لوگوں کو ریلیف دینا ہوگا
حکومت کا سادگی مہم اچھی بات ہے اول اس کا اطلاق سب پر ہونا چاہیے جو نہیں کرتا اسے گرفت میں لایا جائے۔
پاکستان میں عوام حکمران طبقات سے ایسی پالیسیاں اورمنصوبے چاہتے ہیںجو ان کی روزمرہ کی زندگی میں آسانیاں پیدا کرسکے۔ریاست اورحکومت کی دو سطح پر ذمے داریاں ہوتی ہیں اول قانونی یعنی ریاست کے قوانین میں شہریوں کے درمیان کسی بھی سطح پر کوئی تفریق نہ ہو بلکہ آئین میں درج بنیادی حقوق کی فراہمی کو ممکن بنانا ان کی قانونی ذمے داری ہے، دوئم حکمران طبقہ کی یہ سیاسی ذمے داری بھی ہوتی ہے کہ وہ اپنے منشور کو بنیاد بنا کر عام آدمی کی زندگی میں ریلیف کی فراہمی کو یقینی بنا کر حکمرانی کے نظام کو منصفانہ اور شفاف بنائے۔پاکستان کو بطور ریاست جہاں بنیادی نوعیت کے مسائل درپیش ہیں وہیں ایک بڑا مسئلہ حکمرانی کا نظام اور شفافیت کا عمل ہے۔
عمومی طور پر لوگ ریاستی اورحکومتی پالیسیوں اور اقدامات سے نالاں نظر آتے ہیں۔ ان کے بقول حکمرانی کا نظام ان کی زندگی میں آسانیاں پیدا کرنے کے بجائے مشکلات کو بڑھانے کا سبب بن رہا ہے اور یوں حکمران اور عوام کے درمیان بداعتمادی اور خلیج پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے۔تحریک انصاف کی سیاست بنیادی طور پر تبدیلی کے تناظر میں سامنے آئی تھی اوراس کی سیاسی عمل میں مقبولیت کی اصل وجہ بھی پہلے سے موجود فرسودہ اوربگاڑ پر مبنی نظام تھا۔
اسی نکتہ کو بنیاد بنا کر تحریک انصاف نے یہ دعوہ کیا تھا کہ عام اورکمزور افراد اس کی حکمرانی کے نظام میں اولین ترجیحات کا حصہ ہونگے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت پاکستان کے سیاسی اورمعاشی حالات کوئی بڑے سازگار نہیں اور ہمیں بطور ریاست یا قوم ایک سنگین معاشی بحران کا سامنا ہے۔ اس سے قطع نظر کہ ہم اس بحث میں جائیں کہ ماضی کی حکومتوں کی پالیسیوں کی وجہ سے ہمیں بدحالی کا سامنا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اگر ایک حکومت کے مقابلے میں دوسری جماعت کی حکومت آتی ہے تو اس کی بنیادی وجہ بھی یہ ہی ہوتی ہے کہ لوگ پہلے سے موجود حکمرانوں کی پالیسیوں سے نالاں ہوتے ہیں۔حکمرانی کا اصل امتحان ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ برے حالات میں بھی اچھی پالیسیوں اورحکمت عملی یا تدبر کے ساتھ معاملات سے نمٹنے میں اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتی ہیں۔اس لیے اگر حالات برے ہیں تو یہ ایسی کوئی بات نہیں کہ لوگوں کو اس کا اندازہ نہیں۔
کمال تو یہ ہے کہ حکومتیں ان ہی بارے حالات میں اچھے حالات کو پیدا کرسکیں ۔یقینی طورپر حالات کی بہتری کے لیے وقت درکار ہوتا ہے۔ بڑی تبدیلی یا لوگوں کی پہلے سے موجود بدحالی کو تبدیل کرنا کوئی جادوئی عمل نہیں اور نہ ہی حکمران طبقات فوری خوشحالی پیدا کرسکتے ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ آپ حکمران بنتے ہی لوگوں کی پہلے سے موجود مشکلات میں کمی کرنے کے بجائے اور زیادہ برے حالات پیدا کردیں ۔یہ جو معاشی اشاریے ہوتے ہیں ان کا عام آدمی کی زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
یہ کام معاشی اور سیاسی ماہرین کا کھیل ہوتا ہے جس سے وہ اپنی سمت کو درست کرتے ہیں۔لیکن عام آدمی کی سوچ اور فکر براہ راست روزمرہ کے عمومی مسائل ہوتے ہیں۔جن میں تعلیم، صحت، روزگار، ماحول، انصاف، تحفظ اور خوشیاں ہوتی ہیں۔ عام اور کمزور آدمی اسی کو بنیاد بنا کر کسی بھی حکمرانی کے نظام کو اچھا اور برا خطاب دیتا ہے۔لوگوں کو حکمرانوں اوران کے معاشی امو رکے ماہرین کی سیاسی تاویلیں سمجھ میں نہیں آتیں۔ وہ عمومی طور پر ماضی کے حالات کو بنیاد بنا کر آج کے حالات کا تجزیہ کرکے اپنی رائے قائم کرتے ہیں۔
اس وقت تحریک انصاف کی حکومت کو ابتدا ہی میں اپنے سیاسی مخالفین کی سخت تنقید سننی پڑرہی ہے۔ تبدیلی توکجا مہنگائی بڑھ گئی ہے۔ ناجائز تجاوزات کے حوالے سے جو پالیسی دی یعنی طاقتور لوگوں سے اس کا آغاز ہو گا، مگر دیکھنے کو مل رہا ہے اس کا بڑا نزلہ کمزور دکاندار اور مختلف رہائشی لوگوں پر پڑ رہا ہے ۔لیکن لگتا ہے کہ انتظامیہ حکومت کے کنٹرول سے زیادہ کسی اورکے کنٹرول میں ہے ۔فوری طور پر میٹرو بس کے کرائے میں تبدیلی کو بھی عام آدمی اپنے خلاف ہی سمجھے گا۔
بجلی، گیس کی قیمتوں سمیت ڈالر کی قیمت میں اضافہ کی وجہ سے مختلف مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کی وجہ سے لوگ واقعی حکومت سے نالاں نظر آتے ہیں۔اصل میں اس میں کوئی شک نہیں کہ نظام کی بڑے پیمانے پر اکھاڑ پچھاڑ کی ضرورت ہے۔ یہ کام جہاں فوری نوعیت کے ہیں وہیں ان کے نتائج بہت بعد میں جاکر ملیں گے۔مگر حکومت کو تین بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے جو کہ لوگوں کی تبدیلی کے ساتھ جڑا ہے۔
اول شارٹ ٹرم، دوئم مڈٹرم اور سوئم لانگ ٹرم بنیادوں پر پالیسیوں یا حکمت عملی کو وضع کرنا ہوگا۔ مڈٹرم اورلانگ ٹرم پالیسی کا اثر وقت مانگتا ہے، مگر شارٹ ٹرم پالیسی کے تحت لوگوں کو فوری ریلیف دے کر حکمرانی کے نظام کی ساکھ کو بہتر اورموثر بنایا جاسکتا ہے۔لوگوں کو لگتا تھا کہ نئی حکومت پٹرول، گیس، بجلی،علاج، مہنگی تعلیم یا فیس میں بڑھتے ہوئے اضافہ پر کچھ نہ کچھ ضرور ریلیف دے گی۔
دوسرا خیال یہ تھا کہ اگر حکومت فوری طورپر ریلیف نہیں دے سکے گی تو کم ازکم پہلے سے موجود مہنگائی میں اور زیادہ اضافہ کرنے کے بجائے حالات کو وہیں کنٹرول میں رکھے گی تاکہ کسی نئی مشکل میں لوگ گرفتار نہ ہوں۔وزیر اعظم عمران خان اور ان کی کابینہ سمیت مختلف ٹاسک فورس کا کمال یہ ہے کہ یہ تواتر سے اجلاس کرکے سر جوڑ کر بیٹھے نظر آتے ہیں۔
وزیر اعظم یقینی طو رپر اپنی حکومت کے پہلے سو دنوں کی کارکردگی عوام کے سامنے پیش کریں گے اس میں جہاں لمبی مدت کے منصوبے شامل ہوں وہیں فوری ریلیف بھی جہاں تک ممکن ہوسکے حکومت کو عام آدمی کو دینا چاہیے۔قانون کی حکمرانی ضرور ہو لیکن اس کا عمل اوپر سے شروع ہو کر نیچے تک آئے۔
اگر یہ عمل نیچے سے شروع ہوتا ہے تو اس سے نچلی سطح پر خود حکومت کے لیے تنقید کا درواز کھل جائے گا۔حکومت ضرور بتائے کہ ہمارے حالات اچھے نہیں،لیکن کسی نہ کسی سطح پر عام آدمی کو یہ احساس دینا ہوگا کہ حکومت ان برے حالات میں بھی ان کے ساتھ کھڑی ہے۔
کسان، مزدور، کم اجرت والے، بیروزگار، معاشی بدحالی اوربیروزگاری کے شکار نوجوان لڑکوں اورلڑکیوں کو اسی معاشی سرگرمیوں یا ان کے لیے ایسے حالات یا پالیسی لانا ہوگی جو ان کی زندگیوں میں کچھ نہ کچھ تو تبدیل کرے۔ حکومتی اور تمام وزراتوں کی سطح پر عام آدمی کو ریلیف دینے کے حوالے سے ایک بڑے آپریشن کی ضرورت ہے۔ حکومت کو اپنے اس مضبوط بیوروکر یسی کے نظام اوراس سے جڑے افراد پر انحصار کرنے کے بجائے خود سے بڑے فیصلے کرنے ہونگے۔
حکومت کا سادگی مہم اچھی بات ہے اول اس کا اطلاق سب پر ہونا چاہیے جو نہیں کرتا اسے گرفت میں لایا جائے،لیکن اس سادگی مہم کے ساتھ ساتھ ایسی ٹھوس بنیادوں پر حکمت عملی،منصوبہ بندی اور عملدرآمد کا نظام درکار ہے جو کمزور طبقات کے لیے حکمرانی کے نظام میں ایک طاقت کا سبب بن سکے۔ وگرنہ دوسری صورت میںان حکمرانوں کو بھی ماضی کے حکمرانوں کی طرح سیاسی بوجھ سے زیادہ نہیں سمجھا جائے گا۔