خسرہ۔۔۔۔ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی

محکمہ صحت ناکام، ڈینگی کی طرح خسرہ کے لئے بھی حکومت کو میدان میں اترنا ہوگا.


Rana Naseem June 16, 2013
متعلقہ اداروں اور افسروں کی غفلت کے باعث کئی ماؤں کی گود اجڑ گئی ۔ فوٹو : فائل

KARACHI: ملک و قوم کے مسائل کا حل حکومتی ترجیحات پر منحصر ہوتا ہے۔ مگر افسوس۔۔۔! پاکستان میں صحت اور تعلیم جیسے بنیادی شعبوں کی بہتری کبھی حکمرانوں کی ترجیح ہی نہیں بن سکی، کیوں کہ یہ مسائل خالصتاً عوامی نوعیت کے ہیں۔

حکمرانوں کے بچے بیرون ملک پڑھتے ہیں اور سر میں درد بھی ہو جائے تو علاج امریکا یا برطانیہ سے ہی ہوتا ہے۔ انہیں کیا فکر ہے کہ یہاں ڈینگی لوگوں کا خون چوس رہا ہے کہ خسرہ ماؤں کے گود اجاڑ رہا ہے۔ مسلسل نظر انداز صحت کے شعبہ کی بہتری کے لئے حکومتی خزانہ سے کبھی کثیر رقم مختص کی گی نہ اس کے لئے سرمایہ کاروں کو ترغیب دی گئی۔

ترقی یافتہ ممالک میں تو جانوروں کو بھی بہترین طبی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں اور اس فرض سے کوتاہی قابل سزا جرم ہے لیکن وطن عزیز میں انسانوں کو ملنے والی طبی سہولیات بھی انتہائی شرمناک ہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان وسائل اور طاقت کی رسہ کشی، نامناسب طبی سہولیات، بیوروکریسی اور ہیلتھ پروفیشنلز کے درمیان تنازعات کی وجہ سے غریب، بے بس شہری اور معصوم بچے خسرے جیسی وباؤں کے ہاتھوں ایڑھیاں رگڑ رگڑ کر مر رہے ہیں مگر ان کا کوئی پُرسان حال نہیں۔

خسرہ (Measles)کی حالیہ لہر نے پاکستان خصوصاً پنجاب میں شہریوں کو خوف و ہراس میں مبتلا کر رکھا ہے۔ یہ ایک ایسی انفیکشن ہے جو وائرس سے پیدا ہوتی ہے۔ خسرہ سردیوں کے آخر یا بہار کے موسم میں ہوتا ہے اور بیماری کے ساتھ جب کوئی مریض کھانستا یا چھینک مارتا ہے تو نہایت چھوٹے آلودہ قطرے ہوا میں پھیل کر ارد گرد کی اشیاء پر گر جاتے ہیں جسے بچہ یا تو براہ راست سانس کے ساتھ اپنے اندر لے جاتا ہے یا پھر وہ ان آلودہ اشیاء کوہاتھ لگا کراسے اپنے ناک، کان یا منہ کو لگا لیتا ہے۔ خسرہ کی علامات بخار کے ساتھ شروع ہوتی ہیں۔



سرخ دانے چہرے اور گردن کے اوپر ظاہر ہوتے ہیں اور پھر جسم کے دوسرے حصوں میں منتقل ہو جاتے ہیں۔ ویکسی نیشن نہ ہونے اور وٹامن اے کی کمی کے باعث بچے جلد خسرہ کا شکار ہو سکتے ہیں۔ خسرہ کی ایک خوبی ہے کہ یہ زندگی میں صرف ایک ہی مرتبہ نکلتا ہے۔ ایک مرتبہ ہونے کے بعد جسم کے اندر اس کے خلاف مدافعتی نظام بن جاتا ہے اور دوبارہ مریض اس کے حملے سے محفوظ رہتا ہے۔ خسرہ کی شدت ہر مریض میں مختلف ہوتی ہے۔

اگر اس مرض کی ویکسی نیشن نہ کرائی جائے اور مریضوں کو الگ نہ رکھا جائے تو یہ وباء کی صورت اختیار کرجاتا ہے جو اموات کا سبب بنتی ہے اور یہیں سے حکومتی اداروں کی ناکامی شروع ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے عوام کو طبی سہولیات کی فراہمی کے لئے ملک بھر میں محکمہ صحت کے نام پر بچھائے جانے والا جال اس قدر بوسیدہ ہو چکا ہے کہ ایک اینٹ کھسکنے پر پوری عمارت دھڑام سے نیچے آجائے۔ یہ محکمہ صحت اور اس کے ذمہ داروں کی غفلت کا ہی نتیجہ ہے کہ آج قوم کو کبھی ڈینگی تو کبھی خسرہ جیسی وباؤں کا سامنا ہے۔

ملک پر جب ڈینگی جیسی آفت آئی تو محکمہ صحت کے ہاتھ پاؤں پھول گئے، یہ وائرس اس وقت تک قبریں کھدواتا رہا جب تک کہ حکومت خود میدان میں نہ اتر آئی اور اب کی بار خسرہ بھی بے قابو ہو چکا ہے جو محکمہ صحت یا ای پی آئی پروگرام کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ خود کو خادم اعلیٰ کہلوانے والے وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے ڈینگی کی طرز پر خسرہ کے خلاف بھی اعلان جنگ کردیا ہے تو امید کی جا سکتی ہے کہ قوم کے بچوں کو جلد خسرہ کی لعنت سے چھٹکارہ مل جائے گا کیوں کہ اس جنگ میں صرف محکمہ صحت پر انحصار نہیں کیا جائے گا۔

رواں برس فروری میں خسرہ کے حوالے سے قائم ہونے والے کمیشن کی تحقیقات اگرچہ اس وباء کا احاطہ کرتی ہیں لیکن اس میں اٹھارویں ترمیم کے بعد عوامی صحت کے منصوبوں خصوصاً ای پی آئی (ایکسٹینڈیڈ پروگرام آن ایمونائزیشن، جو بچوں کوخسرہ سمیت 8 طرح کی بیماریوں سے محفوظ رکھنے کے لئے حفاظتی ٹیکہ جات لگانے کیلئے شروع کیا گیا) منصوبوں کا خصوصی ذکر کیا گیا ہے، جس میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ کس طرح بیوروکریٹس ویکسین دینے کے عمل میں معمولی اور حل ہونے والے مسائل پر لڑتے رہے اور معصوم بچے دم توڑتے رہے۔

ای پی آئی پروگرام سے جڑی وفاقی، صوبائی حکومتیں اور محکمے غفلت، عدم توجہی اور اپنے کاموں میں تاخیر کے ذمے دار ہیں جن کی وجہ سے یہ اموات واقع ہوئیں۔ تمام ملکی اور بین الاقوامی سٹیک ہولڈرز اس پر متفق ہیں کہ خسرے کی وباء کی سب سے بڑی وجہ معمول کے ای پی آئی پروگرام کی ناکامی ہے۔ اطلاعات کے مطابق خسرہ کی وجہ سے مرنے والوں بچوں میں ویکسین لینے والے بھی شامل تھے۔ اس کا جواب کمیشن کی رپورٹ میں کچھ یوں ملتا ہے کہ اس بات کے بھی واضح ثبوت ہیں کہ ویکسین کو مسلسل سرد رکھنے والا نظام یا کولڈ چین بہت ناقص تھا جس سے ظاہر ہے کہ وقت پر استعمال کے باوجود بھی ویکسین کے معیار اور تاثیر کی کوئی گارنٹی نہیں تھی۔

بین الاقوامی اداروں کے مطابق پاکستان میں جب خسرہ کی وباء پھیلی تواس پر قابو پانے کے لئے قائم نظام کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی طریقہ موجود نہیں تھا، محکموں کے درمیان روابط کا فقدان رہا۔ یہی وجہ ہے کہ وباء کے پھیلاؤ اور اموات کی خبریں پہلے میڈیا پر آئیں پھر مجاز اداروں تک پہنچیں۔ پھر پاکستان میں خوراک کی کمی کی شرح تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ خوراک کی کمی کے شکار بچوں میں خسرہ جلدی شدت اختیار کر لیتا ہے۔خاص طور پر وٹامن اے کی کمی میں مبتلا بچے اس بیماری کا نوالہ بنتے ہیں۔2011ء میں کئے گئے نیشنل نیوٹریشن سروے سے ظاہر ہے پاکستان میں پانچ سال سے کم عمر کے 44 فیصد بچے غذائی کمی اور 54 فیصد بچے وٹامن اے کی کمی کا شکار ہیں۔ خسرہ پھیلنے کی وجوہات جو بھی ہوں، ان پر قابو پانا حکومت وقت کا فرض اور عوام کی قومی ذمہ داری ہے جس کے لئے حکومتی اور نجی دونوں سطح پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ بیرونی عطیات سے کب تک ہمارے مسائل حل ہو سکتے ہیں؟ بالآخر ہم کو ہی انہیں ٹھیک کرنا ہے۔

دیار غیر سے عطیہ کے نام پر آئی ادویات اور امداد سے بہتر ہے کہ حکومت شہریوں میں وبائی امراض سے بچاؤ کا شعور پیدا کرے۔ اس ضمن میں آگاہی پروگرام ترتیب دیئے جائیں جس میں لوگوں کی شرکت کو یقینی بنایا جائے۔ تحقیق کے کام پر زور دینے کے ساتھ وفاقی اور صوبائی دونوں سطح پر ای پی آئی کے مجموعی نظام میں کثیر سرمایہ کاری پر توجہ دی جائے۔ اداروں میں بہتر روابط کا قیام اور فرائض سے غافل افسروں کی قبلہ درستگی کو ترجیح دی جائے۔



خسرہ سے ہونے والی ہلاکتوں کے اعداد و شمار
دنیا بھر میں 4کروڑ30 لاکھ کے قریب لوگ ہر سال خسرے کا شکار ہوتے ہیں۔ 10لاکھ افراد زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں جن میں کثیر تعداد بچوں کی ہوتی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں گزشتہ سال 2012ء میں خسرہ کی وباء سے مجموعی طور 13 ہزار 973 بچے متاثر ہوئے، سندھ (سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ) میں مجموعی طور پر خسرہ کے7 ہزار 274 کیسز رپورٹ ہوئے۔

اندرون سندھ خسرہ کی وباء اب تک اڑھائی سو سے زائد بچوں کی جان لے چکی ہے جبکہ 3ہزار کے قریب بچے اس مرض میں مبتلا ہیں۔ اسی طرح پنجاب میں خسرہ کی تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ صوبہ میں مرنے والے بچوں کی تعداد (تادم تحریر) ڈیڑھ سو سے زائد ہے جس میں سے 90کے قریب بچے صرف لاہور میں انتقال کر گئے۔ صوبہ بھر میں خسرہ کے مریضوں کی تعداد اب تک 17ہزار کے قریب پہنچ چکی ہے۔ ایک ایک دن میں خسرے کے 2،2سو مریض بھی رپورٹ ہو رہے ہیں۔

ملک بھر میں خسرہ کے وباء میں پیدا ہونے والی شدت اور ہلاکتوں میں تیزی سے اضافہ کے سبب ملکی سطح پر بھی ایک تحقیقاتی کمیشن بنایا گیا۔ وفاقی اور صوبائی محکمہ صحت، یونیسف، عالمی ادارہ صحت، یوایس ایڈ اور ورلڈ بینک سمیت دیگر اہم تحقیقاتی اداروں نے کمیشن کی معاونت کی۔ کمیشن کی رپورٹ کے مطابق جنوری 2012 سے فروری 2013 تک خسرے کے 19,048 کیس رجسٹر ہوئے اور463 بچوں کی ہلاکتیں ہوئیں۔ ان میں اکثراموات 2012ء کی آخری سہ ماہی میں ہوئی۔ صوبہ سندھ سب سے زیادہ متاثر ہوا ۔

جہاں خسرے کے کُل 16ہزار 324 کیس رجسٹرڈ ہوئے۔ جبکہ 2009ء میں رجسٹرڈ کیسز کی تعداد صرف 863 تھی جس سے ملک میں عوام کو طبی سہولیات فراہم کرنے کے نظام کی تباہی کا پتہ چلایا جا سکتا ہے۔ حکومت اور ڈونرز کی طرف سے اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود پاکستان میں خسرہ کی شدت میں اضافہ اس شعری مصرعے کے مصداق ہے کہ''مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی''۔ خسرہ کی حالیہ لہر سے متاثرہ افراد کی شرح کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر فوری اور ٹھوس اقدامات نہ کئے گئے تو رواں سال 2013ء میں متاثرین اور ہلاکتوں کی تعداد دو گنا ہو جانے کا خدشہ ہے۔

خسرہ سے بچاؤ کے لئے سکولوں میں بچوں کی ویکسی نیشن کرنے کا طریقہ کار درست نہیں: ڈاکٹر حمیرا زریں
اسسٹنٹ پروفسیر انسٹی ٹیویٹ آف پبلک ہیلتھ لاہور ڈاکٹر حمیرا زریں نے ''ایکسپریس'' سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ خسرہ ایک ایسی بیماری ہے جو ایک سے دوسرے کو لگتی ہے، یہ صرف بچوں کو ہی نہیں ان بڑوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے جنہیں بچپن میں خسرہ نہیں ہوا۔

اللہ کا شکر ہے کہ اس مرض کا سو فیصد علاج ممکن اور دوائی موجود ہے۔ خسرہ کی ویکسین لائیو ویرل وائرس ہوتا ہے جو بچوں کے مدافعتی نظام کو تقویت دے کر بیماری سے لڑنے کے قابل بناتا ہے۔ پاکستان میں خسرہ کی ویکسین باہر سے آتی ہے جس کاکچھ حصہ حکومت خریدتی اور کچھ بین الاقوامی ڈونرز کی طرف سے مفت فراہم کیا جاتا ہے۔ پاؤڈر کی شکل میں موجود ویکسین میں واٹر (پانی) ملا کر اسے 6گھنٹوں کے اندر استعمال کرنا ضروری ہے۔

ویکسی نیشن کے باوجود بچوں کو خسرہ ہونے کے بارے میں ڈاکٹر حمیرا زریں کا کہنا تھا کسی بھی دوائی کی سو فیصد تاثیر نہیں ہوتی، پاکستان جیسے ملک میں جہاں آبادی میں بے تحاشا اضافہ، صفائی کا ناقص انتظام اور خوراک کی کمی جیسی صورتحال ہوتی ہے وہاں ویسے ہی تمام ادویات کے مکمل نتائج برآمد نہیں ہو پاتے۔ اس کے علاوہ شدید گرمی میں لوڈشیڈنگ بھی ویکسین کی کارکردگی کو متاثر کرتی ہے کیوں کہ خسرہ کی ویکسین کو کولڈ چین کے تحت فراہم کرنا ضروری ہے۔ لیکن اب اس صورتحال سے نبرد آزما ہونے کا بھی توڑ نکال لیاگیا ہے، ویکسین کے لئے ایک خاص قسم کے ریفریجریٹر ہیلتھ سنٹرز پر رکھے جا رہے ہیں، آئیس لائن ریفریجریٹر (ILR) کے نام سے موسوم اس فریج میں ویکسین کو 14گھنٹے تک بغیر بجلی کے بھی رکھا جا سکتا ہے۔ اس ضمن میں دوسری اہم بات ویکسین لگانے کا طریقہ کار ہے۔

خاص حالات یا مہم کے علاوہ سکولوں میں جا کر بچوں کی ویکسی نیشن کرنے کا طریقہ کار درست نہیں کیوں کہ خسرہ کی ویکسین لگانے کے لئے مخصوص درجہ حرارت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی لئے اب سنٹرز میں بچوں کی ویکسی نیشن کرنے پر زور دیا جا رہا ہے۔ حمیرا زریں کے مطابق خسرہ جیسی وباؤں سے نمٹنے اور ان پر مکمل قابو پانے کے لئے سب سے پہلے ماؤں کو اس ضمن میں تعلیم دینے کی ضرورت ہے۔

چوسنی، گھٹی اور ڈبے کا دودھ بچے کے مدافعتی نظام کو کمزور کرتا ہے۔ ماں کے دودھ میں بچے کو قدرتی طور پراینٹی باڈیز ملتی ہیں جس سے کوئی بھی بیماری اس پر جلد حملہ آور نہیں ہوتی۔ لہذا بچوں کو وبائی امراض سے بچانے اور انہیں صحت مند زندگی دینے کے لئے مائیں انہیں ضرور اپنا دودھ پلائیں۔ ہر کام حکومت یا ڈاکٹر پر چھوڑنے کی عادت اور سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ بچے آپ کے ہیں ان کے لئے خود کچھ کریں اور انہیں حفاظتی ٹیکے ضرور لگوائیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں