سسرالیوں کی تیزاب گردی نے خاتون کی بینائی چھین لی
سابق شوہر اوردیور دھمکیاں دیتے رہے اور پولیس نے کچھ نہیں کیا، خاتون کی پروگرام ٹودی پوائنٹ میں گفتگو
سابق شوہر اور دیور کی تیزاب گردی کے باعث بینائی کھونے والی بدقسمت نائلہ امین نے انصاف، ملزموں کی گرفتاری اورعلاج کے لیے مدد کی فریاد کی ہے۔
خاتون نے ایکسپریس نیوزکے پروگرام ٹودی پوائنٹ میں میزبان منصورعلی خان سے گفتگو کے دوران روتے ہوئے دہائی دی کہ 8 برس قبل میری شادی بہاولنگر ہوئی، سسرال میں ایک برس میرے ساتھ اچھا سلوک ہوا، پھرمجھے جوکام نہیں آتاتھا وہ کرنے کوکہتے، انکار پر صبح سے شام تک کھانا نہیں دیتے تھے، میں نے ان کے کہنے پرہرکام سیکھ لیا، محنت مزدوری کرتی۔پھرمیری امی کی طبیعت خراب ہوگئی تومیں نے ان کے پاس لاہور آنا چاہا، جس پرسسرالیوں نے مجھے مارا، آٹھ برس برداشت کیا، پھر تنگ آکر والدین کوفون کیا کہ مجھے لے جائیں۔
جانے کیلیے تیار بیٹھی تھی کہ ایک نندکوپتہ چلا تو میرا بچہ چھین لیا، دوسری نے میرے جوتے اتار لیے۔ تیسری نے مجھے بالوں سے کھینچ کر نیچے گرادیا۔ سب مل کرمجھے مارتے رہے، میرے والدین کی دہائی کے باوجود شوہرارشدنے مجھے نہ چھڑایابلکہ سونے کی بالیاںاوردونوں بیٹے چھین لیے تاہم میرے والدین مجھے لے کراپنے گھرلے آئے۔ 10 دنوں بعدمیرے شوہر نے فون کرکے کہاکہ چھوٹا بیٹا بہت بیمار ہے، اسے خون آتا ہے، ڈاکٹروں نے جواب دے دیا ہے۔میں نے اپنی ماں کو کہا کہ مجھ سے برداشت نہیںہوتا، مجھے جانا ہے۔ میں بیٹوں کی خاطروہاں چلی گئی۔
10 دن گزرے تو پھر جھگڑے شروع ہو گئے، میں دوبارہ اپنی ماں کے گھرچلی آئی اورشوہرکوکہاکہ مجھے رکھناہے تولاہورمیں آکرکرائے پرمکان لے لو، میں نے واپس نہیں جانا۔ 6 ماہ بعد میری ماں مجھے دوسری شادی پر راضی کرنے لگی۔ طلاق کاپہلانوٹس بھیجنے کے بعد ایک روز ابو، بھائی اورچھوٹی بہن کے ہمراہ بازارجارہی تھی کہ خاونداوراس کابھائی آ پہنچے ۔ایک نے میراہاتھ پکڑا جبکہ دیور نے چہرے پر تیزاب پھینکا اورفرارہوگئے۔
ایمبولینس اور پولیس والوں کو فون کیا مگرکوئی نہ آیا۔بازارمیں موجودلوگ تماشادیکھتے رہے، پھر ایک دکاندارنے مجھے چادردی جسے لپیٹ کرمجھے جناح اسپتال لے جایاگیا۔ وہاں پولیس کاانتظارکرتے رہے کہ کب آئے اورمیراعلاج شروع ہو۔ دوگھنٹے تک میراعلاج شروع نہ ہوا، اس دوران تیزاب پھیلتاچلتاگیا جس سے میری آنکھوں کی روشنی اورایک کان ضائع ہوگیا۔ میرے 8 آپریشن ہوئے،چلتا پھرتا تماشا بن گئی ہوں، ہرکوئی پوچھتا ہے،میں بتابتاکرتھک چکی ہوں مگرمددکوئی نہیں کرتا۔ انسداد دہشت گردی کی عدالت میں گئی ، میرے مجرم، میرے دیور نے میرے سامنے کھڑے ہوکر ہنستے ہوئے کہا کہ یہ تمہاری قسمت میں تھا۔
جج، وکیل اورپولیس نے اسے کچھ نہیں کہا۔ مجرم مجھے دھمکیاں دیتے رہے مگرپولیس نے کچھ نہیں کیا، چیف جسٹس نے میری بات سنی جس کے بعد پولیس ہماری مدد کر رہی ہے، جج نے بھی ہماری بات اچھی طرح سے سنی۔ ہم 7 ہزارماہانہ کرائے کے گھرمیں رہتے ہیں،اتنے پیسے بھی نہیں کہ وکیل کرسکیں، میرے اہلخانہ کرایہ دیں یا میری دوا لائیں ، تین دن کی دواکی قیمت ایک ہزارروپے ہے۔ مزید6 آپریشن ہوناہیں، پتہ نہیں ہوپائیں گے یانہیں۔ سرکاری اسپتال سے علاج کراکے تنگ آگئی ہوں۔
آسمان دیکھ سکتی ہوں نہ اپنے بیٹوں کو، دن کاپتہ ہے نہ وقت کاپتہ چلتاہے ،اس سے اچھاتھاکہ اللہ مجھے موت دے دیتا۔ میں تڑپ رہی تھی مگرکسی نے میرے منہ میں پانی تک نہ ڈالا، میرے کپڑے پھٹے ہوئے تھے، کسی نے میری عزت کاخیال کیانہ کسی نے ملزموں کوپکڑنے کی کوشش کی۔ میں انصاف اور مدد چاہتی ہوں ،دنیا دیکھناچاہتی ہوں۔ نائلہ کے غمزدہ والدنے کہا کہ بیٹی کا علاج کرانے کی مالی استطاعت نہیں، چارپانچ ماہ سے کرایہ نہیں دیا۔ دکھی ماں نے کہا کہ میری بیٹی سے اس کے بیٹوں کوملنے نہیں دیاجاتا۔ پی ٹی آئی رہنما نذیرچوہان کے پاس فریاد لیکرگئے مگران کے آدمیوں نے ہمیںآنے سے روک دیا۔
ماہرقانون اسدعباس بٹ نے کہاکہ میں جائے وقوع پرموجود تماشادیکھنے والے لوگوں کاافسوس کروں یا ان ڈاکٹروں کا جو پولیس کاانتظار کرتے رہے یا اپنی وکلا برادری کاجس میں سے کوئی ایک بھی مقدمہ لڑنے کے لیے آگے نہ آیا یا میں اس عدالتی نظام پرافسوس کروںکہ اتنے دلخراش واقعے کے بعدبھی ملزمان ضمانت پر رہا ہیں۔قومی اسمبلی نے 2017ء میں ایک بل منظورکیاتھاجوسینیٹ کے پاس پڑاہے، نئی حکومت بھی اس طرف توجہ نہیں دے رہی ۔ موجودہ قانونی نظام میں نائلہ کوانصاف نہیں ملنے والا،چیف جسٹس نوٹس لیں پھر شایداسے انصاف مل سکے۔ ہمارے معاشرے کاالمیہ بن گیاہے کہ ہمیں ایک زینب نہیں بلکہ سات زینبیں چاہئیں، پھرہم ازخودنوٹس لیں گے، پھر قوانین میں شایدترامیم کریں۔
خاتون نے ایکسپریس نیوزکے پروگرام ٹودی پوائنٹ میں میزبان منصورعلی خان سے گفتگو کے دوران روتے ہوئے دہائی دی کہ 8 برس قبل میری شادی بہاولنگر ہوئی، سسرال میں ایک برس میرے ساتھ اچھا سلوک ہوا، پھرمجھے جوکام نہیں آتاتھا وہ کرنے کوکہتے، انکار پر صبح سے شام تک کھانا نہیں دیتے تھے، میں نے ان کے کہنے پرہرکام سیکھ لیا، محنت مزدوری کرتی۔پھرمیری امی کی طبیعت خراب ہوگئی تومیں نے ان کے پاس لاہور آنا چاہا، جس پرسسرالیوں نے مجھے مارا، آٹھ برس برداشت کیا، پھر تنگ آکر والدین کوفون کیا کہ مجھے لے جائیں۔
جانے کیلیے تیار بیٹھی تھی کہ ایک نندکوپتہ چلا تو میرا بچہ چھین لیا، دوسری نے میرے جوتے اتار لیے۔ تیسری نے مجھے بالوں سے کھینچ کر نیچے گرادیا۔ سب مل کرمجھے مارتے رہے، میرے والدین کی دہائی کے باوجود شوہرارشدنے مجھے نہ چھڑایابلکہ سونے کی بالیاںاوردونوں بیٹے چھین لیے تاہم میرے والدین مجھے لے کراپنے گھرلے آئے۔ 10 دنوں بعدمیرے شوہر نے فون کرکے کہاکہ چھوٹا بیٹا بہت بیمار ہے، اسے خون آتا ہے، ڈاکٹروں نے جواب دے دیا ہے۔میں نے اپنی ماں کو کہا کہ مجھ سے برداشت نہیںہوتا، مجھے جانا ہے۔ میں بیٹوں کی خاطروہاں چلی گئی۔
10 دن گزرے تو پھر جھگڑے شروع ہو گئے، میں دوبارہ اپنی ماں کے گھرچلی آئی اورشوہرکوکہاکہ مجھے رکھناہے تولاہورمیں آکرکرائے پرمکان لے لو، میں نے واپس نہیں جانا۔ 6 ماہ بعد میری ماں مجھے دوسری شادی پر راضی کرنے لگی۔ طلاق کاپہلانوٹس بھیجنے کے بعد ایک روز ابو، بھائی اورچھوٹی بہن کے ہمراہ بازارجارہی تھی کہ خاونداوراس کابھائی آ پہنچے ۔ایک نے میراہاتھ پکڑا جبکہ دیور نے چہرے پر تیزاب پھینکا اورفرارہوگئے۔
ایمبولینس اور پولیس والوں کو فون کیا مگرکوئی نہ آیا۔بازارمیں موجودلوگ تماشادیکھتے رہے، پھر ایک دکاندارنے مجھے چادردی جسے لپیٹ کرمجھے جناح اسپتال لے جایاگیا۔ وہاں پولیس کاانتظارکرتے رہے کہ کب آئے اورمیراعلاج شروع ہو۔ دوگھنٹے تک میراعلاج شروع نہ ہوا، اس دوران تیزاب پھیلتاچلتاگیا جس سے میری آنکھوں کی روشنی اورایک کان ضائع ہوگیا۔ میرے 8 آپریشن ہوئے،چلتا پھرتا تماشا بن گئی ہوں، ہرکوئی پوچھتا ہے،میں بتابتاکرتھک چکی ہوں مگرمددکوئی نہیں کرتا۔ انسداد دہشت گردی کی عدالت میں گئی ، میرے مجرم، میرے دیور نے میرے سامنے کھڑے ہوکر ہنستے ہوئے کہا کہ یہ تمہاری قسمت میں تھا۔
جج، وکیل اورپولیس نے اسے کچھ نہیں کہا۔ مجرم مجھے دھمکیاں دیتے رہے مگرپولیس نے کچھ نہیں کیا، چیف جسٹس نے میری بات سنی جس کے بعد پولیس ہماری مدد کر رہی ہے، جج نے بھی ہماری بات اچھی طرح سے سنی۔ ہم 7 ہزارماہانہ کرائے کے گھرمیں رہتے ہیں،اتنے پیسے بھی نہیں کہ وکیل کرسکیں، میرے اہلخانہ کرایہ دیں یا میری دوا لائیں ، تین دن کی دواکی قیمت ایک ہزارروپے ہے۔ مزید6 آپریشن ہوناہیں، پتہ نہیں ہوپائیں گے یانہیں۔ سرکاری اسپتال سے علاج کراکے تنگ آگئی ہوں۔
آسمان دیکھ سکتی ہوں نہ اپنے بیٹوں کو، دن کاپتہ ہے نہ وقت کاپتہ چلتاہے ،اس سے اچھاتھاکہ اللہ مجھے موت دے دیتا۔ میں تڑپ رہی تھی مگرکسی نے میرے منہ میں پانی تک نہ ڈالا، میرے کپڑے پھٹے ہوئے تھے، کسی نے میری عزت کاخیال کیانہ کسی نے ملزموں کوپکڑنے کی کوشش کی۔ میں انصاف اور مدد چاہتی ہوں ،دنیا دیکھناچاہتی ہوں۔ نائلہ کے غمزدہ والدنے کہا کہ بیٹی کا علاج کرانے کی مالی استطاعت نہیں، چارپانچ ماہ سے کرایہ نہیں دیا۔ دکھی ماں نے کہا کہ میری بیٹی سے اس کے بیٹوں کوملنے نہیں دیاجاتا۔ پی ٹی آئی رہنما نذیرچوہان کے پاس فریاد لیکرگئے مگران کے آدمیوں نے ہمیںآنے سے روک دیا۔
ماہرقانون اسدعباس بٹ نے کہاکہ میں جائے وقوع پرموجود تماشادیکھنے والے لوگوں کاافسوس کروں یا ان ڈاکٹروں کا جو پولیس کاانتظار کرتے رہے یا اپنی وکلا برادری کاجس میں سے کوئی ایک بھی مقدمہ لڑنے کے لیے آگے نہ آیا یا میں اس عدالتی نظام پرافسوس کروںکہ اتنے دلخراش واقعے کے بعدبھی ملزمان ضمانت پر رہا ہیں۔قومی اسمبلی نے 2017ء میں ایک بل منظورکیاتھاجوسینیٹ کے پاس پڑاہے، نئی حکومت بھی اس طرف توجہ نہیں دے رہی ۔ موجودہ قانونی نظام میں نائلہ کوانصاف نہیں ملنے والا،چیف جسٹس نوٹس لیں پھر شایداسے انصاف مل سکے۔ ہمارے معاشرے کاالمیہ بن گیاہے کہ ہمیں ایک زینب نہیں بلکہ سات زینبیں چاہئیں، پھرہم ازخودنوٹس لیں گے، پھر قوانین میں شایدترامیم کریں۔