عورت کا انفرادی روپ
اقوام متحدہ ہو یا کوئی اور فورم، خواتین کو مساوی حقوق دلانے کے لیے ہر قسم کے اقدامات کیے جاتے ہیں۔
موجودہ دور میں ہر روز کچھ نہ کچھ نیا دیکھنے اور سننے کو ملتا ہے۔ دریافتوں اور ایجادات کے ساتھ نیا فلسفۂ حیات، مرد و زن کی آزادی، حدود و قیود کی بحث اور مختلف سماجی تنظیموں کی جانب سے طرح طرح کے مطالبات۔
ہم سنتے ہیں کہ اب عورتیں مردوں کے شانہ بشانہ کام کریں گی ان کو مردوں کے برابر حقوق ملیں گے۔ معاشرے سے صنفی امتیاز مٹایا جائے گا۔ اقوام متحدہ ہو یا کوئی اور فورم، خواتین کو مساوی حقوق دلانے کے لیے ہر قسم کے اقدامات کیے جاتے ہیں اور قراردادیں پیش کی جاتی ہیں جنھیں اکثریت سے منظور بھی کیا جاتا ہے۔
ان مباحث اور قراردادوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج کی عورت یہ ثابت کرنے پر تُلی ہے کہ وہ ہر وہ کام کرسکتی ہے جو ایک مرد کرسکتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس طرح عورت اپنی انفرادیت کھو رہی ہے۔ عورت کو اس لیے تخلیق نہیں کیا گیا کہ وہ ہر وہ کام کرے جو ایک مرد کرسکتا ہے بلکہ عورت کو اس لیے تخلیق کیا گیا ہے کہ وہ ہر وہ کام کرسکے جو مرد نہیں کرسکتا۔ ع
ورت کے وجود سے زندگی جنم لیتی ہے، عورت کی گود ہی پہلی درس گاہ ہوتی ہے اور اس کی تربیت ہی ہمارے معاشرے کو کام یاب اچھا انسان دیتی ہے۔ یہی عورت سائنس داں، سیاست داں، لکھاری اور مردوں کی دیگر کام یابیوں کی وجہ بنتی ہے۔ یہی عورت بیٹی کو بھی جنم دیتی ہے اور اسے بھی کام یاب انسان بناتی ہے۔
اگرچہ اب دنیا بہت بدل چکی ہے مگر اب بھی ہمارے معاشرے میں اکثر مرد عورت کو پاؤں کی جوتی سمجھتے ہیں۔ تاہم وہ مرد جس کی نظر میں ماں کی اہمیت ہو وہ ہر اس عورت کو عزت دیتا ہے جو کسی نہ کسی طرح اس زندگی میں شامل ہوتی ہے۔ اس کی نظر میں ایک عورت اس لیے بھی لائقِ تکریم ہے کہ وہ ماں ہوتے ہوئے اپنا آپ اولاد پر نچھاور کرتی ہے، اپنا وقت قربان کرتی ہے اور بہت سے خواب اور خواہشیں اپنے بچے کے لیے ترک کر دیتی ہے۔
یہ قوت بھی اللہ تعالی نے ایک عورت میں ہی رکھی ہے کہ وہ تمام رشتوں کو پیچھے چھوڑ کر نئے رشتے بناتی بھی ہے اور انھیں نبھانے کے ساتھ نئی نسل کو بھی پروان چڑھاتی ہے۔ یہ اس کا ایک عظیم وصف ہے اور اسی بنیاد پر وہ اپنے خاندان میں ممتاز اور باوقار ہوتی ہے۔
ایک عورت ہی کو خدا نے یہ صلاحیت دی ہے کہ وہ ایک وقت میں کئی کام انجام دے سکتی ہے۔ ایک سرسری نظر ڈالیں تو معلوم ہو گا کہ عورت کچن میں کھانا پکا رہی ہے تو کسی کمرے میں میز پر اس کے بچے بیٹھے اسکول کا ہوم ورک بھی کر رہے ہوں گے اور وہ کچن سے فرصت کے چند لمحات کسی بھی طرح نکال کر ان کی مدد بھی کر رہی ہوگی۔
اسی دوران اچانک مہمان کی آمد یا کوئی ضروری کام ہو تو وہ اسے بھی انجام دیتی ہے۔ اس کا صبر، اس کی برداشت کی قوت مرد کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہوتی ہے۔ یہی وہ صلاحیت ہے جو مرد اور عورت میں فرق واضح کرتی ہے۔
ہم جس معاشرہ میں رہتے ہیں وہاں اگر مرد کما رہا ہے تو بچوں کی دیکھ بھال اور گھریلو امور سے خود کو بری الزمہ سمجھتا ہے لیکن جب ہم گھر سے باہر جاکر کام کرنے والی کسی عورت کو دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ وہ دفتر سے لوٹ کر ایک ہاؤس وائف کے فرائض بھی نبھا رہی ہوتی ہے۔
عورت میں ہی اس بات کی صلاحیت ہے کہ وہ جسمانی، ذہنی طور پر کتنی ہی تھکاوٹ کا شکار کیوں نہ ہو اور کسی دکھ اور تکلیف میں ہو تب بھی وہ دنیا کے سامنے ہستی، مسکراتی اور خود کو خوش باش ثابت کرتی ہے۔
اگر ان خصوصیات اور اوصاف کی بنیاد پر مرد اور عورت کا موازنہ کیا جائے تو عورت ایک بلند مرتبہ اور مقام پر نظر آتی ہے۔ اس طرح یہ کہا جاسکتا ہے کہ مرد کے شانہ بشانہ چلنے کی خواہش اور برابری کا مطالبہ کر کے آج کی عورت خود کو برتر نہیں کم تر کرنے کی بات کررہی ہے اور ان صلاحیتوں کو نظر انداز کررہی ہے جو قدرت کی عطا ہیں۔
ہم سنتے ہیں کہ اب عورتیں مردوں کے شانہ بشانہ کام کریں گی ان کو مردوں کے برابر حقوق ملیں گے۔ معاشرے سے صنفی امتیاز مٹایا جائے گا۔ اقوام متحدہ ہو یا کوئی اور فورم، خواتین کو مساوی حقوق دلانے کے لیے ہر قسم کے اقدامات کیے جاتے ہیں اور قراردادیں پیش کی جاتی ہیں جنھیں اکثریت سے منظور بھی کیا جاتا ہے۔
ان مباحث اور قراردادوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج کی عورت یہ ثابت کرنے پر تُلی ہے کہ وہ ہر وہ کام کرسکتی ہے جو ایک مرد کرسکتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس طرح عورت اپنی انفرادیت کھو رہی ہے۔ عورت کو اس لیے تخلیق نہیں کیا گیا کہ وہ ہر وہ کام کرے جو ایک مرد کرسکتا ہے بلکہ عورت کو اس لیے تخلیق کیا گیا ہے کہ وہ ہر وہ کام کرسکے جو مرد نہیں کرسکتا۔ ع
ورت کے وجود سے زندگی جنم لیتی ہے، عورت کی گود ہی پہلی درس گاہ ہوتی ہے اور اس کی تربیت ہی ہمارے معاشرے کو کام یاب اچھا انسان دیتی ہے۔ یہی عورت سائنس داں، سیاست داں، لکھاری اور مردوں کی دیگر کام یابیوں کی وجہ بنتی ہے۔ یہی عورت بیٹی کو بھی جنم دیتی ہے اور اسے بھی کام یاب انسان بناتی ہے۔
اگرچہ اب دنیا بہت بدل چکی ہے مگر اب بھی ہمارے معاشرے میں اکثر مرد عورت کو پاؤں کی جوتی سمجھتے ہیں۔ تاہم وہ مرد جس کی نظر میں ماں کی اہمیت ہو وہ ہر اس عورت کو عزت دیتا ہے جو کسی نہ کسی طرح اس زندگی میں شامل ہوتی ہے۔ اس کی نظر میں ایک عورت اس لیے بھی لائقِ تکریم ہے کہ وہ ماں ہوتے ہوئے اپنا آپ اولاد پر نچھاور کرتی ہے، اپنا وقت قربان کرتی ہے اور بہت سے خواب اور خواہشیں اپنے بچے کے لیے ترک کر دیتی ہے۔
یہ قوت بھی اللہ تعالی نے ایک عورت میں ہی رکھی ہے کہ وہ تمام رشتوں کو پیچھے چھوڑ کر نئے رشتے بناتی بھی ہے اور انھیں نبھانے کے ساتھ نئی نسل کو بھی پروان چڑھاتی ہے۔ یہ اس کا ایک عظیم وصف ہے اور اسی بنیاد پر وہ اپنے خاندان میں ممتاز اور باوقار ہوتی ہے۔
ایک عورت ہی کو خدا نے یہ صلاحیت دی ہے کہ وہ ایک وقت میں کئی کام انجام دے سکتی ہے۔ ایک سرسری نظر ڈالیں تو معلوم ہو گا کہ عورت کچن میں کھانا پکا رہی ہے تو کسی کمرے میں میز پر اس کے بچے بیٹھے اسکول کا ہوم ورک بھی کر رہے ہوں گے اور وہ کچن سے فرصت کے چند لمحات کسی بھی طرح نکال کر ان کی مدد بھی کر رہی ہوگی۔
اسی دوران اچانک مہمان کی آمد یا کوئی ضروری کام ہو تو وہ اسے بھی انجام دیتی ہے۔ اس کا صبر، اس کی برداشت کی قوت مرد کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہوتی ہے۔ یہی وہ صلاحیت ہے جو مرد اور عورت میں فرق واضح کرتی ہے۔
ہم جس معاشرہ میں رہتے ہیں وہاں اگر مرد کما رہا ہے تو بچوں کی دیکھ بھال اور گھریلو امور سے خود کو بری الزمہ سمجھتا ہے لیکن جب ہم گھر سے باہر جاکر کام کرنے والی کسی عورت کو دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ وہ دفتر سے لوٹ کر ایک ہاؤس وائف کے فرائض بھی نبھا رہی ہوتی ہے۔
عورت میں ہی اس بات کی صلاحیت ہے کہ وہ جسمانی، ذہنی طور پر کتنی ہی تھکاوٹ کا شکار کیوں نہ ہو اور کسی دکھ اور تکلیف میں ہو تب بھی وہ دنیا کے سامنے ہستی، مسکراتی اور خود کو خوش باش ثابت کرتی ہے۔
اگر ان خصوصیات اور اوصاف کی بنیاد پر مرد اور عورت کا موازنہ کیا جائے تو عورت ایک بلند مرتبہ اور مقام پر نظر آتی ہے۔ اس طرح یہ کہا جاسکتا ہے کہ مرد کے شانہ بشانہ چلنے کی خواہش اور برابری کا مطالبہ کر کے آج کی عورت خود کو برتر نہیں کم تر کرنے کی بات کررہی ہے اور ان صلاحیتوں کو نظر انداز کررہی ہے جو قدرت کی عطا ہیں۔