سعودی صحافی کا پراسرار قتل اور مغربی ممالک

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اقوام متحدہ سے اس قتل کی غیر جانبدار تحقیقات کروانے کا مطالبہ کر دیا ہے

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اقوام متحدہ سے اس قتل کی غیر جانبدار تحقیقات کروانے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ فوٹو: فائل

سعودی صحافی جمال خشوگی کی موت ترکی میں سعودی قونصلیٹ میں ہوئی۔ سعودی عرب کے سرکاری میڈیا نے اس کی تصدیق کر دی ہے جس کے ساتھ ہی ایک شاہی فرمان کے تحت دو سعودی مشیروں سمیت 5 اعلیٰ عہدیداروںکو برطرف کر دیاگیاہے، 18 سعودی شہریوں کو گرفتار کرنے کی بھی خبر دی گئی ہے۔ حکومت سعودیہ نے جمال خشوگی کی موت پر افسوس کا اظہارکیا ہے۔

یہ پہلا موقع ہے کہ سعودی عرب کی جانب سے جمال خشوگی کی موت کی تصدیق کی گئی ہے۔ سعودی ٹی وی کے مطابق موت لڑائی کے دوران ہوئی۔ ادھر شاہ سلمان اور ترک صدر رجب طیب اردوان کے درمیان ٹیلی فون پر گفتگو ہوئی ہے جس میں جمال خشوگی کے قتل سے متعلق معلومات کے تبادلے پر اتفاق کیا ہے۔ ترک حکام کا کہنا ہے کہ سعودی صحافی کی موت سے متعلق ان کے پاس آڈیو ریکارڈنگ موجود ہے، تحقیقات مکمل ہونے پر پوری دنیا کو آگاہ کیا جائے گا۔ ادھر امریکی صدر ٹرمپ نے کہا کہ سعودی عرب کی طرف سے جمال خشوگی کی موت کی تصدیق بڑا قدم ہے لیکن جو ہوا وہ ناقابل قبول ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوٹیریس نے مطالبہ کیا ہے کہ خشوگی کے قتل میں ملوث افراد کا کڑا احتساب ہونا چاہیے۔


ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اقوام متحدہ سے اس قتل کی غیر جانبدار تحقیقات کروانے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ استنبول میں قائم سعودی قونصلیٹ میں ایک ایسے سعودی صحافی کا قتل جو حکومتی پالیسیوں کا ناقد اور جلا وطنی کی زندگی گزار رہا تھا' نے پوری دنیا میں ہنگامہ کھڑا کر رکھا ہے' جمال خشوگی کے قتل کی وجوہات تاحال پوری طرح منظرعام پر نہیں آ سکیں لہٰذا اس پر کوئی حتمی رائے دینا مناسب نہیں ہے تاہم جس طرح سعودی حکومت نے جمال خشوگی کے قتل کی تصدیق کی اور کچھ اہم افراد کو عہدوں سے برطرف کیا' اس سے کئی سوالات نے جنم لیا ہے' اس واقعے کو امریکا اور مغربی ممالک نے بہت زیادہ اچھالا ہے۔

امریکا اور مغربی ممالک کو کسی بھی مسلم ملک کے خلاف کوئی بہانہ چاہیے ہوتا ہے۔ سعودی صحافی جمال خشوگی کی موت بھی ایسا ہی ایک بہانہ ہے جسے امریکا اور مغربی ممالک نے خوب اچھالا۔ بہرحال مسلم ممالک خصوصاً ایسے مسلم ممالک جو امریکا اور مغربی ممالک کی ہٹ لسٹ پر ہیں' انھیں اقدامات اور فیصلوں تک پہنچنے سے پہلے ان کے نتائج پر اچھی طرح غور کر لینا چاہیے۔
Load Next Story