ذرا سوچئے

ہم سےہی تو یہ پاکستان ہے، ہم ہی تو اس کے وارث ہیں۔ ذرا سوچیے دوسروں کو ان کے ناکردہ گناہوں کی سزا میں حصہ دار نہ بنیں۔

ہم سےہی تو یہ پاکستان ہے، ہم ہی تو اس کے وارث ہیں۔ ذرا سوچیے دوسروں کو ان کے ناکردہ گناہوں کی سزا میں حصہ دار نہ بنیں۔

وہ حافظ آباد کا ایک غریب نوجوان تھا، اس کی آنکھوں میں بہت سے سپنے تھے، امیر بننے کا شوق، آگے بڑھنے کا جذبہ اس کی نس نس میں بھرا تھا اور یہ ہی جذبہ اسے یونان لے آیا جو کچھ بھی جمع پونجی تھی سب یونان آنے پر لگادی، لیکن اسے امید تھی کہ اس کے سپنے سچ ہوں گے۔ یونان اسے چند قدموں کے فاصلے پر محسوس ہوتا تھا لیکن یہاں آکر اسے احساس ہوا کہ سب کچھ حاصل کرنا اتنا آسان نہیں ہے، اس کے لیے انتھک محنت کرنا پڑتی ہے، کام سے جی نہ چرانا اسے خوابوں کے سفر سے آگے کا راستہ دکھاتا تھا۔

بڑی مشکل سے کہہ کہلا کر لوگوں کے گھروں کے باغیچوں میں کام ملا، وہ اپنی پوری ایمانداری کے ساتھ سارا سارا دن لوگوں کے گھروں کے باغیچوں کی مٹی اور کھادیں پھول بوٹے ڈھونڈتا، لوگ اس کی محنت ایمانداری اور کام سے خوش تھے، اسے جو کچھ ملتا وہ پاکستان کے لحاظ سے خاصا تھا۔ نیو فلاڈلفیا میں قدم جمانا اور لوگوں پر اپنا اعتماد قائم کرنا اتنا آسان بھی نہ تھا، اسے سر پر چھت کی ضرورت تھی، دو گھڑی آرام اور ایک ٹھکانہ ہر انسان کی زندگی کی ضرورت ہوتا ہے۔

پرایا دیس، پرائے لوگ، پرائی زبان۔۔۔۔ پر اسے اپنے ربّ پر یقین تھا، بالآخر ایک بوڑھے جوڑے کو اس کی معصوم صورت ایمانداری پر ترس آگیا، انھوں نے اسے اپنے پاس سر چھپانے کو جگہ دی، وہ جوڑا اپنی عمر کے آخری اوائل بڑے آرام سے گزار رہا تھا، ان کی ایک بیٹی ایتھنز میں مقیم تھی جہاں سے وہ اکثر اپنے والدین کو فون کرکے ان کی خیر خیریت پوچھتی رہتی تھی۔ یہ اس کا معمول تھا، ویسے بھی مغرب میں اگر اولاد والدین کو فون پر ہیلو ہائے کرکے ان کی خیر خیریت پوچھ لے تو اسے اولاد کی سعادت مندی میں شمار کیا جاتا ہے، یہ الگ بات ہے کہ ہمارے اپنے ملک میں اب اولاد کی سعادت مندی کا معیار اس سے بھی کہیں گر گیا ہے۔

خیر بات ہو رہی تھی حافظ آباد کے بائیس تئیس سالہ نوجوان علی رضا کی جس نے اس بوڑھے جوڑے کا دل جیت لیا تھا، وہ اکثر ان کے باغیچے میں اپنے معمول کے وقت سے زیادہ کام کرتا جس سے وہ بہت خوش تھے، ظاہر ہے مغرب میں تو تھینک یو کہنا بھی بڑی خوش اخلاقی اور اعلیٰ ظرفی میں گردانا جاتا ہے، پھر علی رضا تو ان کے گھر میں مفت میں رہ رہا تھا اس کے پاس پیسے ہی کہاں بچتے جو وہ نیو فلاڈلفیا میں مہنگے کرائے ادا کرتا، اسے تو اپنے خواب پورے کرنے تھے اور منزل زیادہ دور نہ تھی۔ پاکستان جانے میں ابھی اس کے پاس دو تین دن تھے اور پیسے اتنے نہ تھے کہ وہ حافظ آباد جاکر اپنے رشتے داروں، عزیزوں اور پڑوسیوں کو مرعوب کرسکے، اسے ٹینشن سوار تھی، وہ ایک ساتھ بہت بڑا ہاتھ مارنا چاہتا تھا، باغیچوں میں کام کرنے والا ایک مالی کس حد تک چند سال میں سیٹھ یا بابو بن سکتا تھا لیکن اس نے تو ایسا ہی سوچا تھا اور آخر لالچ اور حرص نے اس کی آنکھیں جیسے بند کردیں۔


احسانوں کا بوجھ اتار کر ایک جانب پھینکا، بوڑھا جوڑا اس کی نظروں میں خاصا امیر تھا۔ اس کا خیال تھا کہ پاکستان کی طرح شاید وہاں بھی سیف اور گھی اور مصالحوں کے ڈبوں میں زیور رکھنے کا رجحان ہے۔ بہت سارے لیرا آنکھوں میں سانپ کی طرح لہرائے اور بس اس نے فیصلہ کرلیا، اس کے لیے ضروری تھا کہ دونوں بوڑھے موت کی نیند میں ایسے سوئیں کہ کبھی اٹھ کے پولیس میں اس کے خلاف شکایت نہ درج کراسکیں... اور ایسا ہی ہوا، اسے جو کچھ ملا سب اڑالیا۔ کرنسی، موبائل اور جو کچھ قیمتی محسوس ہوا اپنے قبضے میں کرلیا، وہ مطمئن تھا، پاکستان اس کی منزل تھا۔ یہاں اس کے گھر والے اور رشتے دار اس کے منتظر تھے، ان کا سپوت بہت کچھ ان سب کے لیے لانے والا تھا۔ بس ایک دو دن میں ہی اسے پاکستان کی فلائٹ میں بیٹھ کر یہ جا اور وہ جا۔۔۔۔ پاکستان میں تو ایسے قتل نامعلوم قاتلوں کے نام پر درج کرکے سرد خانے میں ڈال دیے جاتے ہیں۔ بچپن سے اس نے یہی دیکھا تھا، پولیس تو پولیس ہوتی ہے چاہے پاکستان کی ہو یا یونان کی۔ لیکن اس کے سارے اندازے غلط ثابت ہوئے، پولیس نے اسے جلد ہی دھر لیا۔

دونوں مہربان بوڑھے اور بوڑھی خاتون کا خون ابھی گرم ہی تھا۔ علی رضا بھول گیا تھا کہ ان کی ایک بیٹی روزانہ اپنے والدین کو فون کرتی ہے اور اس دن بھی اس نے ایسا ہی کیا لیکن اس بار فون پر رابطہ ہی نہ ہوسکا، وہ پریشان ہوگئی اس نے ایتھنز سے نیو فلاڈلفیا پولیس کو فون کیا کہ اس کے والدین کا اس سے رابطہ نہیں ہورہا، پولیس نے فوراً ان کے گھر کا رخ کیا اور جلد ہی حقیقت تک پہنچ گئی، بوڑھی خاتون اپنے گھر کے باغیچے میں خون میں لت پت مردہ پائی گئی جب کہ بوڑھا مرد اپنے بستر پر ہی انجام اجل کو پہنچادیا گیا، پولیس کو زیادہ تگ و دو نہ کرنا پڑی۔ علی رضا سے اگلوانا ایسا مشکل نہ تھا۔ پاکستان کے لحاظ سے یہ ایک عام قتل کا مقدمہ تھا کہ لالچ نے ایک نوجوان کی آنکھیں خیرہ کردیں، آرام سے بوڑھوں کو ٹھکانے لگایا اور پیسے لے کر فرار ہوگیا، لیکن یونان میں یہ قتل لرزہ خیز تھا۔

ایک عام سا معصوم سا نظر آنے والا نوجوان بھی قاتل ہوسکتا ہے جس نے اپنے محسنوں کو بھی نہ بخشا۔۔۔۔ یہ پاکستانی کتنے ظالم اور خود غرض ہوتے ہیں۔۔۔۔ ڈس گسٹنگ۔۔۔۔ یہ ایک عام سا خیال تھا جو اس بوڑھے جوڑے کے اردگرد رہنے والوں کے دلوں میں ابھرا۔ لالچ واقعی بری بلا ہے لیکن یہ کیسی بلا تھی جو چند ٹکوں کی خاطر یونان میں بسنے والے تمام پاکستانی بہن بھائیوں سے چپک گئی۔ کیا اب کسی اور معصوم ضرورت مند علی رضا کی مدد کوئی اور یونانی بوڑھا یا جوان جوڑا کرنے کی ہمت کرسکتا ہے؟

کیا یونان میں بسنے والے پاکستانی علی رضا کے کیس کی معاونت کرسکتے ہیں، کیا وہ ثابت کرسکتے ہیں کہ علی رضا نے کچھ بھی نہیں کیا وہ معصوم ہے، وہ ''ڈسگسٹنگ '' نہیں ہے، وہ شکار ہے اس غربت، اس احساس محرومی کا جو اسے پاکستان کے چلانے والوں، کرتا دھرتاؤں نے عطا کیا، وہ تو اپنا آپ۔۔۔۔ اپنا نصیب بدلنے گیا تھا، پر اس نے تو پورے پاکستانیوں کا نصیب پار لگانے کی پوری کوشش کی۔ اس نے پاکستانیوں کا امیج مجروح کیا "ڈسگسٹنگ" کون ہے۔۔۔۔۔ نوجوان غریب علی رضا یا ہمارے وہ سرکار جنہوں نے اس ملک کو غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں لاکر ایسے چھوڑ دیا کہ اب اندھیرے میں ہاتھ پیر چلانے پر بھی کچھ حاصل نہیں ہوتا۔

Disgusting ایک چھوٹا سا لفظ ہے جسے مغرب میں ایک لعنت، نحوست سے تعبیر کیا جاتا ہے، حقارت و تحقیر کی آخری حدوں کو چھوتا ایک چھوٹا سا لفظ، نفرت انگیز، کراہیت سے لبریز جو پاکستان سے باہر بہت سے علی رضا، ہاشم رضا، کامران اور نعمان کی وجہ سے پاکستان کے ماتھے پر بار بار تھوکا جاتا ہے، پہلے ہی دہشت گردی، غربت، کرپشن کی غلاظت نے پاکستانی قوم کو ملک میں اور ملک سے باہر کھل کر سانس لینے کا موقع ہی نہ دیا لیکن اب ایسا بھی کیا۔۔۔۔ بڑے بڑے محلوں، کارخانوں اور جاگیروں والوں نے اگر مل کر ہمارے ملک کو کھا کھا کر کنگال کر دیا، غریب علی رضا، ہاشم رضا اور نعمان کامران کے جیسے بھی ان کے پیٹوں میں چلے گئے اور ان میں بڑے پیٹ والوں میں اسے لوٹانے کا ظرف نہیں تو کیا غریب عوام اب بیرون ملک جاکر اپنے دکھوں اور احساس محرومی کا بدلہ اس طرح لیں گے کہ بار بار یہ لفظ ہماری جھولی میں گرتا رہے گا۔ ہم سے ہی تو یہ پاکستان ہے، ہم ہی تو اس کے وارث ہیں۔ ذرا سوچیے دوسروں کو ان کے ناکردہ گناہوں کی سزا میں حصہ دار نہ بنیں۔
Load Next Story