’’حبس‘‘ ایک تبصرہ
اگر آپ کے دل میں انسانیت کےلیے ذرّہ برابر بھی کوئی نرم گوشہ موجود ہے، تو آپ کو یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہیے
''حبس'' نام ہے اس خونچکاں تحریر کا جو برسوں پر پھیلی ہوئی ناانصافی کا المیہ ہے، جو مغرب کے دوہرے معیار کی آئینہ دار ہے۔ جب مغربی استعمار کو یہود پر ہونے والے ہولوکاسٹ کا کفارہ ادا کرنے کا خیال آیا تو قربانی کےلیے قرعہ فال فلسطینیوں کے نام نکلا، جن کا واحد قصور ان کا مسلمان ہونا تھا۔ یورپ کے سفید یہودیوں کو وہاں لا بسانے کا تمغہ برطانیہ اور امریکا کے سینے پر سجا ہے۔
یہ کتاب اسرائیل کے پہلے وزیر دفاع اور گیارہویں وزیراعظم ایرئیل شیرون کی خباثتوں پر لکھی گئی ہے۔ وہی شیرون جسے ایرک بھی کہا جاتا تھا اور بلڈوزر کے نام سے بھی یاد کیا جاتا تھا۔ ڈاکٹروں کی تنبیہ کے باوجود کھانے پینے میں حد سے زیادہ بے اعتدالی کے باعث شیرون کی دماغی حالت ابتر ہوتی چلی گئی۔ 4 جنوری 2006 کو شیرون کی دماغی شریان پھٹنے سے اس پر فالج کا حملہ ہوا اور وہ کوما میں چلا گیا؛ اور کچھ عرصہ ھدسہ اسپتال یروشلم اور پھر شیبا میڈیکل سینٹر تل ابیب میں داخل رہا۔
کلاسیکی انداز میں لکھی گئی اس کتاب کے مصنف اردو ادب کی ایک اہم تخلیقی شخصیت سید حسن منظر ہیں، جو ایک ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہیں اور سائیکاٹرسٹ کے طور پر کراچی میں پریکٹس کر رہے ہیں۔ یہ صرف ایک ڈاکٹر کےلیے ہی ممکن تھا کہ شیرون کے دماغی اتار چڑھاؤ اور ذہنی کشمکش کو اس طرح بیان کرسکے۔
یہ ناول یک رخی تکنیک میں لکھا گیا ہے۔ ناول کا پس منظر جدید اسرائیل کی تعمیر کا دور دکھایا گیا ہے۔ ناول کا پلاٹ ان آٹھ برسوں پر پھیلا ہوا ہے جو شیرون نے بستر مرگ پر کوما کی حالت میں گزارے۔ کہانی شیرون کے گرد گھومتی ہے جو اسپتال میں مفلوج ہے اور اس حالت میں اسے ماضی کے تمام واقعات اور کردار دکھائی دیتے ہیں، جو کسی لمحہ بھی اسے اکیلا نہیں چھوڑتے۔ اس دوران وہ ان کی باتیں سنتا ہے، انہیں ایک فلم کی صورت میں دیکھتا ہے اور اس دیکھنے اور سننے کو روک نہیں پاتا؛ سوائے ان چند لمحات کے جب اسے ٹرینکولائز کر دیا جاتا ہے۔
یہ ساری کتاب ان مکالموں پر مشتمل ہے جن کا بظاہر کوئی وجود نہیں، لیکن اس کے باوجود وہ ہر جگہ حاوی نظر آتے ہیں۔ یہ سید حسن منظر کی ایک ایسی تکنیک ہے جو سائیکالوجی کے طالب علموں کو ایک نئی جہت عطا کرتی ہے۔ اسی کے ساتھ ہی اس چیز کو واضح کرتی ہے کہ جس طرح انسان اللہ تعالیٰ کی تمام تخلیقات میں سب سے پیچیدہ تخلیق ہے، اسی طرح ایک انسانی جسم میں دماغ کی اہمیت سب سے زیادہ ہے۔
زیر نظر کتاب میں بہت خوبصورتی سے عکاسی کی گئی ہے کہ وہ جلاد جو پوری زندگی کبھی بے گناہ فلسطینیوں کا خون بہانے کا موقع ضائع نہیں کرتا تھا، مکافات عمل کے تحت کس طرح دماغی طور پر ٹارچر ہورہا ہے؛ اور اس عمل میں مظلوموں کے ساتھ ساتھ اس کے اپنے بھی برابر کے شریک ہیں۔
صابرہ اور شتیلہ سمیت بے شمار کیمپوں کا قصاب اپنے دماغ میں آنے والے ان کلپس اور واقعات کو یاد کرنے سے نہیں روک سکتا اور ہر لمحہ ایک نئی اذیت کا شکار ہوتا ہے۔
لادینیت اور سیکولر خیالات کا مالک اسی خالق کی بات کرتا ہے جس کے نام لیواؤں پر وہ زمین تنگ کیے ہوئے تھا۔ بے گناہ فلسطینیوں کو موت کے گھاٹ اتارنے والا 4 جنوری 2006 سے لے کر 11 جنوری 2014 تک ہر لمحہ موت کا ذائقہ چکھتا رہا۔
عالمی سطح پر اسرائیل کے شاطرانہ حربوں اور مفاد پرست چالوں کا جاننا ہر محب وطن کے ضروری ہے؛ اور یہ بھی کہ یہود اپنے مقاصد کےلیے کس حد تک گر سکتے ہیں۔ ایک طرف وہ فلسطینی مسلمانوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کر رہے ہیں اور دوسری طرف انہی کے اگائے ہوئے باغات کی پیداوار ''پروڈکٹ آف اسرائیل'' کا لیبل لگا کر عالمی منڈی میں بیچ کر دام کھرے کرتے ہیں۔
مجھے اپنی پسند آپ پر تھوپنے اور اپنی رائے آپ پر مسلط کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں۔ لیکن اتنا ضرور کہنا چاہوں گا کہ اگر آپ کے دل میں انسانیت کےلیے ذرّہ برابر بھی کوئی نرم گوشہ موجود ہے، تو آپ کو یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہیے۔ ہم جانتے ہیں کہ ہم ظالم کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے لیکن مظلوم کے ساتھ یک جہتی کا اظہار تو کر سکتے ہیں، اس کے درد کو محسوس تو کرسکتے ہیں، اس ننھے سے پرندے کی طرح جسے معلوم تھا کہ اس کی چونچ میں موجود پانی کا ایک قطرہ آتش نمرود کو نہیں بجھا سکتا لیکن وہ پھر بھی حق کا ساتھ دینے والوں کی صف میں شامل تو ہوگیا تھا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
سادگی مسلم کی دیکھ اوروں کی عیاری بھی دیکھ
یہ کتاب اسرائیل کے پہلے وزیر دفاع اور گیارہویں وزیراعظم ایرئیل شیرون کی خباثتوں پر لکھی گئی ہے۔ وہی شیرون جسے ایرک بھی کہا جاتا تھا اور بلڈوزر کے نام سے بھی یاد کیا جاتا تھا۔ ڈاکٹروں کی تنبیہ کے باوجود کھانے پینے میں حد سے زیادہ بے اعتدالی کے باعث شیرون کی دماغی حالت ابتر ہوتی چلی گئی۔ 4 جنوری 2006 کو شیرون کی دماغی شریان پھٹنے سے اس پر فالج کا حملہ ہوا اور وہ کوما میں چلا گیا؛ اور کچھ عرصہ ھدسہ اسپتال یروشلم اور پھر شیبا میڈیکل سینٹر تل ابیب میں داخل رہا۔
کلاسیکی انداز میں لکھی گئی اس کتاب کے مصنف اردو ادب کی ایک اہم تخلیقی شخصیت سید حسن منظر ہیں، جو ایک ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہیں اور سائیکاٹرسٹ کے طور پر کراچی میں پریکٹس کر رہے ہیں۔ یہ صرف ایک ڈاکٹر کےلیے ہی ممکن تھا کہ شیرون کے دماغی اتار چڑھاؤ اور ذہنی کشمکش کو اس طرح بیان کرسکے۔
یہ ناول یک رخی تکنیک میں لکھا گیا ہے۔ ناول کا پس منظر جدید اسرائیل کی تعمیر کا دور دکھایا گیا ہے۔ ناول کا پلاٹ ان آٹھ برسوں پر پھیلا ہوا ہے جو شیرون نے بستر مرگ پر کوما کی حالت میں گزارے۔ کہانی شیرون کے گرد گھومتی ہے جو اسپتال میں مفلوج ہے اور اس حالت میں اسے ماضی کے تمام واقعات اور کردار دکھائی دیتے ہیں، جو کسی لمحہ بھی اسے اکیلا نہیں چھوڑتے۔ اس دوران وہ ان کی باتیں سنتا ہے، انہیں ایک فلم کی صورت میں دیکھتا ہے اور اس دیکھنے اور سننے کو روک نہیں پاتا؛ سوائے ان چند لمحات کے جب اسے ٹرینکولائز کر دیا جاتا ہے۔
یہ ساری کتاب ان مکالموں پر مشتمل ہے جن کا بظاہر کوئی وجود نہیں، لیکن اس کے باوجود وہ ہر جگہ حاوی نظر آتے ہیں۔ یہ سید حسن منظر کی ایک ایسی تکنیک ہے جو سائیکالوجی کے طالب علموں کو ایک نئی جہت عطا کرتی ہے۔ اسی کے ساتھ ہی اس چیز کو واضح کرتی ہے کہ جس طرح انسان اللہ تعالیٰ کی تمام تخلیقات میں سب سے پیچیدہ تخلیق ہے، اسی طرح ایک انسانی جسم میں دماغ کی اہمیت سب سے زیادہ ہے۔
زیر نظر کتاب میں بہت خوبصورتی سے عکاسی کی گئی ہے کہ وہ جلاد جو پوری زندگی کبھی بے گناہ فلسطینیوں کا خون بہانے کا موقع ضائع نہیں کرتا تھا، مکافات عمل کے تحت کس طرح دماغی طور پر ٹارچر ہورہا ہے؛ اور اس عمل میں مظلوموں کے ساتھ ساتھ اس کے اپنے بھی برابر کے شریک ہیں۔
صابرہ اور شتیلہ سمیت بے شمار کیمپوں کا قصاب اپنے دماغ میں آنے والے ان کلپس اور واقعات کو یاد کرنے سے نہیں روک سکتا اور ہر لمحہ ایک نئی اذیت کا شکار ہوتا ہے۔
حزر اے چیرہ دستاں سخت ہیں فطرت کی تعزیریں
لادینیت اور سیکولر خیالات کا مالک اسی خالق کی بات کرتا ہے جس کے نام لیواؤں پر وہ زمین تنگ کیے ہوئے تھا۔ بے گناہ فلسطینیوں کو موت کے گھاٹ اتارنے والا 4 جنوری 2006 سے لے کر 11 جنوری 2014 تک ہر لمحہ موت کا ذائقہ چکھتا رہا۔
عالمی سطح پر اسرائیل کے شاطرانہ حربوں اور مفاد پرست چالوں کا جاننا ہر محب وطن کے ضروری ہے؛ اور یہ بھی کہ یہود اپنے مقاصد کےلیے کس حد تک گر سکتے ہیں۔ ایک طرف وہ فلسطینی مسلمانوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کر رہے ہیں اور دوسری طرف انہی کے اگائے ہوئے باغات کی پیداوار ''پروڈکٹ آف اسرائیل'' کا لیبل لگا کر عالمی منڈی میں بیچ کر دام کھرے کرتے ہیں۔
مجھے اپنی پسند آپ پر تھوپنے اور اپنی رائے آپ پر مسلط کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں۔ لیکن اتنا ضرور کہنا چاہوں گا کہ اگر آپ کے دل میں انسانیت کےلیے ذرّہ برابر بھی کوئی نرم گوشہ موجود ہے، تو آپ کو یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہیے۔ ہم جانتے ہیں کہ ہم ظالم کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے لیکن مظلوم کے ساتھ یک جہتی کا اظہار تو کر سکتے ہیں، اس کے درد کو محسوس تو کرسکتے ہیں، اس ننھے سے پرندے کی طرح جسے معلوم تھا کہ اس کی چونچ میں موجود پانی کا ایک قطرہ آتش نمرود کو نہیں بجھا سکتا لیکن وہ پھر بھی حق کا ساتھ دینے والوں کی صف میں شامل تو ہوگیا تھا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔