کاہے کو جاری کوئی اخبار کرے گا

ایک زمانہ تھا کہ لوگ سوائے پیسہ اخبار کے کسی اور اخبار میں اشتہار دینا پسند نہ کرتے تھے۔


Dr Tauseef Ahmed Khan October 24, 2018
[email protected]

LONDON: ڈاکٹرطاہر مسعود بنیادی طور پر ابلاغ عامہ کے استاد ہیں مگر تحقیق اور تخلیق کے میدان میں انھیں جو ملکہ حاصل ہے اساتذہ میں اس کی مثال مشکل سے ملتی ہے۔ انھوں نے جب اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے کے لیے پاکستان اور بھارت کی لائبریریوں کی خاک چھانی توانھیں 20 ویں صدی کے ایک ایڈیٹر محمد الدین فوق کی کتاب '' اخبار نویسوں کے حالات '' ملی جس کو انھوں نے اپنے مربوط ابتدائیے کے ساتھ شایع کیا، اس طرح اردو پڑھنے والے قارئین کو 19ویں اور 20 ویں صدی کے اہم صحافیوں کے بارے میں جاننے کا موقع ملا۔

محمد الدین فوق کی کتاب میں پنجاب ، صوبہ سرحد میں متحدہ اور جنوبی ہند کے بعض اردو اخبارات و رسائل کے ذاتی، ملکی اور قومی با تصویر حالات درج ہیں اورکئی ایک کے خود نوشتہ حالات ہیں۔ اس کتاب میں 38 کے قریب صحافیوں اور ایڈیٹروں کے حالات بیان کیے گئے ہیں، یوں 368 صفحات پر مشتمل کتاب اردو صحافت کے بارے میں معلومات کا خزانہ ہے۔

ڈاکٹر طاہر مسعود لکھتے ہیں کہ افسوس اور اس سے بڑھ کر تشویش کی بات یہ ہے کہ اکثر شعبہ ہائے ابلاغ عامہ کے نصاب سے تاریخ صحافت کا مضمون خارج کردیا گیا ہے اور اگرکہیں موجود ہے بھی تو سرسری تذکرے کے طور پر ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جو طلبا وطالبات ان درس گاہوں سے ابلاغ عامہ کی اعلیٰ تعلیم کی سند لے کر نکلتے ہیں وہ اپنی زبان ہی کے اہم اور تاریخی کردار ادا کرنے والے عظیم صحافیوں اور ان اخبارات و رسائل سے بے خبر اور لاعلم ہوتے ہیں ۔ ان بے چاروں کو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ جنوبی ایشیا کے اس خطے کے مطابع (پرنٹنگ پریس) کب قائم ہوئے ۔ اخبار نویسی کیسے شروع ہوئی، غلامی کے اندھیروں کو آزادی کے اجالے میں بدلنے کے لیے صحافیوں نے کس قدر مالی اور جانی قربانیاں دیں ۔

کتاب کے مصنف، منشی محمد الدین فوق (1945-1877ء) کا تعارف کراتے ہوئے لکھتے ہیں کہ منشی محمد الدین فوق اپنے زمانے کے معروف صحافی،کثیر التالیف مصنف اور 6 اخبارات کے مالک ومدیر تھے ۔ اس خطے میں اخبار نویسی یا صحافت کی داغ بیل ان کے زیر اثر پڑی۔ صحافت میں جو نت نئے رجحانات آئے، اس کا سرچشمہ بھی برطانوی صحافت ہی تھی۔ سرسید کا تہذیب الاخلاق ، منشی سجاد حسین کا اودھ پنچ، مولوی محبوب عالم کا 'انتخاب لاجواب' یہ سارے اخبارات و رسائل برطانوی صحافت کی تقلید و تنبیع میں جاری ہوئے۔ اس سے غالب گمان ہے کہ فوق کو بھی کشمیری میگزین کا ایڈیٹر نمبر نکالنے کا خیال لندن کے رسالے ''ریویو آف ریویوز'' کے ایڈیٹر نمبرکی اشاعت کے بعد آیا۔

لندن کا یہ ممتاز رسالہ ڈبلیوٹی سٹیڈ کی ادارت میں چھپتا تھا۔ مسٹر سٹیڈ ہندوستان میں بھی جانے پہچانے تھے۔ ان کی موت بھی ٹائیٹنک جہازکی غرقابی سے واقع ہوئی۔ جالب دہلوی نے اپنے حالات میں لکھا ہے کہ مسٹر اسٹیڈ کو مغربی دنیا میں اپنے زمانے کا سب سے بڑا ایڈیٹر اتفاق رائے کے ساتھ سمجھا جاتا تھا۔ چنانچہ ان کی موت پر ہندوستان میں خصوصاً لاہور میں جو ان دنوں صحافت کا ایک بڑا مرکز تھا تعزیتی جلسہ ہوا جس میں صحافیوں اور ایڈیٹروں نے شرکت کی۔

ڈاکٹر طاہر مسعود لکھتے ہیں کہ فوق نے جن ایڈیٹروں کے حالات مرتب کیے ہیں ۔ ان میں کسی کے تذکرے میں اخبار پر حکومتی گرفت یا ایڈیٹر کی سزا وتادیب کے بھگتنے کا علم ہوتا ہے لیکن یہ معلومات اتنی نامکمل اور تشنہ ہے کہ ان سے 20ویں صدی کی پہلی اور دوسری دہائی کے اس سیاسی منظرنامے کی تصویر سامنے نہیں آتی جس سے یہ سراغ مل سکے کہ ایڈیٹروں نے اپنے فرض کی انجام دہی میں حکومت انگلیشیہ کے آزادانہ صحافت کو سلب کرنے والے کن قوانین کو بھگتا، قلم اور اخبارکوکسی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا۔

اس کتاب کا پہلا باب مولوی محبوب عالم چیف ایڈیٹر پیسہ اخبار کے بارے میں فوق لکھتے ہیں کہ مولوی محبوب عالم نے 16 مارچ 1897ء کو ہفتہ وار ایڈیشن کے پیسہ اخبارکا روزانہ ایڈیشن بھی جاری کیا۔ مگر قوم اس وقت روزانہ اخبارکی قدروقیمت سے آگاہ نہ تھی۔ اس لیے 2مئی 1899ء کو یہ بند کردیا۔ 1904ء میں روزانہ پیسہ اخبار جاری کیا۔ جب پہلے پہل 1897ء میں جاری کیا گیا تو اس کے 22X18/4 کے آٹھ صفحے تھے لیکن اس مرتبہ اس کا سائز دگنا کردیا گیا جس سے نہ صرف اخبار ہی مقبول ہوا بلکہ پیسہ اخبار نے اپنی معتدل اور وفادارنہ پالیسی سے مسلمانوں کو اعتدال سے منحرف نہ ہونے دیا۔ ایک زمانہ تھا کہ لوگ سوائے پیسہ اخبار کے کسی اور اخبار میں اشتہار دینا پسند نہ کرتے تھے۔

پیسہ اخبار نے اشتہارات کی آمدنی سے معقول فائدہ اٹھایا۔ محکمہ ڈاک نے 1900ء میں پیسہ اخبار پوسٹ آفس کے نام سے ایک ڈاک خانہ دیا۔ فوق نے اخبار ہندوستان کے ایڈیٹر بابو دینا ناتھ کے بارے میں لکھا کہ جون 1907ء میں بابو ناتھ گوجرانوالہ کے اخبار انڈیا کو اپنے پریس میں چھاپنے کے جرم میں ماخوذ ہوئے۔ عدالت نے 5 سال قید اور پریس ضبطی کا حکم دیا۔

چیف کورٹ نے سزا کو 2 سال قید سے بدل دیا۔ بابو دینا ناتھ جب جیل میں داخل ہوئے تو ان کا وزن 104 پونڈ تھا لیکن جب 8 فروری 1909ء کو رہا ہو کر لاہور آئے تو ان کا وزن بڑھ کر 144 پونڈ تھا۔ پہلے ان کی صحت نہایت مخدوش رہا کرتی تھی، اب صحت بہتر ہوگئی تھی۔

مولانا ظفر علی خان کے بارے میں مصنف لکھتے ہیں کہ 1911ء میں والیان و اراکین ریاست بعض ایسے اخبارات کا داخلہ جن کا لہجہ گورنمنٹ یا ہندو یا مسلمانوں کے متعلق ناگوار تھا اپنی حدود ریاست میں بند کردیے تھے۔ چنانچہ اخبار زمیندار کا داخلہ بھی پالیسی بدلنے کی وجہ سے چند ریاستوں میں بند کردیا گیا۔ لیکن اس دوران ترکی اور اٹلی میں جنگ چھڑگئی۔ ظفر علی خان نے اس موقعے کو غنیمت سمجھ کر 5 اکتوبر کو زمیندار کا روزانہ ایڈیشن بھی جاری کیا۔

جولائی 1911ء میں ظفر علی خان نے لاہور میں ایک لیکچر دیا اور چونکہ بقول بعض لیکچر میں جو کچھ کہا گیا وہ مسلمانوں کے مذہبی عقائد کے برخلاف تھا اس بناء پر عام مسلمانوں نے ناراضگی کا اظہار کیا۔ ظفر علی خان نے بہت جلد عقل مندی سے کام لے کر پھر کبھی مذہبی معاملات میں اپنے ذاتی عقائد کو دخل نہیں دیا۔ اس کتاب میں مصنف محمد الدین فوق کے اپنی زندگی کے حالات بھی شامل ہیں۔ محمد الدین فوق کشمیر میں میگزین کے ایڈیٹر تھے۔

مولوی محبوب عالم ایڈیٹر پیسہ اخبار کے چھوٹے بھائی منشی عبدالکریم اور عبدالرحیم بھی اسی اسکول میں پڑھا کرتے تھے۔ ان کی وجہ سے پیسہ اخبار میں جوان دنوں موچی دروازے کے باہر تھا آمدورفت ہوگئی۔ پھر کئی اخبارات میں مضمون لکھے۔ سب سے پہلے ناول عصمت آراء لکھا۔ پھر اخبار صدائے ہند کو ایک ناول لکھ کر دیا۔ اس طرح کئی اخبارات شایع کیے۔ فوق لکھتے ہیں کہ اکتوبر 1901ء میں پیسہ اخبار سے تعلق قطع کرکے نومبر 1902ء میں پندرہ روزہ اخبار بنام پنجہ فولاد جاری کیا۔ وہ لکھتے ہیں کہ انگریزی کی تعلیم مڈل تک ہے۔

ایڈیٹری میں بغیر انگریزی زبان کافی طور پر جاننے کے امر محال ہے۔ پھر جب عربی اور فارسی میں بھی مہارت نہ ہو تو بالکل بے سود ہے مگر محض خدا کا فعل ہے جو شامل حال ہے اور جس کی وجہ سے اپنے اہل وطن اور برادری کی بری بھلی خدمت کرسکنے کے قابل ہوں ۔فوق نے مولوی فضل الحسن حسرت موہانی کا تذکرہ یوں کیا ہے۔ آپ کے اجداد میں سے سید محمود نیشاپوری نے ترک وطن کرکے مضافات لکھنو میں یہ مقام موہان ضلع آنا و ملک اودھ سکونت اختیارکی، آپ اسی جگہ پیدا ہوئے۔ انٹر تک انگریزی میں تعلیم حاصل کی۔ 1903ء میں علی گڑھ کالج سے بی اے کی ڈگری حاصل کی ۔ (اب مشہور انتہاپسند بال گنگا دھر نلک ایڈیٹرکیسری ان کے ہیرو ہیں)۔

آپ نے علی گڑھ سے اردو معلیٰ نام کا رسالہ جاری کیا۔ 1908ء تک یہ رسالہ ملک کے نامور رسالوں میں شامل تھا۔ 1908ء میں یکایک ایک ایڈیشن کے مقدمے کی وجہ سے اردو معلیٰ پر زوال آیا۔ اس مقدمے میں ایک سال قید کی سزا ملی مگر قید کی سختی اور مقدمے کی سختی اور مشکلات نے آپ کے خیالات پر کوئی اثر نہ کیا۔ فوق نے اس کتاب میں اور بہت نامور صحافیوں اور ایڈیٹروں کے حالات بیان کیے ہیں۔

اس کتاب کی قیمت 700 روپے ہے۔ انجمن ترقی اردو پاکستان نے یہ کتاب اکادمی ادبیات پاکستان کی معاونت سے شایع کی ہے۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ سرکاری امداد سے شایع ہونے والی کتاب کی اتنی زیادہ قیمت رکھی گئی ہے۔

فوق کا یہ شعر آج کے حالات کی بھی عکاسی کرتا ہے:

اے فوق جو یوں خوف رہا مالی و جانی

پھر کاہے کو جاری کوئی اخبارکرے گا

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔