قارئین۔۔۔آپ تو پھنس گئے
سمرسٹ ماہم کا ایک ناول ہے ’’دی مون اینڈ سکس پنس‘‘ ۔ اس کے ہیرو کو چالیس برس عمر میں اچانک سوجھتا ہے کہ اسے مصوری۔۔۔۔
سمرسٹ ماہم کا ایک ناول ہے ''دی مون اینڈ سکس پنس'' ۔ اس کے ہیرو کو چالیس برس عمر میں اچانک سوجھتا ہے کہ اسے مصوری کرنی چاہیے۔ پھر وہ اپنا گھر بار چھوڑ کر ان خوبصورت اور ہرے بھرے جزیروں کی طرف نکل جاتا ہے جہاں وہ باقی عمر بسر کرتا ہے اور ساری زندگی تصویریں بنانے میں گزار دیتا ہے۔ میرا بھی کچھ ایسا ہی جی چاہتا ہے۔ لیکن تصویریں میں خاک بناؤں گا اور پھر ہرے بھرے خوبصورت جزیرے کہاں سے لاؤں۔ بس جی چاہتا ہے کہ کپڑے پھاڑ کے جنگل میں نکل جاؤں اور وہاں جا کے قلانچیں بھرتے ہوئے جانوروں کی کسی ڈار میں ٹکر دے ماروں۔ ایسا اس لیے کہ اس میں ''ڈار'' کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ میری یہ حالت بجٹ سن کر ہوئی۔
ڈار صاحب کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ ایک دردمند دل رکھنے والے نیک آدمی ہیں۔ ذاتی طور پر ٹیکس ادا کرنے اور رفاحی کاموں کے لیے خطیر عطیات پیش کرنے میں بھی وہ پیش پیش رہتے ہیں۔ ان باتوں کی تشہیر بھی انھیں اچھی نہیں لگتی۔ اس کے باوجود ویلتھ ٹیکس سے ان کی بے پایاں محبت میری سمجھ سے بالاتر ہے۔ اسے پوری دنیا میں ایک انتہائی غیرمنصفانہ اور ناجائز ٹیکس سمجھا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی کی آمدنی پر نہیں بلکہ اس کے اثاثوں پر لگتا ہے۔ اثاثے خواہ کتنے بھی بڑے ہوں اگر جائز آمدنی سے بنائے گئے ہوں تو ان پر تمام ٹیکسز پہلے ہی ادا کردیے گئے ہوتے ہیں۔
پرویز مشرف نے اس بے ہودہ ٹیکس سے قوم کی جان چھڑادی تھی اور اسے ختم کردیا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اسے وصول کرنے پر اخراجات زیادہ ہورہے تھے اور آمدنی کم تھی۔ اس وقت سے موجودہ وزیر خزانہ نیکہنا شروع کردیا تھا کہ اس میٹر کو بند کیوں کردیا گیا ۔ لہذا اب انھوں نے اس میٹر کو پھر چالو کر دیا ہے۔ سو میں اپنے محبوب قارئین کو متنبہ کرنا چاہتا ہوں کہ ان کی جیب کاٹنے، بلکہ تمام جمع پونجی میں سرنگ لگانے کا مستقبل بندوبست کردیا گیا ہے۔
ٹیکس تو اور بھی لگے ہیں۔ پہلے سے لگے ہوئے ٹیکسوں کو بڑھایا بھی گیا ہے لیکن میں آج صرف ایک ٹیکس کو اس لیے ڈسکس کر رہا ہوں کہ فلاح عامہ کے نام پر لگائے گئے اس ٹیکس کے اگلے برسوں میں انتہائی سنگین اور دور مار قسم کے اثرات مرتب ہوں گے۔ اب ویلتھ ٹیکس کی بجائے اسے ایک اور نام سے متعارف کرایا گیا ہے۔ اس کا نیا نام "Income Support Levy" ہے۔ اسے ان تمام اشخاص سے وصول کیا جائے گا جن کے منقولہ اثاثوں کی مالیت دس لاکھ روپے سے زیادہ ہوگی۔ یعنی آپ کے پاس موجود کیش، زیورات، انعامی بانڈز، سیونگ اسکیموں میں لگائی ہوئی رقم، میوچل فنڈز اور شیئرز مارکیٹ میں انوسٹ کی ہوئی رقم، کار، موٹرسائیکل کی مالیت۔۔۔۔یہ سب کچھ ملاکے اگر دس لاکھ روپے سے زیادہ بنتے ہیں تو آپ پھنس گئے۔ فی الحال اس ٹیکس کی شرح کم یعنی صرف 0.5 فیصد رکھی گئی ہے لیکن ڈار صاحب نے میٹر فٹ کردیا ہے۔ آپ دیکھیے گا اگلے برسوں میں یہ شرح بھی بڑھتی جائے گی اور کسی مرحلے پر اس میں غیرمنقولہ جائیداد یعنی مکان، دکان اور پلاٹ وغیرہ کو بھی شامل کردیا جائے گا۔
اس پر میرا پہلا اعتراض تو یہ ہے کہ زکوٰۃ کی موجودگی میں یہ ٹیکس دہرے ٹیکس کے زمرے میں آتا ہے اور غریبوں کی امداد کے نام پر اسے وصول کرنا جذباتی بلیک میلنگ کے سوا کچھ نہیں۔ یہ تو ایسا ہی ہے جیسے کسی معذور کی ریڑھی ٹریفک سگنل پر کھڑی کرکے حکومت دور بیٹھی اخبار پڑھتی رہے اور شام کو اس کی بھیک اکٹھی کرکے گھر چلی جائے۔ ویسے بھی یہ زمانہ ٹیکس دینے والوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کا ہے جب کہ اس نئے ٹیکس کے ذریعے ہر شخص کو محکمہ انکم ٹیکس کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ میں نے تازہ فنانس بل پڑھا ہے۔ اس میں صاف لکھا ہے کہ انکم ٹیکس افسر ویلتھ اسٹیٹمنٹ کا جائزہ لے گا اور پھر اپنا فیصلہ دے گا۔ یوں اثاثوں کی مالیت طے کرنے اور ٹیکس کی مقدار کے تعین کے درمیان رشوت کے ایک گرما گرم بازار سے گزرنا ہوگا۔
اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ملک کی ایک بہت بڑی آبادی کو حکومت اس ٹیکس کے ذریعے احساس جرم میں مبتلا کردے گی۔ دس لاکھ اب کوئی بڑی رقم نہیں ہے بلکہ اتنے اثاثے رکھنے والا تو اس دور میں صاحب ثروت بھی نہیں کہلاسکتا۔ ایسے لوگوں کی تعداد لاکھوں میں نہیں بلکہ شاید کروڑ میں ہو۔ لیکن ان میں سے کتنے ہوں گے جو فقط اثاثے رکھنے کے باعث ٹیکس کی ریٹرن فائل کریں گے۔ بیشتر کو تو اس کا شعور ہی نہیں ہوگا اور باقی ''صاحبان ثروت'' وہ ہوں گے جو مشکل سے سفید پوشی کا بھرم رکھتے ہوں گے۔ حکومت انھیں ٹیکس چور کہہ کر مخاطب کرے گی تو یہ مجرمانہ پھانس صرف دل میں اٹکی نہ رہے گی، اگلے انتخابات میں بیلٹ بکس میں دکھائی دے گی۔
پیپلز پارٹی کے پہلے دور حکومت میں جب ہر چیز قومیائی جارہی تھی تو ایک مرحلہ آیا تھا جب ملک بھر کی کاٹن جننگ فیکٹریز کو بھی نیشنلائزکرلیا گیا۔ یہ انڈسٹری کا ایک چھوٹا سا یونٹ ہوتا ہے۔ ان کے مالکان کوئی بہت بڑے سرمایہ دار نہیں تھے۔ اسی لیے ان فیکٹریز کا قومیایا جانا ہی وہ اہم ٹرننگ پوائنٹ تھا جس کے بعد حکومت کے خلاف فضا ہموار ہوتی گئی اور پیپلزپارٹی کا زوال شروع ہوا۔ نواز حکومت نے اپنے ابتدائی دنوں میں ہی ایسے کام شروع کردیے ہیں۔ پہلے تو خواجہ آصف نے ایک غیر محتاط بیان دے مارا جس میں سو فیصد سی این جی اسٹیشن مالکان کو گیس چور قرار دے دیا۔ ان میں سے بیشتر وہی ہوں گے جنھوں نے ان کے لیے نعرے مارے ہوں گے اور انھیں ووٹ دیے ہوں گے۔ سب لوگ ایک جیسے نہیں ہوتے اور نہ ہی اس وقت تک کسی کو مجرم ٹھہرایا جاسکتا ہے جب تک اس کا جرم پکڑا نہ جائے۔ کوئی چور ہے تو اسے پکڑیں۔ آپ کو اختیار ہے۔ خوامخواہ پورے طبقے کی دشمنی مول لینا کہاں کی دانش مندی ہے۔
اسی طرح اس بجٹ میں بھی عوام کی دشمنیاں مول لینے کا خاصا سامان موجود ہے۔ سب سے خوفناک تو یہی ویلتھ ٹیکس ہے جو نام بدل کر تھوپا جارہا ہے۔ یقین جانیے جب گھر گھر اس کے نفاذ کی نوبت آئی تو ہر گھر سے مسلم لیگ (ن) نکلتی چلی جائے گی اور تب لوگ ایک ایسے دور کو یاد کریں گے جسے دیکھ کے چک شہزاد میں پھنسا ہوا ایک شخص بہت آسودہ ہوگا۔
ڈار صاحب کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ ایک دردمند دل رکھنے والے نیک آدمی ہیں۔ ذاتی طور پر ٹیکس ادا کرنے اور رفاحی کاموں کے لیے خطیر عطیات پیش کرنے میں بھی وہ پیش پیش رہتے ہیں۔ ان باتوں کی تشہیر بھی انھیں اچھی نہیں لگتی۔ اس کے باوجود ویلتھ ٹیکس سے ان کی بے پایاں محبت میری سمجھ سے بالاتر ہے۔ اسے پوری دنیا میں ایک انتہائی غیرمنصفانہ اور ناجائز ٹیکس سمجھا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی کی آمدنی پر نہیں بلکہ اس کے اثاثوں پر لگتا ہے۔ اثاثے خواہ کتنے بھی بڑے ہوں اگر جائز آمدنی سے بنائے گئے ہوں تو ان پر تمام ٹیکسز پہلے ہی ادا کردیے گئے ہوتے ہیں۔
پرویز مشرف نے اس بے ہودہ ٹیکس سے قوم کی جان چھڑادی تھی اور اسے ختم کردیا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اسے وصول کرنے پر اخراجات زیادہ ہورہے تھے اور آمدنی کم تھی۔ اس وقت سے موجودہ وزیر خزانہ نیکہنا شروع کردیا تھا کہ اس میٹر کو بند کیوں کردیا گیا ۔ لہذا اب انھوں نے اس میٹر کو پھر چالو کر دیا ہے۔ سو میں اپنے محبوب قارئین کو متنبہ کرنا چاہتا ہوں کہ ان کی جیب کاٹنے، بلکہ تمام جمع پونجی میں سرنگ لگانے کا مستقبل بندوبست کردیا گیا ہے۔
ٹیکس تو اور بھی لگے ہیں۔ پہلے سے لگے ہوئے ٹیکسوں کو بڑھایا بھی گیا ہے لیکن میں آج صرف ایک ٹیکس کو اس لیے ڈسکس کر رہا ہوں کہ فلاح عامہ کے نام پر لگائے گئے اس ٹیکس کے اگلے برسوں میں انتہائی سنگین اور دور مار قسم کے اثرات مرتب ہوں گے۔ اب ویلتھ ٹیکس کی بجائے اسے ایک اور نام سے متعارف کرایا گیا ہے۔ اس کا نیا نام "Income Support Levy" ہے۔ اسے ان تمام اشخاص سے وصول کیا جائے گا جن کے منقولہ اثاثوں کی مالیت دس لاکھ روپے سے زیادہ ہوگی۔ یعنی آپ کے پاس موجود کیش، زیورات، انعامی بانڈز، سیونگ اسکیموں میں لگائی ہوئی رقم، میوچل فنڈز اور شیئرز مارکیٹ میں انوسٹ کی ہوئی رقم، کار، موٹرسائیکل کی مالیت۔۔۔۔یہ سب کچھ ملاکے اگر دس لاکھ روپے سے زیادہ بنتے ہیں تو آپ پھنس گئے۔ فی الحال اس ٹیکس کی شرح کم یعنی صرف 0.5 فیصد رکھی گئی ہے لیکن ڈار صاحب نے میٹر فٹ کردیا ہے۔ آپ دیکھیے گا اگلے برسوں میں یہ شرح بھی بڑھتی جائے گی اور کسی مرحلے پر اس میں غیرمنقولہ جائیداد یعنی مکان، دکان اور پلاٹ وغیرہ کو بھی شامل کردیا جائے گا۔
اس پر میرا پہلا اعتراض تو یہ ہے کہ زکوٰۃ کی موجودگی میں یہ ٹیکس دہرے ٹیکس کے زمرے میں آتا ہے اور غریبوں کی امداد کے نام پر اسے وصول کرنا جذباتی بلیک میلنگ کے سوا کچھ نہیں۔ یہ تو ایسا ہی ہے جیسے کسی معذور کی ریڑھی ٹریفک سگنل پر کھڑی کرکے حکومت دور بیٹھی اخبار پڑھتی رہے اور شام کو اس کی بھیک اکٹھی کرکے گھر چلی جائے۔ ویسے بھی یہ زمانہ ٹیکس دینے والوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کا ہے جب کہ اس نئے ٹیکس کے ذریعے ہر شخص کو محکمہ انکم ٹیکس کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ میں نے تازہ فنانس بل پڑھا ہے۔ اس میں صاف لکھا ہے کہ انکم ٹیکس افسر ویلتھ اسٹیٹمنٹ کا جائزہ لے گا اور پھر اپنا فیصلہ دے گا۔ یوں اثاثوں کی مالیت طے کرنے اور ٹیکس کی مقدار کے تعین کے درمیان رشوت کے ایک گرما گرم بازار سے گزرنا ہوگا۔
اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ملک کی ایک بہت بڑی آبادی کو حکومت اس ٹیکس کے ذریعے احساس جرم میں مبتلا کردے گی۔ دس لاکھ اب کوئی بڑی رقم نہیں ہے بلکہ اتنے اثاثے رکھنے والا تو اس دور میں صاحب ثروت بھی نہیں کہلاسکتا۔ ایسے لوگوں کی تعداد لاکھوں میں نہیں بلکہ شاید کروڑ میں ہو۔ لیکن ان میں سے کتنے ہوں گے جو فقط اثاثے رکھنے کے باعث ٹیکس کی ریٹرن فائل کریں گے۔ بیشتر کو تو اس کا شعور ہی نہیں ہوگا اور باقی ''صاحبان ثروت'' وہ ہوں گے جو مشکل سے سفید پوشی کا بھرم رکھتے ہوں گے۔ حکومت انھیں ٹیکس چور کہہ کر مخاطب کرے گی تو یہ مجرمانہ پھانس صرف دل میں اٹکی نہ رہے گی، اگلے انتخابات میں بیلٹ بکس میں دکھائی دے گی۔
پیپلز پارٹی کے پہلے دور حکومت میں جب ہر چیز قومیائی جارہی تھی تو ایک مرحلہ آیا تھا جب ملک بھر کی کاٹن جننگ فیکٹریز کو بھی نیشنلائزکرلیا گیا۔ یہ انڈسٹری کا ایک چھوٹا سا یونٹ ہوتا ہے۔ ان کے مالکان کوئی بہت بڑے سرمایہ دار نہیں تھے۔ اسی لیے ان فیکٹریز کا قومیایا جانا ہی وہ اہم ٹرننگ پوائنٹ تھا جس کے بعد حکومت کے خلاف فضا ہموار ہوتی گئی اور پیپلزپارٹی کا زوال شروع ہوا۔ نواز حکومت نے اپنے ابتدائی دنوں میں ہی ایسے کام شروع کردیے ہیں۔ پہلے تو خواجہ آصف نے ایک غیر محتاط بیان دے مارا جس میں سو فیصد سی این جی اسٹیشن مالکان کو گیس چور قرار دے دیا۔ ان میں سے بیشتر وہی ہوں گے جنھوں نے ان کے لیے نعرے مارے ہوں گے اور انھیں ووٹ دیے ہوں گے۔ سب لوگ ایک جیسے نہیں ہوتے اور نہ ہی اس وقت تک کسی کو مجرم ٹھہرایا جاسکتا ہے جب تک اس کا جرم پکڑا نہ جائے۔ کوئی چور ہے تو اسے پکڑیں۔ آپ کو اختیار ہے۔ خوامخواہ پورے طبقے کی دشمنی مول لینا کہاں کی دانش مندی ہے۔
اسی طرح اس بجٹ میں بھی عوام کی دشمنیاں مول لینے کا خاصا سامان موجود ہے۔ سب سے خوفناک تو یہی ویلتھ ٹیکس ہے جو نام بدل کر تھوپا جارہا ہے۔ یقین جانیے جب گھر گھر اس کے نفاذ کی نوبت آئی تو ہر گھر سے مسلم لیگ (ن) نکلتی چلی جائے گی اور تب لوگ ایک ایسے دور کو یاد کریں گے جسے دیکھ کے چک شہزاد میں پھنسا ہوا ایک شخص بہت آسودہ ہوگا۔