شام کا بحران… روس کا امریکا کو انتباہ

امریکا بشار الاسد حکومت کے مخالفین پر کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال کے بہانے فوجی کارروائی کرنے کی کوشش نہ کرے، روس


Editorial June 15, 2013
امریکا بشار الاسد حکومت کے مخالفین پر کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال کے بہانے وہاں پر فوجی کارروائی کرنے کی کوشش نہ کرے، روس۔ فوٹو: فائل

برادر اسلامی ملک شام کا بحران بدستور جاری ہے۔ ادھر اس میں ایک نئی پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ روس نے امریکا کو خبردار کیا ہے کہ وہ بشار الاسد حکومت کے مخالفین پر کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال کے بہانے وہاں پر فوجی کارروائی کرنے کی کوشش نہ کرے کیونکہ امریکا کی طرف سے شامی حکومت پر اپنے عوام کے خلاف مہلک اسلحہ کے استعمال کا جو الزام عائد کیا جا رہا ہے اور اس حوالے سے امریکا جو شواہد اور اعداد و شمار پیش کر رہا ہے وہ قابل قبول نہیں ہیں بلکہ یہ ویسا ہی جھوٹا اور بے بنیاد پراپیگنڈا ہے جو امریکا نے عراق کو اپنی جارحیت کا نشانہ بنانے کی خاطر عراق کے صدر صدام حسین کے خلاف کیا تھا۔

غیرملکی ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی اطلاعات کے مطابق امور خارجہ کے چوٹی کے روسی مشیر یوری اوشاکوف نے کہا ہے کہ امریکا کی طرف سے شام میں باغیوں کو فوجی امداد فراہم کرنے کے فیصلے سے شام کے بحران کو ختم کرنے کی بین الاقوامی کوششوں کو زبردست دھچکا پہنچے گا۔ ایک اندازے کے مطابق شام میں جاری خانہ جنگی کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے شامی باشندوں کی تعداد ایک لاکھ تک پہنچ رہی ہے۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ چند دنوں بعد شمالی آئرلینڈ میں جی ایٹ کا سربراہ اجلاس منعقد ہو رہا ہے جس میں اہم عالمی سربراہوں کے ہمراہ روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن بھی شرکت کریں گے۔

باور کیا جاتا ہے کہ اس اجلاس میں بھی شام کے مسئلہ کو مرکزی حیثیت حاصل ہو گی۔ مسٹر اوشاکوف نے کہا کہ امریکی حکام نے حال ہی میں روس کو جو نئی اطلاعات فراہم کی ہیں ان میں صدر بشار الاسد کی افواج کی طرف سے باغیوں کے خلاف کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال کا الزام عائد کیا گیا ہے لیکن امریکا نے جو مواد ہمیں بھجوایا ہے وہ قابل اعتبار محسوس نہیں ہوتا۔ میڈیا رپورٹرز سے بات چیت کرتے ہوئے اوشاکوف نے کہا کہ وہ اس موقع پر امریکا کی طرف سے پیش کیے جانے والے اعداد وشمار کی تردید کے لیے اپنی طرف سے کوئی نئی دستاویز نہیں پیش کرنا چاہتے مگر امریکا نے جو ڈیٹا فراہم کیا ہے وہ ویسا ہی ہے جو اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ کولن پاول نے سلامتی کونسل کے اس مشہور اجلاس میں پیش کیا تھا جس میں امریکا سلامتی کونسل سے عراق پر حملے کی اجازت طلب کر رہا تھا۔

یاد رہے یہ اجلاس 2003ء میں ہوا تھا جس میں کولن پاول نے دعویٰ کیا تھا کہ عراقی صدر صدام حسین کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار (ڈبلیو ایم ڈی) موجود ہیں جس کا ٹھوس ثبوت مل چکا ہے لہٰذا عراق پر ہر حال میں حملہ کیا جانا چاہیے۔ سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش (جونیئر) کی انتظامیہ نے اسی جھوٹے مؤقف کا سہارا لے کر عراق پر چڑھائی کی تھی حالانکہ امریکا کو سلامتی کونسل کی طرف سے اس کی اجازت نہیں ملی تھی۔ روسی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں میں امور خارجہ کی کمیٹی کے سربراہ الیکسی پشکوف نے اوشاکوف کے بیان کی توثیق کرتے ہوئے کہا کہ امریکی انتظامیہ کے شامی صدر بشار الاسد پر کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال کا الزام اتنا ہی بے بنیاد ہے جتنا کہ ان کا عراقی صدر صدام حسین کے پاس وسیع تباہی کے ہتھیار رکھنے کا دعویٰ تھا۔

پشکوف نے کہا ہے کہ آخر بشارالاسد کو اپنے عوام پر کیمیاوی اسلحہ استعمال کرنے کی کیا ضرورت ہے جب کہ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ ایسا کرنے سے وہ اپنے ملک میں بین الاقوامی مداخلت کا دروازہ کھول دیں گے۔ پشکوف نے کہا شامی صدر اس قدرغیرذمے دار ہرگز نہیں ہو سکتے۔ شام کے بحران کے حل نہ ہونے کی وجہ عالمی طاقتوں کا کھیل ہے۔ امریکا، مغربی یورپی ممالک اور اسرائیل شام میں حکومت کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے یہ ممالک باغیوں کی حمایت کر رہے ہیں۔ ادھر روس بشار حکومت کی مدد کر رہا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ بشار الاسد کی حکومت ابھی تک باغیوں کی مدد کر رہی ہے۔ مگر سوال شام کے عوام کا ہے۔ بالادستی کی اس لڑائی میں شام کے عوام کا جانی ومالی نقصان ہو رہا ہے۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ اس کھیل میں مسلم ممالک خصوصاً عرب لیگ کا کردار محض تماشائی کا ہے۔ وہ بیان بازی سے آگے بڑھ کر کوئی عملی اقدامات نہیں اٹھا رہے۔ طاقت ور اقوام کے اپنے مفادات ہیں لیکن مسلم ممالک خصوصاً عرب لیگ کو شام میں جاری قتل وغارت بند کرانے کے لیے عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ اگر انھوں نے ایسا نہ کیا تو شام کے عوام کے مصائب میں اضافہ ہوتا رہے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔