جعلی اکاؤنٹس کیس سندھ حکومت کے کئی افسران بیرون ملک فرار
چور مر جائیں گے لیکن ایک پیسہ نہیں دیں گے، چیف جسٹس
جعلی اکاؤنٹس کیس میں مبینہ طور پر ملوث سندھ حکومت کے کئی سرکاری افسران بیرون ملک فرار ہوگئے۔
سپریم کورٹ میں جعلی بینک اکاؤنٹس کیس کی سماعت ہوئی جس میں جے آئی ٹی نے دوسری پیش رفت رپورٹ پیش جمع کرائی۔ چیف جسٹس کے استفسار پر جے آئی ٹی کے سربراہ احسان صادق نے بتایا کہ تحقیقات ابھی جاری ہیں، معاملہ جعلی اکاؤنٹس سے زیادہ پیچیدہ ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ چور مر جائیں گے لیکن ایک پیسہ نہیں دیں گے، چوروں نے ایسے اکاؤنٹس میں پیسہ رکھا تو نہیں ہوگا۔ سربراہ جے آئی ٹی احسان صادق نے کہا کہ رقوم نکلوا کر اکاوٴنٹس بند کر دیئے جاتے تھے، جعلی اکاؤنٹس اور کمپنیوں کے زریعے بھاری رقم منتقل کی گئی، رکشہ ڈرائیور اور فالودے والے کے اکاؤنٹس میں اربوں روپے تھے، دو مُردوں کے بھی بینک اکاؤنٹس کھولے گئے، اب تک کی تحقیقات کے مطابق بہت بڑا فراڈ ہوا ہے۔
سربراہ جے آئی ٹی نے بتایا کہ سندھ حکومت ہمارے ساتھ تعاون نہیں کر رہی اور متعلقہ ریکارڈ فراہم نہیں کیا جارہا، تعاون کے لیے تحریری درخواست دینے کے باوجود سیکرٹری توانائی ہمارے ساتھ تعاون نہیں کر رہے۔
سندھ حکومت کی جانب سے ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت سے ریکارڈ تلاش کرنے کے لیے چار ماہ کا وقت دینے کی درخواست کی، تاہم عدالت نے مہلت دینے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے ریکارڈ کی فوری فراہمی کا حکم دیا۔
جسٹس اعجاز الااحسن نے کہا کہ کیا جعلی بینک اکاوٴنٹس سے وابستہ کچھ لوگ مفرور ہیں۔ سربراہ جے آئی ٹی نے بتایا کہ سندھ حکومت کے کئی سرکاری افسران بیرون ملک منتقل ہوگئے ہیں، جعلی اکاؤنٹس سے 47 ارب روپے کی ٹرانزیکشنز سامنے آئیں اور 36 بے نامی کمپنیوں سے مزید 54 ارب روپے منتقل کیے گئے جب کہ اومنی گروپ کی متعدد کمپنیاں کیس سے منسلک ہیں۔
چیف جسٹس نے خبردار کیا کہ کار سرکار میں مداخلت ہوگی تو کارروائی ہو گی، سنا ہے انور مجید اور دیگر ملزمان اسپتال منتقل ہو گئے ہیں، انور مجید کو کراچی سے یہاں لانے کا سوچ رہا ہوں، انہیں اڈیالہ جیل منتقل کر دیتے ہیں اور راولپنڈی انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی منتقل کروا دیتے ہیں، سندھ کے ڈاکٹرز کی رپورٹس پر اعتبار نہیں، بااثر ملزم صبح جیل حکام کے کمرے اور رات کو گھر ہوتے ہیں۔
چیف جسٹس نے حکم دیا کہ سندھ حکومت چار دن میں جے آئی ٹی کو ریکارڈ فراہم کرے، 26 اکتوبر کو کراچی میں عدالت لگے گی، چیف سیکریٹری سندھ، سیکرٹری فنانس، آبپاشی اور توانائی عدالت میں پیش ہوں۔
سپریم کورٹ نے 26 اکتوبر کو آئی جی سندھ کو بھی طلب کرلیا جب کہ اومنی گروپ کے وکیل کی جے آئی ٹی رپورٹ فراہم کرنے کی استدعا مسترد کردی۔
سپریم کورٹ میں جعلی بینک اکاؤنٹس کیس کی سماعت ہوئی جس میں جے آئی ٹی نے دوسری پیش رفت رپورٹ پیش جمع کرائی۔ چیف جسٹس کے استفسار پر جے آئی ٹی کے سربراہ احسان صادق نے بتایا کہ تحقیقات ابھی جاری ہیں، معاملہ جعلی اکاؤنٹس سے زیادہ پیچیدہ ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ چور مر جائیں گے لیکن ایک پیسہ نہیں دیں گے، چوروں نے ایسے اکاؤنٹس میں پیسہ رکھا تو نہیں ہوگا۔ سربراہ جے آئی ٹی احسان صادق نے کہا کہ رقوم نکلوا کر اکاوٴنٹس بند کر دیئے جاتے تھے، جعلی اکاؤنٹس اور کمپنیوں کے زریعے بھاری رقم منتقل کی گئی، رکشہ ڈرائیور اور فالودے والے کے اکاؤنٹس میں اربوں روپے تھے، دو مُردوں کے بھی بینک اکاؤنٹس کھولے گئے، اب تک کی تحقیقات کے مطابق بہت بڑا فراڈ ہوا ہے۔
سربراہ جے آئی ٹی نے بتایا کہ سندھ حکومت ہمارے ساتھ تعاون نہیں کر رہی اور متعلقہ ریکارڈ فراہم نہیں کیا جارہا، تعاون کے لیے تحریری درخواست دینے کے باوجود سیکرٹری توانائی ہمارے ساتھ تعاون نہیں کر رہے۔
سندھ حکومت کی جانب سے ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت سے ریکارڈ تلاش کرنے کے لیے چار ماہ کا وقت دینے کی درخواست کی، تاہم عدالت نے مہلت دینے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے ریکارڈ کی فوری فراہمی کا حکم دیا۔
جسٹس اعجاز الااحسن نے کہا کہ کیا جعلی بینک اکاوٴنٹس سے وابستہ کچھ لوگ مفرور ہیں۔ سربراہ جے آئی ٹی نے بتایا کہ سندھ حکومت کے کئی سرکاری افسران بیرون ملک منتقل ہوگئے ہیں، جعلی اکاؤنٹس سے 47 ارب روپے کی ٹرانزیکشنز سامنے آئیں اور 36 بے نامی کمپنیوں سے مزید 54 ارب روپے منتقل کیے گئے جب کہ اومنی گروپ کی متعدد کمپنیاں کیس سے منسلک ہیں۔
چیف جسٹس نے خبردار کیا کہ کار سرکار میں مداخلت ہوگی تو کارروائی ہو گی، سنا ہے انور مجید اور دیگر ملزمان اسپتال منتقل ہو گئے ہیں، انور مجید کو کراچی سے یہاں لانے کا سوچ رہا ہوں، انہیں اڈیالہ جیل منتقل کر دیتے ہیں اور راولپنڈی انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی منتقل کروا دیتے ہیں، سندھ کے ڈاکٹرز کی رپورٹس پر اعتبار نہیں، بااثر ملزم صبح جیل حکام کے کمرے اور رات کو گھر ہوتے ہیں۔
چیف جسٹس نے حکم دیا کہ سندھ حکومت چار دن میں جے آئی ٹی کو ریکارڈ فراہم کرے، 26 اکتوبر کو کراچی میں عدالت لگے گی، چیف سیکریٹری سندھ، سیکرٹری فنانس، آبپاشی اور توانائی عدالت میں پیش ہوں۔
سپریم کورٹ نے 26 اکتوبر کو آئی جی سندھ کو بھی طلب کرلیا جب کہ اومنی گروپ کے وکیل کی جے آئی ٹی رپورٹ فراہم کرنے کی استدعا مسترد کردی۔