ماروی اور ملیر

پاکستان بننے کے بعد نام بدل کر چیزوں کو مسلمان کرنے کا رواج ہوگیا۔

بالکونی میں کھڑے ہوکر میں سامنے اسکول کے گراؤنڈ میں دیکھ رہا تھا، جہاں آج سے 55 سال پہلے میں صبح سویرے ساڑھے سات بجے پریڈ کے لیے آیا کرتا تھا۔ خاکی یونیفارم کالے بوٹ، سبزکیپ پہنے جب میں کھمبانی گھٹی سے ریشم گلی کے ذریعے سوسائٹی آتا جہاں گورنمنٹ ہائی اسکول تھا تو پورے راستے لوگ مجھے دیکھتے تھے کہ فوجی جا رہا ہے اور میرا سینہ اور بلند رہتا تھا۔ میرے سارے دوست اس کیفیت کا شکار رہتے تھے اور ہم آپس میں اس بات پر بھی کرتے تھے اور خوش ہوا کرتے تھے۔

اسکول کے سامنے جہاں سرکلر بلڈنگ المعروف گول بلڈنگ ہے ایک گول پارک ہوا کرتا تھا۔ بہت خوبصورت جس میں چنبیلی اور گلاب کے پھولوں کی کیاریاں اور بیلیں تھیں جو لوہے کی گول گرل پر چڑھی ہوتی تھیں۔ ہم درمیانی وقفے میں یہاں بیٹھتے اور ٹھیلوں سے چیزیں خرید کرکھایا کرتے تھے۔ بعد میں اس جگہ پر بے ہنگم بد نما بلڈنگ بن گئی تو بے حد گندی رہتی ہے۔

ہندوؤں نے پارک، اسکول، پیاؤ بنائے۔ پیاؤ پانی پینے کی جگہ جہاں جانور پانی پیا کرتے تھے۔ گائے عام طور پر سڑکوں پر گھومتی رہتی تھیں اور ان کے علاوہ تانگہ اور گدھے گاڑی والے اپنے جانوروں کو یہاں پانی پلاتے تھے۔

پاکستان بننے کے بعد نام بدل کر چیزوں کو مسلمان کرنے کا رواج ہوگیا۔ بلوچستان میں ہندو باغ ریلوے اسٹیشن کو مسلم باغ کردیا حالانکہ وہاں تہجدکی نماز باجماعت ستر سال بعد بھی نہیں ہوئی۔ اسی طرح یہاں ہوا اب میرے اسکول کا پرانا نام جو ہندوؤں کا تھا بحال ہوگیا، اچھا ہوا ایک خاص وجہ سے کیا گیا کہ پاکستان آنے والوں کا ہولڈ نظر نہ آئے تو ایسا کردیا وجہ کچھ بھی ہو اصل کو قائم رہنا چاہیے یہ تاریخ ہے۔

میں اس حیدرآباد کا رہنے والا ہوں جہاں ایک سندھی بولنے والا میرے لیے چاچا تھا اور جہاں میرے والد سندھی بولنے والے بچے کے ماما کہلاتے تھے۔ وہ حیدرآباد اب خال خال ہی کہیں نظر آتا ہے۔ شہر سے یونیورسٹی کو خاص مصلحتوں کے تحت جامشورو لے جایا گیا ، آج اس شہر میں یونیورسٹی کی پرانی عمارت تاریخ کا نوحہ پڑھ رہی ہے۔ لطیف آباد بن سکتا تھا تو یونی ورسٹی کیوں یہاں نہیں رہ سکتی تھی۔ دونوں قومیں چند لوگوں کی ناکارہ زمین کو یونیورسٹی کے لیے خریدنے کے سیاسی فیصلے کو بھگت رہی ہیں۔

حیدرآباد ایک خوبصورت شہر تھا۔ پریم پارک کا لوگ نام بھی بھول گئے۔ دھولن دا سن گارڈن بھی شاید لوگوں کو یاد نہیں۔ کوئی بچا ہے اس تاریخ کو یاد رکھنے والا، میں، میرے چند دوست اور اس وقت کے میرے ہم عمر چند لوگ شہرکے لوگ موسم گرما ان تفریح گاہوں میں گزارتے تھے، رانی باغ جسے بعد میں میونسپل گارڈن کہا گیا اور آج تک تیسری نسل بھی رانی باغ کہہ رہی ہے ایک ہرا بھرا باغ تھا جسے تباہ کردیا گیا ۔ بنانے کے نام پر مٹادیا گیا یہاں پچاس سال پرانے درخت موجود تھے جن کا گہرا سایہ تھا۔ ہری بھری گھاس تھی لوگ سوجاتے تھے دوپہر میں۔

خاندان کے خاندان یہاں پکنک مناتے تھے، دوسرے شہروں سے آنے والے رانی باغ دیکھنے آتے تھے، دن بھر لوگوں کا ہجوم ہوتا تھا۔کیاریاں بھی سر سبز، پرندے چہچہاتے، طوطے، مینا، چڑیاں اور بہت سے خوبصورت پرندے ایک ارضی جنگ کا منظر ہوتا تھا، باہر ٹھنڈی سڑک کے دونوں طرف جم خانہ کی چڑھائی کے اترتے ہی گولرکے درخت بہت گھنے حسین آباد سابقہ گدو تک درختوں کی سرنگ جہاں دھوپ سڑک پر نہیں پڑتی تھی اور دریا سے ٹھنڈی ہوا اس سرنگ کو ایئرکنڈیشنڈ کر دیتی تھی۔ سڑک کے کنارے پتھرکی بینچیں جو اس ہوا سے ٹھنڈی رہتی تھی لوگ ان پر آرام کرتے۔ کھانا ساتھ لاتے دوپہر وہاں گزارتے۔ شام کوگھر واپس لوٹ جاتے۔ دریا کناروں تک بھرا ہوا تیز بہاؤ اور پلا مچھلی کیا زندگی تھی اور کیا ہوگئی اب!


ذاتی مفادات نے اس شہر کی سماجی فضا کو فنا کردیا ۔ شاہی بازار وہ نہیں رہا، رانی باغ کے درخت انسانوں کی ہوس زرکا شکار ہوگئے، جنت کو جہنم بنادیا گیا۔ فری گارڈن پر ٹکٹ اور اندر دھوپ کے ڈیرے 50 سال لگیں گے اسے دوبارہ آباد کرنے میں۔ اگر نیت سلامت ہو جس کا امکان نہیں جہاں گولر کے درخت مفت سایہ کرتے تھے وہاں ہر چیز کمرشل ہوگئی ہے۔ درختوں کی جگہ انسان نے چھتریاں سنبھال لی ہیں مگر چھتری میں درخت کا سوندھا پن کہاں یہ مصنوعی سایہ زندگی کا تحفہ ہے۔

گیلری میں کھڑا اسکول کے باہر وہ جگہ دیکھ رہا ہوں جہاں جی ٹی ایس کی بسیں کھڑی ہوتی تھیں اس جگہ کو سوسائٹی کہتے تھے۔ یہ بسیں یہاں سے اولڈ یونیورسٹی پریم پارک، وحدت کالونی، اس سے پہلے رانی باغ پھر حسین آباد گدو، پھر کچھ اور جگہ رک کر ریلوے پل پر سے دریائے سندھ کا دلکش نظارہ دکھاتی ہوئی کوٹری پر ختم ہوتی تھی اور پھر وہاں سے واپس کوٹری شہر کے اندر ان کا اسٹاپ تھا۔

کوٹری سے دریا کا نظارہ بہت دلکش ہوتا تھا۔ دریا کے سینے پر رنگ برنگی کشتیاں، ملاح اور مچھلی کا شکار کرنے والی کشتیاں حیدرآباد کے گدو کے کنارے سے کشتی میں کوٹری آیا کرتے تھے اور بہت کشتیاں لوگوں سے بھری دریا میں ادھر ادھر آتی جاتی نظر آتی تھیں۔ کوٹری کے سائیڈ پر دریا گہرا ہے اور ادھر بند بھی بہت مضبوط ہے کیونکہ شہر دریا سے نیچے تھا اور خطرہ لگا رہتا تھا یہاں بند کے کنارے میونسپل اسکول تھا اور ایک بار درا میں اتنا پانی آیا کہ اسکول کی چھتوں سے پانی اندر آگیا۔

یہ اسکول حسین آباد ہی تھا میرے ماموں یہاں ٹیچر تھے میں اکثر ان کے پاس چلا جایا کرتا تھا ایک بار غالباً 1956 میں سیلاب آیا تو ریل کے ذریعے ہم کراچی جارہے تھے اس وقت سپر ہائی وے نہیں تھا تو ریل کے پل پر سے جب ریل گزری تو دریا کے پانی کی چھینٹیں کھڑکی میں بیٹھے لوگوں کے چہروں اور لباس پر پڑے اس قدر دریا میں روانی تھی، تب سندھ دریا سندھو تھا۔ شاہی بازار میں پرانی دکانیں تھیں۔ ریشم کے کاریگر ترک وطن کرچکے تھے مگر ریشم گلی اب بھی ریشم گلی تھی اب بھی ریشم گلی ہے ۔

قلعہ شاہی بازارکا ایک سرا اورگھنٹہ گھرکا دوسرا سرا ۔ سیدھا بازار ہزاروں دکانیں بازار میں اور آس پاس اندرون سندھ کے لوگ حیدرآباد آیا کرتے تھے یہ مرکز تھا خریداری کا۔ ایک محاورہ تھا سندھی کا جس کا ترجمہ یہ ہے کہ اگر جیب میں پیسہ ہے تو لاڑکانے گھومنے چلو۔ وہ بالائی سندھ کا مرکز تھا اور حیدرآباد زیریں سندھ کا مرکز، شاہی بازار کا بہت لطف تھا۔

سندھ کے ہر علاقے بندہ یہاں نظر آتا تھا ظاہر ہے کہ ہر علاقے کا لباس ثقافت کچھ نہ کچھ فرق رکھتے ہیں تو اس طرح لوگ الگ الگ نظر آتے تھے۔ میری گلی شاہی بازار اور فقیرکا پڑ کے درمیان ایک اہم گلی تھی کھمبانی گھٹی یہاں سناروں کی دکانیں تھیں۔ آج بھی ہیں چاندی سونے کا کاروبار ہوتا تھا۔

وہ حیدرآباد جہاں اسکول اور اس کے بعد ریڈیو پر میری زندگی گزر گئی اور ایک بڑے عہدے سے میں ریٹائر ہوگیا خیرپور، لاہور، خضدار، کراچی، اسلام آباد سب جگہ میں رہ آیا نوکری کر آیا مگر حیدر آباد میرے ساتھ رہا میرے خیالوں میں خوابوں میں۔ میں خودغرض نہیں ہوسکا لوگوں کی طرح انسانوں کے جنگل کراچی میں جنم نہیں ہوا۔

ماروی اور سورٹھ رائے ڈیاچ کو یاد رکھا۔ میں حیدرآبادی سندھی تھا اور سندھی ہی رہا مجھے سندھ اور حیدرآباد کے ہجر نے ہر جگہ ماروی کی طرح بے چین رکھا اور آج اپنے فلیٹ کی گیلری میں کھڑا ہوں میرا ماضی چار طرف ہے اور مجھے یوں لگ رہا ہے میں ماروی ہوں جسے ملیر مل گیا ہے۔
Load Next Story