قرضوں کے بوجھ میں بے تحاشہ اضافہ
بیمار والدین اللہ کو پیارے، قرض دینے والا کوئی نہیں، اپنے پرائے سب منہ پھیرگئے
ورلڈ بینک کے عہدیداروں نے کہا ہے کہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے آغاز سے ایک طرف تو قرضوں کا بوجھ بڑھے گا تو دوسری طرف یہ ایشیا میں انفرااسٹرکچر کی اشد ضرورت کو پوری کرے گا۔ پاکستان کے بڑھتے ہوئے قرضوں کے باوجود یہ عہدیدار اسی پروگرام کے حوالے سے بہت زیادہ پرجوش ہیں۔
عالمی بینک کی خاتون ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ چینی منصوبے سے کئی مواقع پیدا ہوئے ہیں۔ ان کے مطابق انفرااسٹرکچر کی بہتری کا مطلب ہے کہ مزید تجارت، مزید سرمایہ کاری، پیداوار میں اضافہ اور اس کے نتیجے میں خشکی میں گھرے خطوں کا ملاپ ہو گا۔
پاکستان اس وقت اپنی تاریخ کے بدترین معاشی بحران سے گزر رہا ہے جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں۔ ہم اپنی پوری تاریخ میں قرض کی مے پیتے رہے۔ بھیک مانگنا ہماری سرشت میں داخل ہو گیا۔ پھر سوویت یونین کے خلاف امریکی افغان جنگ میں ہماری لاٹری نکل آئی۔ سامراجی مفادات کو پورے کرنے کے لیے پوری دنیا سے ہمیں بڑے پیمانے پر امداد ملی۔ یہ اور بات کہ اس امریکی جنگ نے ہماری کئی نسلوں کو تباہ کر دیا۔ اس جنگ نے ہماری معیشت کو کالے دھن سے روشناس کرایا اور پاکستان ہر قسم کے مالی جرائم کی آماجگاہ بن گیا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ پاکستان 28 ہزار ارب روپے کا مقروض ہے۔ اس قرضے کا اتارنا تو دور کی بات ان قرضوں کا صرف سود ادا کرنے کے لیے ہمیں قرض درکار ہے۔ جس کے لیے دنیا بھر میں مارے مارے پھر رہے ہیں کہ کوئی ہم پر رحم کھائے اور ہمیں قرض دے دے۔ لیکن ہم ماضی میں اتنے زیادہ قرضے لے چکے ہیں کہ دوسرے ملک ہمیں قرض دینے سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ ہم قرض واپس بھی کر سکیں گے۔
ہمارا حال اسی شخص جیسا ہے جو آمدنی سے زائد مسلسل خرچ کر رہا ہے۔ ایسے شخص کی کیا عزت ہو سکتی ہے جس کی پوری زندگی ہی مانگ تانگ میں گزر جائے۔ اگر سچ پوچھیں تو یہ کڑوا سچ ہے کہ ہماری اس معاشی صورتحال سے ہماری بین الاقوامی برادری میں کوئی عزت نہیں۔ عرب ممالک میں عام پاکستانیوں کو حقارت سے بھکاری کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ اس پر ہماری عیاشی کا یہ عالم ہے کہ ہماری برآمدات گرتی جا رہی ہیں اور درآمدات یہاں تک بڑھ گئیں ہیں کہ وہ برآمدات سے دوگنی ہو گئی ہیں۔ درآمدات میں لگژری اشیاء اور امیروں کے استعمال کی چیزیں شامل ہیں۔
برآمدات کیوں کم ہوئیں اس کی وجہ مہنگی گیس اور بجلی ہے۔ اس کے باوجود یہ نایاب ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ملک بھر میں ٹیکسٹائل کی ڈیڑھ سو ملیںبند ہو گئیں۔ اس کے علاوہ فیصل آباد سمیت ملک بھر میں پونے چار لاکھ پاور لومز نہ صرف بند ہوگئیں بلکہ اسکریپ میں بک گئیں۔ آپ خود ہی اندزہ کر لیں کہ ڈیڑھ سو ملوں اور پونے چار لاکھ پاور لومز میں کتنے لوگ کام کرتے ہوں گے۔ اس میں کتنے مزدور، کاریگر، انجینئر اور دوسرے لوگ ہوں گے جن کا رزق اس سے وابستہ ہو گا۔ وہ سب لوگ بے روزگار گھروں میں فاقے، بچے اسکولوں سے اٹھا لیے گئے یا نکال دیے گئے۔
بیمار والدین اللہ کو پیارے، قرض دینے والا کوئی نہیں، اپنے پرائے سب منہ پھیرگئے۔ بے چارگی کے عالم میں بد دعائیں دینے کے علاوہ اس کے بس میں کچھ نہیں رہا۔ یہ ایک دو ماہ، سال کی کہانی نہیں پچھلے دس سال کی ہے۔ جس ملک میں صنعت جو ملک کی ترقی اور خوشحالی کا باعث بنتی ہے پر میٹرو اور اورنج ٹرین کو ترجیح دی جائے، وہاں پر یہی کچھ ہوتا ہے۔ سنا ہے نئی حکومت نے صنعتوں کے لیے گیس اور بجلی سستی کر دی ہے۔ خام مال پر ڈیوٹی ختم اور 200 ارب ریبیٹ کی رقم جو صنعتکاروں کو مدت سے واجب الادا تھی ادائیگی کی یقین دہانی کرا دی ہے جس کے نتیجے میں نوے فیصد کارخانے چند دنوں میں پھر سے چل پڑیں گے اور کم از کم دو لاکھ بیروزگاروں کو فوری طور پر روزگار مل سکے گا۔ اس طرح ان کے گھروں میں خوشیاں پھر سے واپس آ سکیں گی۔ اس میں حقیقت کیا ہے، کچھ نہیں کہہ سکتے۔
پچھلی دہائیوں میں لیے گئے قرضوں نے ملکی معیشت کی کمر توڑ دی ہے، اب حالت یہ ہے کہ قرضوں پر سود ادا کرنے کے لیے نئے قرضے لینے پڑ رہے ہیں۔ اصل قرضہ اپنی جگہ پر موجود ہے۔ خزانہ خالی ہے، سیاستدان اقتدار میں آنے کے لیے عوام کو سبز باغ دکھاتے ہیں۔ گزشتہ 5 سال میں ملکی تاریخ کا سب سے بڑا قرضہ 15000 ارب روپے لیا گیا۔ پچھلے پانچ سالہ دور میں بجلی کی پیداوار میں اضافہ ہوا لیکن یہ مہنگی بجلی تھی، یعنی بجلی دستیاب ہے لیکن عوام کی قوت خرید سے باہر۔ اوپر سے بجلی کی ٹرانسمیشن لائن ناقص، فرسودہ جو اضافی بجلی کا بوجھ سہار نہ سکتی تھی۔ پچھلی حکومت کے تمام تر دعوؤں کے باوجود لوڈشیڈنگ سندھ، بلوچستان اور خیرپختونخوا میں پوری شدت سے جاری رہی۔
2013ء کے الیکشن میں چند روز باقی تھے جب نواز شریف صاحب نے ایک جلسے میں عوام سے وعدہ کیا کہ وہ اشیائے صرف کی قیمتیں (14 سال پہلے) 1999ء کی سطح پر واپس لائیں گے۔ جب انھیں اقتدار سے محروم کیا گیا تھا۔ عوام نے اس پر خوشی کے نعرے بلند کیے، لیکن اس وقت کوئی پوچھنے والا نہیں تھا کہ یہ معجزہ کس طرح رونما ہو گا۔ ہمارے ملک میں عوام کو جھوٹے وعدوں پر بہلانا کوئی مشکل کام نہیں۔ اب عمران خان کی حکومت بھی ایسے دعوے کررہی ہے، جو عملاً ممکن نہیں ہیں،اب جو بیرونی قرضہ لیا جائے گا، یہ بھی ایک نئی تاریخ رقم کریگا، آنے والی حکومت پھر جانے والی پر تنقید کرے گی کہ اس نے تاریخ کا سب سے بڑا قرضہ لیا۔
٭... اکتوبر کے آخر اور نومبر کے دوسرے اور تیسرے ہفتے میں موجودہ بحران کی شدت میں کمی آنے کا امکان ہے۔
عالمی بینک کی خاتون ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ چینی منصوبے سے کئی مواقع پیدا ہوئے ہیں۔ ان کے مطابق انفرااسٹرکچر کی بہتری کا مطلب ہے کہ مزید تجارت، مزید سرمایہ کاری، پیداوار میں اضافہ اور اس کے نتیجے میں خشکی میں گھرے خطوں کا ملاپ ہو گا۔
پاکستان اس وقت اپنی تاریخ کے بدترین معاشی بحران سے گزر رہا ہے جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں۔ ہم اپنی پوری تاریخ میں قرض کی مے پیتے رہے۔ بھیک مانگنا ہماری سرشت میں داخل ہو گیا۔ پھر سوویت یونین کے خلاف امریکی افغان جنگ میں ہماری لاٹری نکل آئی۔ سامراجی مفادات کو پورے کرنے کے لیے پوری دنیا سے ہمیں بڑے پیمانے پر امداد ملی۔ یہ اور بات کہ اس امریکی جنگ نے ہماری کئی نسلوں کو تباہ کر دیا۔ اس جنگ نے ہماری معیشت کو کالے دھن سے روشناس کرایا اور پاکستان ہر قسم کے مالی جرائم کی آماجگاہ بن گیا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ پاکستان 28 ہزار ارب روپے کا مقروض ہے۔ اس قرضے کا اتارنا تو دور کی بات ان قرضوں کا صرف سود ادا کرنے کے لیے ہمیں قرض درکار ہے۔ جس کے لیے دنیا بھر میں مارے مارے پھر رہے ہیں کہ کوئی ہم پر رحم کھائے اور ہمیں قرض دے دے۔ لیکن ہم ماضی میں اتنے زیادہ قرضے لے چکے ہیں کہ دوسرے ملک ہمیں قرض دینے سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ ہم قرض واپس بھی کر سکیں گے۔
ہمارا حال اسی شخص جیسا ہے جو آمدنی سے زائد مسلسل خرچ کر رہا ہے۔ ایسے شخص کی کیا عزت ہو سکتی ہے جس کی پوری زندگی ہی مانگ تانگ میں گزر جائے۔ اگر سچ پوچھیں تو یہ کڑوا سچ ہے کہ ہماری اس معاشی صورتحال سے ہماری بین الاقوامی برادری میں کوئی عزت نہیں۔ عرب ممالک میں عام پاکستانیوں کو حقارت سے بھکاری کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ اس پر ہماری عیاشی کا یہ عالم ہے کہ ہماری برآمدات گرتی جا رہی ہیں اور درآمدات یہاں تک بڑھ گئیں ہیں کہ وہ برآمدات سے دوگنی ہو گئی ہیں۔ درآمدات میں لگژری اشیاء اور امیروں کے استعمال کی چیزیں شامل ہیں۔
برآمدات کیوں کم ہوئیں اس کی وجہ مہنگی گیس اور بجلی ہے۔ اس کے باوجود یہ نایاب ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ملک بھر میں ٹیکسٹائل کی ڈیڑھ سو ملیںبند ہو گئیں۔ اس کے علاوہ فیصل آباد سمیت ملک بھر میں پونے چار لاکھ پاور لومز نہ صرف بند ہوگئیں بلکہ اسکریپ میں بک گئیں۔ آپ خود ہی اندزہ کر لیں کہ ڈیڑھ سو ملوں اور پونے چار لاکھ پاور لومز میں کتنے لوگ کام کرتے ہوں گے۔ اس میں کتنے مزدور، کاریگر، انجینئر اور دوسرے لوگ ہوں گے جن کا رزق اس سے وابستہ ہو گا۔ وہ سب لوگ بے روزگار گھروں میں فاقے، بچے اسکولوں سے اٹھا لیے گئے یا نکال دیے گئے۔
بیمار والدین اللہ کو پیارے، قرض دینے والا کوئی نہیں، اپنے پرائے سب منہ پھیرگئے۔ بے چارگی کے عالم میں بد دعائیں دینے کے علاوہ اس کے بس میں کچھ نہیں رہا۔ یہ ایک دو ماہ، سال کی کہانی نہیں پچھلے دس سال کی ہے۔ جس ملک میں صنعت جو ملک کی ترقی اور خوشحالی کا باعث بنتی ہے پر میٹرو اور اورنج ٹرین کو ترجیح دی جائے، وہاں پر یہی کچھ ہوتا ہے۔ سنا ہے نئی حکومت نے صنعتوں کے لیے گیس اور بجلی سستی کر دی ہے۔ خام مال پر ڈیوٹی ختم اور 200 ارب ریبیٹ کی رقم جو صنعتکاروں کو مدت سے واجب الادا تھی ادائیگی کی یقین دہانی کرا دی ہے جس کے نتیجے میں نوے فیصد کارخانے چند دنوں میں پھر سے چل پڑیں گے اور کم از کم دو لاکھ بیروزگاروں کو فوری طور پر روزگار مل سکے گا۔ اس طرح ان کے گھروں میں خوشیاں پھر سے واپس آ سکیں گی۔ اس میں حقیقت کیا ہے، کچھ نہیں کہہ سکتے۔
پچھلی دہائیوں میں لیے گئے قرضوں نے ملکی معیشت کی کمر توڑ دی ہے، اب حالت یہ ہے کہ قرضوں پر سود ادا کرنے کے لیے نئے قرضے لینے پڑ رہے ہیں۔ اصل قرضہ اپنی جگہ پر موجود ہے۔ خزانہ خالی ہے، سیاستدان اقتدار میں آنے کے لیے عوام کو سبز باغ دکھاتے ہیں۔ گزشتہ 5 سال میں ملکی تاریخ کا سب سے بڑا قرضہ 15000 ارب روپے لیا گیا۔ پچھلے پانچ سالہ دور میں بجلی کی پیداوار میں اضافہ ہوا لیکن یہ مہنگی بجلی تھی، یعنی بجلی دستیاب ہے لیکن عوام کی قوت خرید سے باہر۔ اوپر سے بجلی کی ٹرانسمیشن لائن ناقص، فرسودہ جو اضافی بجلی کا بوجھ سہار نہ سکتی تھی۔ پچھلی حکومت کے تمام تر دعوؤں کے باوجود لوڈشیڈنگ سندھ، بلوچستان اور خیرپختونخوا میں پوری شدت سے جاری رہی۔
2013ء کے الیکشن میں چند روز باقی تھے جب نواز شریف صاحب نے ایک جلسے میں عوام سے وعدہ کیا کہ وہ اشیائے صرف کی قیمتیں (14 سال پہلے) 1999ء کی سطح پر واپس لائیں گے۔ جب انھیں اقتدار سے محروم کیا گیا تھا۔ عوام نے اس پر خوشی کے نعرے بلند کیے، لیکن اس وقت کوئی پوچھنے والا نہیں تھا کہ یہ معجزہ کس طرح رونما ہو گا۔ ہمارے ملک میں عوام کو جھوٹے وعدوں پر بہلانا کوئی مشکل کام نہیں۔ اب عمران خان کی حکومت بھی ایسے دعوے کررہی ہے، جو عملاً ممکن نہیں ہیں،اب جو بیرونی قرضہ لیا جائے گا، یہ بھی ایک نئی تاریخ رقم کریگا، آنے والی حکومت پھر جانے والی پر تنقید کرے گی کہ اس نے تاریخ کا سب سے بڑا قرضہ لیا۔
٭... اکتوبر کے آخر اور نومبر کے دوسرے اور تیسرے ہفتے میں موجودہ بحران کی شدت میں کمی آنے کا امکان ہے۔