میں بھی منصور ہوں
ان پہاڑ جیسے قرضوں میں عمران خان کا رتی برابر ہاتھ نہیں ہے
قرضہ کیسے اترے گا؟ یہی سوال پریشان کیے ہوئے ہے، ہر دردمند دل رکھنے والے پاکستانی کو یہی فکر لاحق ہے اور ''بے درد'' ہنس رہے ہیں، کھیل تماشے میں مصروف ہیں اور ''بے درد'' وہی ہیں جنھوں نے ملک پر قرضہ چڑھایا ہے۔ عمران خان 22 سال سے یہی کہتا چلا آرہا ہے کہ ملک کو حکمرانوں نے لوٹ کر اپنی جائیدادیں بنالی ہیں، اپنے خزانے بھر لیے ہیں۔ ان پہاڑ جیسے قرضوں میں عمران خان کا رتی برابر ہاتھ نہیں ہے۔ عمران خان کا ذکر یوں آگیا کہ اس وقت وہ پاکستان کا وزیراعظم ہے اور سابقہ حکمران جماعتیں، مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، اے این پی، مولانا فضل الرحمن اور ان کے اتحادی، عمران خان ہی کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔
اس کو برا بھلا کہہ رہے ہیں۔ میرا اور کروڑوں پاکستانیوں کا مسئلہ اول و آخر یہی ہے کہ قرضہ اتر جائے۔ اگر عمران خان کو برا بھلا کہہ کر قرض اتر جائے گا تو یہ کام جاری رکھو۔ مگر ایسا نہیں ہوگا۔ گھڑی بھر کو ہم مان لیتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی والے بڑے پاک صاف، نیک لوگ ہیں، ان سے بڑھ کر محب وطن اور کوئی نہیں، تو صرف ان دونوں پارٹیوں کی ملک اور بیرون ملک جو دولت، جائیدادیں پڑی ہیں، انھیں بیچ کر ملک بچانے کی خاطر، قرضہ اتار دیں۔ شہباز شریف نے پارلیمنٹ میں اپنے ایک گھنٹہ سترہ منٹ خطاب کا اختتام جالب کے مصرعوں پر کیا:
دیپ جس کا محلات ہی میں جلے
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے
ایسے دستور کو صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا
میں بھی خائف نہیں تختہ دار سے
میں بھی منصور ہوں، کہہ دو اغیار سے
کیوں ڈراتے ہو، زنداں کی دیوار سے
ظلم کی بات کو، جہل کی رات کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا
شہباز شریف صاحب! فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے ہیبت ناک مارشل لا کے دور میں جب کہ گورنر نواب امیر محمد خان آف کالا باغ بھی تخت نشین تھا، تب ایک غریب شاعر نے جبر کے خلاف آواز بلند کی تھی۔ سیاسی لیڈرو! ذرا غور کرو، جب حبیب جالب نے آج سے پچاس سال پہلے یہ آواز بلند کی تھی، تو جالب کس آگ میں جل رہا تھا۔ اس نے اپنے بچے تک وطن کی چاہ میں قربان کردیے۔
ورنہ آج اس کے بچے بھی پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوتے۔ میں پھر اسی کیفیت کی طرف آتا ہوں کہ ایوب خان کے خلاف جالب کا اعلان بغاوت کیا تھا؟ تو اے شہباز شریف اور دوسرے سیاستدانوں! تم بھی اعلان بغاوت کا عملاً اعلان کرتے ہوئے، اپنے محل، اپنے مال و دولت کو چھوڑ کر اور جو تمہارے پاس ہے ملک پر نچھاور کرتے ہوئے سڑک پر آجاؤ، اور پاکستان کو لوٹنے والوں کے خلاف ڈٹ جاؤ۔ اپنوں سے بھی لندن فلیٹ، کارخانے، بینک بیلنس لے لو، ملک کا قرضہ اتر جائے گا، ملک بچ جائے گا، اکھاڑہ سلامت ہوگا تو سیاسی دنگل بھی ہوتے رہیں گے۔ ذوالفقار علی بھٹو اور بی بی بے نظیر بھٹو بھی جالب کے شعر پڑھتے تھے، اپنے جلسوں کو جالب کے اشعار سے سجاتے تھے۔ بھٹو اور بے نظیر بھٹو اپنی جانیں وار کر ہر سطح پر سرخرو ٹھہرے۔ اب آصف زرداری اور بلاول بھٹو بھی اپنی ساری دولت، جائیدادیں، شوگر ملیں اور مال و متاع پاکستان پر نچھاور کرکے ملک بچا لیں۔ پیپلز پارٹی والے تو جالب کو خاص طور پر اپنا شاعر کہتے ہیں وہ بی بی کے لیے کہے جالب کے اشعار آج بھی پڑھتے ہیں:
ڈرتے ہیں بندوقوں والے ایک نہتی لڑکی سے
پھیلے ہیں ہمت کے اجالے ایک نہتی لڑکی سے
بی بی اپنی تقریر کا آغاز جالب کے ان مصرعوں سے کرتی تھیں اور قلم کی جگہ علم پڑھتی تھیں :
مرے ہاتھ میں ''علم'' ہے، مرے ذہن میں اجالا
مجھے کیا دبا سکے گا، کوئی ظلمتوں کا پالا
مجھے فکرِ امنِ عالم، تجھے اپنی ذات کا غم
میں طلوع ہو رہا ہوں، تو غروب ہونے والا
یاد رہے کہ جالب نے یہ قطع اس وقت کہا تھا جب فیلڈ مارشل ایوب خان نے ان کی کتاب ''سرِ مقتل'' ضبط کی تھی۔ مجھے خوب یاد ہے، پیپلز پارٹی جب عوام میں اپنے قدم جما رہی تھی تب ذوالفقار علی بھٹو کے جلسے جالب کے ان مصرعوں سے سجائے جاتے تھے:
کھیت وڈیروں سے لے لو
ملیں لٹیروں سے لے لو
ملک اندھیروں سے لے لو
رہے نہ کوئی عالی جاہ
یہ دوسری بات کہ بوجوہ بھٹو ان اشعار پر عمل نہ کرسکے، مگر یہ سچ ہے بھٹو غریبوں کے لیے بہت کچھ کرنا چاہتے تھے۔ اور اسی بات کی ان دونوں باپ بیٹی کو سزا دی گئی، ورنہ 52 سال اور 54 سال کوئی جانے کی عمریں ہوتی ہیں۔ میر مرتضیٰ بھٹو اور شاہنواز بھٹو بھی مارے گئے۔ بلاول کچھ تو سوچو، تمہیں اور بی بی کو حوالہ بناکر جالب نے کہا تھا ''ہر بلاول ہے دیس کا مقروض/ پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے'' اس وقت تو دیس کا ہر بلاول چند ہزار کا مقروض تھا جب کہ آج ہر بلاول لاکھوں کا مقروض ہے۔ بھٹو اور بے نظیر بھٹو بقول علامہ اقبال ''تھے تو آباء وہ تمہارے ہی مگر تم کیا ہو'' بلاول بھٹو، آصف زرداری اس ملک سے بنائے ہوئے ''مال و متاع'' کو واپس کرکے زمانے کو بتا دو کہ ''تم کیا ہو؟'' بڑی اچھی بات ہے کہ پچھلے 30 سال کے حکمران ایک ہوگئے ہیں۔
بہت اچھا ہوا۔ اب میاں شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری سر جوڑ کر بیٹھ جائیں اور ملک کا قرضہ اتارنے کے لیے اپنے اپنے اثاثے لے آئیں اور قرض اتار کر عوام کو ہمیشہ کے لیے خرید لی۔ ورنہ بقول نظیر اکبر آبادی ''سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارہ'' اب ذرا شہباز شریف توجہ کریں جو خود کو ''منصور حلاج'' کہہ رہے ہیں غور کریں ''منصور حلاج نے ایک ہی نعرے سے سارے معاشرے کے ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا، اس نے کہا ''اصل طواف تو کعبۂ دل کا ہے'' تو سلطنت عباسیہ (جو حرمین شریفین کی محافظ بنی بیٹھی تھی) پر رعشہ طاری ہوگیا۔ اس نے کہا ''مجھے مار ڈالو کہ میری اور میرے خالق کی روح ایک ہے، اور یوں مل چکی ہے جیسے مشک اور عنبر ایک دوسرے میں جذب ہوجاتے ہیں۔'' حکمرانوں کا کردار دیکھ کر جالب کو کہنا پڑا۔
اے چاند یہاں نہ نکلا کر
بے نام سے سپنے دیکھا کر
یہاں الٹی گنگا بہتی ہے
اس دیس میں اندھے حاکم ہیں
نہ ڈرتے ہیں نہ نادم ہیں
نہ لوگوں کے وہ خادم ہیں
ہے یہاں پہ کاروبار بہت
اس دیس میں گردے بکتے ہیں
کچھ لوگ ہیں عالی شان بہت
اور کچھ کا مقصد روٹی ہے
وہ کہتے ہیں سب اچھا ہے
مغرب کا راج ہی سچا ہے
یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا
اے چاند یہاں نہ نکلا کر
شہباز شریف صاحب! یہ جو تم کہتے ہو ''میں بھی منصور ہوں'' یہ بہت بھاری ذمے داری ہے، جالب تو یہ ذمے داری ساتھ ایمان کے پوری کرگیا، سیاستدانوں! تم بھی یہ ذمے داری پوری کر گزرو، اور ہمیشہ کے لیے امر ہوجاؤ۔