مہنگا ئی بڑھتی رہتی ہے غریب کی حالت بہتر کرنے کے لیے کچھ نہیں ہوتا

بگھی چلا کر گزربسر کرنے والے کوچوان محمد یونس کے روز و شب

بگھی چلا کر گزربسر کرنے والے کوچوان محمد یونس کے روز و شب. فوٹو : فائل

اس کا تو خیر ہمیں پہلے سے علم تھا کہ جو گھوڑے بیچ کر سوتے ہیں، وہ بے فکری کی نیند سوتے ہیں، لیکن بگھی کوچوان محمد یونس سے مل کر معلوم ہوا کہ جو گھوڑے نہیں بیچتے، بلکہ اس کو روزی روٹی کا ذریعہ بناتے ہیں، ان کی نیند بھی کچھ ایسی کم پرسکون نہیں ہوتی۔

''بھائی! حق حلال کی روزی کماتے ہیں اور اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں۔'' محمد یونس نے اپنی پرسکون نیند کا راز بھی بتا دیا، جو کہ ظاہر ہے ایسی راز کی بات بھی نہیں ہے۔
لیکن گھوڑے کا خیال تو بہت رکھنا پڑتا ہو گا؟

ہاں جی۔ وہ تو رکھنا پڑتا ہے۔ ہماری روزی روٹی جو اس سے وابستہ ہے۔ دن میں ہم اس کی خدمت کرتے ہیں اور شام سے رات تک یہ ہمارے لیے خدمت سرانجام دیتا ہے۔ صاحب!دوسروں کے لیے یہ جانور یا گھوڑا ہو گا، ہمارے لیے تو یہ خاندان کے ایک فرد کی طرح ہے، محمد یونس نے گھوڑے کی پیٹھ کو اپنے ہاتھوں سے تھپتھپاتے ہوئے کہا۔

کسی زمانے میں تھوڑے فاصلے کے سفر کے لیے شہروں میں تانگوں کا رواج عام تھا، جو کہ اب پبلک ٹرانسپورٹ اور چنگ چی رکشوں کی وجہ سے تقریباً ختم ہو گیا ہے۔ اس لیے گھوڑے اور بگھی کی سواری کا تصور اب زیادہ تر سیروتفریح تک محدود ہو کر رہ گیا ہے یا شادی بیاہ کے موقع پر تہوار کو ''دیسی ٹچ'' دینے کے لیے اب بھی گھوڑے اور بگھی کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے۔ لاہور کے علاقے گلبرگ کی بستی مکہ کالونی میں رہنے والے 34 سالہ محمد یونس کو بگھی چلاتے ہوئے 20 برس ہو چلے ہیں۔ پہلے اس کے والد یہ کام کیا کرتے تھے اور بھائی ان کا ہاتھ بٹایا کرتا تھا۔ آٹھویں جماعت تک پڑھنے کے بعد محمد یونس بھی والد کے ساتھ اس کام میں شامل ہو گیا۔

اپنے کام کے متعلق بتاتے ہوئے محمد یونس کا کہنا تھا:''دن کا زیادہ حصہ تو گھوڑے کی دیکھ بھال میں گزرتا ہے۔ میں نے اپنے گھرمیں ہی ایک چھوٹا سا اصطبل بنا رکھا ہے۔ گھوڑے کے لیے چارے کا بندوبست کرتا ہوں، اس کی خوراک میں چھوئی اور چوکر دانہ شامل ہیں۔ دن میں دو بار گھوڑے کو نہلاتا ہوں تاکہ تازہ دم رہے۔ شام پانچ، چھ بجے فورٹریس سٹیڈیم یا الحمرا کمپلیکس (قذافی سٹیڈیم) جاتا ہوں، جہاں سیروتفریح کے لیے آنے والے لوگوں اور فیملیز کو بگھی کی سیر کراتا ہوں۔ شادیوں کے سیزن میں لوگ فنکشنز کے لیے ہمیں بلاتے ہیں۔ سارا دن اس کام میں گزر جاتا ہے، فارغ وقت بچوں کے ساتھ گزارتا ہوں۔''

جب تم پڑھتے تھے، اس وقت بھی اپنے والد کی طرح بگھی کوچوان بننا چاہتے تھے؟

ہمارے سوال پر محمد یونس نے تھوڑا توقف کیا، جیسے وہ اپنے ماضی میں کھوگیا ہو، پھر دھیرے دھیرے بولنے لگا:''نہیں صاحب، ایسا نہیں ہے۔ جیسے دوسرے سٹوڈنٹ سوچتے ہیں، میں بھی ویسے ہی سوچتا تھا۔ میں بھی ان کی طرح ڈاکٹر اور انجینیئر بننے کے خواب دیکھا کرتا تھا۔ ہاں یہ بات ضرور ہے کہ نوکری کرنا مجھے اس وقت بھی پسند نہیں تھا۔ جب پاکستان نے کرکٹ ورلڈ کپ جیتا، اس وقت میں آٹھویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ مس زبیدہ ہماری ٹیچر تھیں۔ مجھے یاد ہے کہ انہوں نے کلاس میں کہا تھا کہ اگر کچھ بن کے دکھانا ہے تو پھر عمران خان جیسا بن کے دکھاؤ۔ بس وہ بھی کیا وقت تھا جی! کوئی پتا نہیں ہوتا زندگی کہاں سے کہاں لے جاتی ہے آپ کو۔''



دو بیٹوں محمد اویس، محمد عاطق اور ایک بیٹی ایمن مریم کے والد محمد یونس نے اپنے خاندان کا ذکر کرتے ہوئے بتایا:''ہم دو بہنیں، پانچ بھائی ہیں۔ والدین اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں۔ سب بہن بھائیوں کی شادیاں ہو چکی ہیں اور ہم الگ الگ اپنے گھروں میں رہتے ہیں۔ دو بھائی مکینک ہیں، ایک مزدوری کرتا ہے۔ ایک دوسرا بھائی بھی بھگی کوچوان کا کام کرتا ہے، مگر اس کا کام الگ ہے۔''

ہم نے پوچھا کہ پچھلے 20 سال میں، جب سے تم یہ کام کر رہے ہو، حالات میں کیا تبدیلی آئی ہے؟
پرجوش لہجے میں وہ کہنے لگا:''بہت فرق ہے جی، پہلے اور اب میں۔ جب کام شروع کیا تو اس وقت کام بہت اچھا تھا۔ فوراً ہی جیب میں پیسے آجاتے تھے، بھاگنا نہیں پڑتا تھا۔ لیکن اب گاہک کے پیچھے بھاگنا پڑتا ہے، تب جا کے کہیں پیسا ملتا ہے اور روزی روٹی ہوتی ہے۔''


مہینے میں کتنے کما لیتے ہو؟
''کمانا کیا ہے جی۔ بس گذربسر ہو جاتی ہے۔ اللہ کا شکر ہے کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلانا پڑتا۔ جب شادیوں کا سیزن ہوتا ہے تو اس وقت اچھی آمدنی ہو جاتی ہے۔ آگے پیچھے بس گزارا ہوتا ہے۔''
محمد یونس نے بتایا کہ کچھ لوگ شادیوں کے دنوں میں بگھی چلانا شروع کر دیتے ہیں، لیکن جب سیزن ختم ہوتا ہے تو کوئی پھلوں کی ریڑھی لگا لیتا ہے اور کوئی اپنا دوسرا کام کرنے لگتا ہے۔ کل وقتی یہ کام کرنے والے لوگ اب تھوڑے رہے گئے ہیں۔

تم گھوڑے کو بیچ کر کوئی اور کام کیوں نہیں کر لیتے؟
اس پر محمد یونس نے اپنی بگھی کوچوانی کے متعلق اسی مضمون کا جواب دیا، جو کہ شاعر نے محبت کے بارے میں کہا تھا کہ:

کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا

اس کا کہنا تھا:''نہیں جی، مجھے یہی کام آتا ہے۔ دوسروں کی نوکری نہیں ہوتی مجھ سے۔ جب کچھ سال پہلے میرا ایکسڈینٹ ہوا تھا تو کئی لوگوں نے مجھے مشورہ دیا کہ گھوڑا بیچ دو۔ میں نے کہا کہ اگر کھوڑا بیچ دوں گا تو کھاؤں گا کہاں سے؟ ان دنوں جس شخص کو بگھی چلانے کے لیے دی اس نے کما کے تو کم دیا، لیکن نقصان زیادہ کیا۔ گھوڑے کی ٹھیک طرح سے دیکھ بھال نہ کی، جس سے وہ کمزور ہو گیا۔ بس جی، جب تک ہمت ہے یہی کام کرتے رہیں گے۔''

اگر خدانخواستہ گھوڑا بیمار ہو جائے تو کیا کرتے ہو؟
''خدا نہ کرے ایسا ہو جی۔ جب ایسا ہوتا ہے تو بہت مشکل ہو جاتی ہے ہمارے لیے۔ ڈاکٹر بہت پیسے لے لیتا ہے اس کے علاج کے لیے۔ بہت خرچا ہو جاتا ہے۔ پہلے ہماری گھوڑی تھی جو بیمار ہو گئی، ڈاکٹر نے صحیح علاج نہیں کیا اور وہ مر گئی۔ یہ گھوڑا بھی پانچ سال پہلے لیا تھا۔''

محمد یونس کے خیال میں ملک کا سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی اور امن و امان ہے۔ جب لوگوں کے پاس پیسے ہوں اور امن ہو تو تب لوگ سیر کے لیے باہر نکلتے ہیں اور ہمیں بھی کام ملتا ہے، ویسے کون نکلتا ہے جی گھر سے باہر۔ ہماری بگھی تو پٹرول پر نہیں چلتی، لیکن جو سیر کے لیے اپنے گھروں سے نکلتے ہیں، وہ تو گاڑیوں پر آتے ہیں۔ تو ان حالات میں کون آئے گا سیر کے لیے، یہاں تو ہر کسی کو اپنی فکر پڑی ہوئی ہے۔
گاہکوں کا رویہ کیسا ہوتا ہے؟
مجھے 20 سال ہو گئے ہیں یہ کام کرتے ہوئے، لیکن خدا کا شکر ہے کہ کبھی کسی گاہک نے تنگ نہیں کیا۔ عام طور پر پڑھی لکھی اور سلجھی ہوئی فیملیز ہوتی ہیں۔ ویسے بھی میرا ماننا ہے کہ بندا خود ٹھیک ہو اور اس کی نیت صاف ہو تو اسے آگے بھی اچھے لوگ ہی ملتے ہیں۔ لیکن یہ ہے کہ کبھی کسی کے آگے امداد کے لیے ہاتھ نہیں پھیلایا، اس سے بندے کی خودداری مر جاتی ہے۔ خدا کی ذات پر پورا بھروسہ ہے کہ وہ رزق دے گا۔

ملک میں آنے والی نئی حکومت سے وابستہ توقعات کے متعلق اس کا کہنا تھا کہ حکمران گھر کے سربراہ کی طرح ہوتا ہے، اگر گھر کا سربراہ ٹھیک ہو تو گھر بھی ٹھیک رہتا ہے۔ اگر حکمران ہی ٹھیک نہ ہو تو ملک کا نقصان ہوتا ہے اور باہر سے مدد مانگنا پڑتی ہے۔ حکمرانوں کو غریب عوام کا خیال رکھنا چاہیے۔ جو قیمتیں بینظیر اور نوازشریف کے پچھلے دور میں ہوتی تھیں، وہی اب بھی ہونی چاہیں کیونکہ اس دوران قیمتیں تو بڑھی ہیں لیکن غریبوں کی حالت بدلنے کے لیے کسی نے کام نہیں کیا۔ لوڈشیڈنگ نے بہت تنگ کر رکھا ہے عوام کو۔ اس گرمی میں گھوڑے کو تازہ دم رکھنے کے لیے دو، تین بار نہلانا پڑتا ہے لیکن لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے پانی بھی نہیں ہوتا، جس کی وجہ سے بہت پریشانی ہوتی ہے۔

محمد یونس کا بڑا بیٹا محمد اویس ایک نجی سکول میں نرسری کلاس میں پڑھتا ہے۔ بچوں کی پڑھائی کے متعلق اس نے کہا:''میں اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دلانا چاہتا ہوں۔ میں خود کم پڑھا ہوا ہوں، جس کا مجھے اکثر احساس ہوتا ہے۔ جب دوسرے ممالک سے آنے والے لوگوں سے بات کرنا پڑتی ہے تو ان کی بات سمجھنے اور اپنی بات سمجھانے میں دشواری پیش آتی ہے۔ میرے کئی دوست پڑھے لکھے ہیں، جو اچھی زندگی گزار رہے ہیں۔ میں نہیں چاہتا کہ میرے بچے بڑے ہو کر میری طرح بگھی چلائیں، میں چاہتا ہوں کہ وہ پڑھ لکھ کر کوئی دوسرا کام کریں اور اچھی زندگی گزاریں۔''
Load Next Story