غلطی تم سے ہوئی

کہنے کو یہ ایک جراتمند اور بے باک صحافی کا قتل ہے لیکن بہت سے حلقوں کا خیال ہے کہ اس قتل نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔

zahedahina@gmail.com

وہ استنبول کا شہر تھا جہاں اب سے صرف پانچ مہینے پہلے ایک کانفرنس میں ان کی ملاقات ہوئی تھی اور دونوں پہلی نظر میں ایک دوسرے کو دل دے بیٹھے تھے۔ جمال کے بالوں میں سیاہی کم رہ گئی تھی لیکن اپنے سفید بالوں کو اس نے کسی رنگ سے چھپایا نہیں تھا۔

دونوں ہشاش بشاش اور ایک دوسرے کی دوسراہت سے سرشار تھے۔ انھوں نے پہلی ملاقات کے فوراً بعد ہی شادی کا فیصلہ کر لیا۔ جمال اپنی پہلی بیوی کو طلاق دے چکا تھا۔ شادی امریکا میں ہونی تھی جس کے لیے لازم تھا کہ طلاق کے کاغذات پر سرکاری مہر ثبت ہو۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ استنبول کے قونصل خانے جا کر وہاں سے متعلقہ کاغذات پر مہر لگوالے گا۔ ایک سادہ سی کاغذی کارروائی۔ لیکن اس کا شمار اپنے ملک کے ناپسندیدہ ترین صحافیوں میں ہوتا تھا اسی لیے وہ امریکا میں رہتا تھا اور وہاں کے نہایت مؤقر اخبار ''واشنگٹن پوسٹ'' سے وابستہ تھا۔

امریکا اور یورپ کے بہت بااثر افراد اس کے دوست تھے۔ اس کے ساتھ ہی اس نے Democracy for the Arab World Nowکے نام سے ایک ٹیلی وژن چینل آغازکرنے کا اعلان کیا تھا۔

جمال طلاق نامے پر مہر لگوانے کے لیے روانہ ہوا ہے تو جان عزیز خدیجہ چنگیز اس کے ساتھ تھی۔ دونوں آنے والے دنوں کے منصوبے بنا رہے تھے۔ شادی کہاں ہوگی، امریکا میں وہ اپنا گھرکہاں بنائیں گے، اسے کس طور آراستہ کریں گے۔ یہ باتیں کرتے ہوئے وہ استنبول کی سڑکوں سے گزرتے رہے۔ جمال بہت خوش تھا، ایک بھری پری زندگی اب اس سے چند قدموں کے فاصلے پر تھی۔ اس کے ساتھ ہی دل کو ایک دھڑکا سا لگا ہوا تھا، تب ہی اس نے عمارت کے دروازے پر پہنچ کر خدیجہ چنگیز سے جدا ہوتے ہوئے کہا کہ اگر مجھے باہر آنے میں زیادہ دیر ہو تو میرے ترک دوست توران کو اطلاع دے دینا۔ وہ اندر چلا گیا اور خدیجہ باہر اس کا انتظار کرتی رہی۔

گھنٹے گزرتے گئے، لیکن خدیجہ کا انتظار ختم نہ ہوا۔ دفتر بند ہونے لگا تو اس نے وہاں کام کرنے والے اسٹاف سے جمال کے بارے میں پوچھا۔ اسے بتایا گیا کہ وہ گھنٹوں پہلے عقبی دروازے سے باہر جا چکا ہے۔ ترک نژاد خدیجہ چنگیز کو اس بات پر یقین نہیں آیا۔ اس نے جمال کے دوست توران کچلاک سے رابطہ کیا اور پھر چند منٹ کے اندر دنیا کے اہم دارالحکومتوں میں فون کی گھنٹیاں بجنے لگیں۔ ای میل اور ٹوئیٹر پر عرب دنیا کے سب سے مشہور اور متنازع صحافی جمال خشوگی کی گمشدگی ایک دھماکا خیز خبر بن گئی۔

جمال خشوگی کو استنبول میں 2 اکتوبر کو نہایت شقاوت سے قتل کیا گیا اور 16دن تک اس کے قتل کی تکذیب کی گئی۔اب جب کہ سرکاری ذرایع سے اس قتل کی تصدیق کردی گئی ہے، اس کی منگیتر خدیجہ چنگیز اور دوسرے بہت سے لوگ جمال خشوگی کو آزادیٔ صحافت کا شہید کہہ رہے ہیں۔ سرحدوں سے بالاتر صحافیوں کی تنظیم ہو یا ایمنسٹی انٹرنیشنل، اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل ہوں، امریکی ری پبلیکن یا ڈیموکریٹک سینیٹر ہوں، سب ہی برہم اور برا فروختہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 60 سالہ جمال پر مبینہ طور سے پندرہ افراد کا حملہ اور آخر کار اسے مکوں اور گھونسوں سے مار مار کر بے دم کر دینا جس کے بعد اس کا گلا گھونٹ کر ہلاک کردینا، ناقابل معافی ہے۔

ابھی ترک صدر طیب اردگان کا سرکاری بیان آنے میں 24گھنٹے باقی ہیں جو ترک اہلکاروں کی تحقیق و تفتیش کے بعد وہ دینے والے ہیں۔ اس مصدقہ سرکاری بیان سے پہلے یہ کہا جا رہا ہے کہ جمال کو زبردستی وطن واپس لے جانے کی کوشش کی گئی اور جب اس نے مزاحمت کی تو اسے گلا گھونٹ کر ہلاک کر دیا گیا۔ غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق ہلاکت سے پہلے جب وہ ہوش میں تھا اس کے پیر، اس کی انگلیاں اور اس کے بازو برقی آری سے کاٹ دیے گئے جس کے بعد اس کا سر قلم کر دیا گیا۔ یہ پڑھتے ہوئے میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے اور مجھے چند دنوں پہلے لکھا جانے والا اپنا ہی کالم یاد آیا جس میں حسین بن منصور حلاج کو اب سے ہزار برس پہلے اسی طرح کترکترکر شہید کیا گیا تھا۔

کیا اکیسویں صدی میں یہ ممکن ہے؟ جمال ''واشنگٹن پوسٹ'' کی آنکھ کا تارا تھا ۔ ''واشنگٹن پوسٹ'' نے اس بھیانک قتل کے بارے میں 9اہم سوال اٹھائے ہیں اور ان میں سے ایک سوال یہ بھی ہے کہ اس کی ہلاکت کا اعتراف کرنے میں 17دن کیوں لگے۔ اس سے پہلے بار بار یہ کیوں کہا جاتا رہا کہ وہ عمارت میں داخل ہونے کے کچھ ہی دیر بعد عقبی راستے سے نکل گیا تھا۔ دوسرے بہت سے سوالات کے ساتھ ہی اب یہ بھی پوچھا جا رہا ہے کہ جمال کی لاش کہاں ہے؟

بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ جمال کی لاش کے ٹکڑے کیے گئے اور پھر اس کا قیمہ کرکے اسے ''کیفر کردار''تک پہنچانے والے 15اہلکار اس قیمے کو اپنے ساتھ نجی جہاز میں لے کر روانہ ہو گئے۔ دوسری کئی خبریں بھی ہیں لیکن شایہ تصدیق شدہ بیان ہم 24 گھنٹوں بعد ترک صدرکی زبان سے ہی سن اور جان سکیں گے۔


کہنے کو یہ ایک جراتمند اور بے باک صحافی کا قتل ہے لیکن بہت سے حلقوں کا خیال ہے کہ اس قتل نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور اس کے نتائج جلد ہی سامنے آنے لگیں گے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ یہ ستمبر 1914ء میں آسٹریا کے شہزادے کے قتل کی طرح تہلکہ خیز ہے جس کے بعد پہلی جنگ عظیم شروع ہوگئی تھی۔ اسی طرح اسے جان ایف کینیڈی اور ابراہیم لنکن کے قتل سے بھی تشبیہہ دی جا رہی ہے ۔

ہماری تاریخ ایسی ہلاکتوں کے تذکرے سے بھری پڑی ہے۔ ہر وہ شخص جس نے شاہِ وقت سے اختلاف کیا یا جو تخت کی جنگ میں مقابل آیا، اسے وحشیانہ انداز میں ہلاک کیا گیا۔ جعفر زٹل جس نے شاہ وقت کی اقتصادی اور معاشی پالیسیوں سے اختلاف کیا تھا اور جو ایک شاعر تھا، اس کو ہلاک کرنے کے لیے تسمے کا انتخاب کیا گیا۔

اقتدار کی جنگ میں دارا شکوہ ہار گیا تو اورنگ زیب کے جانثار سپاہیوں نے چھوٹے بھائی کے حکم پر بڑے بھائی کو ذبح کر کے اس کا سربریدہ لاشہ ایک بیمار ہتھنی کی پشت پر رکھ کر دلی شہر کی گلیوں میں پھرایا۔ لوگ دیکھیں اور عبرت پکڑیں اور یقین کرلیں کہ صوفی اور عالم دارا شکوہ کو شکست ہوگئی۔

ایک روایت کے مطابق جب دارا شکوہ کا سرطشت میں حضرت اورنگ زیب عالمگیر رحمتہ اللہ علیہ کے سامنے لایا گیا تو اس کو پہچاننے کے بعد حضرت گرامی مرتبت نے حکم دیا کہ یہ سر اپنی ماں کے سینے پر آرام کرتا تھا۔ اسے لے جایا جائے اور ممتاز محل کی قبر کھول کر یہ سر اسی ماں کے سینے پر رکھ دیا جائے۔ ماں اور بیٹے دونوں کو آرام آجائے گا۔ یاد رہے کہ بد بخت دارا کی ماں، خوش بخت اورنگ زیب کی بھی ماں تھی۔

ممتاز محل جس کا مقبرہ تاج محل تعمیراتی دنیا میں بے مثال کہا جاتا ہے۔ دنیا کے نامی گرامی صدور اور وزرائے اعظم اس کے پس منظر میں اپنی بیگمات کے ساتھ تصویریں کھنچواتے ہیں اور اس یادگار کو اپنے دیوان خانوں میں رکھتے ہیں۔

جعفر برمکی کو ہم کیسے بھول جائیں جو خلیفۂ وقت کا چہیتا، منہ بولا بھائی تھا اور جب ہارون الرشید کو اس سے حسد ہوا تو جعفر کا سرتن سے جدا ہوا اور بدن بغداد کے مشہور پل پر جھولتا رہا۔ دھوپ اسے خشک کرتی رہی اور پرندے اس کی پسلیوں میں گھونسلے بناتے رہے۔

ہمارے یہاں کیسی کیسی سزائیں ایجاد کی گئیں ۔ قیدی کو ایسے زنداں خانے میں رکھا جائے کہ آنکھیں سورج کی کرن اور دھوپ کا شائبہ نہ دیکھ پائیں۔ برسوں بعد وہاں سے نکالے جائیں تو آنکھیں بصارت سے محروم ہوچکی ہوں۔ بادشاہ سلامت کا طیش عروج پر ہو تو گردن کے پچھلے حصے میں فولادی آنکڑا ڈال کر زبان گدی سے کھینچ لی جائے۔ اسی طرح برونوکی سزا ہم کیسے بھلا دیں جسے تمام عقوبتوں سے گزار کر چار توانا گھوڑوں سے اس کے ہاتھ اور پیر باندھ کر ان گھوڑوں کو مختلف سمتوں میں دوڑایا گیا تاکہ وہ اس کا بدن چار حصوں میں تقسیم کر دیں۔

ہم انیسویں اور بیسویں صدی کی زار شاہی سزاؤں کو یاد کریں،آنکھوں میں دہکتی ہوئی سلائیاں پھیر کر انسانوں کو بینائی سے محروم کردیا جائے۔ باغی اور جراتمند شاعروں کے ہونٹ تانت سے سی دیے جائیں۔ ان دنوں میں اور آج میں فرق ہے تو صرف اتنا کہ ان دنوں ایمنسٹی انٹرنیشنل، اقوام متحدہ ، سرحدوں سے ماورا صحافیوں کی تنظیمیں نہیں ہوتی تھیں جو ان وحشیانہ ہلاکتوں پر احتجاج کریں اور دوسرے جب ایسی کسی غیر انسانی حرکت کے بارے میں سوچیں تو کئی بار غور کریں۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بھائی جمال خشوگی تم نے یہ کیوں فرض کر لیا تھا کہ تم اکیسویں صدی میں رہتے ہو؟ کیا تم نہیں جانتے تھے کہ بادشاہوں کی نازک مزاجیاں آج بھی وہی ہیں۔ تم نے جب اس عمارت میں قدم رکھا تھا تو بین الاقوامی قوانین کے مطابق تم اپنی ریاست میں پہنچ گئے تھے اور تم پرکفار اور مشرکین کے تمام قوانین ساقط ہوگئے تھے۔

غلطی تم سے ہوئی ،کسی شاہ جم جاہ سے نہیں ہوئی
Load Next Story