خراب معیشت یا ناقص حکمت عملی
نسلوں کو بہتر بنانا توکجا اُس کے پاس اگلے پانچ برس کا بھی کوئی لائحہ عمل موجود نہیں ہے۔
سوچنے اور فکرکرنے کا مقام ہے کہ گزشتہ چند ماہ میں ایسی کونسی آفت اور مصیبت نازل ہوگئی کہ وطن عزیز جو ایک سال قبل تک موجودہ دنیا کی ایک ابھرتی ہوئی معیشت کی تصویر پیش کر رہا تھا ،آج اچانک تباہی اور بربادی کے دہانے پر جا کھڑا ہوا۔
ایک برس قبل ہمارا اسٹاک ایکسچینج کامیابیوں اورکامرانیوں کے ریکارڈ قائم کر رہا تھا۔ ہم آئی ایم ایف کے چنگل سے نکل کر اپنے پیروں پر کھڑے ہو چکے تھے۔ تمام مالیاتی ادارے ہمارے روشن مستقبل کی پیش گوئیاں کرنے لگے تھے کہ یہ پھر کیا ہوگیا کہ ہم ایک بار پھر اپنا کشکول تھامے ملکوں ملکوںدر در پھر رہے ہیں۔
جولائی 2018ء میں ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں معرض وجود میں آنے والی نئی حکومت اِن تمام ناکامیوں اور خرابیوں کی ذمے داری سابقہ مسلم لیگ (ن) پر ڈال رہی ہے اور قوم کے سامنے ایسا منظر پیش کررہی ہے جیسے اگر ہمیں کہیں سے فوری امداد نہ ملی تو ہم دیوالیہ ہوکر تباہ و برباد ہوجائیں گے۔
غور طلب بات یہ ہے کہ اگر ملک کے حالات اتنے ہی دگرگوں تھے تو پھر خاقان عباسی کے حکومت کے خاتمے کے بعد نگراں حکومت نے اِن کی نشاندہی کیوں نہیں کی ۔ انھوں نے معیشت کے حوالے سے اتنا رنج وغم اور ماتم نہیں کیا جتنا یہ نئی حکومت کررہی ہے۔
ایسا لگتا ہے حکومت کے پاس اقتصادی ماہرین کی وہ ٹیم ہی نہیں ہے جو حالات سے بہتر حکمت عملی سے نبٹ سکے ۔بلکہ اُن کے طرز عمل اورکنفیوزڈ پالیسیوں کی سے معاشی بحران اور بھی سنگین تر ہوچکا ہے اور اب اُن کے ہاتھ پاؤں پھول چکے ہیں اور اب وہ مزید غلط فیصلے کیے جا رہے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں ہم آئی ایم ایف سے قرضہ نہیں لیں گے اورکبھی کہتے ہیں کہ ہمارے پاس اِس کے سوا کوئی اور آپشن ہے ہی نہیں۔ بالآخر سارے محاذوں پر ناکامی کے بعد چار و ناچار آئی ایم ایف ہی سے اُن کی سخت شرائط پر دس بارہ ارب ڈالرز لینے پر اب آمادہ دکھائی دیتے ہیں۔
اِس کشمش اور غیر یقینی صورتحال کاخمیازہ ہمیں اپنے روپے کی انتہائی گراوٹ کی شکل میں دیکھنا پڑ رہا ہے۔ خان صاحب گزشتہ چار پانچ سال سے اپوزیشن پر محض تنقید ہی کیاکرتے تھے۔ انھوں نے اقتدار مل جانے کی صورت میں پہلے سے کوئی ہوم ورک کیا ہی نہیں۔یا پھر انھیں یہ اُمید ہی نہ تھی کہ وہ کبھی برسراقتدار بھی آسکتے ہیں۔ اِسی لیے وہ صرف جارہانہ طرز عمل اختیار کرتے ہوئے سابق حکمرانوں کی ہر پالیسی اور ہرکام میں کیڑے ہی تلاش کرتے رہے۔ اب جب انھیں نادیدہ قوتوں نے اقتدار کے ایوانوں میں پہنچا ہی دیا تو اُن کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ کون ساکام پہلے کریں ۔ وہ کاریں اور بھینسیں بیچنے پر لگ گئے۔
انھیں احساس ہی نہیں تھا کہ یہ حکمرانی کرنا کتنا مشکل کام ہے۔ وہ اِسے بھی کرکٹ کا کھیل سمجھ بیٹھے جہاں ہار جانا کوئی اتنی معیوب اور شرمندگی کی بات نہیں ہوا کرتی۔ وہ 22 کروڑ لوگوں کے اِس ملک کو بھی کرکٹ کا میدان سمجھ بیٹھے یا پھر شوکت خانم اسپتال جسے وہ صدقات اور خیرات سے با آسانی چلاتے رہے۔ اُن کے پاس ہشیار اور سمجھدار ماہرین کے کوئی ٹیم ہی نہیں ہے۔
اُن کے پرجوش اور جذباتی نوجوانوں کی بھر مار ہے جنھیں صرف چرب زبانی اور اشتعال انگیزی میں بڑی مہارت حاصل ہے یا پھر دوسری سیاسی پارٹیوں سے آئے ہوئے وہ افراد ہیں جنھیں خود اُن کی پارٹیوں نے کوئی اہمیت نہیں دی ۔ لے دے کے ایک جناب اسد عمر ہی رہ گئے تھے جنھیں ہمارے لوگ ایک انتہائی قابل اور ماہر معیشت گردان نے لگے تھے، لیکن اُن کی بھی ساری قابلیت دھری کی دھری رہ گئی جب انھیں خانصاحب نے وزارت خزانہ کا قلمدان تھما دیا۔ ملک کو معاشی مشکلات سے نکالنے کے لیے اُن کے پاس کوئی واضح حکمت عملی یا منصوبہ بندی نہیں ہے۔
گزشتہ حکومت کے بنائے گئے سالانہ بجٹ میں سے فوری طور پر انھوں تمام ترقیاتی کاموں پر مختص رقوم کا خاتمہ کر دیا۔ اِس کے بعد آئی ایم ایف سے قرضے کے حصول کے لیے حفظ ماتقدم کے طور پرگیس اور بجلی کے نرخ پہلے ہی سے بڑھادیے تاکہ عوام پر یہ تاثر نہ جائے کہ ہم نے یہ سب کچھ اُن کی سخت شرائط کے وجہ سے کیا ہے۔
اسد عمر کو یہ سب کچھ کرتے ہوئے کوئی شرم اورعار بھی محسوس نہیں ہوئی کہ وہ سابقہ نواز شریف دور میں وہ اِسی گیس اور بجلی کے نرخوں کو دنیا میںسب سے زیادہ مہنگا قرار دیتے رہے تھے اور اب کہہ رہے ہیں کہ سابق حکومت نے جعلی بنیادوں پر اِسے بڑھنے سے روکے رکھا تھا ۔
وزیر اعظم کی اصل ترجیحات کیا ہیں یہ بھی ابھی تک واضح نہیں ہیں۔ وہ آئی ایم ایف سے قرضہ لینے پر ابھی بھی کوئی ٹھوس مؤقف اختیار نہیں کر رہے۔ سی پیک کے حوالے سے بھی و ہ تذبذب کا شکار ہیں۔ سڑکوں اور شاہراہوں کے تعمیر کے تو وہ ماضی میں بہت بڑے ناقد رہے ہیں۔ اِسی لیے سی پیک منصوبہ اُن کی پالیسیوں سے میل نہیں کھاتا۔ شاید اِسی لیے وہ اِسے کچھ سال کے لیے مؤخرکرنے کے امریکی مطالبوں پر راضی بھی ہوسکتے ہیں۔ جس طرح انھوں نے سابقہ حکومت کے انفراسٹرکچر بہتر بنانے کے تمام کاموں پر قدغنیں لگا دی ہیں کوئی بعید از قیاس نہیں، سی پیک کے حوالے سے حکومتی مشیر رزاق داؤد کے جانب سے دیا جانے والا بیان بھی خان صاحب کی تائید و حمایت ہی سے دیا گیا ہو۔
حکومت نے لاہور، ملتان اور اسلام آباد میں چلنے والے میٹرو بس میں غریبوں کو دی جانے والی سبسڈی ختم کردی ہے۔اِس طرح بقول پنجاب حکومت کے قومی خزانے کے بارہ ارب روپے سالانہ بچ جائیں گے۔حالانکہ ہم سب جانتے ہیں کہ اِن بسوں میں سفر کرنے والے سب کے سب لوگ غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ کوئی صاحب حیثیت اور امیر شخص اِن بسوں میں سفر نہیں کر رہا تھا۔ سبسڈی کی مد میں دی جانے والی رقم اگر غریب عوام پر خرچ ہو رہی تھی تو اِس میں حرج ہی کیا تھا۔
حکومت نے ابھی تک امیر طبقہ پرکوئی بار گراں نازل نہیں کیا ہے۔ جوکچھ بھی کیا ہے غریب عوام کو اور غریب بنانے کی سمت میں ہی کیا ہے۔ روٹی،کھاد، سمینٹ،گیس اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا سارا بوجھ غریب لوگوں پر ہی پڑے گا۔ جیسے جیسے وقت گزرے گا حکومت خود بھی بحرانوں میں پھنستی جائے گی اور ساتھ ہی ساتھ عوام کو بھی لے ڈوبے گی۔ مستقبل کے حوالے سے اُس کے پاس کوئی ٹھوس منصوبہ بندی ہے ہی نہیں۔ وہ صرف ایڈہاک اور عارضی بنیادوں پر ساری مشکلات کا حل تلاش کرتے پھر رہی ہے۔
نسلوں کو بہتر بنانا توکجا اُس کے پاس اگلے پانچ برس کا بھی کوئی لائحہ عمل موجود نہیں ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت کے دو ماہ کی کارکردگی اتنی مایوس کن ہے کہ آنے والے دنوں سے خوف آتا ہے۔ ایسا نہ ہوکہ یہ قوم جو 2030ء تک ایک ترقی یافتہ قوم بن جانے کے خواب دیکھ رہی تھی دیوالیہ ہوکر سی پیک اور ایٹمی پروگرام سمیت اپنے سارے منصوبے رول بیک کرنے پر آمادہ ہو جائے۔