ڈرون حملوں پر آنکھیں بند کئے رکھنا ممکن نہیں رہا
افغانستان سے امریکی انخلاء سے پہلے اپنے قبائلی علاقوں میں قیام امن اولین ضرورت ہے
پاکستان کے قبائلی علاقوں اور افغانستان سے ملحقہ پاکستانی سرحد کے ساتھ واقع علاقوں میں بیرونی طاقتوں کی رسہ کشی سے پیدا ہونے والی صورت حال کے نتیجے میں بدامنی کی تاریخ 34 سال پرانی ہے۔
روس کی افغانستان میں فوج کشی کے دور سے یہ علاقہ بیرونی طاقتوں کی سازشوں کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ ان تین دہائیوں سے زائد عرصے میں ان علاقوں میں امن کے مختصر وقفے بھی آئے لیکن عمومی طور پر صورت حال غیر یقینی ہی رہی۔ روس کے بعد اب امریکہ افغانستان میں اپنی فوجی قوت کے ساتھ موجود ہے۔ روس کے برعکس امریکہ کا انداز زیادہ تہہ دار اور پیچیدہ ہے۔ وہ افغانستان میں اپنی موجودگی کو عالمی امن کے استحکام کی ضمانت قرار دیتا ہے اور اس نے بہت سے ممالک کی فوجوں کو اپنے ساتھ ملا کر اس جرم میں شامل کر رکھا ہے۔
اب اسے اتفاق کہئے یا پھر سوچی سمجھی بین الاقوامی سازش کہ خطے میں جب بھی ایسی صورت حال پیدا ہوتی ہے پاکستان میں فوجی حکومت موجود ہوتی ہے جو کسی عوامی ردعمل کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے امریکہ کے مقاصد کی تکمیل کے لئے کمربستہ ہو جاتی ہے۔ روس کی افغانستان میں آمد کے وقت جنرل ضیاء الحق امریکہ کی مدد کو موجود تھے۔ اب جب امریکہ نے خود افغانستان میں وارد ہونا تھا تو پاکستان میں جنرل مشرف کرسیٔ اقتدار پر براجمان تھے۔ ایسی غیرمعمولی صورت حال میں فوجی حکومتیں نتائج کی پروا کئے بغیر ایسے فیصلے کر گزرتی ہیں جو جمہوری حکومت کے لئے کرنا ممکن نہیں ہوتے اسی لئے ان حکومتوں کو امریکہ اور اس کے ساتھ شامل ملکوں کی حمایت حاصل ہو جاتی ہے۔
دہشت گردی کے خلاف نام نہاد عالمی جنگ میں جنرل پرویز مشرف نے بھی امریکہ کو اسی طرح کی مدد اور اعانت بہم پہنچائی۔ سابق صدر اپنے انٹرویوز میں اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں کہ انہوں نے امریکیوں کو پاکستان میں ڈرون حملے کرنے اور ان کی خفیہ ایجنسیوں کو پاکستان کے اندر سرگرمیوں کی اجازت دے رکھی تھی۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملے اس وقت پاکستان کی وزارت خارجہ کے لئے سب سے بڑا چیلنج ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان حملوں کے باعث یہ تاثر گہرا ہوتا جا رہا ہے کہ پاکستان اپنی علاقائی حدود کے اندر ریاستی عملداری قائم کرنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ایک عام آدمی اسے یوں دیکھتا ہے جیسے گھر کا کوئی بڑا اپنے ہی گھر کے لوگوں کو محلے کے بدمعاشوں سے مار پڑوا رہا ہو۔
سابقہ فوجی حکومت نے امریکہ کو پاکستان کی حدود میں اپنے مقاصد کے حصول کے لئے سرگرمیاں جاری رکھنے کی کھلی چھوٹ دیئے رکھی۔ مشرف دور کے خاتمے کے نتیجے میں وفاق میں پیپلزپارٹی کی حکومت قائم ہوئی تو لوگوں کو یہ خوش فہمی تھی کہ شاید اب امریکہ کی کارروائیوں کو ختم کرنے کے سنجیدہ اقدامات سامنے آئیں گے لیکن پیپلزپارٹی کی حکومت نے مشرف دور کی پالیسیوں کو جاری رکھا۔ ڈرون حملے بھی ہوتے رہے اور پاکستان احتجاج بھی کرتا رہا۔ 2011ء کا سال پاک امریکہ تعلقات کے حوالے سے سب سے زیادہ برا سال رہا۔
اس سال سلالہ چیک پوسٹ پر امریکی حملے کے نتیجے میں پاک فوج کا جانی نقصان ہوا اور ریمنڈ ڈیوس کے ہاتھوں پاکستانیوں کا قتل اور پھر ریمنڈ ڈیوس کو ملکی قانون کو بالائے طاق رکھتے ہوئے امریکہ بھجوانے کا شرمناک واقعہ پیش آیا۔ پاکستان کے عوام میں امید کی کرن پیدا ہوئی تھی کہ شاید تعلقات کی یہ خرابی دہشت گردی کی جنگ سے پاکستان کو نکالنے کا باعث بن جائے اور پاکستان کی جان اس عذاب سے چھوٹ جائے لیکن ایسا نہ ہو سکا اور ملک کے رہنماؤں نے امریکہ کے ساتھ صلح صفائی کی ''نوید'' سنا کر ایک مرتبہ پھر عوام کو مایوس کیا۔
حالیہ انتخابات کے اعلان کے بعد جب انتخابی مہم چلی تو جن ایشوز کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل رہی ان میں ڈرون حملوں کا معاملہ بھی شامل تھا بالخصوص تحریک انصاف اس معاملے میں پیش پیش تھی اور اسے عوام کی زبردست حمایت حاصل تھی۔ یوں دیگر جماعتوں کے لئے بھی یہ ممکن نہیں رہا تھا کہ اس مسئلے کو نظرانداز کر کے عوامی حمایت سے محروم ہو جانے کا خطرہ مول لیں۔ لہٰذا ڈرون حملے بند کرانے کا وعدہ انتخابی سیاست کے اہم وعدوں میں سے ایک تھا۔ دوسری جانب امریکہ اس ساری صورت حال سے خوش نہیں۔
امریکی انتظامیہ کی سطح پر پاکستانی عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے کچھ نمائشی اعلانات سامنے آئے۔ یہ کہا گیا کہ ڈرون حملوں کی کمان سی آئی اے سے لے کر امریکی مسلح افواج کے مرکزی ہیڈکوارٹرز پنٹا گون کے سپرد کر دی گئی ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی صاف کر دیا گیا کہ اگر کسی کے ذہن میں یہ خیال ہے کہ ڈرون حملے بند کر دیئے جائیں تو وہ اس خیال کو ذہن سے نکال دے۔ امریکہ کی یہ بات محض دھمکی نہیں تھی بلکہ جس روز خیبرپختونخوا کی اسمبلی کا پہلا اجلاس ہوا اس روز ڈرون حملہ کر کے یہ پیغام دیا گیا کہ حکومت بدل جانے سے حالات نہیں بدل رہے۔
پھر جب مرکزی اسمبلی کی تقریب حلف برداری تھی اس دن بھی ڈرون حملے کے ذریعے پیغام دیا گیا کہ کسی غلط فہمی میں نہ رہنا۔ پاکستان کی موجودہ حالت ثابت کرتی ہے کہ کسی کو ہتھیار دینا بہت آسان ہے لیکن واپس لینا بہت مشکل۔ پچھلے دو ادوار حکومت میں امریکہ کو خطے کے معاملات میں جس قدر کھلی چھوٹ دے دی گئی تھی اب وہ اس سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں۔ سابقہ حکومتوں نے اپنے کمزور رویے کی وجہ سے موجودہ حکومت کے لئے پاکستان کی علاقائی حدود میں اپنی مطلق عملداری قائم کرنے کے کام کو بے حد مشکل بنا دیا ہے۔
تازہ ترین ڈرون حملوںکے بعد طویل عرصہ کے بعد پہلی مرتبہ محسوس ہو رہا ہے کہ حکومت اس معاملے کو سنجیدگی سے لے رہی ہے اور محض عوام کو مطمئن کرنے کے لئے امریکہ سے احتجاج اور امریکی ناظم الامور کی دفتر خارجہ طلبی پر اکتفاء نہیں کیا جائے گا بلکہ ڈرون حملوں کو بند کروانے کے لئے وہ تمام اقدامات کئے جائیں گے جو حکومت پاکستان کے بس میں ہیں۔
7 جون کو ہونے والے آخری ڈرون حملے کے ردعمل میں وزیر اعظم نواز شریف کا ردعمل کئی حوالوں سے ماضی میں ہونے والے ڈھیلے ڈھالے ردعمل سے مختلف تھا۔ انہوں نے یہ کوشش کی کہ پاکستان کے موقف کو کسی لگی لپٹی کے بغیر امریکہ تک پہنچا دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ یہ حملے ملکی سالمیت اور خودمختاری کے خلاف ہیں۔ ان میں بے گناہ افراد مارے جاتے ہیں اور دہشت گردی کی جنگ کو ان سے نقصان پہنچ رہا ہے۔ اس حوالے سے سب سے اہم بات یہ تھی کہ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات خوشگوار رہیں اور تعاون بھی جاری رہے۔ یعنی یہ حملے جاری رہے تو تعاون بھی ختم ہو سکتا ہے اور خوشگواریت بھی۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ صورت حال کا تقاضا ہے کہ ڈرون حملوں کو ہر صورت بند کروایا جائے۔ امریکی فوج کے افغانستان سے انخلاء کے بعد کا منظرنامہ تبھی پاکستان کے حق میں ہو گا اگر امریکی انخلاء شروع ہونے سے پہلے پہلے ہم اپنے قبائلی علاقوں میں امن قائم کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔ قبائلی علاقوں کے عوام اپنے آبائی علاقوں میں معمول کی زندگی بحال کر لیں اور تمام وفاقی علاقوں میں حکومت کی عملداری پوری طرح بحال ہو جائے۔
ان مقاصد کا حصول آسان نہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ افغانستان کے اندر سے بھی پاکستان کو ان مقاصد کے حصول میں مدد دینے کے اشارے مل رہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام سیاسی قوتیں کم ازکم اس معاملے پر تمام سیاسی رنجشوں کو نظرانداز کر کے اس جدوجہد میں شامل ہو جائیں۔ خطے کی صورت حال کو اپنے حق میں ہموار کرنے کے لئے ملکی سطح پر مثالی اتحاد اور تعاون درکار ہو گا۔
بوسٹن میراتھن ریس پر بم حملے کے دن پاکستانی سفارتخانے کا عملہ ساری رات جاگتا رہا
امریکی تھنک ٹینک چاہتے ہیں کہ ڈرون حملے جاری رہنے چاہئیں
ڈرون حملوں کی وجہ سے پاکستان دوہری تباہی سے دوچار ہے۔ ایک طرف امریکی ڈرون حملوں کے باعث ملک کے اندر اور بیرونی دنیا میں یہ تاثر پیدا ہوا ہے کہ پاکستان ان علاقوں پر بھی موثر کنٹرول نہیں رکھتا جو اس کی علاقائی حدود کا حصہ ہیں اور اس نے ان علاقوں پر اپنا کنٹرول بحال کرنے کے لئے امریکا کی درپردہ مدد حاصل کر رکھی ہے یعنی پاکستان زبانی کلامی تو ان حملوں کی مذمت کرتا ہے' عوامی ردعمل کو محدود رکھنے کے لئے امریکہ سے احتجاج کیا جاتا ہے لیکن خود پاکستان نے ہی امریکہ کو ڈرون حملوں کی کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔
دوسری جانب ان ڈرون حملوں کے ردعمل میں عسکریت پسند پاکستان کے اندر دہشت گردی کی کارروائیاں کرتے ہیں۔ اگر ڈرون حملوں کی وجہ سے طالبان رہنماؤں میں سے کوئی جاں بحق ہوتا ہے تو اس کا بدلہ امریکہ کے بجائے پاکستان سے لیا جاتا ہے یعنی دوسرے لفظوں میں کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ اور اس کے مغربی اتحادی اپنے اس مقصد میں پوری طرح سے کامیاب ہیں کہ ان کی کارروائیوں کے نتیجے میں سامنے آنے والے انتقامی ردعمل کا نشانہ پاکستان ہی بنتا ہے اور یوں اس جنگ کا تمام تر خمیازہ پاکستان ہی کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔
گزشتہ دنوں امریکہ میں پاکستانی سفیر شیری رحمان نے ممتاز تھنک ٹینک بروکنگز کے زیراہتمام امریکی صحافیوں سے بات چیت کے دوران ڈرون حملوں کے بارے میں پاکستانی مؤقف کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملے اپنی افادیت کھو چکے ہیں۔ ان حملوں کے نتیجے میں بنیاد پرستی اور دہشت گردی میں کمی کے بجائے مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دہت گردی 70 ہزار پاکستانیوں کی جان لے چکی ہے۔
معیشت کو 78 ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے جبکہ جو مالی امداد امریکہ سے حاصل ہوتی ہے وہ اس نقصان کے تناسب سے آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔ ان تمام مسائل اور مصائب کے باوجود مغربی میڈیا میں پاکستان کی انتہائی منفی تصویر کشی کی جاتی ہے۔ اس نشست کے دوران پاکستانی سفیر نے ایک ایسی بات کی جس سے پاک امریکہ تعلقات کی نوعیت کو بڑی آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ دہشت گردی کی جنگ میں فرنٹ لائن اسٹیٹ پاکستان کو امریکہ کی جانب سے کس قدر ہولناک دباؤ کا سامنا ہے اور سچی بات یہ ہے کہ یہ دباؤ ہم نے خود اپنے آپ پر مسلط کیا ہے۔ شیری رحمان کا کہنا تھا کہ ''بوسٹن میراتھن ریس پر جس روز بم حملہ ہوا تو مجھ سمیت پاکستانی سفارتخانے کا تمام عملہ بے حد دباؤ میں تھا۔
اس رات ہم میں سے کوئی بھی سو نہیں سکا اور میں ساری رات دعا کرتی رہی کہ اس واقعہ میں کوئی پاکستانی ملوث نہ ہو اور خدا کا شکر ہے کہ اس بم حملے میں کسی پاکستانی کا نام نہیں ہے۔'' اس نشست کے دوران پاکستان اور افغانستان کے امور کے ماہر مارون وائن بام نے پاکستانی تشویش کو یہ کہہ کر رد کر دیا کہ ڈرون حملوں سے ہونے والا شہریوں کا جانی نقصان پاکستانی فضائیہ کی کارروائیوں کے نتیجے میں ہونے والی شہری ہلاکتوں سے کہیں زیادہ کم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں دہشت گردی سے نمٹنے کی کوئی پالیسی سرے سے موجود ہی نہیں۔ اگر پاکستان نے 2001ء میں سرحد پار کر کے پاکستان میں گھس آنے والے عسکریت پسندوں کے خلاف اسی وقت کارروائی کی ہوتی تو آج اسے دہشت گردی کا سامنا نہ ہوتا۔ ہمیں پاکستان میں کوئی دلچسپی نہیں' ہم صرف اس چیز میں دلچسپی رکھتے ہیں جو پاکستان کی سرزمین سے خطرات پیدا کر رہی ہے۔
آنکھ اوجھل، پہاڑ اوجھل
برطانیہ کے دارالحکومت لندن میں کام کرنے والے بیورو آف انویسٹی گیٹو جرنلزم اور نیو امریکن فاؤنڈیشن نے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملوں سے ہونے والے جانی نقصان کے بارے میں الگ الگ رپورٹیں تیار کی ہیں جن میں سامنے آنے والے اعدادو شمار امریکی انتظامیہ اور سی آئی اے کی جانب سے دیئے جانے والے اعدادو شمار سے یکسر مختلف ہیں۔ بیورو آف انویسٹی گیٹو جرنلزم نے اپنی رپورٹ کو ''Out of Sight, Out of Mind'' یعنی ''آنکھ اوجھل، پہاڑ اوجھل'' کا عنوان دیا ہے۔ یہ عنوان امریکہ اور پاکستان کی حکومتوں کے اس طریقہ واردات پر طنز ہے جو وہ شہری ہلاکتوں پر پردہ ڈالنے کے لیے کیا جاتا ہے۔
اس رپورٹ میں ایک ایسا تفصیلی گراف بھی شامل ہے جو ہر ڈرون حملے کے نتیجہ میں ہونے والی ہلاکتوں کی مکمل تفصیل فراہم کرتا ہے کہ اس کے نتیجے میں کتنے عام شہری، کتنے بچے اور کتنے عسکریت پسند جاں بحق ہوئے۔ اس رپورٹ کے مطابق ڈرون حملوں میں ہونے والے جانی نقصان میں عام شہریوں کا تناسب 22.1 فیصد ہے جس میں 5 فیصد بچے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ان حملوں میں اب تک 2363 لوگ جاں بحق ہوچکے ہیں۔
روس کی افغانستان میں فوج کشی کے دور سے یہ علاقہ بیرونی طاقتوں کی سازشوں کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ ان تین دہائیوں سے زائد عرصے میں ان علاقوں میں امن کے مختصر وقفے بھی آئے لیکن عمومی طور پر صورت حال غیر یقینی ہی رہی۔ روس کے بعد اب امریکہ افغانستان میں اپنی فوجی قوت کے ساتھ موجود ہے۔ روس کے برعکس امریکہ کا انداز زیادہ تہہ دار اور پیچیدہ ہے۔ وہ افغانستان میں اپنی موجودگی کو عالمی امن کے استحکام کی ضمانت قرار دیتا ہے اور اس نے بہت سے ممالک کی فوجوں کو اپنے ساتھ ملا کر اس جرم میں شامل کر رکھا ہے۔
اب اسے اتفاق کہئے یا پھر سوچی سمجھی بین الاقوامی سازش کہ خطے میں جب بھی ایسی صورت حال پیدا ہوتی ہے پاکستان میں فوجی حکومت موجود ہوتی ہے جو کسی عوامی ردعمل کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے امریکہ کے مقاصد کی تکمیل کے لئے کمربستہ ہو جاتی ہے۔ روس کی افغانستان میں آمد کے وقت جنرل ضیاء الحق امریکہ کی مدد کو موجود تھے۔ اب جب امریکہ نے خود افغانستان میں وارد ہونا تھا تو پاکستان میں جنرل مشرف کرسیٔ اقتدار پر براجمان تھے۔ ایسی غیرمعمولی صورت حال میں فوجی حکومتیں نتائج کی پروا کئے بغیر ایسے فیصلے کر گزرتی ہیں جو جمہوری حکومت کے لئے کرنا ممکن نہیں ہوتے اسی لئے ان حکومتوں کو امریکہ اور اس کے ساتھ شامل ملکوں کی حمایت حاصل ہو جاتی ہے۔
دہشت گردی کے خلاف نام نہاد عالمی جنگ میں جنرل پرویز مشرف نے بھی امریکہ کو اسی طرح کی مدد اور اعانت بہم پہنچائی۔ سابق صدر اپنے انٹرویوز میں اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں کہ انہوں نے امریکیوں کو پاکستان میں ڈرون حملے کرنے اور ان کی خفیہ ایجنسیوں کو پاکستان کے اندر سرگرمیوں کی اجازت دے رکھی تھی۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملے اس وقت پاکستان کی وزارت خارجہ کے لئے سب سے بڑا چیلنج ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان حملوں کے باعث یہ تاثر گہرا ہوتا جا رہا ہے کہ پاکستان اپنی علاقائی حدود کے اندر ریاستی عملداری قائم کرنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ایک عام آدمی اسے یوں دیکھتا ہے جیسے گھر کا کوئی بڑا اپنے ہی گھر کے لوگوں کو محلے کے بدمعاشوں سے مار پڑوا رہا ہو۔
سابقہ فوجی حکومت نے امریکہ کو پاکستان کی حدود میں اپنے مقاصد کے حصول کے لئے سرگرمیاں جاری رکھنے کی کھلی چھوٹ دیئے رکھی۔ مشرف دور کے خاتمے کے نتیجے میں وفاق میں پیپلزپارٹی کی حکومت قائم ہوئی تو لوگوں کو یہ خوش فہمی تھی کہ شاید اب امریکہ کی کارروائیوں کو ختم کرنے کے سنجیدہ اقدامات سامنے آئیں گے لیکن پیپلزپارٹی کی حکومت نے مشرف دور کی پالیسیوں کو جاری رکھا۔ ڈرون حملے بھی ہوتے رہے اور پاکستان احتجاج بھی کرتا رہا۔ 2011ء کا سال پاک امریکہ تعلقات کے حوالے سے سب سے زیادہ برا سال رہا۔
اس سال سلالہ چیک پوسٹ پر امریکی حملے کے نتیجے میں پاک فوج کا جانی نقصان ہوا اور ریمنڈ ڈیوس کے ہاتھوں پاکستانیوں کا قتل اور پھر ریمنڈ ڈیوس کو ملکی قانون کو بالائے طاق رکھتے ہوئے امریکہ بھجوانے کا شرمناک واقعہ پیش آیا۔ پاکستان کے عوام میں امید کی کرن پیدا ہوئی تھی کہ شاید تعلقات کی یہ خرابی دہشت گردی کی جنگ سے پاکستان کو نکالنے کا باعث بن جائے اور پاکستان کی جان اس عذاب سے چھوٹ جائے لیکن ایسا نہ ہو سکا اور ملک کے رہنماؤں نے امریکہ کے ساتھ صلح صفائی کی ''نوید'' سنا کر ایک مرتبہ پھر عوام کو مایوس کیا۔
حالیہ انتخابات کے اعلان کے بعد جب انتخابی مہم چلی تو جن ایشوز کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل رہی ان میں ڈرون حملوں کا معاملہ بھی شامل تھا بالخصوص تحریک انصاف اس معاملے میں پیش پیش تھی اور اسے عوام کی زبردست حمایت حاصل تھی۔ یوں دیگر جماعتوں کے لئے بھی یہ ممکن نہیں رہا تھا کہ اس مسئلے کو نظرانداز کر کے عوامی حمایت سے محروم ہو جانے کا خطرہ مول لیں۔ لہٰذا ڈرون حملے بند کرانے کا وعدہ انتخابی سیاست کے اہم وعدوں میں سے ایک تھا۔ دوسری جانب امریکہ اس ساری صورت حال سے خوش نہیں۔
امریکی انتظامیہ کی سطح پر پاکستانی عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے کچھ نمائشی اعلانات سامنے آئے۔ یہ کہا گیا کہ ڈرون حملوں کی کمان سی آئی اے سے لے کر امریکی مسلح افواج کے مرکزی ہیڈکوارٹرز پنٹا گون کے سپرد کر دی گئی ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی صاف کر دیا گیا کہ اگر کسی کے ذہن میں یہ خیال ہے کہ ڈرون حملے بند کر دیئے جائیں تو وہ اس خیال کو ذہن سے نکال دے۔ امریکہ کی یہ بات محض دھمکی نہیں تھی بلکہ جس روز خیبرپختونخوا کی اسمبلی کا پہلا اجلاس ہوا اس روز ڈرون حملہ کر کے یہ پیغام دیا گیا کہ حکومت بدل جانے سے حالات نہیں بدل رہے۔
پھر جب مرکزی اسمبلی کی تقریب حلف برداری تھی اس دن بھی ڈرون حملے کے ذریعے پیغام دیا گیا کہ کسی غلط فہمی میں نہ رہنا۔ پاکستان کی موجودہ حالت ثابت کرتی ہے کہ کسی کو ہتھیار دینا بہت آسان ہے لیکن واپس لینا بہت مشکل۔ پچھلے دو ادوار حکومت میں امریکہ کو خطے کے معاملات میں جس قدر کھلی چھوٹ دے دی گئی تھی اب وہ اس سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں۔ سابقہ حکومتوں نے اپنے کمزور رویے کی وجہ سے موجودہ حکومت کے لئے پاکستان کی علاقائی حدود میں اپنی مطلق عملداری قائم کرنے کے کام کو بے حد مشکل بنا دیا ہے۔
تازہ ترین ڈرون حملوںکے بعد طویل عرصہ کے بعد پہلی مرتبہ محسوس ہو رہا ہے کہ حکومت اس معاملے کو سنجیدگی سے لے رہی ہے اور محض عوام کو مطمئن کرنے کے لئے امریکہ سے احتجاج اور امریکی ناظم الامور کی دفتر خارجہ طلبی پر اکتفاء نہیں کیا جائے گا بلکہ ڈرون حملوں کو بند کروانے کے لئے وہ تمام اقدامات کئے جائیں گے جو حکومت پاکستان کے بس میں ہیں۔
7 جون کو ہونے والے آخری ڈرون حملے کے ردعمل میں وزیر اعظم نواز شریف کا ردعمل کئی حوالوں سے ماضی میں ہونے والے ڈھیلے ڈھالے ردعمل سے مختلف تھا۔ انہوں نے یہ کوشش کی کہ پاکستان کے موقف کو کسی لگی لپٹی کے بغیر امریکہ تک پہنچا دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ یہ حملے ملکی سالمیت اور خودمختاری کے خلاف ہیں۔ ان میں بے گناہ افراد مارے جاتے ہیں اور دہشت گردی کی جنگ کو ان سے نقصان پہنچ رہا ہے۔ اس حوالے سے سب سے اہم بات یہ تھی کہ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات خوشگوار رہیں اور تعاون بھی جاری رہے۔ یعنی یہ حملے جاری رہے تو تعاون بھی ختم ہو سکتا ہے اور خوشگواریت بھی۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ صورت حال کا تقاضا ہے کہ ڈرون حملوں کو ہر صورت بند کروایا جائے۔ امریکی فوج کے افغانستان سے انخلاء کے بعد کا منظرنامہ تبھی پاکستان کے حق میں ہو گا اگر امریکی انخلاء شروع ہونے سے پہلے پہلے ہم اپنے قبائلی علاقوں میں امن قائم کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔ قبائلی علاقوں کے عوام اپنے آبائی علاقوں میں معمول کی زندگی بحال کر لیں اور تمام وفاقی علاقوں میں حکومت کی عملداری پوری طرح بحال ہو جائے۔
ان مقاصد کا حصول آسان نہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ افغانستان کے اندر سے بھی پاکستان کو ان مقاصد کے حصول میں مدد دینے کے اشارے مل رہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام سیاسی قوتیں کم ازکم اس معاملے پر تمام سیاسی رنجشوں کو نظرانداز کر کے اس جدوجہد میں شامل ہو جائیں۔ خطے کی صورت حال کو اپنے حق میں ہموار کرنے کے لئے ملکی سطح پر مثالی اتحاد اور تعاون درکار ہو گا۔
بوسٹن میراتھن ریس پر بم حملے کے دن پاکستانی سفارتخانے کا عملہ ساری رات جاگتا رہا
امریکی تھنک ٹینک چاہتے ہیں کہ ڈرون حملے جاری رہنے چاہئیں
ڈرون حملوں کی وجہ سے پاکستان دوہری تباہی سے دوچار ہے۔ ایک طرف امریکی ڈرون حملوں کے باعث ملک کے اندر اور بیرونی دنیا میں یہ تاثر پیدا ہوا ہے کہ پاکستان ان علاقوں پر بھی موثر کنٹرول نہیں رکھتا جو اس کی علاقائی حدود کا حصہ ہیں اور اس نے ان علاقوں پر اپنا کنٹرول بحال کرنے کے لئے امریکا کی درپردہ مدد حاصل کر رکھی ہے یعنی پاکستان زبانی کلامی تو ان حملوں کی مذمت کرتا ہے' عوامی ردعمل کو محدود رکھنے کے لئے امریکہ سے احتجاج کیا جاتا ہے لیکن خود پاکستان نے ہی امریکہ کو ڈرون حملوں کی کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔
دوسری جانب ان ڈرون حملوں کے ردعمل میں عسکریت پسند پاکستان کے اندر دہشت گردی کی کارروائیاں کرتے ہیں۔ اگر ڈرون حملوں کی وجہ سے طالبان رہنماؤں میں سے کوئی جاں بحق ہوتا ہے تو اس کا بدلہ امریکہ کے بجائے پاکستان سے لیا جاتا ہے یعنی دوسرے لفظوں میں کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ اور اس کے مغربی اتحادی اپنے اس مقصد میں پوری طرح سے کامیاب ہیں کہ ان کی کارروائیوں کے نتیجے میں سامنے آنے والے انتقامی ردعمل کا نشانہ پاکستان ہی بنتا ہے اور یوں اس جنگ کا تمام تر خمیازہ پاکستان ہی کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔
گزشتہ دنوں امریکہ میں پاکستانی سفیر شیری رحمان نے ممتاز تھنک ٹینک بروکنگز کے زیراہتمام امریکی صحافیوں سے بات چیت کے دوران ڈرون حملوں کے بارے میں پاکستانی مؤقف کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملے اپنی افادیت کھو چکے ہیں۔ ان حملوں کے نتیجے میں بنیاد پرستی اور دہشت گردی میں کمی کے بجائے مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دہت گردی 70 ہزار پاکستانیوں کی جان لے چکی ہے۔
معیشت کو 78 ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے جبکہ جو مالی امداد امریکہ سے حاصل ہوتی ہے وہ اس نقصان کے تناسب سے آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔ ان تمام مسائل اور مصائب کے باوجود مغربی میڈیا میں پاکستان کی انتہائی منفی تصویر کشی کی جاتی ہے۔ اس نشست کے دوران پاکستانی سفیر نے ایک ایسی بات کی جس سے پاک امریکہ تعلقات کی نوعیت کو بڑی آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ دہشت گردی کی جنگ میں فرنٹ لائن اسٹیٹ پاکستان کو امریکہ کی جانب سے کس قدر ہولناک دباؤ کا سامنا ہے اور سچی بات یہ ہے کہ یہ دباؤ ہم نے خود اپنے آپ پر مسلط کیا ہے۔ شیری رحمان کا کہنا تھا کہ ''بوسٹن میراتھن ریس پر جس روز بم حملہ ہوا تو مجھ سمیت پاکستانی سفارتخانے کا تمام عملہ بے حد دباؤ میں تھا۔
اس رات ہم میں سے کوئی بھی سو نہیں سکا اور میں ساری رات دعا کرتی رہی کہ اس واقعہ میں کوئی پاکستانی ملوث نہ ہو اور خدا کا شکر ہے کہ اس بم حملے میں کسی پاکستانی کا نام نہیں ہے۔'' اس نشست کے دوران پاکستان اور افغانستان کے امور کے ماہر مارون وائن بام نے پاکستانی تشویش کو یہ کہہ کر رد کر دیا کہ ڈرون حملوں سے ہونے والا شہریوں کا جانی نقصان پاکستانی فضائیہ کی کارروائیوں کے نتیجے میں ہونے والی شہری ہلاکتوں سے کہیں زیادہ کم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں دہشت گردی سے نمٹنے کی کوئی پالیسی سرے سے موجود ہی نہیں۔ اگر پاکستان نے 2001ء میں سرحد پار کر کے پاکستان میں گھس آنے والے عسکریت پسندوں کے خلاف اسی وقت کارروائی کی ہوتی تو آج اسے دہشت گردی کا سامنا نہ ہوتا۔ ہمیں پاکستان میں کوئی دلچسپی نہیں' ہم صرف اس چیز میں دلچسپی رکھتے ہیں جو پاکستان کی سرزمین سے خطرات پیدا کر رہی ہے۔
آنکھ اوجھل، پہاڑ اوجھل
برطانیہ کے دارالحکومت لندن میں کام کرنے والے بیورو آف انویسٹی گیٹو جرنلزم اور نیو امریکن فاؤنڈیشن نے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملوں سے ہونے والے جانی نقصان کے بارے میں الگ الگ رپورٹیں تیار کی ہیں جن میں سامنے آنے والے اعدادو شمار امریکی انتظامیہ اور سی آئی اے کی جانب سے دیئے جانے والے اعدادو شمار سے یکسر مختلف ہیں۔ بیورو آف انویسٹی گیٹو جرنلزم نے اپنی رپورٹ کو ''Out of Sight, Out of Mind'' یعنی ''آنکھ اوجھل، پہاڑ اوجھل'' کا عنوان دیا ہے۔ یہ عنوان امریکہ اور پاکستان کی حکومتوں کے اس طریقہ واردات پر طنز ہے جو وہ شہری ہلاکتوں پر پردہ ڈالنے کے لیے کیا جاتا ہے۔
اس رپورٹ میں ایک ایسا تفصیلی گراف بھی شامل ہے جو ہر ڈرون حملے کے نتیجہ میں ہونے والی ہلاکتوں کی مکمل تفصیل فراہم کرتا ہے کہ اس کے نتیجے میں کتنے عام شہری، کتنے بچے اور کتنے عسکریت پسند جاں بحق ہوئے۔ اس رپورٹ کے مطابق ڈرون حملوں میں ہونے والے جانی نقصان میں عام شہریوں کا تناسب 22.1 فیصد ہے جس میں 5 فیصد بچے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ان حملوں میں اب تک 2363 لوگ جاں بحق ہوچکے ہیں۔