مہنگائی میں ورلڈ چمپیئن شپ
پاکستان نے چمپئن شپ جیت لی ہے،اب اگر اس عالمی ٹرافی کے حصول میں تھوڑے کالانعام تھوڑے سے بھوکوں مرجائیں توکوئی بات نہیں
کتنے کم عقل، بے عقل بلکہ حماقت مآب لوگ ہیں، کوئی کہتا ہے مہنگائی آسمان سے باتیں کرنے لگی ہے،کوئی کہتا ہے آسمان کو چھو رہی ہے اور کوئی تو ساتویں آسمان تک کی خبر دے رہا ہے۔ یہ ساری اطلاعات سو فیصد درست سہی لیکن اس میں یہ جو ملامت اور شکایت اور مذمت کا پہلو ہے یہ ہمیں بالکل پسند نہیں ہے۔ ارے ناشکرو آخری طیارہ نہ سہی سیارہ نہ سہی راکٹ نہ سہی کوئی آدمی یا مہم نہ سہی ہمارا کچھ نہ کچھ تو آسمان پر پہنچ گیا ہے۔ کسی بھی چیز سے تو ہم نمبر ون ہو گئے، کسی بھی لحاظ سے ہم برترہو گئے۔
رسوائے دہر گو ہوئے ''مہنگائیوں'' میں ہم
بارے بڑی ''شہرت'' کے اشتہار تو ہوئے
یہ آسٹریلیا سے جو ہماری کرکٹ ٹیم جیتی ہے بھارت میں ہماری وومن کرکٹ ٹیم جھنڈے گاڑ آتی ہے۔ جنوبی افریقہ میں ہماری بلائنڈ کرکٹ ٹیم یا انڈر نائنٹین ففٹین یا الیون ٹین کارنامے سر انجام دیتی ہے۔ تو اس سے ہمیں کیا ملتا ہے، ایک روٹی نہ ایک گلاس دودھ اور نہ ایک بوند پانی، پھر بھی ہم واہ واہ کرتے ہیں، بھنگڑے ڈالتے، مٹھیاں بانٹتے ہیں۔ کیوں؟
ہمارا کوئی سپوت یا سپوتنی اگر مومبائی میں فتوحات کرتی ہے،کوئی وہاں کی کسی ''بھابی'' کو لاتا ہے۔ تو ہم کیوں ناچنے لگتے ہیں۔ صرف فخر، نام ہی نام اور ساری دنیا اس نام، اس فخر اور اس امتیاز کے لیے جیتی ہے جو ہمیں مہنگائی سلمہ نے آج عطا کیا ہوا ہے، مہنگائی زندہ باد چمپیئن شپ مبارک باد۔
وہ امیتابھ کی بات تو یاد ہو گی کہ جس کی بیوی موٹی اس کا بھی بڑا نام ہے جس کی بیوی لمبی یا گوری سب کے بڑے نام ہوتے ہیں، اب اگر ہماری مہنگائی موٹی لمبی اور گوری یا کالی چھوٹی ہو گئی ہے تو یہ تو فخر کا مقام ہے نہ کہ رونے بسورنے کا یا سیاپا مچانے کا۔ کہ چلو ہمارا بھی ''کچھ'' تو ''کچھ'' ہوگیا ہے۔
یہ بے وقوف احمق الذی ''منفی تنقیدیے'' لوگ تو منہ اٹھا کر اپنی منفی تنقید کاشوق پورا کر ڈالتے ہیں، ان کو کیا پتہ یہ مقام۔ کہاں ہم کہاں یہ مقام اللہ۔۔ ۔ ہمیں مفت میں نہیں ملا ہے۔ اس رتبہ بلند کو پانے کے لیے ہماری مہربان قدردان اور سراپا ایمان حکومتوں نے بڑی محنت کی ہے۔ ہمارے وزیروں با تدبیروں اور افسروں محکموں اور اداروں نے کتنے پسینے بہائے ہیں بلکہ خون پسینہ کہیے۔ کتنی امانت، دیانت اور صداقت کے مینار کھڑے کیے ہیں، تقریباً دو درجن تو ''رنگارنگ'' جمہورتیں'' لانچ کی ہیں۔ اور ہاں منتخب نمایندوں کو ہم کیسے بھول سکتے ہیں جنہوں نے پارلیمنٹ میں دن رات محنت مشقت کرکے ہمیں یہ دن دکھایا ہے۔
یہاں تک کہ یہاں وہاں کشکول لیے پھرتے رہے، قرضے لیتے رہے اور انھیں نہایت کمال سے استعمال کرتے رہے ہیں، ان کو تو بنی بنائی پکی پکائی ہائی فائی مہنگائی مفت ہاتھ آئی ہے، ٹھیک ہے نا عوام کو بھی تھوڑا سا بھوکوں مرنا پڑا ہوگا۔ تھوڑی سی خودکشیاں کرنا پڑی ہوں گی، تھوڑے سے بھکاری بن گئے ہوں گے۔ لیکن جو ''فخر کا مقام'' حاصل ہوا ہے وہ بھی تو معمولی نہیں ہے۔ ساری دنیا کو پیچھے چھوڑ کر اگر آج ہماری مہنگائی ''آسمان'' کو پہنچی ہے تو اس فخر کے مقام تک پہنچنے میں جو تھوڑی بہت تکلیف اٹھانا پڑی ہے، وہ کچھ بھی نہیں۔ ویسے بھی زیادہ سے زیادہ کا لانعاموں کو ''تھوڑی سی'' تکلیف ہوئی ہوگی تو کالانعام کا اور کوئی''مصرف'' ہی کیا ہے، خرچ تو وہ ویسے بھی ہو جاتے ہیں کہ پیدا ہی خرچ ہونے کے لیے ہوتے ہیں۔
یہ تو سیدھا سادا قدرت کا نظام ہے جو جاندار زیادہ پیدا ہوتے ہیں وہ خرچ بھی بہت ہوتے ہیں اور ان کے خرچ ہونے سے کوئی کمی بھی نہیں آتی بلکہ برابر بڑھتے رہتے ہیں بلکہ طلب و رسد کے مطابق جتنے زیادہ خرچ ہوتے ہیں اتنے ہی زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔ویسے بھی اب تو اس میں کو ئی خاص بات رہی بھی نہیں ہے۔ مہنگائی اور کالانعام کا اتنے زمانے سے ساتھ رہا ہے کہ اگر مہنگائی کہیں ''خدا نخواستہ'' کم ہو گئی تو شاید کالانعام لونلی فیل کر جائیں۔ ہمیں تو ابھی سے ہول آتا ہے کہ امکان تو دور دور تک نہیں ہے لیکن پھر بھی فرض کر لیجیے کہ ایک دن اچانک یہ خبر آجائے کہ مہنگائی کم ہوگئی تو بچارے کالانعام تو ہکا بکا رہ جائیں بلکہ ہو سکتا ہے کہ ہارٹ فیل، نروس بریک ڈائون اور پاگل ہونے کے واقعات بھی ہوجائیں۔
ایک پشتو ٹپہ یاد آرہا ہے جس میں ''جدائی'' کی شدت بیان کی گئی ہے بلکہ مہنگائی کی جدائی کہیے کہ
اشنا دلارے نہ ہیریگی
زہ بہ د عمر اشنا سنگہ ہیرومہ
یعنی راستے میں ملنے والا کوئی سفر کا ساتھی آسانی سے نہیں بھولتا تو میں عمر بھر کا آشنا کیسے بھولوں گا اور کالانعاموں کی عمر بھر کی ''ساتھی'' کون ہے؟ ہمارا خیال ہے کہ منفی سوچ اور منفی تنقید کے بجائے مثبت تحسین اور مثبت آفریں سے کام لینا چاہیے، آج ہم بھی امریکا کے فضل، آئی ایم ایف کی مہر بانی اوراپنی حکومتوں کی کاوش سے اتنے قابل ہو گئے کہ ہماری کوئی چیز آسمان پر پہنچ گئی ہے ۔ یا آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔
امریکا کتنے زمانوں سے کوشش کررہا ہے، زر کثیر صرف کر رہا ہے لیکن ابھی مریخ پر بھی نہیں پہنچ پایا کہ یہاں نزدیک اپنے ہی نظام شمسی میں پڑا ہوا ہے اور ہماری مہنگائی؟ واہ جی واہ۔ ایسی چنگاری بھی یا رب اپنے خاکستر میں تھی۔ بلکہ ایں سعادت برزور بازو نیست۔ یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا۔ پاکستان نے چمپئن شپ جیت لی ہے، اب اگر اس عالمی ٹرافی کے حصول میں تھوڑے کا لانعام تھوڑے سے بھوکوں مرجائیں تو کوئی بات نہیں، ہمارے پاس ویسے بھی بہت ہیں اور تمام دنیا اشیا سے سستے بھی۔ ویسے ہمارا تو یہ خیال ہے کہ حکومت اپنے سارے معمول کے کام چھوڑ کر باقاعدہ یوم مہنگائی منانے کا اعلان کرے اورسرکاری و غیر سرکاری تقریبات برپا کرے، آخر ہم عالم میں انتخاب جو ہو گئے ہیں۔