غربت کے خاتمے کیلئے ہنگامی اقدامات کرنا ہوں گے
حکومت 100 روزہ پلان کی روشنی میں غربت سمیت تمام مسائل کے حل کیلئے تندہی سے کام کر رہی ہے
ترقی پذیر ممالک کو درپیش مسائل میں ایک بڑا مسئلہ غربت ہے جس سے معاشی ،سماجی و دیگر مسائل منسلک ہیں۔ غربت، محرومی، عدم مساوات کے خاتمے اور غرباء کا معیار زندگی بلند کرنے کے لیے 17اکتوبر کو دنیا بھر میں غربت کے خاتمے کا عالمی دن منایا جاتا ہے تاکہ ترقی پذیر ممالک سمیت عالمی برادری میں اس حوالے سے احساس پیدا کیا جاسکے۔
اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف میں پہلا ہدف غربت کا خاتمہ ہے۔ پاکستان بھی ان اہداف کو حاصل کرنے کا پابندہے جس کی ڈیڈ لائن 2030ء ہے۔ پاکستان میں غربت کی صورتحال اور حکومتی پالیسیوں و اقدامات کا جائزہ لینے کیلئے ''غربت کے خاتمے کے عالمی'' دن کے موقع پر ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت و سول سوسائٹی کے نمائندوں، سیاسی تجزیہ نگاروں اور ماہرین معاشیات کو مدعو کیا گیا۔ ان سے ہونے والی گفتگو نذرقارئین ہے۔
محمد اجمل چیمہ
(صوبائی وزیر برائے سوشل ویلفیئر و بیت المال پنجاب)
ہمارے 100 روزہ پلان میں غربت سمیت تمام بڑے چیلنجز سے نمٹنے کیلئے لائحہ عمل موجود ہے جس پر تندہی سے کام ہورہا ہے لہٰذا عوام کو جلد بہتری نظر آئے گی۔ میں نے عہدہ سنبھالنے کے بعد اپنے محکمے کی رپورٹ طلب کی تو معلوم ہوا کہ سابق حکومتوں نے غربت کے خاتمے کے حوالے سے کوئی ریسرچ کی اور نہ ہی ٹھوس کام کیا۔ ہماری آبادی میں کروڑوں افراد کا اضافہ ہوا مگر کوئی لائحہ عمل تیار نہیں کیا گیا۔ اسی طرح بچوں کی نشونما درست نہیں ہورہی مگر اس طرف بھی کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ بدقسمتی سے سابق حکومتوں کی ترجیحات ہی کچھ اور تھیں جس کے باعث مسائل میں اضافہ ہوتا گیا۔
مجھے تعجب ہوا کہ میرے محکمے سے منسلک اداروں کی عمارتیں تو موجود ہیں مگر ان میں عملہ انتہائی کم ہے جس کے باعث موثر کام نہیں ہورہا بلکہ معاملات این جی اوز کے سپرد کرکے کام چلایا جارہا تھا۔ اس ساری صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد اب میں نے ادارے کی بہتری کیلئے دن رات کام شروع کردیا ہے تاکہ عوام کو سہولیات فراہم کی جاسکیں۔ حکومت تمام محکموں کو بہتر کرنے کیلئے پالیسی بنا رہی ہے، اس حوالے سے یکسوئی سے کام جاری ہے مگر ہمیں چند دنوں میں ہی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جو درست نہیں۔ مسائل زیادہ ہیں جن کا فوری حل ممکن نہیں لہٰذا ہمیں تھوڑا وقت دیا جائے۔
ہمارا ادارہ بے سہارا افراد کو تحفظ فراہم کرتا ہے، بے گھر لوگوں کو پناہ دیتا ہے مگر افسوس ہے کہ ماضی میں اس محکمے کو نظر انداز کرکے لوگوں کو بے سہارا چھوڑ دیا گیا۔ ہم اس حوالے سے موثر پالیسی بنا رہے ہیں لہٰذا مخیر حضرات کے تعاون سے غرباء کے مسائل حل کریں گے۔ ایک بات سب کو سمجھنی چاہیے کہ جب تک تمام لوگ مل کر یکسوئی سے اپنے اپنے حصے کا کام نہیں کریں گے تب تک غربت سمیت دیگر مسائل کا خاتمہ نہیں ہوگا۔ اس حوالے سے عوام کو گلی محلوں کی سطح پرمختلف کمیٹیاں بناکر سماجی خدمت کرنی چاہیے۔
ہمارے ملک میں ملازمت کے اوقات اور کام کی نوعیت کے حوالے سے مسائل موجود ہیں، کوئی 20 گھنٹے کام کرتا ہے اور کوئی 8 گھنٹے جبکہ بعض افراد کام نہ کرنے کی تنخواہ لیتے ہیں۔ اس تفریق سے غربت میں اضافہ اور ایک مخصوص طبقے کا استحصال ہورہا ہے، جس کا خاتمہ ضروری ہے۔ یورپ میں شہریوں کی تعلیم و دیگر بنیادی سہولیات کا تحفظ ریاست کررہی ہے۔ وہاں عوام کے ٹیکس کے پیسے سے لوگوں کو سہولیات دی جارہی ہیں اور جب وہ کمانے کے قابل ہوتے ہیں تو اپنی کمائی سے ٹیکس دے کر دوسروں کی مدد کرتے ہیں۔ یورپ میں تمام لوگ کام کرتے ہیں مگر ہمارے لوگ کام کرنے میں عار محسوس کرتے ہیں لہٰذا ہمیں معاشرتی خرابیوں کو دور کرنا ہوگا۔ ہمیں تمام مسائل کا ادراک ہے لہٰذا ہم عوام دوست پالیسیاں لا کر پاکستان کو صحیح معنوں میں اسلامی فلاحی ریاست بنائیں گے۔
ڈاکٹر عاصم اللہ بخش
(سیاسی تجزیہ نگار)
غربت کوصرف خط غربت سے نیچے رہنے والے افراد کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے حالانکہ اس کا تعلق کسی بھی ملک کی سیاسی، سماجی اور معاشی پالیسیوں سے ہے۔ جس ملک کی حکومتی پالیسیاں کامیاب ہیں وہاں غربت نہیں ہے لیکن جہاں یہ پالیسیاں ناکام ہیں وہاں غربت زیادہ ہے۔ میرے نزدیک غربت کا مطلب یہ ہے کہ ملک کی پالیسی فریم ورک اورعملدرآمد میں سے کسی ایک یا دونوں میں مسئلہ ہے۔ اسے بہتر کرنے سے غربت کا خاتمہ ممکن ہے۔ تاریخ کے تناظر میں بات کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ جن ممالک میں غربت حد سے زیادہ بڑھ جائے وہاں جرائم میں اضافہ اور انقلاب کا راستہ استوار ہوجاتا ہے۔
بریٹن وڈز معاہدے کے بعد سے اقوام متحدہ یا دیگر عالمی اداروں کی پالیسیوں میں غربت کا خاتمہ لازمی جزو ہے جن میں اقوام متحدہ کے ہزاریہ ترقیاتی اہداف (ایم ڈی جیز) اور پائیدار ترقی کے اہداف(ایس ڈی جیز) شامل ہیں۔ تیسری دنیا کے ممالک میں غربت کا مسئلہ روز بروز بڑھتا جا رہا ہے جس کی وجہ آبادی میں اضافہ بتایا جاتا ہے لیکن درحقیقت اس کی بڑی وجہ کمزور جمہوریت ہے۔ ان ممالک میں عوام کی آواز کو دبایا جاتا ہے، لوگ مل جل کر کام نہیں کر پاتے جس کے باعث متاثرہ طبقہ مزید متاثر ہوجاتا ہے۔ ہمارے ہاں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ غربت کے اشاریوں میں تبدیلی کرکے غربت کے اعداد و شمار بدل دیے جاتے ہیں جبکہ عملی طور پر کام نہیں ہوتا۔ خط غربت تبدیل کرنے سے غربت کی جو شرح 2001ء میں 9 فیصد تھی وہ 2016میں 29 فیصد پر چلی گئی۔آمدن کو سوا ڈالر روزانہ سے بڑھا کر 2 ڈالر کردیا گیا۔ پھر غربت کو خوراک و دیگر بنیادی ضروریات سے بھی جوڑ دیا گیا۔ میرے نزدیک ایسا کرکے حقائق چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
اعداد و شمار مددگار ہوتے ہیں مگر بسا اوقات ان سے خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر دوافراد میں سے ایک کی آمدن 10 ہزار روپے اور دوسرے کی آمدن ایک لاکھ ہو تو اعداد و شمار میں دونوں کی آمدن 55ہزار روپے بن جائے گی جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ افسوس ہے کہ ہماری سوچ حقیقت پسندانہ نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ ہمارا ڈویلپمنٹ ماڈل بھی درست نہیں۔ہماری جی ڈی پی کا 21 فیصد زراعت سے حاصل ہوتا ہے لیکن اس شعبے کے حوالے سے موثر منصوبہ بندی موجود نہیں۔ زرعی شعبے میں بھی مسائل بہت زیادہ ہیں جہاں ایک مزدور کی جگہ 10 مزدور کام کررہے ہیں مگر ان کی اجرت و حقوق کی حالت ابتر ہے۔
زرعی و دیگر شعبوں میں خواتین کو روزگار کے حصول میں مشکلات ہیں جبکہ دیگر چیلنجز بھی ان کے کیرئیر میں رکاوٹ ہیں۔ افسوس ہے کہ بے روزگاری میں اضافہ ہورہا ہے اور نوجوانوں کو تعلیم حاصل کرنے کے بعد ملازمت نہیں مل رہی۔ حکومت کو معاشی بہتری کیلئے صنعتکاری، زراعت و دیگر شعبوں کو فروغ دینا ہوگا۔ آئی ایم ایف کی شرائط میں شرح سود میںا ضافہ، روپے کی قدر، حکومتی اخراجات اور ڈویلپمنٹ بجٹ میں کمی شامل ہیں، اس سے لوگوں کی مشکلات زیادہ جبکہ روزگار کے مواقع کم ہوجائیں گے۔
میرے نزدیک حکومت کو معیشت میں گروتھ انجن لگانے ہوں گے کیونکہ کوئی بھی ملک محض ٹیکس میں اضافہ یا اخراجات کم کرکے ترقی نہیں کرسکتا۔ پاکستان میں موبائل فونز کی وجہ سے لاکھوں لوگوںکو روزگار ملا، جگہ جگہ موبائل ریپئرنگ لیبارٹریاں بنیں جبکہ موبائل اسیسریز کی دکانوں و سٹالز سے بھی لوگوں کو ذریعہ معاش کمانے کا موقع ملا۔ اسی طرح UPS کی وجہ سے بھی روزگار کے بہت سارے مواقع پیدا ہوئے لہٰذا جب نئی چیز آتی ہے تو روزگار کے مواقع خود بخود پیدا ہوجاتے ہیں۔ حکومت کو لوگوں کی قوت خرید بہتر کرنے کیلئے انڈسٹری، زراعت و دیگر شعبوں کو بہتر بنانا ہوگا۔ قوت خرید میں اضافے سے ڈیمانڈ بڑھتی ہے جس سے پروڈکشن میں اضافہ ہوتا ہے اور پھرروزگار کے نئے مواقع پیدا ہوجاتے ہیں۔
ڈاکٹر جویریہ قیس
(ماہر معاشیات)
غربت کا انڈیکیٹر 2 ڈالر آمدن روزانہ ہے۔ اس حساب سے پاکستان میں 40فیصد غریب ہیں لیکن خط غربت سے تھوڑا اوپر 4 ڈالر روزانہ کمانے والوں کی تعداد کا جائزہ لیا جائے تو وہ بھی 40 فیصد ہے یعنی مجموعی طور پر پاکستان میں 80فیصد لوگ غریب ہیںجن کی معاشی حالت بہتر کرنے کے لیے حکومت کو کام کرنا ہوگا۔
ان اعداد و شمار کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ غرباء کی تعداد بہت زیادہ ہے لہٰذا ایک دن میں اس مسئلے کا خاتمہ ممکن نہیں بلکہ اس کیلئے وقت درکار ہے۔ موثر منصوبہ بندی کے ساتھ کام کرنے سے معاملات بتدریج بہتر ہوجائیں گے۔ ایک بات واضح ہونی چاہیے کہ اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف (ایس ڈی جیز) میں غربت میں کمی کی نہیں بلکہ 2030ء تک اس کے مکمل خاتمے کی بات کی گئی ہے۔ پاکستان نے ان اہداف پر دستخط کیے ہیں لہٰذا ہمیں تندہی سے کام کرنا ہوگا۔
اس وقت ملک میں 0.83ملین بچے اور 0.36 خواتین غذائیت کی کمی کا شکار ہیں جبکہ 50 فیصد بچوں کی اموات 5 سال سے کم عمر میں ہوجاتی ہیں جو تشویشناک ہے۔ اس کی بڑی وجہ غربت ہے جس کے باعث لوگوں کو خوراک، صحت اور اچھا طرز زندگی نہیں مل رہا۔ میرے نزدیک غربت کے خاتمے کیلئے بڑے پیمانے پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ غربت کے خاتمے کے عالمی دن کو غریب کے انسانی حقوق اور وقار سے جوڑا گیا ہے کہ اس کی ''ڈیلی ویج'' کو بہتر کرنا ہوگا تاکہ وہ باعزت زندگی گزار سکیں۔
غربت و دیگر مسائل کے خاتمے کے حوالے سے لوگوں میں آگاہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ انہیں اپنے حقوق کے بارے میں علم ہو۔ اس کے علاوہ مرد و خواتین کو یکساں سماجی انصاف فراہم کیا جائے تاکہ ان کی معاشرتی حالت بہتر ہوسکے۔ تمام لوگوں کی بہتر تعلیم اور بنیادی ضروریات کو تحفظ دینا ہوگا اور ان کیلئے روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنا ہوں گے۔ مسائل بہت زیادہ ہیںجن سے نمٹنے کیلئے حکومتی اقدامات کے ساتھ ساتھ لوگوں میں سماجی ذمہ داری اور خدمت کے جذبے کو فروغ دینا ہوگا۔ وزیر اعظم کی کلین اینڈ گرین پاکستان مہم سے لوگوں کو روزگار ملے گا، اس طرح کے مزید پروگراموں کے ذریعے لوگوں کو روزگار دیا جائے اور ان کی سکلز بہتر کرنے کیلئے ٹریننگ دی جائے۔
بشریٰ خالق
(نمائندہ سول سوسائٹی)
غربت پر بات کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے حکومتی پالیسیوں اور ان پر عملدرآمد کا جائزہ لیا جائے۔ ہمارے ہاں حکومتی سطح پر دولت، وسائل اور مواقعوں میں تضاد ہے ۔ہمارے دیہاتوں اور شہروں میں صورتحال مختلف ہے۔ شہروں کی ترقی پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے جس کے باعث دیہی علاقوں میں رہنے والے آج بھی پسماندہ ہیں۔
یہی صورتحال صوبوں کے درمیان بھی ہے کہ پنجاب میں بلوچستان کی نسبت روزگار ، ترقی و اچھی زندگی کے مواقع زیادہ ہیں۔ حکومت کو یہ تضاد ختم کرنا ہوگا۔ ہماری نصف آبادی خواتین پر مشتمل ہے مگر افسوس ہے کہ ہمارے سماجی رویوں و پالیسیوں کی وجہ سے خواتین کی حوصلہ شکنی ہوتی ہیں اور وہ محرومیوں کا شکار ہیں۔ ملکی ترقی اور مسائل کے خاتمے کیلئے مرد و خواتین کو روزگار اور سماجی انصاف کے یکساں مواقع ملنے چاہئیں۔
حکومت کوبہتر منصوبہ بندی کے تحت خواتین کو مضبوط بنانا اور انہیں معاشی دائرے میں شامل کرنا چاہیے تاکہ وہ اپنا روزگار بہتر طریقے سے کما سکیں۔خواتین کی شرح خواندگی 40 فیصد ہے مگر انہیں ملازمت کے حصول میں مشکلات ہیں اور انہیں وہ تعلیم اور سکلز بھی نہیں سکھائی جارہی جس سے وہ لیبر فورس کا حصہ بن سکیں لہٰذا جب پاکستان کی نصف آبادی براہ راست اپنا روزگار نہیں کماتی تو مسائل پیداہوتے ہیں۔ بیشتر خواتین گھریلو ملازمہ ہیں اور غیر رسمی شعبے میں کام کررہی ہیں جنہیں ان کے حقوق نہیں مل رہے۔ ان کی ملازمت کے اوقات زیادہ مگر تنخواہ کم ہے جبکہ ان کی صحت، سوشل سکیورٹی ودیگر سہولیات نہیں ہیں۔ زراعت میں خواتین کی 100 فیصد شمولیت ہے مگر ان کی سماجی اور معاشی حالت ابتر ہے کیونکہ انہیں معاوضہ بہت کم ملتا ہے۔
اس وقت 1فیصد سے بھی کم ایسی خواتین ہیں جو زمین کی مالک ہیں، حکومت کو بہتر پالیسی بنا کر خواتین کے مسائل حل کرنا ہوں گے۔ چائلڈلیبر ایک بہت بڑا مسئلہ ہے، اس سے معاشی حالت میں کوئی بہتری نہیں آرہی بلکہ ہماری نسلیں تباہ ہورہی ہیں، اس کے خاتمے پر خصوصی طرف توجہ دی جائے۔ غربت کے خاتمے کیلئے ہمیں چھوٹے آسان قرضوں اور بے نظیر انکم سپورٹ جیسے پروگراموں سے آگے بڑھنا ہے۔ اس حوالے سے جامع پالیسی بنا کر ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنا ہوں گے۔
اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف(ایس ڈی جیز)کا پہلا ہدف غربت کا خاتمہ ہے، پاکستان کی حکومت نے بھی ان پر دستخط کیے ہیں، اس حوالے سے ٹاسک فورس بھی بنائی گئی مگر محض ٹاسک فورس یا کمیٹیاں بنانے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا بلکہ ٹھوس عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔ میرا حکومت سے مطالبہ ہے کہ مزدور کی کم از کم اجرت 30 ہزار روپے ماہانہ مقررکی جائے اورغیر رسمی شعبے میں کام کرنے والی خواتین کو قانونی تحفظ دیکر مزدور قرار دینے کے ساتھ ساتھ چائلڈ لیبر کا خاتمہ بھی کیا جائے۔ معاشی پالیسی کو عوام دوست بنایا جائے، لوگوں کو تعلیم اور صحت مفت جبکہ بنیادی خوراک سستی فراہم کی جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ ٹرانسپورٹ کے کرائے کم، بجلی، گیس اور پٹرول سستا کیا جائے۔ زرعی شعبے میں کام کرنے والوں کی حالت قابل رحم ہے، حکومت کو لینڈ ریفارمز کرنی چاہئیں۔
اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف میں پہلا ہدف غربت کا خاتمہ ہے۔ پاکستان بھی ان اہداف کو حاصل کرنے کا پابندہے جس کی ڈیڈ لائن 2030ء ہے۔ پاکستان میں غربت کی صورتحال اور حکومتی پالیسیوں و اقدامات کا جائزہ لینے کیلئے ''غربت کے خاتمے کے عالمی'' دن کے موقع پر ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت و سول سوسائٹی کے نمائندوں، سیاسی تجزیہ نگاروں اور ماہرین معاشیات کو مدعو کیا گیا۔ ان سے ہونے والی گفتگو نذرقارئین ہے۔
محمد اجمل چیمہ
(صوبائی وزیر برائے سوشل ویلفیئر و بیت المال پنجاب)
ہمارے 100 روزہ پلان میں غربت سمیت تمام بڑے چیلنجز سے نمٹنے کیلئے لائحہ عمل موجود ہے جس پر تندہی سے کام ہورہا ہے لہٰذا عوام کو جلد بہتری نظر آئے گی۔ میں نے عہدہ سنبھالنے کے بعد اپنے محکمے کی رپورٹ طلب کی تو معلوم ہوا کہ سابق حکومتوں نے غربت کے خاتمے کے حوالے سے کوئی ریسرچ کی اور نہ ہی ٹھوس کام کیا۔ ہماری آبادی میں کروڑوں افراد کا اضافہ ہوا مگر کوئی لائحہ عمل تیار نہیں کیا گیا۔ اسی طرح بچوں کی نشونما درست نہیں ہورہی مگر اس طرف بھی کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ بدقسمتی سے سابق حکومتوں کی ترجیحات ہی کچھ اور تھیں جس کے باعث مسائل میں اضافہ ہوتا گیا۔
مجھے تعجب ہوا کہ میرے محکمے سے منسلک اداروں کی عمارتیں تو موجود ہیں مگر ان میں عملہ انتہائی کم ہے جس کے باعث موثر کام نہیں ہورہا بلکہ معاملات این جی اوز کے سپرد کرکے کام چلایا جارہا تھا۔ اس ساری صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد اب میں نے ادارے کی بہتری کیلئے دن رات کام شروع کردیا ہے تاکہ عوام کو سہولیات فراہم کی جاسکیں۔ حکومت تمام محکموں کو بہتر کرنے کیلئے پالیسی بنا رہی ہے، اس حوالے سے یکسوئی سے کام جاری ہے مگر ہمیں چند دنوں میں ہی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جو درست نہیں۔ مسائل زیادہ ہیں جن کا فوری حل ممکن نہیں لہٰذا ہمیں تھوڑا وقت دیا جائے۔
ہمارا ادارہ بے سہارا افراد کو تحفظ فراہم کرتا ہے، بے گھر لوگوں کو پناہ دیتا ہے مگر افسوس ہے کہ ماضی میں اس محکمے کو نظر انداز کرکے لوگوں کو بے سہارا چھوڑ دیا گیا۔ ہم اس حوالے سے موثر پالیسی بنا رہے ہیں لہٰذا مخیر حضرات کے تعاون سے غرباء کے مسائل حل کریں گے۔ ایک بات سب کو سمجھنی چاہیے کہ جب تک تمام لوگ مل کر یکسوئی سے اپنے اپنے حصے کا کام نہیں کریں گے تب تک غربت سمیت دیگر مسائل کا خاتمہ نہیں ہوگا۔ اس حوالے سے عوام کو گلی محلوں کی سطح پرمختلف کمیٹیاں بناکر سماجی خدمت کرنی چاہیے۔
ہمارے ملک میں ملازمت کے اوقات اور کام کی نوعیت کے حوالے سے مسائل موجود ہیں، کوئی 20 گھنٹے کام کرتا ہے اور کوئی 8 گھنٹے جبکہ بعض افراد کام نہ کرنے کی تنخواہ لیتے ہیں۔ اس تفریق سے غربت میں اضافہ اور ایک مخصوص طبقے کا استحصال ہورہا ہے، جس کا خاتمہ ضروری ہے۔ یورپ میں شہریوں کی تعلیم و دیگر بنیادی سہولیات کا تحفظ ریاست کررہی ہے۔ وہاں عوام کے ٹیکس کے پیسے سے لوگوں کو سہولیات دی جارہی ہیں اور جب وہ کمانے کے قابل ہوتے ہیں تو اپنی کمائی سے ٹیکس دے کر دوسروں کی مدد کرتے ہیں۔ یورپ میں تمام لوگ کام کرتے ہیں مگر ہمارے لوگ کام کرنے میں عار محسوس کرتے ہیں لہٰذا ہمیں معاشرتی خرابیوں کو دور کرنا ہوگا۔ ہمیں تمام مسائل کا ادراک ہے لہٰذا ہم عوام دوست پالیسیاں لا کر پاکستان کو صحیح معنوں میں اسلامی فلاحی ریاست بنائیں گے۔
ڈاکٹر عاصم اللہ بخش
(سیاسی تجزیہ نگار)
غربت کوصرف خط غربت سے نیچے رہنے والے افراد کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے حالانکہ اس کا تعلق کسی بھی ملک کی سیاسی، سماجی اور معاشی پالیسیوں سے ہے۔ جس ملک کی حکومتی پالیسیاں کامیاب ہیں وہاں غربت نہیں ہے لیکن جہاں یہ پالیسیاں ناکام ہیں وہاں غربت زیادہ ہے۔ میرے نزدیک غربت کا مطلب یہ ہے کہ ملک کی پالیسی فریم ورک اورعملدرآمد میں سے کسی ایک یا دونوں میں مسئلہ ہے۔ اسے بہتر کرنے سے غربت کا خاتمہ ممکن ہے۔ تاریخ کے تناظر میں بات کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ جن ممالک میں غربت حد سے زیادہ بڑھ جائے وہاں جرائم میں اضافہ اور انقلاب کا راستہ استوار ہوجاتا ہے۔
بریٹن وڈز معاہدے کے بعد سے اقوام متحدہ یا دیگر عالمی اداروں کی پالیسیوں میں غربت کا خاتمہ لازمی جزو ہے جن میں اقوام متحدہ کے ہزاریہ ترقیاتی اہداف (ایم ڈی جیز) اور پائیدار ترقی کے اہداف(ایس ڈی جیز) شامل ہیں۔ تیسری دنیا کے ممالک میں غربت کا مسئلہ روز بروز بڑھتا جا رہا ہے جس کی وجہ آبادی میں اضافہ بتایا جاتا ہے لیکن درحقیقت اس کی بڑی وجہ کمزور جمہوریت ہے۔ ان ممالک میں عوام کی آواز کو دبایا جاتا ہے، لوگ مل جل کر کام نہیں کر پاتے جس کے باعث متاثرہ طبقہ مزید متاثر ہوجاتا ہے۔ ہمارے ہاں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ غربت کے اشاریوں میں تبدیلی کرکے غربت کے اعداد و شمار بدل دیے جاتے ہیں جبکہ عملی طور پر کام نہیں ہوتا۔ خط غربت تبدیل کرنے سے غربت کی جو شرح 2001ء میں 9 فیصد تھی وہ 2016میں 29 فیصد پر چلی گئی۔آمدن کو سوا ڈالر روزانہ سے بڑھا کر 2 ڈالر کردیا گیا۔ پھر غربت کو خوراک و دیگر بنیادی ضروریات سے بھی جوڑ دیا گیا۔ میرے نزدیک ایسا کرکے حقائق چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
اعداد و شمار مددگار ہوتے ہیں مگر بسا اوقات ان سے خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر دوافراد میں سے ایک کی آمدن 10 ہزار روپے اور دوسرے کی آمدن ایک لاکھ ہو تو اعداد و شمار میں دونوں کی آمدن 55ہزار روپے بن جائے گی جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ افسوس ہے کہ ہماری سوچ حقیقت پسندانہ نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ ہمارا ڈویلپمنٹ ماڈل بھی درست نہیں۔ہماری جی ڈی پی کا 21 فیصد زراعت سے حاصل ہوتا ہے لیکن اس شعبے کے حوالے سے موثر منصوبہ بندی موجود نہیں۔ زرعی شعبے میں بھی مسائل بہت زیادہ ہیں جہاں ایک مزدور کی جگہ 10 مزدور کام کررہے ہیں مگر ان کی اجرت و حقوق کی حالت ابتر ہے۔
زرعی و دیگر شعبوں میں خواتین کو روزگار کے حصول میں مشکلات ہیں جبکہ دیگر چیلنجز بھی ان کے کیرئیر میں رکاوٹ ہیں۔ افسوس ہے کہ بے روزگاری میں اضافہ ہورہا ہے اور نوجوانوں کو تعلیم حاصل کرنے کے بعد ملازمت نہیں مل رہی۔ حکومت کو معاشی بہتری کیلئے صنعتکاری، زراعت و دیگر شعبوں کو فروغ دینا ہوگا۔ آئی ایم ایف کی شرائط میں شرح سود میںا ضافہ، روپے کی قدر، حکومتی اخراجات اور ڈویلپمنٹ بجٹ میں کمی شامل ہیں، اس سے لوگوں کی مشکلات زیادہ جبکہ روزگار کے مواقع کم ہوجائیں گے۔
میرے نزدیک حکومت کو معیشت میں گروتھ انجن لگانے ہوں گے کیونکہ کوئی بھی ملک محض ٹیکس میں اضافہ یا اخراجات کم کرکے ترقی نہیں کرسکتا۔ پاکستان میں موبائل فونز کی وجہ سے لاکھوں لوگوںکو روزگار ملا، جگہ جگہ موبائل ریپئرنگ لیبارٹریاں بنیں جبکہ موبائل اسیسریز کی دکانوں و سٹالز سے بھی لوگوں کو ذریعہ معاش کمانے کا موقع ملا۔ اسی طرح UPS کی وجہ سے بھی روزگار کے بہت سارے مواقع پیدا ہوئے لہٰذا جب نئی چیز آتی ہے تو روزگار کے مواقع خود بخود پیدا ہوجاتے ہیں۔ حکومت کو لوگوں کی قوت خرید بہتر کرنے کیلئے انڈسٹری، زراعت و دیگر شعبوں کو بہتر بنانا ہوگا۔ قوت خرید میں اضافے سے ڈیمانڈ بڑھتی ہے جس سے پروڈکشن میں اضافہ ہوتا ہے اور پھرروزگار کے نئے مواقع پیدا ہوجاتے ہیں۔
ڈاکٹر جویریہ قیس
(ماہر معاشیات)
غربت کا انڈیکیٹر 2 ڈالر آمدن روزانہ ہے۔ اس حساب سے پاکستان میں 40فیصد غریب ہیں لیکن خط غربت سے تھوڑا اوپر 4 ڈالر روزانہ کمانے والوں کی تعداد کا جائزہ لیا جائے تو وہ بھی 40 فیصد ہے یعنی مجموعی طور پر پاکستان میں 80فیصد لوگ غریب ہیںجن کی معاشی حالت بہتر کرنے کے لیے حکومت کو کام کرنا ہوگا۔
ان اعداد و شمار کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ غرباء کی تعداد بہت زیادہ ہے لہٰذا ایک دن میں اس مسئلے کا خاتمہ ممکن نہیں بلکہ اس کیلئے وقت درکار ہے۔ موثر منصوبہ بندی کے ساتھ کام کرنے سے معاملات بتدریج بہتر ہوجائیں گے۔ ایک بات واضح ہونی چاہیے کہ اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف (ایس ڈی جیز) میں غربت میں کمی کی نہیں بلکہ 2030ء تک اس کے مکمل خاتمے کی بات کی گئی ہے۔ پاکستان نے ان اہداف پر دستخط کیے ہیں لہٰذا ہمیں تندہی سے کام کرنا ہوگا۔
اس وقت ملک میں 0.83ملین بچے اور 0.36 خواتین غذائیت کی کمی کا شکار ہیں جبکہ 50 فیصد بچوں کی اموات 5 سال سے کم عمر میں ہوجاتی ہیں جو تشویشناک ہے۔ اس کی بڑی وجہ غربت ہے جس کے باعث لوگوں کو خوراک، صحت اور اچھا طرز زندگی نہیں مل رہا۔ میرے نزدیک غربت کے خاتمے کیلئے بڑے پیمانے پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ غربت کے خاتمے کے عالمی دن کو غریب کے انسانی حقوق اور وقار سے جوڑا گیا ہے کہ اس کی ''ڈیلی ویج'' کو بہتر کرنا ہوگا تاکہ وہ باعزت زندگی گزار سکیں۔
غربت و دیگر مسائل کے خاتمے کے حوالے سے لوگوں میں آگاہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ انہیں اپنے حقوق کے بارے میں علم ہو۔ اس کے علاوہ مرد و خواتین کو یکساں سماجی انصاف فراہم کیا جائے تاکہ ان کی معاشرتی حالت بہتر ہوسکے۔ تمام لوگوں کی بہتر تعلیم اور بنیادی ضروریات کو تحفظ دینا ہوگا اور ان کیلئے روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنا ہوں گے۔ مسائل بہت زیادہ ہیںجن سے نمٹنے کیلئے حکومتی اقدامات کے ساتھ ساتھ لوگوں میں سماجی ذمہ داری اور خدمت کے جذبے کو فروغ دینا ہوگا۔ وزیر اعظم کی کلین اینڈ گرین پاکستان مہم سے لوگوں کو روزگار ملے گا، اس طرح کے مزید پروگراموں کے ذریعے لوگوں کو روزگار دیا جائے اور ان کی سکلز بہتر کرنے کیلئے ٹریننگ دی جائے۔
بشریٰ خالق
(نمائندہ سول سوسائٹی)
غربت پر بات کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے حکومتی پالیسیوں اور ان پر عملدرآمد کا جائزہ لیا جائے۔ ہمارے ہاں حکومتی سطح پر دولت، وسائل اور مواقعوں میں تضاد ہے ۔ہمارے دیہاتوں اور شہروں میں صورتحال مختلف ہے۔ شہروں کی ترقی پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے جس کے باعث دیہی علاقوں میں رہنے والے آج بھی پسماندہ ہیں۔
یہی صورتحال صوبوں کے درمیان بھی ہے کہ پنجاب میں بلوچستان کی نسبت روزگار ، ترقی و اچھی زندگی کے مواقع زیادہ ہیں۔ حکومت کو یہ تضاد ختم کرنا ہوگا۔ ہماری نصف آبادی خواتین پر مشتمل ہے مگر افسوس ہے کہ ہمارے سماجی رویوں و پالیسیوں کی وجہ سے خواتین کی حوصلہ شکنی ہوتی ہیں اور وہ محرومیوں کا شکار ہیں۔ ملکی ترقی اور مسائل کے خاتمے کیلئے مرد و خواتین کو روزگار اور سماجی انصاف کے یکساں مواقع ملنے چاہئیں۔
حکومت کوبہتر منصوبہ بندی کے تحت خواتین کو مضبوط بنانا اور انہیں معاشی دائرے میں شامل کرنا چاہیے تاکہ وہ اپنا روزگار بہتر طریقے سے کما سکیں۔خواتین کی شرح خواندگی 40 فیصد ہے مگر انہیں ملازمت کے حصول میں مشکلات ہیں اور انہیں وہ تعلیم اور سکلز بھی نہیں سکھائی جارہی جس سے وہ لیبر فورس کا حصہ بن سکیں لہٰذا جب پاکستان کی نصف آبادی براہ راست اپنا روزگار نہیں کماتی تو مسائل پیداہوتے ہیں۔ بیشتر خواتین گھریلو ملازمہ ہیں اور غیر رسمی شعبے میں کام کررہی ہیں جنہیں ان کے حقوق نہیں مل رہے۔ ان کی ملازمت کے اوقات زیادہ مگر تنخواہ کم ہے جبکہ ان کی صحت، سوشل سکیورٹی ودیگر سہولیات نہیں ہیں۔ زراعت میں خواتین کی 100 فیصد شمولیت ہے مگر ان کی سماجی اور معاشی حالت ابتر ہے کیونکہ انہیں معاوضہ بہت کم ملتا ہے۔
اس وقت 1فیصد سے بھی کم ایسی خواتین ہیں جو زمین کی مالک ہیں، حکومت کو بہتر پالیسی بنا کر خواتین کے مسائل حل کرنا ہوں گے۔ چائلڈلیبر ایک بہت بڑا مسئلہ ہے، اس سے معاشی حالت میں کوئی بہتری نہیں آرہی بلکہ ہماری نسلیں تباہ ہورہی ہیں، اس کے خاتمے پر خصوصی طرف توجہ دی جائے۔ غربت کے خاتمے کیلئے ہمیں چھوٹے آسان قرضوں اور بے نظیر انکم سپورٹ جیسے پروگراموں سے آگے بڑھنا ہے۔ اس حوالے سے جامع پالیسی بنا کر ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنا ہوں گے۔
اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف(ایس ڈی جیز)کا پہلا ہدف غربت کا خاتمہ ہے، پاکستان کی حکومت نے بھی ان پر دستخط کیے ہیں، اس حوالے سے ٹاسک فورس بھی بنائی گئی مگر محض ٹاسک فورس یا کمیٹیاں بنانے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا بلکہ ٹھوس عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔ میرا حکومت سے مطالبہ ہے کہ مزدور کی کم از کم اجرت 30 ہزار روپے ماہانہ مقررکی جائے اورغیر رسمی شعبے میں کام کرنے والی خواتین کو قانونی تحفظ دیکر مزدور قرار دینے کے ساتھ ساتھ چائلڈ لیبر کا خاتمہ بھی کیا جائے۔ معاشی پالیسی کو عوام دوست بنایا جائے، لوگوں کو تعلیم اور صحت مفت جبکہ بنیادی خوراک سستی فراہم کی جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ ٹرانسپورٹ کے کرائے کم، بجلی، گیس اور پٹرول سستا کیا جائے۔ زرعی شعبے میں کام کرنے والوں کی حالت قابل رحم ہے، حکومت کو لینڈ ریفارمز کرنی چاہئیں۔