لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے منصوبے

وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے وزارت پانی وبجلی اور وزارت پٹرولیم کو بجلی وگیس چوروں کے خلاف سخت ترین اقدامات۔۔۔


Editorial June 15, 2013
فوٹو: فائل

وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے وزارت پانی وبجلی اور وزارت پٹرولیم کو بجلی وگیس چوروں کے خلاف سخت ترین اقدامات کی ہدایات جاری کر دی ہیں جب کہ لوڈ شیڈنگ کے فوری خاتمے کے لیے ہمسایہ ممالک سے بجلی خریدنے کی منظوری دے دی ہے۔ حکومت نے پانچ سو ارب روپے سے زائد کے قرضے کو دو مہینوں کے اندر اندر ختم کرنے کے لیے ایک سہ رخی حکمت عملی بھی تیار کی ہے جس کے ذریعے رمضان شریف سے قبل قومی گرڈ میں پندرہ سو میگا واٹ بجلی شامل ہو جائے گی۔

جمعرات کو وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی زیرصدارت پرائم منسٹرآفس میں توانائی کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے اعلیٰ سطح کا اجلاس ہوا جس میں متعلقہ وزارتوں کے وزراء اور ان کی ٹیموں نے شرکت کی اور ملک میں توانائی کی صورتحال اور اس میں بہتری لانے کی تراکیب کے بارے میں شرکاء کو بریف کیا۔ ملک کو توانائی کے شدید بحران سے نکالنے کے لیے فوری، کم مدتی، وسط مدتی اور طویل مدتی تجاویز پیش کی گئیں۔ اجلاس میں توانائی کی پیداوار بڑھانے اور توانائی کے متبادل ذرائع کی تلاش اور اس حوالے سے عملی اقدامات کرنے پر اتفاق کیا گیا۔ وزیر اعظم نے یہ بھی ہدایت کی کہ بہتر منصوبہ بندی اور مثالی مینجمنٹ سے لائن لاسز کم کیے جائیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ مجھے توانائی کی صورتحال کے حوالے سے ہفتہ وار رپورٹ دی جائے۔ توانائی کے شعبے کے ماہرین نے لوڈ شیڈنگ کے مرحلہ وار خاتمے کے طریقہ کار پر بھی روشنی ڈالی۔

موجودہ حکومت کے لیے فوری نوعیت کا سب سے بڑا چیلنج بجلی کی لوڈشیڈنگ ہے۔ یہ ایسا بحران ہے جس نے عام آدمی ہی نہیں بلکہ ملکی معیشت کو مضمحل کر رکھا ہے جس کے نتیجے میں بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔ یہی نہیں بلکہ لوگوں میں اشتعال اور غصے کے جذبات بھی بڑھ رہے ہیں جس کا ثبوت گزشتہ دنوں فیصل آباد میں ہنگاموں کی صورت میں سامنے آیا۔ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اپنی انتخابی مہم کے دوران توانائی کے اس بحران کا بار بار ذکر کرتے رہے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اس بحران کی شدت سے بخوبی آگاہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دو روزقبل انھوں نے توانائی کی صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے اہم اجلاس طلب کیا۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ کے بحران کی ایک نہیں بلکہ کئی وجوہات ہیں۔ ان میں لائن لاسز' بجلی کی چوری اور فنانس کی کمی وغیرہ شامل ہیں۔

یہ ایسی چیزیں ہیں جن پر قابو پا لیا جائے تو بجلی کی لوڈشیڈنگ میں خاصی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے لیکن ان تمام اقدامات کے باوجود بجلی کی لوڈشیڈنگ کو مکمل طور پر ختم نہیں کیا جا سکتا۔ اس مقصد کے لیے پاکستان کو جہاں بجلی چوری' لائن لاسز میں کمی' واجب الادا قرضوں کی وصولی کے لیے انتظامی نوعیت کے اقدامات کرنے ہیں، وہاں بجلی کی پیداوار بڑھانے کے منصوبوں پر بھی کام کرنا ضروری ہے۔ اس مقصد کے لیے ڈیموں کی تعمیرکے کام میں تیزی لانا ہو گی، اس کے ساتھ ساتھ شمسی توانائی کو بھی استعمال میں لانے کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے۔

پاکستان میں کالاباغ ڈیم پر ایک ایسا منصوبہ تھا جو جلد مکمل ہو سکتا تھا اور جس سے سستی بجلی مہیا ہو سکتی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے کھیتوں کو سراب کرنے کے لیے پانی بھی ذخیرہ کیا جا سکتا تھا لیکن بدقسمتی سے یہ منصوبہ سیاست کی بھینٹ چڑھ گیا۔ یوں اب یہ منصوبہ کسی حکومت کی ترجیح میں شامل نہیں ہے۔ بجلی کا بحران دن بن گہرا ہو رہا ہے۔ اس بحران سے نمٹنے کے لیے ہمسایہ ممالک سے بجلی خریدنے کی آپشن پر بھی عملدرآمد کیا جانا چاہیے۔ پڑوسی ممالک میں بھارت بھی شامل ہے جب کہ ایران اور چین کے ساتھ بھی بات چیت جاری ہے۔

حقائق کو سامنے رکھا جائے تو بھارت سے کم ترین مدت میں بجلی پاکستان پہنچ سکتی ہے۔ بھارت اور پاکستان کا بارڈر محفوظ ہے۔ یہاں کوئی تخریب کار یا دہشت گرد گروپ بجلی کی ٹرانسمیشن لائنوں اور گرڈ اسٹیشنوں کو تباہ نہیں کر سکتا۔ بھارت میں انفرااسٹرکچر پاکستان کی سرحد تک موجود ہے اور پاکستان میں بھی بھارت کی سرحد تک انفرااسٹرکچر موجود ہے۔ یوں دیکھا جائے تو یہاں سے بہت جلد بجلی پاکستان پہنچ سکتی ہے۔ اس لیے بھارت سے بجلی خریدنے کی آپشن کو لازمی طور پر سامنے رکھا جانا چاہیے۔ اس کے برعکس ایران اور چین سے بجلی خریدنا اور اسے ٹرانسمیشن لائنوں اور گرڈ اسٹیشن کے ذریعے پاکستان لانا خطرات سے خالی نہیں ہے۔ بلوچستان کی صورت حال سب کے سامنے ہے، بلوچستان میں قومی تنصیبات پر حملے عام ہیں، پاکستان کے شمال مغربی علاقوں کی صورت حال بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ ان علاقوں میں دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری ہے۔ پاکستان کے انتہائی شمال میں چین کے ساتھ سرحد انتہائی دشوارگزار ہے۔

یہاں سے بجلی پاکستان تک لانا خاصا مہنگا منصوبہ ہو گا۔ بلاشبہ چین اور ایران پاکستان کے دوست ہیں' دونوں ممالک نے مشکل حالات میں ہمیشہ پاکستان کا ساتھ دیا ہے لہٰذا ان ممالک سے توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے مدد لینا ضروری ہے۔ اگر بجلی اور گیس ان ممالک سے آسانی سے اور باحفاظت مل سکتی ہے تو انھیں لازمی ترجیح دینی چاہیے۔ اگر کہیں معاملہ خراب ہے تو پھر کسی اور آپریشن پر غور ہونا چاہیے۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ نے پاکستان کو بری طرح متاثر کر رکھا ہے۔ بجلی کی قلت کی وجہ سے کاروباری سرگرمیاں مدھم پڑ گئی ہیں۔

لاقانونیت اور دہشت گردی اپنی جگہ رہیں لیکن بجلی کی لوڈشیڈنگ نے بھی معیشت کو نڈھال کر دیا ہے۔ اوپر سے بجلی مسلسل مہنگی ہو رہی ہے۔ ان وجوہات کی بناء پر پاکستان کا سرمایہ کار یہاں سے اپنا سرمایہ نکال کر دوسرے ممالک میں شفٹ کر رہا ہے۔ سرمائے کے اس فرار کو روکنا انتہائی ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر ملکی معیشت کو مستحکم نہیں کیا جاسکتا۔ عوام کو میاں نواز شریف کی حکومت سے بہت زیادہ توقعات ہیں۔ وزیراعظم کو بھی اس کا پوری طرح احساس ہے۔ اس بحران پر قابو پانے کے لیے شارٹ ٹرم میں جو کچھ بھی ہو سکتا ہے' وہ ہونا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ طویل المدتی منصوبے بھی شروع کیے جائیں کیونکہ جیسے جیسے معیشت میں پھیلاؤ آئے گا ویسے ویسے بجلی کی ضرورت میں اضافہ ہو گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں