں لیکن پاکستان سے دوستی نہیں چھوڑ سکتے۔'' اﷲ کرے ایسا ہو، لیکن بہرحال نئے پاکستانی حکمرانوں اور پالیسی سازوں کو چاہیے کہ وہ چین کی دوستی پر تکیہ کرکے ان سے ہمیشہ امداد مانگنے کے بجائے ان کی عقل دنگ کردینے والی اقتصادی، معاشی، دفاعی اور سائنسی ترقی کے بنیادی اسباب پر غور کرکے خود کفالت کا راستہ اختیار کریں، کیوں کہ ریاستی دوستیاں باہمی مفاد سے وابستہ ہوتی ہیں۔
پاک چین دوستی میں بھی سب سے بڑا عنصر ''دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے'' کا آفاقی اصول کارفرما رہا ہے، لیکن جب دشمن سے دشمنی ختم ہوتی ہے تو پھر دشمن کے دشمن سے دوستی بھی نئے مفادات سے مشروط ہوتی ہے۔ اور سب کو معلوم ہے کہ چین بھارت دشمنی کی برف کئی دہائیوں کے بعد اب پگھلنے لگی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان افہام و تفہیم اور مذاکرات کی بات ہورہی ہے، نئے معاہدے ہو رہے ہیں۔ اس کی تازہ مثال ابھی کچھ دن پہلے چین کے نو منتخب وزیراعظم لی کی چیانگ کا پاکستان سے پہلے بھارت کا تین روزہ دورہ ہے، جو نہایت کامیاب بھی رہا ہے۔
ہمیں حیرت ہوئی کہ ایک اسٹور کا سامان چائنا سے لایا جاتا ہے! اس نے یہ بتا کر ہماری حیرت میں اضافہ کردیا کہ دو تین مہینے میں ایسے چکر لگتے رہتے ہیں اور بہت سارے الیکٹرانک آئٹم وہاں سے بہت کم قیمت پر مل جاتے ہیں، جو پھیرے کے اخراجات نکال کر بھی بہت اچھا نفع دے جاتے ہیں اور اب ہم کئی دکانداروں کو ہول سیل میں بھی مال سپلائی کرتے ہیں۔ اگلے ایک سال میں ہمیں کراچی اور اندرونِ سندھ کے بھی کئی اوسط درجے کے کاروباری حضرات کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ لوگ باقاعدگی سے کاروباری دورے پر چین جارہے ہیں۔
یہ سن کر ہمیں نوے کی دہائی یاد آگئی، جب ہم سنتے تھے کہ فلاں شخص مہینے دو مہینے میں سنگاپور چکر لگاتا ہے اور وہاں سے گھڑیاں، الیکٹرک آئٹمز مثلاً کیمرے، ٹیپ ریکارڈر وغیرہ لاتا ہے،جو نہ صرف معیار میں اعلیٰ ہوتا تھا بلکہ مقامی مارکیٹ سے کافی کم قیمت پر بھی پڑتا تھا۔ اس وقت یہ پھیرے سنگاپور کے ساتھ بنکاک اور دبئی وغیرہ بھی جاتے تھے۔ان میں کچھ لوگ ''کھیپیے'' مشہور ہوئے۔
''یعنی اب اس فہرست میں چین کا اضافہ ہوگیا ہے۔'' ہم نے کہا تو وہ ہنس پڑا۔ ''اضافہ کیا مطلب اب تو پھیرے کی فہرست میں چائنا ہی چائنا ہے یا پھر دوسرے نمبر پر دبئی... سنگاپور، بنکاک وغیرہ تو اب پرانی بات ہوگئی۔''
شاید یہی وجہ ہے کہ آج انگریزی کے بعد پاکستان میں جس بیرونی زبان کے سیکھنے کا سب سے زیادہ رجحان نظر آرہا ہے، وہ چینی زبان ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہی نظر آتی ہے کہ پاکستان میں کئی چینی کمپنیاں سرمایہ کاری کر رہی ہیں، اور چینی زبان جاننے والے نوجوانوں کو چینی کمپنی میں ملازمت ملنے کا زیادہ چانس ہوتا ہے، اس کے علاوہ چونکہ چائنا کے مال کے لیے بھی اب مقامی پھیرے اور دکاندار بھی براہ راست چائنا کا رخ کررہے ہیں، اس لیے کاروبار بھی ایک وجہ بن گیا ہے چینی زبان سیکھنے کا، کیوں کہ چینی دنیا بھر میں رابطے کی بین الاقوامی زبان انگریزی میں عموماً بہت کمزور ہوتے ہیں اور جو کچھ انگریزی جانتے بھی ہیں تو وہ بھی حتی الامکان اپنی زبان کو ہی اولیت دیتے ہیں۔ یوں چینیوں کے اس قابل فخر عمل کی وجہ سے جو لوگ ان سے کاروبار کرنا چاہتے ہیں، اس پر مجبور ہیں کہ بہرطور چینی زبان کی سدھ بدھ حاصل کریں۔
چینی زبان سیکھنے کے رجحان میں اضافے کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جارہی ہے کہ اب اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے ہمارے نوجوانوں کی فہرست میں یورپ اور امریکا کے ساتھ چین بھی موجود ہے جہاں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا یورپ و امریکا کے مقابلے میں کہیں سستا بھی پڑتا ہے اور تعلیم کا معیار بھی کسی طرح یورپ کی یونیورسٹیوں سے کم نہیں۔ شاید یہی وجوہات ہیں کہ صرف پرائیوٹ سیکٹر میں ہی نہیں بلکہ چینی زبان کی اہمیت کا اعتراف پچھلے چند سال میں سرکاری سطح پر بھی ہوا ہے، جس کی مثال 2011 میں سندھ حکومت کا،2013 سے تمام اسکولوں میں درجہ ششم سے چینی زبان کی تعلیم لازمی کرنے کا فیصلہ تھا۔
یہ الگ بات ہے کہ ہمارے نظام تعلیم کا جو انفرااسٹرکچر اور معیار ہے اور چینی زبان جیسی دنیا کی سب سے مشکل زبان کے اسکول لیول میں سیکھنے کے لیے جو تیاری اور پلاننگ ضروری ہے، اس کی عدم موجودگی کے باعث ہمارے خیال میں یہ فیصلہ عملی صورت اختیار نہیں کرسکتا اور اگر اس پر عمل کر بھی لیا جائے تو سوائے وقت کی بربادی اور سرمائے کے زیاں کے کچھ حاصل نہیں ہوسکتا۔ خیر یہ الگ بحث ہے، بات ہورہی تھی چین کے دنیا کے ہر میدان میں دمادم کامیابیاں حاصل کرنے کی، جس کی وجہ سے وہ نگاہیں جو اعلیٰ تعلیم کے حصول یا محفوظ سرمایہ کاری کے لیے پہلے یورپ اور امریکا کی طرف اٹھتی تھیں اب چین کی طرف متوجہ ہیں۔
اس وقت کا سچ تو یہ ہے کہ چین جو مشرقی ایشیا میں واقع دنیا کی نہایت قدیم تہذیبوں میں سے ایک ہے، ہر طرف چھا رہا ہے۔ وہ عالمی کساد بازاری میں سرمایہ داروں کے لیے امید کی نئی کرن ہے۔ اس نے اپنی تجارتی پالیسیوں اور آسان ویزا شرائط سے یہ باور کرادیا ہے کہ اس وقت جو چین سے کاروبار کرے، وہ فائدے میںہے۔
چین، جس نے ہمیشہ دنیا کی ترقی میں اپنا بھرپور حصہ ڈالا (صرف چار بڑی ایجادات یعنی کاغذ، قطب نما، بارود اور چھاپہ خانہ کو دیکھ لیجیے، اور فیصلہ کرلیجیے کہ ان ایجادات کا انسان کی ترقی میں کتنا بڑا حصہ ہے) آج بھی دنیا میں سب سے زیادہ تیزی سے ترقی کرنے والا ملک ہے۔ معیشت سے لے کر دفاع تک صنعت سے لے کر کمپیوٹر ٹیکنالوجی تک، خلابازی سے لے کر سماجی سائنسی زرعی شعبوں تک انقلاب آفریں ترقی کی بدولت روئے زمین پر ہر جگہ چین کا ڈنکا بج رہا ہے۔ ماہرین چین کی اس برق رفتار ترقی پر انگشت بدنداں ہیں اور یہ پیش گوئیاں کررہے ہیں کہ مستقبل کا سپر پاور مغرب سے نہیں بلکہ مشرق سے ہوگا جو کوئی اور نہیں صرف چین ہے۔
ہمارے خیال میں چین کی اس بے مثال ترقی کا راز چینیوں کی انتھک محنت، حب الوطنی اور دیانت دارانہ قیادت میں مضمر ہے۔ چینی دنیا بھر میں اپنی انتھک محنت کے لیے مشہور ہیں۔ وہ کسی بھی کام کا بیڑا اٹھاتے ہیں تو شفٹوں میں کام کو اس طرح سے جاری رکھتے ہیں کہ ایک منٹ کے لیے بھی کام میں رخنہ نہیں پڑتا۔ گزشتہ سال سوشل میڈیا پر چین کے حوالے سے ایک ویڈیو بہت پاپولر ہوئی، جس میں دکھایا گیا تھا کہ بیجنگ سے باہر کسی شہر میں چینیوں نے ایک پندرہ منزلہ ہوٹل کی ساری عمارت صرف چھ دن میں تعمیر کردی۔ اسی طرح 2008 میں چین میں منعقد ہونے والے اولمپک میں بھی چینیوں نے اپنی اس مستعدی اور کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا، جب انھوں نے صرف تین ماہ میں اولمپک اسٹیڈیم تیار کر لیا تھا۔ چین کی یہ معرکۃ الآرا کارکردگی انٹرنیشنل میڈیا پر کئی روز چھائی رہی۔
چین کی دنیا بھر کی مارکیٹوں میں گرفت کا اندازہ اس سے کیجیے کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کی مارکیٹ پر ہی چائنا چھایا ہوا نہیں ہے، جہاں آپ کو کراچی اور لاہور جیسے بڑے شہروں کی مارکیٹوں میں پھیری والوں کی ''چائنا ہے چائنا'' کی صدائیں سنائی دیتی ہیں، بلکہ یورپ اور امریکا (جو ہر میدان میں چین کا سب سے بڑا حریف سمجھا جاتا ہے) میں بھی آپ کو 70 فیصد اشیا چین کی نظر آئیں گی، جو مزے کی بات یہ ہے کہ ان ترقی یافتہ ممالک کے معیار کی بھی ہوتی ہیں، ورنہ ہمارے ہاں عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ چائنا ہے تو معیار دو نمبر ہو گا، جب ہی اتنا سستا ہے، لیکن ہر جگہ ایسا نہیں ہے کیوں کہ چائنا ہر ملک کی ڈیمانڈ اور ریٹ کے مطابق اسی معیارکا مال بناکر دیتا ہے۔
قصہ مختصر آپ نے بچپن میں وہ مشہور کہانی پڑھی ہوگی جس میں بتایا گیا تھا کہ زمین کے نیچے دفن خزانے کسی ایک جگہ نہیں رہتے، یہ چلتے رہتے ہیں اور آواز دیتے رہتے ہیں کہ ہم یہاں ہیں، جو ان کی آواز پر دھیان دیتا ہے، وہ انھیں حاصل کرلیتا ہے۔ شاید یہی حال زمین کے اوپر موجود خزانوں کا ہے۔ سرمایہ وہاں جاتا ہے جہاں مزید سرمایہ ہوتا ہے، اور چینیوں کی ذہانت، قابلیت، علم اور محنت کی بدولت ساری دنیا کا سرمایہ تیزی سے کھنچ کر چائنا میں آرہا ہے۔
چین اور پاکستان ایک دوسرے کے دیرینہ دوست ہیں۔ چینی نومنتخب وزیراعظم کا حالیہ دورہ اس دوستی کے رشتے کو اور مضبوط کرگیا ہے۔ چینی وزیراعظم لی کی چیانگ نے سینیٹ میں خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ''ہمیں پاکستان سے دوستی پر فخر بھی ہے، ناز بھی، ہم سونا پھینک سکتے ہیں لیکن پاکستان سے دوستی نہیں چھوڑ سکتے۔'' اﷲ کرے ایسا ہو، لیکن بہرحال نئے پاکستانی حکمرانوں اور پالیسی سازوں کو چاہیے کہ وہ چین کی دوستی پر تکیہ کرکے ان سے ہمیشہ امداد مانگنے کے بجائے ان کی عقل دنگ کردینے والی اقتصادی، معاشی، دفاعی اور سائنسی ترقی کے بنیادی اسباب پر غور کرکے خود کفالت کا راستہ اختیار کریں، کیوں کہ ریاستی دوستیاں باہمی مفاد سے وابستہ ہوتی ہیں۔
پاک چین دوستی میں بھی سب سے بڑا عنصر ''دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے'' کا آفاقی اصول کارفرما رہا ہے، لیکن جب دشمن سے دشمنی ختم ہوتی ہے تو پھر دشمن کے دشمن سے دوستی بھی نئے مفادات سے مشروط ہوتی ہے۔ اور سب کو معلوم ہے کہ چین بھارت دشمنی کی برف کئی دہائیوں کے بعد اب پگھلنے لگی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان افہام و تفہیم اور مذاکرات کی بات ہورہی ہے، نئے معاہدے ہو رہے ہیں۔ اس کی تازہ مثال ابھی کچھ دن پہلے چین کے نو منتخب وزیراعظم لی کی چیانگ کا پاکستان سے پہلے بھارت کا تین روزہ دورہ ہے، جو نہایت کامیاب بھی رہا ہے۔