ذرا سوچ سمجھ کے

شہروں میں پڑھی لکھی باصلاحیت خواتین بھی مردوں کے زیر اثر ہیں اور ان کے استحصال کا شکار بھی۔

شہروں میں پڑھی لکھی باصلاحیت خواتین بھی مردوں کے زیر اثر ہیں اور ان کے استحصال کا شکار بھی۔

کسی بھی ملک و قوم کی ترقی کا دارومدار اس کے افراد کے براہ راست فعل و عمل پر ہوتا ہے۔ اگر کسی قوم کے افراد محنت کش، تعلیم یافتہ، ہنرمند اور اپنی صلاحیتوں سے نہ صرف آگاہ بلکہ ان کو اپنے وطن عزیز کی بے لوث خدمت کرکے ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے جذبے سے بھی سرشار ہوں۔

مگر وہ قوم جس کے افراد تعلیمی میدان میں پیچھے ہوں کسی ہنر سے ناواقف اور محنت سے جی چراتے ہوں اور عام طور پر صرف ایک فرد پورے کنبے کا کفیل ہو تو قوم کی ترقی کی رفتار سست ہی نہیں بلکہ نہ ہونے کے برابر رہ جاتی ہے۔ دیہی علاقوں میں لوگ بے حد جفاکش اور محنتی ہونے کے باوجود اپنے وڈیرے اور جاگیردار کے حکم کے تابع ہوتے ہیں۔ لہٰذا وہ ملکی ترقی میں اپنی محنت تو شامل کرتے ہیں مگر اپنی صلاحیتوں کو اپنی مرضی سے بروئے کار نہیں لاسکتے۔ یہ تو ایک چھوٹی سی مثال ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ ہر طرح اور ہر قسم کے استحصال کا شکار ہے، یہ مثال تو بڑی مشہور ہوچکی ہے کہ 98 فیصد افراد پر دو فیصد مراعات یافتہ طبقہ قابض ہے۔

ذرایع ابلاغ کے فروغ کے باعث پاکستانی عوام کی شعور و آگاہی میں کچھ نہ کچھ اضافہ ہوا ہے۔ ملک کی نصف سے زیادہ آبادی خواتین پر مشتمل ہے، ان خواتین کا زیادہ حصہ دیہی علاقوں میں اپنی روایات اور رسم و رواج کے باعث بے حد کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہا ہے۔ دیہی خواتین بے حد ہنرمند ہیں اور کئی قسم کی دستکاری سے آگاہ بھی۔ پورا دن محنت مشقت کے ساتھ اپنے ہنر اور سلیقے سے بھی کچھ نہ کچھ کرنے کے قابل، مگر ان کی محنت اور ہنر شہروں میں آکر بے حد اہم اور قیمتی ہوجاتا ہے اس کا معاوضہ انھیں دو وقت کی روٹی تک فراہم نہیں کرسکتا۔

ان کے بچوں کا مستقبل روشن کرنے کے لیے کوئی منصوبہ بندی کسی بھی دور میں نہیں کی گئی۔ ان کے ہنرمند ہاتھوں کی قدر کرنے والا کوئی نہیں بلکہ شہر کے لوگ بے حد ارزاں نرخوں پر ان کا ہنر خرید کر شہروں میں خوب کما رہے ہیں۔ ان ہی ہنرمند خواتین کی بنائی ہوئی دستکاری کے شاہکار بیرون ملک بھی بے حد پسند کیے جاتے اور قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ اس طرح خاصا زر مبادلہ ملک کو حاصل ہوتا ہے۔ مگر ان ہنرمند خواتین کے حالات میں کوئی فرق نہیں آتا۔ یہ تو وہ خواتین ہیں جو ناخواندگی کے باعث نہ اپنے ہنر کی قیمت سے آگاہ ہیں اور نہ ہی اپنے حقوق سے۔

مگر شہروں میں پڑھی لکھی باصلاحیت خواتین بھی مردوں کے زیر اثر ہیں اور ان کے استحصال کا شکار بھی۔ اسکول، کالج، اسپتال، بینکوں اور دیگر اداروں میں کام کرنے والی خواتین نہ صرف ملازمت کرکے معاشی طور پر اپنے گھر کو سنبھال رہی ہیں بلکہ اپنے گھریلو معاملات کو بھی بڑے سلیقے سے چلانے کے ساتھ ساتھ معاشرے میں رفاعی، خدمت خلق کے علاوہ دیگر کاموں میں بھی بھرپور حصہ لینے کے باوجود خود اپنے گھرکے مردوں کے منفی رویے کے باعث کئی طرح کے مسائل کا شکار ہیں۔


جس ملک کی نصف سے زائد آبادی کے ملکی ترقی میں فعال ہونے پر قدغن ہو، جن کی صلاحیتوں کو طرح طرح سے دبایا جاتا ہو، جن کے آگے بڑھنے کے تمام راستے مسدود کردیے جاتے ہیں، اسی معاشرے میں سیاسی مفادات کی خاطر خواتین کے حقوق اور صلاحیتوں پر بھروسہ کرنے کے بلند بانگ دعوؤں، اعلانات اور سرپرستی کی جاتی ہے اور خواتین کو یہاں بھی اپنی سیاسی طاقت بڑھانے ہی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ان کو بھی مردوں کے قائم کردہ دائروں میں ہی حرکت کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔

وہ اپنی صوابدید اور صلاحیت سے خود سب کو پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھنے کی جسارت نہیں کرسکتیں۔ اس مرتبہ سیاسی میدان میں ہر پارٹی کے پلیٹ فارم سے کئی باصلاحیت، تعلیم یافتہ، روشن خیال اور کچھ کر گزرنے والی خواتین اور لڑکیوں نے میدان سیاست میں قدم رکھا ہے۔ انھیں کافی سراہا بھی گیا اور ٹی وی چینلز پر بھی ان کو خاصی پذیرائی حاصل ہوئی۔ لیکن ہمارے کچھ اینکر پرسن کا رویہ ان کے ساتھ کچھ مفادانہ قسم کا ہوتا ہے۔ چبھتے ہوئے سوالات کرنا اور جملوں سے ان کی حوصلہ شکنی کا رجحان صاف پہچانا جاتا ہے۔ ٹی وی ناظرین ان کے رویے کے پس پشت کارفرما عوامل کو خوب سمجھتے اور پہچانتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ ٹیوٹر پر ان کے خلاف منفی بحث اور خیالات کا اظہار بھی کیا جارہا ہے جو اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ مردوں کے معاشرے میں عورتوں کی جانب مثبت انداز فکر کی حوصلہ افزائی ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔

حیرت تو ہمیں اس وقت ہوئی جب ہمارے ایک کالم نگار جو بڑے شگفتہ انداز تحریر کے مالک ہیں اور جن کو ہم بے حد لبرل اور روشن خیال سمجھتے تھے، ان کے کالم میں جب ہم نیخواتین کے خلاف پڑھا تو ہمیں احساس ہوا کہ آبادی کا نصف نہیں بلکہ 90 فیصد حصہ بھی اگر خواتین پر مشتمل ہو اور مرد دس فیصد بھی ہوں تو بھی یہ خواتین کو خود سے آگے بڑھتا ہوا دیکھ ہی نہیں سکتے۔ ان کا کام تو صرف اپنا نقطہ نظر پیش کرنا ہے (جو ذہن میں ہوتا ہے وہی قلم سے نکلتا ہے) کہ خوف خدا نہ خیال آخرت۔ اسلام نے عورت کو کیا مقام و مرتبہ دیا ہے یہ بحث اس موضوع کا حصہ نہیں مگر یہ تو ضرور کہا جاسکتا ہے کہ عورت کے کردار پر بلاثبوت محض مفروضوں کی بنیاد پر بہتان لگانے کی اسلام ہی نہیں ہر مہذب معاشرے میں بھی کیا حدود ہیں۔

ہمارے دین نے عورت کی کردارکشی کو نہ صرف گناہ کبیرہ قرار دیا ہے بلکہ اس کی سخت مذمت بھی کی گئی ہے۔ کیونکہ اگر اس مسئلے کو معاشرتی تناطر میں دیکھا جائے تو خود سوچیے کہ آپ کے کہے ہوئے، لکھے ہوئے اور بیان کیے گئے چند جملے ایک عورت کی ساری زندگی کا رخ بدل سکتے ہیں۔ ان ہی بیانات کی بنیاد پر معاشرہ اس کے گرد جال بن دیتا ہے۔ آپ تو چند جملے کہہ کر فارغ ہوگئے مگر آپ نے کبھی سوچا کہ وہ خواتین کن کن کٹھن مراحل سے گزر کر اپنی خاندانی روایات سے ٹکرا کر آج اپنی ذاتی قابلیت اور صلاحیت کی بنا پر اس مقام پر پہنچی ہیں کس طرح انھوں نے کن کن حالات میں اپنا دامن بچا کر اپنی عزت کو نہ صرف برقرار رکھا بلکہ اپنے مثبت رویے اور انداز فکر سے دوسروں سے بھی خود کو تسلیم کروایا۔

ایسی باہمت و باصلاحیت خواتین پر ہمیں فخر کرنے کے بجائے ان کی حوصلہ شکنی کرنا کیا زیب دیتا ہے؟ میں تو سمجھتی ہوں کہ وہ چاہے اپنے گھر کے مرد (باپ، چچا، بھائی یا شوہر) ہوں یا ذرایع ابلاغ سے منسلک افراد جو خود کو ''عقل کل'' سمجھتے ہیں بظاہر خود کو روشن خیال اور غیر متعصب تصور کرتے ہیں وہ شاید خواتین پر کیچڑ اچھالتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ ماشاء اﷲ وہ بھی بہنوں کے بھائی اور بیٹیوں کے باپ ہیں۔ اگر کل ان کی اپنی بہنیں، بیٹیاں قابلیت اور صلاحیت سے مالا مال ہوکر کسی بھی ادارے میں کسی بھی میدان میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے کے لیے نکلیں اور ان پر بھی لوگ اسی طرح انگلیاں اٹھائیں تو خود ان کے دل پر کیا گزرے گی؟ کردار کشی کسی کی بھی ہو اور بلاجواز ہو وہ چاہے مرد ہو یا عورت بہرحال ذہنی دیوالیہ پن کے زمرے ہی میں آتی ہے، خاص کر محض صنفی تعصب کی بنا پر عورتوں پر بہتان تراشنا۔ نہ خدا معاف کرتا ہے اور نہ معاشرہ۔ ایسی حرکت کا بدلہ اسی دنیا میں فوراً نہ سہی اگلی نسل تک ضرور مل جاتا ہے (بے شمار مثالیں اس کی دنیا میں بکھری پڑی ہیں) اور رہی آخرت تو یہ تو آپ کا اور آپ کے ربّ کا معاملہ ہے۔ اگر خوف خدا دل میں ہو تو۔۔۔

ایک مخصوص انداز فکر رکھنے والوں کی طرف سے جب ہر لمحہ خواتین پر عرصہ حیات تنگ کیا جارہا ہو۔ ہر قسم کا تعصب اور جانبداری عورتوں کے لیے عام کی جارہی ہو، ایسے میں پڑھے لکھے افراد کو اپنا فرض سمجھتے ہوئے اس ماحول اور انداز فکر کے خلاف اپنا کردار ادا کرنے کی بے حد ضرورت ہے ناکہ وہ بھی تنگ نظر اور متعصب افراد کے ہاتھ مضبوط کرنے لگیں۔ خدارا! جو بھی لکھیں، بولیں ذرا سوچ سمجھ کر۔
Load Next Story