پانی ڈیم اور چیف جسٹس صاحب کی مستحسن کوششیں

جنرل مرحوم کے دونوں وزیر صاحبان اور یہ بیان دینے والے، تینوں اپنے خالق کے پاس پہنچ چکے ہیں


Tanveer Qaisar Shahid October 22, 2018
[email protected]

KARACHI: کہتے ہیں کہ تشکیلِ پاکستان سے قبل شمالی وزیرستان میں زمین کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے پر تنازع اتنا بڑھ گیا کہ کئی جانیں اِس کی نذر ہو گئیں۔ ایک ہی قبیلے کے دو فریق متنازع قطعِہ زمین پر ملکیت کے دعویدار تھے۔رفتہ رفتہ یہ خونریزتصادم اتنا پھیل گیا کہ اِس نے شمالی وزیرستان کے کئی گھرانوں اور قبائل کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ انگریز حکمران اِسے بغور دیکھ رہے تھے۔ راوی کہتا ہے کہ جب خونی ٹکراؤ ایک خاص حد سے تجاوز کر نے لگا تو شمالی وزیرستان کے انگریز پولیٹیکل ایجنٹ نے اپنے اسسٹنٹ پولیٹیکل آفیسر، سردار اسلم خان، کو اپنے ہاں بلایا اور کہا: بھئی، اِس جھگڑے کو دیکھو تو سہی۔سردار اسلم خان نوجوان تھے۔

اپنے فرائض سے کمٹمنٹ رکھنے والے افسر۔ شمالی وزیرستان کے متنازع علاقے کے لوگوں سے اُن کے اچھے تعلقات بھی تھے۔ انھیں یقین تھا کہ وہ اِس خونی تنازعے کو فرو کردیں گے۔ اپنے باس کا حکم پاکر وہ فوری طور پر مذکورہ علاقہ میں پہنچے۔ کچھ دن وہاں قیام کیا۔ حالات کا جائزہ لیا اور متحارب فریقین سے بار بار ملے۔ اپنا تعلق واسطہ بھی استعمال کیا۔ سردار اسلم خان کو جب پکّا یقین ہو گیا کہ وہ باہم متصاد م خاندانوں میں صلح صفائی کروا سکتے ہیں تو وہ خوشی خوشی اپنے انگریز باس کے پاس حاضر ہُوئے اور کہا:''سر، آپ کا حکم درکار ہے۔ متصادم خاندانوں اور قبائل میں مکمل صلح ہو سکتی ہے۔''شاطر انگریز حاکم اپنے نوجوان دیسی مسلمان افسر کے اخلاص پر مسکرایا اور کہا:''ینگ مَین، تمہیں ہم نے یہ بولا تھا کہ اِس تنازعے کو ذرا دیکھ آؤ، لیکن تمہیں یہ نہیں کہا تھا کہ اِس مسئلے کو حل بھی کرنا ہے۔''یہ واقعہ آج اس لیے یاد آیا ہے کہ پانی کی بچت پر باتیں کرنے، دیامر بھاشاڈیم اور کالا باغ ڈیم کا مسئلہ دیکھنے والے تو بہت ہیں لیکن اِن سنگین مسائل کو حل کرنے والے کم ہی ہیں۔ہم سب دست بہ دعا ہیں کہ چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کی ملک بھر میں پانی کی بچت کرنے اور ڈیموں کے حوالے سے مساعیِ جمیلہ کامیابی سے ہمکنار ہوں۔پاکستان پانی کے جن سنگین بحرانوں سے گزر رہاہے۔

اِن کا تقاضا ہے کہ ڈیمز بنانے کا عمل فوری شروع کیا جائے۔ ہمارے محترم چیف جج صاحب کی کوششوں سے مجوزہ ڈیم کے لیے 6 ارب روپے کا چندہ جمع ہو چکا ہے اور ابھی قومی مفاد کی یہ شاندار مہم پوری توانائی سے جاری ہے۔عزت مآب چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب کی شب وروز کی کوششوں کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ وطنِ عزیز میں پہلی بار واٹر سیونگ اور ڈیموں کی تعمیر کے بارے میں ایک نیا ولولہ پیدا اور ایک توانا شعور بیدار ہُوا ہے۔ پاکستان کا قیمتی پانی مفت استعمال کرکے اربوں روپے کمانے والے کئی کارخانہ داروں کو جس طرح چیف جسٹس صاحب نے بلا کر پرسش کی ہے، یہ منفرد واقعہ ہماری سماجی اور عدالتی تاریخ میں شائد پہلی بار سامنے آیا ہے۔ پاکستان کے بائیس کروڑ عوام چیف جج صاحب کے ان اقدامات اور فیصلوں پر مسرت اور اطمینان کا اظہار کررہے ہیں۔ پانی کی بچت، آبی کمیابی اور ڈیموں کی تعمیروتشکیل کے حوالے سے چیف جسٹس صاحب نے گزشتہ روز اسلام آباد میں منعقد ہونے والے ایک سمپوزیم میں جو یادگار اور چشم کشا خطبہ دیا ہے، وہ ہمیشہ یاد رہے گا۔ہم سمجھتے ہیں کہ اگر کالا باغ ڈیم بن جاتا تو آج ہم مختلف النوع آبی اور توانائی بحرانوں کا ہدف نہ بنے ہوتے۔

پچھلے دنوں کالا باغ ڈیم کے حوالے سے راقم کے چند کالم شایع ہُوئے تو خیبر پختون خوا سے مجھے ایک صاحب کا فون آیا۔ نمبر غیر شناسا تھا۔ تعارف پر معلوم ہُوا کہ وہ خیبرپختون خوا کے سابق سینئر ترین بیوروکریٹ رہے ہیں۔ کالاباغ ڈیم پر ہماری گزارشات اُن کی نظروں سے گزر چکی تھیں۔ وطن کی محبت میں رچی بسی اُن کی آواز سے مترشح تھا کہ وہ کالا باغ ڈیم معاملات سے گہری دلچسپی اور ہمدردی رکھتے ہیں، اور خواہش رکھتے ہیں کہ کاش، اتفاقِ رائے اور محبت سے یہ منزل قریب آ جائے۔وہ کالا باغ ڈیم منصوبے کے بہت سے ابتدائی معاملات سے بھی واقفیت رکھتے ہیں۔اُن کا کہنا تھا :'' تیس، پنتیس سال قبل نِیپا کیمپس میں ہم نے سب سے پہلے کالا باغ ڈیم کے بارے سروے کروایا تھا۔اُس وقت ''کے پی کے'' صوبہ سرحد کہلاتا تھا۔کوہاٹ اور بنّوں کے علاقے اِس ڈیم کے حامی تھے۔کہا جا سکتا ہے کہ تین ساڑے تین عشرے قبل بھی ، کالاباغ ڈیم کے حوالے سے، سرحد کے شمالی اور جنوبی حصوں میں تفریق پائی جاتی تھی۔ مفادات کا ٹکراؤ موجود تھا۔اُس وقت بھی نہ سارا صوبہ کالا باغ ڈیم کے حق میں تھا اور نہ سارا مخالف۔ یہی صورتحال اب بھی پائی جاتی ہے لیکن قوم اور ملک کے وسیع تر مفادات میں راستہ نکالنا ہو تو نکل بھی سکتا ہے۔'' اُن کے لہجے کی دردمندی واضح تھی ۔کالا باغ ڈیم کی تعمیر اُن کے بھی دل کے قریب ہے۔

کہا جاتا ہے کہ80ء کے عشرے میں (سابق صوبہ سرحد کے ایک ''بزرگ'' سیاستدان) ڈیرہ اسماعیل خان گئے تو وہاں انھوں نے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے خلاف پہلا بیان دیا تھا۔ اور پھر چل، سو چل۔ پچھلے تین، ساڑھے تین عشروں کے دوران کالاباغ ڈیم کے منصوبے کے پُلوں کے نیچے سے مخالفت کا بہت سا پانی تو بہہ چکا ہے لیکن اصل پانی مجوزہ ڈیم میں جمع نہیں کیا جا سکا ہے۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ سارے ملک میں پانی، بجلی، توانائی اور زراعت کے بحران منہ کھولے کھڑے ہیں اور بھارت ہمیں صحرا بنانے کی دھمکیاں بھی دینے لگا ہے۔راز دانوں کا کہنا ہے کہ جنرل ضیا ء الحق کے دَور میں کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے جنرل صاحب کے وزیر خزانہ اور وزیر منصوبہ بندی کی اجازت سے ایک اہم کانفرنس بھی ہُوئی تھی۔

شنید ہے کہ بعد ازاں کا لا باغ ڈیم کے حوالے سے جب منظوری کے لیے ایک فائل جنرل مرحوم کے وزیر خزانہ کے پاس بھیجی گئی تو انھوں نے اس پر ایک معنی خیز نوٹ اِن الفاظ میں لکھا:''مستقبل کا پاکستان اگر ایک جھیل سے وابستہ ہے تو یہ ایک اچھا منصوبہ ہے۔''کالا باغ ڈیم کا ذکر انھوں نے اشارتاً''جھیل'' سے کیا تھا۔ بہر حال کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے حوالے ہی سے اُنہی ایام میں ایک اور اہم ترین میٹنگ ہُوئی تھی۔ اِس کی صدارت اُس وقت کے چیف سیکریٹری سرحد(کے پی کے) کررہے تھے(یہ وہی صاحب ہیں جو حالیہ نگران حکومت میں وفاقی وزیر بھی تھے) رازدانوں کا کہنا ہے کہ اس میٹنگ میں کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے بارے میں تقریباً اتفاقِ رائے ہو چکا تھا۔ بس دریائے کابل کے بارے میں تھوڑے سے تحفظات تھے لیکن منزل کھوٹی کرنے والے بھی تو بہت تھے۔ جب منزل سامنے نظر آنے لگی تو جنرل مرحوم کے وزیر منصوبہ بندی نے مبینہ طور پر سابق چیف سیکریٹری سرحد (کے پی کے)وغیرہ کو ڈانٹا اور کالا باغ ڈیم بارے کئی نقائص نکال دیے۔ اِس کی خبر فوری طور پر اُن لوگوں تک پہنچ گئی جو ڈیم کے مخالف تھے۔ بس وہ اِسے لے اُڑے۔ تبھی اُن کی طرف سے یہ بیان بھی سامنے آیاتھا :''کالا باغ ڈیم بنا تو ہم اسے بم سے اُڑا دیں گے۔''

جنرل مرحوم کے دونوں وزیر صاحبان اور یہ بیان دینے والے، تینوں اپنے خالق کے پاس پہنچ چکے ہیں۔ اُن سے منسوب روایات میں نہیں معلوم کتنی سچائی ہے لیکن یہ بات دل کے قریب لگتی ہے کہ کالا باغ ڈیم کو ایک نہ ایک دن ضرور بننا ہے۔ اِس کے لیے کشت وخون اور مخالفت و معاندت کی نہیں، محبت اور مفاہمت کی ضرورت ہے۔ سابق چیئرمین واپڈا شمس الحق اور ظفر محمود ایسے آبی ماہرین کو بطور چیلنج قومی میڈیا پر لانا ہوگا جو سنجیدہ دلائل اور ٹھوس اعدادو شمار کی بنیاد پر کالا باغ ڈیم کے مخالفین کو بتا سکیں کہ ڈیم مذکور کے بارے ظاہر کیے گئے خدشات بے بنیاد ہیں۔واقعہ یہ ہے کہ خالص قومی مفاد عزیز تر ہو تو درپیش مسائل کے کئی حل نکل آتے ہیں۔ چلیے کالا باغ ڈیم فی الحال نہ سہی، دیامر بھاشا ڈیم ہی بن جائیں؛ چنانچہ ہم سب کو چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب کی شروع کردہ تحریک کا دامے درمے ساتھ دینا چاہیے۔ یہ آبی بند تعمیر ہونگے تو پانی، زراعت اور توانائی کے ہمارے جان لیوا بحران حل ہوں گے۔یہ ڈیم بنیں گے تو اِن کے گہرے پانیوں میں بھارتی بلیک میلنگ بھی ڈُوب جائے گی۔ انشا ء اللہ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں