منی لانڈرنگ روکنے کے لیے سخت قوانیں بنائے جائیں
بے نامی یا نامعلوم جیسے اکائونٹس بینک منیجرز اور ڈائریکٹرز کی مرضی کے بغیر نہیں کھلتے۔
پرانے زمانے کی بات ہے کہ جب چینی تاجر ''منی لانڈرنگ'' کیا کرتے تھے۔ 2000 سال قبل چینی تاجر اپنا منافع اور کاروبار(قانونی اور غیر قانونی) سرکار سے چھپا کر کسی دوسری ریاست میں منتقل کر دیتے تھے۔ وہ ایسا اس لیے کرتے تھے کہ انھیں اپنا مال بیچ کر اُس کا دس فیصد حصہ حکومت کو دینا پڑتا تھا۔ اُس وقت کی چینی حکومت خسارے میں چلنے لگی، حکومتی عہدیداروں نے پتہ لگایا تو معلوم ہوا کہ ملک سے سرمایہ (جو سونے، چاندی کے سکوں کی شکل میں ہوتا تھا) باہر جا رہا ہے۔
چینی حکومت نے سخت اقدامات کیے اور کئی ایک کو سرمایہ بغیر اجازت باہر لے جانے پر موت کی سزادی گئی جس سے چین کے ہر داخلی اور خارجی راستوں پر سامان کی چیکنگ ہونے لگی اور اگر مطلوبہ تعداد سے زیادہ ''کرنسی'' برآمد ہوتی تو وہ دھر لیا جاتا۔ چین تو اس وباء سے کوسوں دور ہو گیا مگر امریکا، یورپ، ایشیاء اس کی لپیٹ میں آگئے۔ یہ چوری چلتے چلتے سیاستدانوں تک پہنچ گئی جو نت نئی چالوں اور اثر و رسوخ استعمال کرکے پیسہ ملک سے باہرلے جاتے رہے۔
پاکستان جیسے ممالک بھی اس سے شدید متاثر ہوئے۔ خانانی اینڈ کالیا(2008ء) کا کیس کسے یاد نہیں؟۔ پاکستان میں سب سے پہلے بے نامی اکائونٹس کا انکشاف ہوا اور اب بے نامی اکائونٹس کی جگہ ''نامعلوم اکائونٹس''نے لے لی ہے۔ یعنی اکائونٹس کے نام تو ہیں مگر لوگ لاعلم ہیں۔ کوئی نہیں جانتا کہ ان اکائونٹس میں پیسہ کہاں سے آیا۔ یہ بے نامی اکائونٹس کی نئی شکل ہے۔قلفی بیچنے والے،دہی بھلے بیچنے والے، گھریلو خاتون اور طالب علم سمیت کئی افراد کے ''نامعلوم اکائونٹس'' سے کروڑوں یا اربوں روپے مل رہے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ ایک ''مردے'' نے بھی ٹرانزکشن کر دی ہے۔
آگے چلنے سے پہلے تھوڑی روشنی اس بات پر بھی ڈال لینی چاہیے کہ منی لانڈرنگ کہتے کسے ہیں؟اور یہ کیوں کی جاتی ہے؟ دراصل فارن کرنسی غیر قانونی طریقوں سے باہر بھیجنے کو ''منی لانڈرنگ''کہا جاتا ہے ۔''ہنڈی'' اور'' حوالے'' سے رقم بھیجنے سے منی لانڈرنگ کو تقویت ملتی ہے۔ اکثر لوگ بینکوں یا قانونی طریقوں سے ہٹ کر کسی منی ایکسچینج یا نجی کاروبار کرنے والے افراد کے ذریعے غیر ممالک سے رقم پاکستان بھیجتے ہیں۔ اس طریقے کو ہنڈی یا حوالہ کہا جاتا ہے۔
اس طریقے میں ہوتا یوں ہے کہ کسی غیر ملک میں رہنے والا شخص جب رقم پاکستان بھیجنے کے لیے کسی شخص کو دیتا ہے تو وہ شخص فارن کرنسی اپنے پاس رکھ کر پاکستان میں اپنے ایجنٹ سے کہتا ہے کہ اتنی رقم اس شحص کے رشتہ دار کو دے دی جائے۔ پاکستان میں بیٹھا شخص مذکورہ رقم اس شخص کے رشتہ دار کو دے دیتا ہے۔ اس طریقے میں اکثر لوگ بلیک منی یا غیر قانونی طریقوں سے حاصل کی گئی رقم استعمال کر لیتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ یہ رقم پاکستان میں پہنچتی کیسے ہے؟ یہ رقم ایک تو اُن پاکستانیوں کے ذریعے پہنچتی ہے جو غیر ممالک میں ملازمت یا کاروبار کرتے ہیں اور اپنے رشتہ داروں کو رقم بھیجتے ہیں۔ اس کے علاوہ منشیات کا کاروبار کرنے والے افراد، انسانی اسمگلنگ میں ملوث افراد اور وہ کاروباری لوگ جو ٹیکس اور ڈیوٹی بچانے کے لیے دبئی اور دیگر ممالک کے ذریعے دوسرے ملک کو رقم بھیجتے ہیں اور مال پاکستان منگواتے ہیں، وہ اس میں ملوث ہوتے ہیں۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ ملک کو اُتنا نقصان کرپشن سے نہیں ہوتا جتنا ''منی لانڈرنگ'' سے ہوتا ہے۔ تبھی تو آج سے 2 ہزار سال پہلے چینی حکومت نے اس پر قابو پایا تھا۔ اس لیے شاید مجھے یہ کہتے ہوئے خود بھی ہچکچاہٹ ہو رہی ہے کہ پاکستان میں بھی اسی طرز کے قوانین بنائے جائیں، جیسے چین میں بنائے گئے۔
خیرکرپشن کا مسئلہ تو بہت سے ترقی یافتہ ممالک میں بھی صف اول کا مسئلہ ہے مثلاََ کرپشن امریکا میں بھی بالکل ویسی ہی ہے جیسے پاکستان میں ہے۔وہاں پر بھی ناقص میٹریل استعمال کیا جاتا ہے۔ وہاں پر بھی اسی طرح انکوائریاں ہوتی ہیں۔ آج کل میں چند دن کے لیے امریکا میں ہوں۔ یہاں بھی کئی ایک منصوبے جاری ہیں جنھیں قریب سے جانچنے کا موقع مل رہا ہے۔ لیکن اُن میں اور ہم میں فرق یہ ہے کہ وہ پیسے کی لوٹ مار کرتے ہیں تو وہ پیسہ ملک سے باہر نہیں جانے دیا جاتا، بلکہ امریکا میں ہی رہتا ہے۔
اُس سے اُن کی معیشت کو فرق نہیں پڑتا۔یعنی آپ کے پاس پیسہ ہو یا میرے پاس، رہنا تواس ملک میں ہی ہے۔ جب کہ پاکستان میں کرپشن کا پیسہ لانچوں میں بھر کر، سیلیبرٹی شخصیات کے ذریعے (ایان علی کی مثال سب کے سامنے ہے) اور کئی دوسرے طریقوں سے باہر بھیج دیا جاتا ہے۔ جس سے آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، ایشین بینک اور دوسرے مالیاتی اداروں کے سامنے کشکول لے کر جانا پڑتا ہے۔
حقیقت میں منی لانڈرنگ دنیا بھر میں ایک وباء کی صورت اختیار کر چکی ہے جسے اب دہشت گردی سے منسلک کرتے ہوئے امریکا سمیت دنیا بھر میں انتہائی سختی سے نمٹا جا رہا ہے۔کئی ممالک اس میں کامیاب بھی ہورہے ہیں۔ لیکن افسوس اس بات پر ہے کہ پاکستان منی لانڈرنگ میں ٹاپ تھری ملکوں میں سے ہے جس کی وجہ سے 5027 پاکستانیوں کی دبئی میں جائیدادوں کا انکشاف کیا گیاہے۔
خیر تو منی لانڈرنگ جیسی لعنت میں ملک بھی ملوث پائے جاتے ہیں جیسے منی لانڈرنگ کو تیسرے فریق کے کاروبار میں لگا کر با ضابطہ بنانے کا کام حکومتیں کیا کرتی ہیں۔ خواہ ان کا مقصد دہشت گردوں کا خاتمہ ہو یا نئے دہشتگرد تیار کرنا، جس طرح امریکا اور بھارت نے کئی تنظیمیں قائم کیں، اسی طرح جیسے ایران کے ذریعے نکاراگوا کے باغیوں کو امریکی اسلحہ کی خفیہ فروخت اور سودے بازی کی گئی،جس کی بعد میں امریکی صدر ریگن نے با قاعدہ تصدیق بھی کر دی تھی۔
اس سودے بازی کے بعض پہلوئوں پر کافی دیر پردہ پڑا رہا، لیکن یہ راز چھپا ہوا نہ رہ سکا کہ در پردہ اس میں امریکا نے ایک عرب ملک کی مدد سے ادائیگیوںکے عوض ایران کو اسلحہ دیا اور رقم نکارا گوا کی مارکسی حکومت کے خلاف لڑنے والے کونٹرا با غیوں کو دی گئی ۔
پاکستان میں منی لانڈرنگ روکنے کی ضرورت ہے، اس کے بغیر ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ لیکن وزیر خزانہ اسد عمرکو یہ بات بھی معلوم ہے کہ منی لانڈرنگ کرنے والوں کے خلاف کارروائی سے ہمارے کئی ادارے متاثر ہو سکتے ہیں۔یہ لوگ انھیں جام کرنے کی کوشش کریں گے جیسا کہ اسٹاک مارکیٹ، چنانچہ بہت محتاط رہ کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ بہر صورت اس معاملے کو آہنی ہاتھوں سے نمٹ کر ہی ہم اپنے ملک کو خوشحال بنا سکتے ہیں۔اور اگر پاکستان نے ہنگامی بنیادوں پر منی لانڈرنگ سے نمٹنے کے لیے موثر اقدامات نہ کیے تو اس کی بین الاقوامی مالیاتی ساکھ کے علاوہ ملکی معیشت بھی سنگین خطرات کی زد میں آ سکتی ہے۔اور بے نامی یا نامعلوم جیسے اکائونٹس بینک منیجرز اور ڈائریکٹرز کی مرضی کے بغیر نہیں کھلتے۔
کروڑوں روپے کی ٹرانزیکشن کا اسٹیٹ بینک کو بھی علم ہوتا ہے۔ جس بینک سے ایسے اکائونٹ نکلیں اُن کے لیے سخت قوانین بنائے جائیں۔ تاکہ منی لانڈرنگ کے مکروہ دھندے کو روکا جا سکے۔لہٰذاپہلے جو ہوا سو ہوا آیندہ اس حوالے سے سخت قوانین بنائے جانے چاہیںاور جنہوں نے ماضی میں منی لانڈرنگ کی اُن سے پیسہ نکلوانا چاہیے تاکہ ملک کی اکانومی کو ریلیف مل سکے۔