ریاض الرحمان ساغر کی کچھ یادیں کچھ باتیں ان کی زبانی
ریاض الرحمان ساغر 1941ء میں یکم دسمبر کو بھارت کی ریاست پٹیالہ کے شہر بھٹنڈا میں پیدا ہوئے۔
KARACHI:
ریاض الرحمان ساغر شاعر ، نغمہ نگار ، رائٹر اور صحافی کی حیثیت سے اپنا ایک مقام رکھتے تھے جنہیں ان شعبوں میں اپنی پہچان بنانے کے لئے کئی سال لگے، اس دوران انھیں زندگی کے کئی کٹھن اور مشکل مراحل سے گزرنا پڑا ، وہ ان لوگوں کے لئے مشعل راہ ہیں جو زندگی کے کسی شعبہ میں کچھ کر دکھانے کا عزم رکھتے ہیں۔
اس حوالے سے راقم نے ''روزنامہ ایکسپریس'' کے لئے ریاض الرحمان ساغر کی ان کی زبانی آپ بیتی قسط وار شروع کی تھی جس میں انھوں نے اپنی کامیابیوں اور اس کے لئے کی جانیوالی جدوجہد کا تفصیلاً ذکر کیا تھا۔ ان میں سے چند اقتباسات قارئین کے نذر ہیں۔ ''میں ریاض الرحمان ساغر تو بعد میں بنا پیدا ہوا تو میرا نام ریاض الرحمان جو میرے دادا نے رکھا۔ 1941ء یکم دسمبر ریاست پٹیالہ کے ایک شہر بھٹنڈا انڈیا میں پیدا ہوا۔ جب میں نے ہوش سنبھالا تو میں ساڑھے چھ برس کا تھا اور یہ وہ دور تھا جب قائداعظم تحریک آزادی کی جنگ اور پاکستان کے قیام کی جدوجہد میں کامیاب ہوچکے تھے۔
1947ء میں جب تقسیم وجود میں آئی ،پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو میں اپنے والد اور والدہ کے ساتھ ایک کاررواں میں بٹھنڈا سے نکلا اور وہ کاررواں کھیتوں، کھلیانوں میں سے ہوتا ہوا نہروں کے پُل عبور کرتا ہوا سیکڑوں کی تعداد میں لوگ اس میں شامل تھے ۔ اسی دوران میں ایک جگہ کاررواں پر پھر حملہ ہوا اور میرے والد صاحب جو ریلوے کے اعلیٰ عہدے پر فائز تھے انھیں میری اور ماں کی آنکھوں کے سامنے شہید کردیا گیا۔ ماں کی گود میں میرا شیر خوار بھائی تھا اور ماں کی میں نے انگلی پکڑی ہوئی تھی وہ اس سانحہ کے بعد ساکت اور جامد کھڑی تھیں۔
میں نے گھبرا کر ماں سے کہا کہ چلو ہمیں بھی مار دینگے اور پھر ہم اس جگہ بے گورو کفن کٹے باپ کی لاش وہیں چھوڑ کر چل دئیے ۔ پھر بکھیرا ہوا کاررواں جو سمٹ رہا تھا اس میں شامل ہو کر گرتے ،لوٹتے ،کٹتے پاکستان میں والٹن مہاجر کیمپ میں پہنچ گئے۔کیمپ میں آٹا کے ساتھ نمک مرچ ملتا اور ہم نمک مرچ پانی میں گھول کر اس کے ساتھ روٹی کھاتے ۔ وہاں میری والدہ کا لباس جگہ جگہ سے پھٹا ہوا تھا تو بلوچ رجمنٹ کے ایک نائیک نے اپنی جیکٹ اتار کر والدہ کو دی ۔ اس دن سے میرے دل میں بلوچ رجمنٹ کیلئے خاص احترام اورمحبت ہے اب بھی میں کہیں بلوچ رجمنٹ کو دیکھتا ہوں تو دل ہی دل میں سلام پیش کرتا ہوں ، یہ تھا میرا سفر اور پاکستان میں پہلا قدم ۔اس کے بعد یہ بکھرا ہوا خاندان سب سے پہلے جس جگہ پر پہنچا وہ ملتان شہر تھا۔
اس وقت اپنی بیوہ ماں کے ساتھ اپنے بچپن کو تقریباً خیر آباد کہہ کر زندگی کا بوجھ ماں کے ساتھ مل کر اٹھانے لگا ۔ سید قسور حسین گردیزی ان دنوں ابھرتے ہوئے نوجوان لیڈر تھے ۔ ان کا لومز کا ایک کارخانہ بھی تھا اس کارخانے میں جاکر سُوت کے لچھے لیکر آتا اور میری ماں چرخے پربُن کر مزدوی کرتی جبکہ میں اسکول سے چھٹی کے بعد پیاز کی بوری لا کر بیچتا، لفافہ اور غبارے بنا کر گلی گلی بیچتا رہا اور تعلیمی سفر جاری رہا پھر ہم وہاں سے بہاولپور چلے گئے جہاں پانچویں جماعت کا امتحان پاس کیا۔ اس وقت ریاست بہاولپور (جو اب ریاست نہیں رہی) کے پرائمری اسکولوں میں ٹاپ کیا۔ اسی دوران میرے ایک سوتیلے بھائی جو ریلوے میں کام کرتے تھے وہ بھی مل گئے جنہوں نے میری والدہ سے کہا کہ باپ مرا ہے میں نہیں...... پھر جہاں جہاں ان کی ٹرانسفر ہوتی ہم ان کے ساتھ ہی جاتے۔
ان کی ٹرانسفر بہاولپور سے سمہ سٹہ ہوگئی جہاں 1953ء میں صادق اے وی مڈل اسکول سے مڈل کا امتحان پاس کیا ۔ بہاولپور سے ہم خانیوال آگئے نویں جماعت پاس کرنے کے بعد واپس ملتان آئے جہاں 1956ء میں ملت ہائی اسکول ملتان سے میٹرک پاس کیا۔میٹرک کرنے کے بعد ایمرسن کالج میں داخلہ لے لیا، شعروشاعری سننے اور پڑھنے کا بے حد شوق تھا۔ کالج میں فیض اور ساحرمیرے پسندیدہ شعراء تھے انٹر میڈیٹ میں اپنے کالج کے لان میں بیٹھ کر میں بی اے کے اسٹوڈنٹس کو دائرے میں بیٹھا کر فیض اور ساحر کا کلام سناتا تھا۔ یہ بات میرے پرنسپل کو پسند نہ آئی انھوں نے دو تین مرتبہ وارننگ دینے کے بعد مجھے نکال دیا پھر ملتان سے سیدھا لاہور آگیا ۔اس وقت فیض احمد فیض ''پاکستان ٹائمز'' کے چیف ایڈیٹرتھے۔
میں نے فیض صاحب سے مل کر انھیں کہا کہ آپ کی وجہ سے کالج سے نکالا گیاہوں اور اب مجھے تعلیم مکمل کرنے کے ساتھ نوکری بھی کرنی ہے۔ اس پر انھوں نے ہفت روزہ ''لیل ونہار'' میں پروف ریڈر کی نوکری دیدی۔ نوکری کے ساتھ تعلیم بھی حاصل کرتا رہا اور اس دوران پنجابی فاضل اور بی اے کیا ۔ 1959ء میں نوائے وقت کے چیف ایڈیٹر حمید نظامی کے پاس چلا گیا جنہوں نے اپنے اخبار میں نوکری دیدی۔ فلم لکھنے کا بھی شوق تھا ان دنوں میری ملاقات عزیز میرٹھی سے ہوئی جو اس وقت فلموں کے کامیاب رائٹر تھے۔ مجھے پہلا موقع بھی عزیز میرٹھی نے ہی دیا۔
ان دنوں نغمہ نگار فیاض ہاشمی ملک مشتاق کی نئی فلم ''کالیا'' کے نغمات لکھ رہے تھے،جس کے میوزک ڈائریکٹر ماسٹر عنایت حسین تھے۔ یہ بتاتا چلوں کہ میٹرک میں جب پڑھتا تھا تو انگریزی کے استاد نے جن کا نام ساغر علی تھا، ایک نظم کا اردو میں ترجمہ کرنے کیلئے مجھ سمیت دوسرے بچوں کو بھی دی، انھیں میر ی ترجمہ کی ہوئی کچھ لائنیں پسند آگئیں۔ اس پر مجھے ایوارڈ بھی ملا اور میرا ذہن مزید پختہ ہوگیا کہ شاعری کرنی ہے تو پھر میں اپنے نام ریاض الرحمن کے ساتھ ساغر کا تخلص بھی رکھا۔ فلم ''کالیا''کے دوگانے ملے جن میں میرا پہلا گانا ایورنیو اسٹوڈیو میں گلوکار احمد رشدی اور مالا کی آواز میں ریکارڈ ہوا۔
مجھے دوسرا چانس ایس ایم یوسف کی فلم ''شریک حیات'' میں ملا ۔ جس میں اداکار کمال اور شبنم ہیرو ، ہیروئن ، موسیقار اے حمید تھے جو اپنے طرز کے اچھے اوراعلیٰ معیار کے میوزک ڈائریکٹر تھے جو ''سہیلی'' اور''اولاد''جیسی فلموں کے گانوں کی دھنیں بنا چکے تھے۔ اس وقت تک فلم کا نام فائنل نہیں ہوا تھا بلکہ پروڈکشن 5 یا 6 کے نام سے شروع کی گئی تھی جس کا تھیم سانگ ریکارڈ کرنا چاہتے تھے میں نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ گانا لکھا
سنیئے بُرا نہ مانیئے سننے کی بات ہے
درکار مجھ کو ایک شریکِ حیات ہے
میرے دل کے صنم خانے میں ایک تصویر ایسی ہے جو بالکل آپ جیسی ہے
یہ گیت ایورنیو اسٹوڈیو میں فلم کی اوپننگ کے روز گلوکار مسعود رانا کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا ۔ اسی گانے کے بول لیکر فلم کا نام ''شریکِ حیات'' رکھا ہے ۔ اس کے بعد فلمساز وہدایتکار جعفرشاہ نے ایک فلم بنانے ''سماج ''بنانے کا اعلان کیا ،جس میں محمد علی ، نشو اور دوسرے فنکار اہم کردار ادا کر رہے تھے، اے حمید میوزک ڈائریکٹر تھے۔ جعفر شاہ نے مجھ سے کہا کہ اس فلم کا تھیم سانگ لکھیں جس پر ایک کوشش کرکے ایک گانا لکھا لیکن اس کی بھی ایک کہانی کچھ یوں ہے کہ موسیقار اے حمید اور دفتر میں بیٹھے تھیم سانگ بنانے کی کوشش کر رہے تھے لیکن بات بن نہیں رہی تھی۔
انور بٹالوی جو ان دنوں بھارتی فلم ''انمول گھڑی''لکھ کر واپس آئے تھے ، وہ میرے پاس بیٹھے ہوئے تھے ۔ انھیں اس کا کریڈٹ ملنا چاہیئے ، انھوں نے صورتحال کو دیکھتے ہوئے میرے کان میں کہا ''ریاض گانے میں ''سماج''کا لفظ ڈالو جو جعفر شاہ کو پسند آئیگا، کیونکہ یہ اس کی فلم کا نام ہے'' تو میں نے ان کی بات سن کر کہا کہ چلو اچھا کل کام کرینگے ،دفتر سے نکل کر رکشہ کے انتظار میں کھڑا تھا تو ایک خالی رکشہ کو رکنے کا اشارہ کیا لیکن وہ گزر گیا تو اس کے پیچھے لکھا ہوا تھا ''پپو یار تنگ نہ کر'' تو میرے ذہین میں فوراً آیا کہ یہ وہ دور ہے جب میاں بیوی سے ، ڈاکٹر ، وکیل غرض ہر دوسرا آدمی ایک دوسرے سے تنگ ہیں تو پھر میں گیت لکھا
چلو کہیں دُور یہ سماج چھوڑ دیں
دنیا کے رسم ورواج چھوڑ دیں
جب یہ فلم ریلیز ہوئی تو باکس آفس پر کامیاب ہوئی لیکن یہ گیت سپرہٹ ہوا ،اس کے بعد جس دفتر میں بھی جاتا تو لوگ کہتے تھے کہ ''آئیں ساگر صاحب تشریف رکھیں'' اور یوں بطور نغمہ نگار کیرئیر اپنی صحیح پرواز پر روانہ ہوگیا۔ اس کے بعد میری ملاقات شباب کیرانوی سے ہوئی۔ نغمہ نگاری کے ساتھ فلم کا اسکرپٹ بھی لکھنے لگا ۔ اس طرح شباب کیرانوی کیلئے پہلی فلم ''میری دوستی میرا پیار'' لکھی جس میں اداکار مسعود اختر کو اسٹیج سے اس میں کام کرانے کیلئے پہلی مرتبہ میں لے کرآیا ۔ اس کے بعد ''آئینہ اور صورت''، ''شمع ''، ''شبانہ''، ''نوکر''، ''سسرال''، ''نذرانہ'' شباب پروڈکشن جبکہ ''بھروسہ''،''آواز''، ''ترانہ'' ظفر آرٹ پروڈکشن کیلئے بطور رائٹر لکھیں۔ناصر ادیب اور سعید گیلانی کو میں نے ہی متعارف کروایا اسی لئے وہ آج بھی میرا احترام کرتے ہیں ۔
شباب پروڈکشن کے 90 فیصد اسکرپٹ میں نے لکھے اور ان کے ساتھ حیثیت فیملی ممبر کی طرح تھی کیونکہ تینوں با پ بیٹوں نذر شباب، ظفر شباب اور شباب کیرانوی کیلئے بیک وقت اسکرپٹ لکھنے پڑتے تھے ۔ ایک وقت آیا کہ فلم انڈسٹری میں صرف گجر پروڈیوسرآگئے اور پھر قتل وغارت پر مبنی فلمیں بننے لگیں تو میرے ہیرو اور ہیروئن نہ رہے تو 1986ء سے اسکرپٹ لکھنا ہی چھوڑ دیا ۔ چاکلیٹ ہیرو وحید مراد کا وہ دور بھی دیکھا کہ ایسٹرن اسٹوڈیو کے باہر پرستاروں کا ہجوم اس کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے جمع تھے کہ جیسے وہ گاڑی میں اسٹوڈیو سے باہر آئے تو اس نے ہجوم کو دیکھتے ہوئے سیکیورٹی گارڈ سے کہا کہ ''ہٹاؤ ان لوگوں کو'' جس پر گارڈ نے ان لوگوں پر ڈنڈے برسائے یہ منظر دیکھ کر مجھے اچھا نہ لگا، آگے چل کر فلم ''شبانہ'' سمیت اور بہت سی فلموں میں وحیدمراد کے ساتھ کام کرنے کا اتفاق ہوا اور پھر اس کا وہ دور بھی دیکھا جب وہ لوگوں کو بتانا چاہتے تھے کہ میں وحید مراد ہوں لیکن کوئی اس کی بات سننے کو تیار نہیں تھا۔
اس لئے میں کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ جب روشنی دیتا ہے تو وہ چہرے پر چھا جاتی ہے جسے لوگ پسند کرتے ہیں اور جب یہ روشنی چہرے پر ختم ہوجائے اورلوگوں کو محسوس ہونے لگے کہ یہ نقلی تھا تو وہ اسے مسترد کردیتے ہیں اس لئے عزت اور شہرت ملنے کے بعد غرور اور تکبر سے پرہیز کرنا چاہیئے۔1991-92ء میں مصنف وہدایتکار سیدنور میرے پاس آئے اور بطور رائٹر ڈائریکٹر فلم ''قسم''کے نغمات لکھنے کی درخواست کی تو میں نے ان کے اصرار پر نغمات لکھنے پر راضی ہوگیا ۔ اس کے بعد فلم ''سرگم'' شروع ہوئی جس میں عدنان سمیع خان کو بطور اداکار وگلوکار متعارف کروایا ،کیونکہ عدنان سمیع خان سے صرف میرے ہی تعلقات تھے وہ اپنے ماموں کے ذریعے میرے پاس آئے تھے اور اس طرح عدنان سمیع خان نے مذکورہ فلم کیلئے پہلا گیت ''ذرا ڈھولکی بجاؤ گوریو'' کی دھنیں اور ریکارڈنگ کروائی اور اس کے ساتھ ہی فلمی صنعت میں دوبارہ واپسی ہوگئی کیونکہ اس دور میں سوشل فلمیں بننا شرو ع ہوگئی تھیں اس لئے ''گھونگھٹ''، ''چور مچائے شور'' ،''نکاح'' ، ''ہوائیں'' سمیت دیگر فلموں کے گانے لکھے۔
فلم انڈسٹری میں دوبارہ کلاشنکوف کلچر شروع ہونے پر پھر کنارہ کشی کرلی۔ میں نے زندگی بھرپور انداز سے گزاری اور اللہ تعالیٰ نے وہ سب کچھ دیا جس کی خواہش کی حالانکہ 1947ء میں مجھ کچھ آزمائشوں سے بھی گزرنا پڑا لیکن بعد میں ان قربانیوں اور آزمائشوں کے بدلے میں عزت ، دولت اور شہرت سب کچھ تحفہ میں دیا ہے ۔مجھے اچھی بیوی ملی جس نے میری زندگی کو خوبصورت بنا دیا اور اولاد نرینہ کی کبھی خواہش نہیں بلکہ شادی کے ایک سال بعد اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی تھی کہ مجھے بیٹی دینا اور وہ پوری ہوگئی۔''
ریاض الرحمان ساغر شاعر ، نغمہ نگار ، رائٹر اور صحافی کی حیثیت سے اپنا ایک مقام رکھتے تھے جنہیں ان شعبوں میں اپنی پہچان بنانے کے لئے کئی سال لگے، اس دوران انھیں زندگی کے کئی کٹھن اور مشکل مراحل سے گزرنا پڑا ، وہ ان لوگوں کے لئے مشعل راہ ہیں جو زندگی کے کسی شعبہ میں کچھ کر دکھانے کا عزم رکھتے ہیں۔
اس حوالے سے راقم نے ''روزنامہ ایکسپریس'' کے لئے ریاض الرحمان ساغر کی ان کی زبانی آپ بیتی قسط وار شروع کی تھی جس میں انھوں نے اپنی کامیابیوں اور اس کے لئے کی جانیوالی جدوجہد کا تفصیلاً ذکر کیا تھا۔ ان میں سے چند اقتباسات قارئین کے نذر ہیں۔ ''میں ریاض الرحمان ساغر تو بعد میں بنا پیدا ہوا تو میرا نام ریاض الرحمان جو میرے دادا نے رکھا۔ 1941ء یکم دسمبر ریاست پٹیالہ کے ایک شہر بھٹنڈا انڈیا میں پیدا ہوا۔ جب میں نے ہوش سنبھالا تو میں ساڑھے چھ برس کا تھا اور یہ وہ دور تھا جب قائداعظم تحریک آزادی کی جنگ اور پاکستان کے قیام کی جدوجہد میں کامیاب ہوچکے تھے۔
1947ء میں جب تقسیم وجود میں آئی ،پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو میں اپنے والد اور والدہ کے ساتھ ایک کاررواں میں بٹھنڈا سے نکلا اور وہ کاررواں کھیتوں، کھلیانوں میں سے ہوتا ہوا نہروں کے پُل عبور کرتا ہوا سیکڑوں کی تعداد میں لوگ اس میں شامل تھے ۔ اسی دوران میں ایک جگہ کاررواں پر پھر حملہ ہوا اور میرے والد صاحب جو ریلوے کے اعلیٰ عہدے پر فائز تھے انھیں میری اور ماں کی آنکھوں کے سامنے شہید کردیا گیا۔ ماں کی گود میں میرا شیر خوار بھائی تھا اور ماں کی میں نے انگلی پکڑی ہوئی تھی وہ اس سانحہ کے بعد ساکت اور جامد کھڑی تھیں۔
میں نے گھبرا کر ماں سے کہا کہ چلو ہمیں بھی مار دینگے اور پھر ہم اس جگہ بے گورو کفن کٹے باپ کی لاش وہیں چھوڑ کر چل دئیے ۔ پھر بکھیرا ہوا کاررواں جو سمٹ رہا تھا اس میں شامل ہو کر گرتے ،لوٹتے ،کٹتے پاکستان میں والٹن مہاجر کیمپ میں پہنچ گئے۔کیمپ میں آٹا کے ساتھ نمک مرچ ملتا اور ہم نمک مرچ پانی میں گھول کر اس کے ساتھ روٹی کھاتے ۔ وہاں میری والدہ کا لباس جگہ جگہ سے پھٹا ہوا تھا تو بلوچ رجمنٹ کے ایک نائیک نے اپنی جیکٹ اتار کر والدہ کو دی ۔ اس دن سے میرے دل میں بلوچ رجمنٹ کیلئے خاص احترام اورمحبت ہے اب بھی میں کہیں بلوچ رجمنٹ کو دیکھتا ہوں تو دل ہی دل میں سلام پیش کرتا ہوں ، یہ تھا میرا سفر اور پاکستان میں پہلا قدم ۔اس کے بعد یہ بکھرا ہوا خاندان سب سے پہلے جس جگہ پر پہنچا وہ ملتان شہر تھا۔
اس وقت اپنی بیوہ ماں کے ساتھ اپنے بچپن کو تقریباً خیر آباد کہہ کر زندگی کا بوجھ ماں کے ساتھ مل کر اٹھانے لگا ۔ سید قسور حسین گردیزی ان دنوں ابھرتے ہوئے نوجوان لیڈر تھے ۔ ان کا لومز کا ایک کارخانہ بھی تھا اس کارخانے میں جاکر سُوت کے لچھے لیکر آتا اور میری ماں چرخے پربُن کر مزدوی کرتی جبکہ میں اسکول سے چھٹی کے بعد پیاز کی بوری لا کر بیچتا، لفافہ اور غبارے بنا کر گلی گلی بیچتا رہا اور تعلیمی سفر جاری رہا پھر ہم وہاں سے بہاولپور چلے گئے جہاں پانچویں جماعت کا امتحان پاس کیا۔ اس وقت ریاست بہاولپور (جو اب ریاست نہیں رہی) کے پرائمری اسکولوں میں ٹاپ کیا۔ اسی دوران میرے ایک سوتیلے بھائی جو ریلوے میں کام کرتے تھے وہ بھی مل گئے جنہوں نے میری والدہ سے کہا کہ باپ مرا ہے میں نہیں...... پھر جہاں جہاں ان کی ٹرانسفر ہوتی ہم ان کے ساتھ ہی جاتے۔
ان کی ٹرانسفر بہاولپور سے سمہ سٹہ ہوگئی جہاں 1953ء میں صادق اے وی مڈل اسکول سے مڈل کا امتحان پاس کیا ۔ بہاولپور سے ہم خانیوال آگئے نویں جماعت پاس کرنے کے بعد واپس ملتان آئے جہاں 1956ء میں ملت ہائی اسکول ملتان سے میٹرک پاس کیا۔میٹرک کرنے کے بعد ایمرسن کالج میں داخلہ لے لیا، شعروشاعری سننے اور پڑھنے کا بے حد شوق تھا۔ کالج میں فیض اور ساحرمیرے پسندیدہ شعراء تھے انٹر میڈیٹ میں اپنے کالج کے لان میں بیٹھ کر میں بی اے کے اسٹوڈنٹس کو دائرے میں بیٹھا کر فیض اور ساحر کا کلام سناتا تھا۔ یہ بات میرے پرنسپل کو پسند نہ آئی انھوں نے دو تین مرتبہ وارننگ دینے کے بعد مجھے نکال دیا پھر ملتان سے سیدھا لاہور آگیا ۔اس وقت فیض احمد فیض ''پاکستان ٹائمز'' کے چیف ایڈیٹرتھے۔
میں نے فیض صاحب سے مل کر انھیں کہا کہ آپ کی وجہ سے کالج سے نکالا گیاہوں اور اب مجھے تعلیم مکمل کرنے کے ساتھ نوکری بھی کرنی ہے۔ اس پر انھوں نے ہفت روزہ ''لیل ونہار'' میں پروف ریڈر کی نوکری دیدی۔ نوکری کے ساتھ تعلیم بھی حاصل کرتا رہا اور اس دوران پنجابی فاضل اور بی اے کیا ۔ 1959ء میں نوائے وقت کے چیف ایڈیٹر حمید نظامی کے پاس چلا گیا جنہوں نے اپنے اخبار میں نوکری دیدی۔ فلم لکھنے کا بھی شوق تھا ان دنوں میری ملاقات عزیز میرٹھی سے ہوئی جو اس وقت فلموں کے کامیاب رائٹر تھے۔ مجھے پہلا موقع بھی عزیز میرٹھی نے ہی دیا۔
ان دنوں نغمہ نگار فیاض ہاشمی ملک مشتاق کی نئی فلم ''کالیا'' کے نغمات لکھ رہے تھے،جس کے میوزک ڈائریکٹر ماسٹر عنایت حسین تھے۔ یہ بتاتا چلوں کہ میٹرک میں جب پڑھتا تھا تو انگریزی کے استاد نے جن کا نام ساغر علی تھا، ایک نظم کا اردو میں ترجمہ کرنے کیلئے مجھ سمیت دوسرے بچوں کو بھی دی، انھیں میر ی ترجمہ کی ہوئی کچھ لائنیں پسند آگئیں۔ اس پر مجھے ایوارڈ بھی ملا اور میرا ذہن مزید پختہ ہوگیا کہ شاعری کرنی ہے تو پھر میں اپنے نام ریاض الرحمن کے ساتھ ساغر کا تخلص بھی رکھا۔ فلم ''کالیا''کے دوگانے ملے جن میں میرا پہلا گانا ایورنیو اسٹوڈیو میں گلوکار احمد رشدی اور مالا کی آواز میں ریکارڈ ہوا۔
مجھے دوسرا چانس ایس ایم یوسف کی فلم ''شریک حیات'' میں ملا ۔ جس میں اداکار کمال اور شبنم ہیرو ، ہیروئن ، موسیقار اے حمید تھے جو اپنے طرز کے اچھے اوراعلیٰ معیار کے میوزک ڈائریکٹر تھے جو ''سہیلی'' اور''اولاد''جیسی فلموں کے گانوں کی دھنیں بنا چکے تھے۔ اس وقت تک فلم کا نام فائنل نہیں ہوا تھا بلکہ پروڈکشن 5 یا 6 کے نام سے شروع کی گئی تھی جس کا تھیم سانگ ریکارڈ کرنا چاہتے تھے میں نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ گانا لکھا
سنیئے بُرا نہ مانیئے سننے کی بات ہے
درکار مجھ کو ایک شریکِ حیات ہے
میرے دل کے صنم خانے میں ایک تصویر ایسی ہے جو بالکل آپ جیسی ہے
یہ گیت ایورنیو اسٹوڈیو میں فلم کی اوپننگ کے روز گلوکار مسعود رانا کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا ۔ اسی گانے کے بول لیکر فلم کا نام ''شریکِ حیات'' رکھا ہے ۔ اس کے بعد فلمساز وہدایتکار جعفرشاہ نے ایک فلم بنانے ''سماج ''بنانے کا اعلان کیا ،جس میں محمد علی ، نشو اور دوسرے فنکار اہم کردار ادا کر رہے تھے، اے حمید میوزک ڈائریکٹر تھے۔ جعفر شاہ نے مجھ سے کہا کہ اس فلم کا تھیم سانگ لکھیں جس پر ایک کوشش کرکے ایک گانا لکھا لیکن اس کی بھی ایک کہانی کچھ یوں ہے کہ موسیقار اے حمید اور دفتر میں بیٹھے تھیم سانگ بنانے کی کوشش کر رہے تھے لیکن بات بن نہیں رہی تھی۔
انور بٹالوی جو ان دنوں بھارتی فلم ''انمول گھڑی''لکھ کر واپس آئے تھے ، وہ میرے پاس بیٹھے ہوئے تھے ۔ انھیں اس کا کریڈٹ ملنا چاہیئے ، انھوں نے صورتحال کو دیکھتے ہوئے میرے کان میں کہا ''ریاض گانے میں ''سماج''کا لفظ ڈالو جو جعفر شاہ کو پسند آئیگا، کیونکہ یہ اس کی فلم کا نام ہے'' تو میں نے ان کی بات سن کر کہا کہ چلو اچھا کل کام کرینگے ،دفتر سے نکل کر رکشہ کے انتظار میں کھڑا تھا تو ایک خالی رکشہ کو رکنے کا اشارہ کیا لیکن وہ گزر گیا تو اس کے پیچھے لکھا ہوا تھا ''پپو یار تنگ نہ کر'' تو میرے ذہین میں فوراً آیا کہ یہ وہ دور ہے جب میاں بیوی سے ، ڈاکٹر ، وکیل غرض ہر دوسرا آدمی ایک دوسرے سے تنگ ہیں تو پھر میں گیت لکھا
چلو کہیں دُور یہ سماج چھوڑ دیں
دنیا کے رسم ورواج چھوڑ دیں
جب یہ فلم ریلیز ہوئی تو باکس آفس پر کامیاب ہوئی لیکن یہ گیت سپرہٹ ہوا ،اس کے بعد جس دفتر میں بھی جاتا تو لوگ کہتے تھے کہ ''آئیں ساگر صاحب تشریف رکھیں'' اور یوں بطور نغمہ نگار کیرئیر اپنی صحیح پرواز پر روانہ ہوگیا۔ اس کے بعد میری ملاقات شباب کیرانوی سے ہوئی۔ نغمہ نگاری کے ساتھ فلم کا اسکرپٹ بھی لکھنے لگا ۔ اس طرح شباب کیرانوی کیلئے پہلی فلم ''میری دوستی میرا پیار'' لکھی جس میں اداکار مسعود اختر کو اسٹیج سے اس میں کام کرانے کیلئے پہلی مرتبہ میں لے کرآیا ۔ اس کے بعد ''آئینہ اور صورت''، ''شمع ''، ''شبانہ''، ''نوکر''، ''سسرال''، ''نذرانہ'' شباب پروڈکشن جبکہ ''بھروسہ''،''آواز''، ''ترانہ'' ظفر آرٹ پروڈکشن کیلئے بطور رائٹر لکھیں۔ناصر ادیب اور سعید گیلانی کو میں نے ہی متعارف کروایا اسی لئے وہ آج بھی میرا احترام کرتے ہیں ۔
شباب پروڈکشن کے 90 فیصد اسکرپٹ میں نے لکھے اور ان کے ساتھ حیثیت فیملی ممبر کی طرح تھی کیونکہ تینوں با پ بیٹوں نذر شباب، ظفر شباب اور شباب کیرانوی کیلئے بیک وقت اسکرپٹ لکھنے پڑتے تھے ۔ ایک وقت آیا کہ فلم انڈسٹری میں صرف گجر پروڈیوسرآگئے اور پھر قتل وغارت پر مبنی فلمیں بننے لگیں تو میرے ہیرو اور ہیروئن نہ رہے تو 1986ء سے اسکرپٹ لکھنا ہی چھوڑ دیا ۔ چاکلیٹ ہیرو وحید مراد کا وہ دور بھی دیکھا کہ ایسٹرن اسٹوڈیو کے باہر پرستاروں کا ہجوم اس کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے جمع تھے کہ جیسے وہ گاڑی میں اسٹوڈیو سے باہر آئے تو اس نے ہجوم کو دیکھتے ہوئے سیکیورٹی گارڈ سے کہا کہ ''ہٹاؤ ان لوگوں کو'' جس پر گارڈ نے ان لوگوں پر ڈنڈے برسائے یہ منظر دیکھ کر مجھے اچھا نہ لگا، آگے چل کر فلم ''شبانہ'' سمیت اور بہت سی فلموں میں وحیدمراد کے ساتھ کام کرنے کا اتفاق ہوا اور پھر اس کا وہ دور بھی دیکھا جب وہ لوگوں کو بتانا چاہتے تھے کہ میں وحید مراد ہوں لیکن کوئی اس کی بات سننے کو تیار نہیں تھا۔
اس لئے میں کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ جب روشنی دیتا ہے تو وہ چہرے پر چھا جاتی ہے جسے لوگ پسند کرتے ہیں اور جب یہ روشنی چہرے پر ختم ہوجائے اورلوگوں کو محسوس ہونے لگے کہ یہ نقلی تھا تو وہ اسے مسترد کردیتے ہیں اس لئے عزت اور شہرت ملنے کے بعد غرور اور تکبر سے پرہیز کرنا چاہیئے۔1991-92ء میں مصنف وہدایتکار سیدنور میرے پاس آئے اور بطور رائٹر ڈائریکٹر فلم ''قسم''کے نغمات لکھنے کی درخواست کی تو میں نے ان کے اصرار پر نغمات لکھنے پر راضی ہوگیا ۔ اس کے بعد فلم ''سرگم'' شروع ہوئی جس میں عدنان سمیع خان کو بطور اداکار وگلوکار متعارف کروایا ،کیونکہ عدنان سمیع خان سے صرف میرے ہی تعلقات تھے وہ اپنے ماموں کے ذریعے میرے پاس آئے تھے اور اس طرح عدنان سمیع خان نے مذکورہ فلم کیلئے پہلا گیت ''ذرا ڈھولکی بجاؤ گوریو'' کی دھنیں اور ریکارڈنگ کروائی اور اس کے ساتھ ہی فلمی صنعت میں دوبارہ واپسی ہوگئی کیونکہ اس دور میں سوشل فلمیں بننا شرو ع ہوگئی تھیں اس لئے ''گھونگھٹ''، ''چور مچائے شور'' ،''نکاح'' ، ''ہوائیں'' سمیت دیگر فلموں کے گانے لکھے۔
فلم انڈسٹری میں دوبارہ کلاشنکوف کلچر شروع ہونے پر پھر کنارہ کشی کرلی۔ میں نے زندگی بھرپور انداز سے گزاری اور اللہ تعالیٰ نے وہ سب کچھ دیا جس کی خواہش کی حالانکہ 1947ء میں مجھ کچھ آزمائشوں سے بھی گزرنا پڑا لیکن بعد میں ان قربانیوں اور آزمائشوں کے بدلے میں عزت ، دولت اور شہرت سب کچھ تحفہ میں دیا ہے ۔مجھے اچھی بیوی ملی جس نے میری زندگی کو خوبصورت بنا دیا اور اولاد نرینہ کی کبھی خواہش نہیں بلکہ شادی کے ایک سال بعد اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی تھی کہ مجھے بیٹی دینا اور وہ پوری ہوگئی۔''