پاکستان کے عاشق

پاکستانی قوم ملک کے عشق میں ڈوبی ہوئی قوم ہے، اس نے ملک کے لیے ہر آوازپر لبیک کہا ہے۔


Abdul Qadir Hassan October 23, 2018
[email protected]

اس ملک کی ایک عجیب ٹریجڈی ہے، وہ پاکستانی باہوش و حواس اور بھلے چنگے اس ملک میں موجود ہیں جن کے پاس اس ملک کے لوٹے ہوئے اربوں ڈالر ہیں اور یہ غیر ملکی بینکوں میں جمع ہیں جب کہ پاکستان کے قرضے پاکستان کی لوٹ مار کر کے بیرون ملک جمع کرائی گئی رقم سے کئی گنا کم ہیں یعنی یہ لوگ اگر آدھی رقم بھی واپس کر دیں تو ملک کا قرضہ بھی اتر جائے گا اور ڈیم بھی بن جائیں گے لیکن ان بااثر لوگوں سے وصولی کون کرے گا، ان کو پہلا پتھر کون مارے گا۔ حیف کہ جو لوگ پتھر مار سکتے ہیں ان کے ہاتھوںمیں پتھر نہیں ہیں۔

ایک شاعر کے الفاظ میں ان کے ہاتھوںمیں لکیروں کے سوا کچھ بھی نہیں اور دوسرے وہ ہیں کہ سنگ اٹھایا تھا کہ سر یاد آیا ۔ ان کے اپنے ہاتھ خون سے آلودہ ہیں تو عرض یہ کر رہا تھا کہ ہمارے بڑے لوگ جن کے پاس اختیار ہے وہ ملک کے لیے کوئی قربانی دینے کو کبھی بھی تیار نہیں ہوئے، ڈالر ان کی زندگی ہے اور ان کی زندگیوں کا ڈالروں کے بغیر تصور محال ہے کہ ان کا سب کچھ بیرون ملک ہے، وہ علاج بیرون ملک کراتے ہیں، ان کی اولادیں غیر ممالک میں تعلیم حاصل کرتی ہیں، اس لیے ڈالر ہی ان کا اوڑھنا بچھونا ہے، ان کی زندگی ڈالر سے شروع ہو کر ڈالر پر ہی ختم ہو جاتی ہے۔

سپریم کورٹ کی جانب سے جب سے ملکی ڈیموںکی تعمیر کے حق میں مہم شروع کی گئی ہے میں نے ارادہ کر لیا ہے کہ اس میں اپنا حصہ ضرور ڈالوں گا اور ایک صحافی کا حصہ یہ ہو سکتاہے کہ وہ اپنے پڑھنے والوں کو کسی ملکی منصوبے کی افادیت سے مسلسل آگاہ کرتا رہے، اس سے رائے عامہ ہموار ہوتی ہے اور عوام ملک کے مسائل کو سمجھ کر اس میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ ڈیموں کی تعمیر کے بارے میں ملکی سطح پر اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے پہلی دفعہ مہم کا آغاز کیا گیا ہے جس میں بعد میں حکومت بھی شامل ہو گئی لیکن اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ اس مہم کا سہرا اعلی عدلیہ اور اس کے چیف کے سر جاتا ہے۔اس قومی منصوبے پر قوم نے لبیک کہا ہے اور پوری قوم ڈیم فنڈ میں اپنا حصہ ڈال رہی ہے۔

سرکاری محکموں کے ملازمین اپنی تنخواہیں ڈیم فنڈ میں دے رہے ہیں حالانکہ یہ وہ طبقہ ہے جس کی لگی بندھی آمدن ہوتی ہے اور آج کل کی مہنگائی میں ماہانہ گھریلو بجٹ ہی مشکل سے بنتا ہے، اس کے باوجود یہ قومی پکار پر اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ اسی طرح ملک کے مخیر حضرات بھی فنڈ میں اپنی حاضری لگوا رہے ہیں، یہ وہ مخیرحضرات ہیں جن کو اپنی دولت کا کوئی حساب کتاب نہیں اور یہ دولت ان کے مخیر ہونے کی سب سے بڑی وجہ ہے۔

اعلی عدلیہ نے نہ صرف فنڈ کا اعلان کیا بلکہ اس کا پہرہ بھی دینا شروع کیا ہے۔ ہمارے چیف جسٹس کہتے ہیں کہ ان کو ڈیم کے لیے فنڈ اکٹھا کرتے وقت اس بات کا اندازہ ہوا ہے کہ یہ کتنا مشکل کام ہے۔ انھوں نے ڈیم فنڈ پر پہرہ دینے کا بھی اعلان کیا ہے یعنی وہ قوم کے اس چندے میں کسی بھی قسم کی خرد برد نہیں ہونے دیں گے۔ پانی کے متعلق سپریم کورٹ میں منعقد ہونے والے ایک سیمینار میں یہ کہا گیا کہ نئی نسل کو پانی سے محروم نہیں ہونے دیا جائے گا، دراصل بڑی دیر کے بعد قومی سطح پر اس بات کا ادراک کیا گیا ہے کہ ملک آہستہ آہستہ پانی کی کمی کا شکار ہو رہا ہے اور اگلے کچھ برسوں میں یہ کمی شدت اختیار کر جائے گی۔

کئی برسوں سے ایک بات کہی جارہی ہے کہ ہماری بھارت کے ساتھ آیندہ جنگ پانی کی تقسیم پر ہو گی چونکہ ہماری گزشتہ حکومتوں نے اس اہم ترین مسئلہ پر توجہ ہی نہیں دی اور ہمارے پانی کے کرتا دھرتا یعنی واٹر کمشنر اپنی من مانی کرتے رہے اور پاکستان کے حصے کا پانی بھی بھارت کو بیچ دیا جس پر بھارت نے ڈیم تعمیر کر لیے اور پاکستان کو تب خبر ہو ئی جب پانی سر سے اونچا ہو چکا تھا۔

پاکستان کو معشوق بنانے کی بات کر کے چیف جسٹس صاحب نے پرانے زخم پھر تازہ کر دیے، ان کا کہنا تھا قوم پاکستان کو صرف ایک سال کے لیے اپنا معشوق بنا لے، جب پاکستان سے عشق ہو گا تو اس کے عشق میں ہر کام کریں گے، قائد اعظم کے عشق کی وجہ سے پاکستان بنا تھا۔

پاکستان کے ساتھ پاکستانی عوام کا تعلق ایک عاشق اور معشوق والا ہی رہا ہے لیکن بد قسمتی سے اس عشق کے راستے میں ہمارے رقیبوں نے کئی ایسے بھاری پتھر حائل کر دیے جن کو ہٹانا اس قوم کے بس کی بات نہیں تھی اور یہ پتھر کسی اور نے نہیں ہمارے اپنوں نے ہماری راہوں میں بچھائے تھے جن کو ہم ہٹانے کی کوشش کرتے رہے لیکن ہمارے رقیب ان میں مزید اضافہ کرتے رہے اور پاکستان کے یہ رقیب نوبت اس سطح تک لے آئے کہ وہ ملک جس کے لوگوں نے اپنی عزتوں کی قربانیاں دیں تھیں، اس حال کو پہنچا دیا گیا ہے کہ ہر طرف ابتری ہی ابتری اور بگاڑ ہے اور خدانخواستہ یہ باتیں ہونے لگی ہیں کہ ملک کی سلامتی کا کیا ہوگا۔

میں جو خود ایک بارانی علاقے کا باشندہ ہوں، مجھے اس بات کا شدید احساس ہے کہ پانی کی قلت کیا رنگ دکھاتی ہے۔ میری طرح ہی جناب جسٹس بندیال کا تعلق بھی اسی خطے سے ہے، وہ بھی پانی کی کمی کے شکار علاقے میں رہتے اور کاشتکاری کرتے ہیں،ان کا آبدیدہ ہونا سمجھ میں آتا ہے۔ ہم بارانی باشندوں کے علاوہ اب پوری قوم کوجلد از جلد یہ بات سمجھانے کی ضرورت ہے کہ پانی خد ا کی ایک ایسی نعمت ہے جس کے بغیر زندگی کا تصور محال ہے۔

صرف ایک دن کے لیے بغیر پانی کے زندگی گزار کر دیکھیں تو سب کو پانی کی اہمیت کا اندازہ ہو جائے گا۔ پانی کی مسئلے پر ذمے داروں نے اس ملک کے وہی کچھ کیا جو وہ گزشتہ ستر برسوں سے اس ملک اور اس کے عوام کے ساتھ کرتے آرہے ہیں، ان کی نااہلیوںنے حالات کو اس نہج پر پہنچا دیا ہے کہ خشک سالی اب ہم سے زیادہ دور نہیں رہی ۔

پاکستانی قوم ملک کے عشق میں ڈوبی ہوئی قوم ہے، اس نے ملک کے لیے ہر آوازپر لبیک کہا ہے اور بڑھ چڑھ کر پاکستان سے پیار کیا ہے ۔ میرا یہ ایمان ہے کہ اس قوم میں بڑی جان ہے اور اس بہادر قوم کے ملک پاکستان کو کچھ بھی نہیں ہوگا، یہ ملک ہمیشہ قائم و دائم رہے گا، اس ملک کے عاشق بھی زندہ رہیں گے اور اپنے معشوق کے لیے اپنی قربانیوں کے سلسلے دراز کرتے رہیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں