عوام ہوشیار باش
عوام یہ توقع کرنے میں حق بجانب ہیں کہ اشرافیائی مظالم اور لوٹ مار سے یہ مڈل کلاس حکومت عوام کو نجات دلا دے گی۔
سیاستدان انسان ہوتے ہیں اور انسان کی ایک پہچان ایمانداری اور سچ بولنا ہے۔ سیاستدانوں میں اپوزیشن بھی شامل ہوتی ہے اور اپوزیشن کا کام حکومت کی کمزوریوں کو سچائی کے ساتھ اجاگرکرنا ہوتا ہے لیکن سرمایہ دارانہ جمہوریت میں ایمانداری اور سچائی ایک گمشدہ عناصر ہیں۔
موجودہ حکومت کو اقتدار میں آئے مشکل سے دو ماہ ہو رہے ہیں ان دو مہینوں میں حکومت کوئی ایسا کام نہیں کرسکی جس کو سراہا جا سکے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سابقہ حکومتوں نے ملک کو قرضوں میں ڈبو کر رکھا ہے ۔ ہر ترقیاتی کام میں اربوں روپے درکار ہوتے ہیں اور یہاں صورتحال یہ ہے کہ ملک کو اندرونی اور بیرونی قرضوں میں اس طرح ڈبو کر رکھ دیا ،صرف بیرونی قرضوں کا سود 8 ارب ڈالر ہے جو ادا کرنا ہے چونکہ 8 ارب سرکاری خزانے میں قرض کا سود ادا کرنے کے لیے موجود نہیں لہٰذا نئی حکومت کو سود ادا کرنے کے لیے بھی آئی ایم ایف سے قرض لینا پڑ رہا ہے، یہ لوٹ مار سابقہ حکومت نے کی ہے جس کا خمیازہ نئی حکومت کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔
سابقہ حکومت کی یہ ذمے داری تھی کہ وہ نئی حکومت کو اس کی پھیلائی ہوئی اقتصادی تباہی سے نکالنے میں مدد کرے ۔ لیکن یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ سابقہ حکومت اپنے پھیلائے ہوئے اقتصادی بحران کا ذمے دار ٹھہرا کر ایسی تنقید کر رہی ہے کہ سیاسی اخلاقیات کا جنازہ نکل گیا ہے۔
اس حوالے سے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سابقہ حکومت اپنی بد اعمالیوں اور بدعنوانیوں پر شرمندہ ہوتی اور نئی حکومت کے ساتھ تعاون کرنے کی اس میں اخلاقی جرأت نہ تھی تو کم ازکم حکومت کے لیے مشکلات تو پیدا نہ کرتی ہر روز اسمبلیوں کے اندر اور باہر احتجاج کا سلسلہ جاری ہے اور اپنے گناہوں کی ذمے داری اس حکومت پر ڈالی جا رہی ہے جو ابھی تک اپنے پیر بھی نہیں جما سکی ہے۔ م
لک بلاشبہ شدید مسائل کی زد میں ہے مہنگائی میں اضافہ ہو رہا ہے، ٹرانسپورٹر نے کرائے بڑھا دیے ہیں ، ڈالرکی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ ہوگیا ہے پٹرول اور سی این جی کی قیمتیں بڑھا دی گئی ہیں حتیٰ کہ سبزیوں کے دام بھی بڑھا دیے گئے ہیں۔یہ ساری چیزیں عوام کی روزمرہ کے استعمال کی چیزیں ہیں ان کی قیمتوں میں اضافہ عوام کی مشکلات میں اضافے کا سبب بن جاتا ہے اور حکومت مخالف طاقتیں جن کی بدعنوانیوں اور لامحدود لوٹ مار کی وجہ سے یہ صورتحال پیدا ہوئی ہے انتہائی بد دیانتی سے اس کی ذمے داری عمران خان پر ڈال رہی ہیں۔
ڈالر کی قیمت میں غیر معمولی اضافہ سابقہ حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے ہوا چونکہ یہ اضافہ موجودہ حکومت کے برسر اقتدار آتے ہی ہوا ہے اس لیے ہماری حکومت مخالف طاقتیں ڈالر کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے ہونے والی مہنگائی کا الزام نئی حکومت پر لگا کر عوام کو مس گائیڈ کر رہے ہیں۔
سب سے پہلی بات یہ کہ مہنگائی سمیت عوامی ضروریات کی قیمتوں میں اضافہ حکومتوں کی بے لگام لوٹ مار کی وجہ سے بھی ہوتا ہے۔ نئی حکومت پر نااہلی کے الزامات بڑے دھڑلے سے لگائے جا رہے ہیں لیکن محترم مخالفین جس نااہلی کا نئی حکومت پر الزام لگا رہے ہیں یہ نئی حکومت کی نااہلی نہیں ہے بلکہ ماضی کی حکومت کی بے لگام لوٹ مار کا منطقی نتیجہ ہے۔
پاکستان کے عوام کو حکومت دشمن طاقتوں کے زہریلے پروپیگنڈے پر دھیان دینے کے بجائے اس حقیقت پر غورکرنا چاہیے کہ لوٹ مار کے نظام کو توڑ کر عمران خان نے لٹیروں کو حکومت سے باہر نکال دیا ہے۔
اقتدار کے چھن جانے سے اشرافیہ اس قدر بے قرار اور مشتعل ہے کہ اس کا بس نہیں چلتا کہ نئی حکومت کو نکال کر باہر پھینک دے۔ لیکن مہنگائی، بجلی، گیس کی قیمتوں میں اضافے، پٹرول اور سی این جی کی قیمتوں میں اضافے سے متاثر ہونے والے عوام کو یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ ان مشکلات کی ذمے دار نئی حکومت ہے اس غلط پروپیگنڈے کا مقصد یہ ہے کہ عوام مشتعل ہوکر سڑکوں پر آجائیں یہ ایک گہری سازش ہے جس کا مقصد اسٹیٹس کو بحال کرنا ہے۔
اسٹیٹس کوکے ٹوٹنے سے یعنی اشرافیائی حکومت کے خاتمے سے اشرافیہ سب سے زیادہ پریشان اور مایوس اس لیے ہے کہ اس نے بڑی محنت اور منصوبہ بندی سے آیندہ اقتدار سنبھالنے کے لیے شہزادوں، شہزادیوں، ولی عہدوں کی جو فوج تیار کی تھی اس کا اقتدار میں آنا اب مشکل ہوگیا ہے۔
جمہوری بادشاہوں کو یہ فکر لاحق ہے کہ اگر عمران حکومت کو سال دو سال حکومت کرنے کا موقعہ مل گیا تو وہ ملک کو لوٹ مار کے نظام سے نکال کر ترقی کے راستے پر لگا دے گی اور ایک بار عوام نئی حکومت کی کارکردگی سے مطمئن ہوجائیں تو یہ اشرافیہ کے مستقبل کو تباہ کرنے کا باعث بن جائیں گے۔
فراڈ اور اشرافیائی جمہوریت کے نام پر پاکستانی عوام کو بے وقوف بنایا جارہا ہے جمہوریت میں اقتدار کے مالک عوام ہوتے ہیں لیکن اشرافیہ نے بڑی چالاکی اور منصوبہ بندی سے ملک کے مالکوں کو غلام بناکر رکھ دیا ہے، اگر عمران حکومت بھی اسی راستے پر چلتی ہے تو عوام اسے بھی اقتدار سے نکال کر باہر پھینک دیں گے۔
عوام یہ توقع کرنے میں حق بجانب ہیں کہ اشرافیائی مظالم اور لوٹ مار سے یہ مڈل کلاس حکومت عوام کو نجات دلا دے گی۔ نئی حکومت ابھی تک قدم جمانے میں جن وجوہات سے کامیاب نہیں ہوسکی اس کی ایک وجہ اس کے میڈیا سیل کا نکما پن ہے حکومت کا میڈیا سیل اپوزیشن کے مقابلے میں مکمل طور پر ناکام ہو رہا ہے جس پر توجہ دینا ضروری ہے۔
موجودہ حکومت کو اقتدار میں آئے مشکل سے دو ماہ ہو رہے ہیں ان دو مہینوں میں حکومت کوئی ایسا کام نہیں کرسکی جس کو سراہا جا سکے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سابقہ حکومتوں نے ملک کو قرضوں میں ڈبو کر رکھا ہے ۔ ہر ترقیاتی کام میں اربوں روپے درکار ہوتے ہیں اور یہاں صورتحال یہ ہے کہ ملک کو اندرونی اور بیرونی قرضوں میں اس طرح ڈبو کر رکھ دیا ،صرف بیرونی قرضوں کا سود 8 ارب ڈالر ہے جو ادا کرنا ہے چونکہ 8 ارب سرکاری خزانے میں قرض کا سود ادا کرنے کے لیے موجود نہیں لہٰذا نئی حکومت کو سود ادا کرنے کے لیے بھی آئی ایم ایف سے قرض لینا پڑ رہا ہے، یہ لوٹ مار سابقہ حکومت نے کی ہے جس کا خمیازہ نئی حکومت کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔
سابقہ حکومت کی یہ ذمے داری تھی کہ وہ نئی حکومت کو اس کی پھیلائی ہوئی اقتصادی تباہی سے نکالنے میں مدد کرے ۔ لیکن یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ سابقہ حکومت اپنے پھیلائے ہوئے اقتصادی بحران کا ذمے دار ٹھہرا کر ایسی تنقید کر رہی ہے کہ سیاسی اخلاقیات کا جنازہ نکل گیا ہے۔
اس حوالے سے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سابقہ حکومت اپنی بد اعمالیوں اور بدعنوانیوں پر شرمندہ ہوتی اور نئی حکومت کے ساتھ تعاون کرنے کی اس میں اخلاقی جرأت نہ تھی تو کم ازکم حکومت کے لیے مشکلات تو پیدا نہ کرتی ہر روز اسمبلیوں کے اندر اور باہر احتجاج کا سلسلہ جاری ہے اور اپنے گناہوں کی ذمے داری اس حکومت پر ڈالی جا رہی ہے جو ابھی تک اپنے پیر بھی نہیں جما سکی ہے۔ م
لک بلاشبہ شدید مسائل کی زد میں ہے مہنگائی میں اضافہ ہو رہا ہے، ٹرانسپورٹر نے کرائے بڑھا دیے ہیں ، ڈالرکی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ ہوگیا ہے پٹرول اور سی این جی کی قیمتیں بڑھا دی گئی ہیں حتیٰ کہ سبزیوں کے دام بھی بڑھا دیے گئے ہیں۔یہ ساری چیزیں عوام کی روزمرہ کے استعمال کی چیزیں ہیں ان کی قیمتوں میں اضافہ عوام کی مشکلات میں اضافے کا سبب بن جاتا ہے اور حکومت مخالف طاقتیں جن کی بدعنوانیوں اور لامحدود لوٹ مار کی وجہ سے یہ صورتحال پیدا ہوئی ہے انتہائی بد دیانتی سے اس کی ذمے داری عمران خان پر ڈال رہی ہیں۔
ڈالر کی قیمت میں غیر معمولی اضافہ سابقہ حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے ہوا چونکہ یہ اضافہ موجودہ حکومت کے برسر اقتدار آتے ہی ہوا ہے اس لیے ہماری حکومت مخالف طاقتیں ڈالر کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے ہونے والی مہنگائی کا الزام نئی حکومت پر لگا کر عوام کو مس گائیڈ کر رہے ہیں۔
سب سے پہلی بات یہ کہ مہنگائی سمیت عوامی ضروریات کی قیمتوں میں اضافہ حکومتوں کی بے لگام لوٹ مار کی وجہ سے بھی ہوتا ہے۔ نئی حکومت پر نااہلی کے الزامات بڑے دھڑلے سے لگائے جا رہے ہیں لیکن محترم مخالفین جس نااہلی کا نئی حکومت پر الزام لگا رہے ہیں یہ نئی حکومت کی نااہلی نہیں ہے بلکہ ماضی کی حکومت کی بے لگام لوٹ مار کا منطقی نتیجہ ہے۔
پاکستان کے عوام کو حکومت دشمن طاقتوں کے زہریلے پروپیگنڈے پر دھیان دینے کے بجائے اس حقیقت پر غورکرنا چاہیے کہ لوٹ مار کے نظام کو توڑ کر عمران خان نے لٹیروں کو حکومت سے باہر نکال دیا ہے۔
اقتدار کے چھن جانے سے اشرافیہ اس قدر بے قرار اور مشتعل ہے کہ اس کا بس نہیں چلتا کہ نئی حکومت کو نکال کر باہر پھینک دے۔ لیکن مہنگائی، بجلی، گیس کی قیمتوں میں اضافے، پٹرول اور سی این جی کی قیمتوں میں اضافے سے متاثر ہونے والے عوام کو یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ ان مشکلات کی ذمے دار نئی حکومت ہے اس غلط پروپیگنڈے کا مقصد یہ ہے کہ عوام مشتعل ہوکر سڑکوں پر آجائیں یہ ایک گہری سازش ہے جس کا مقصد اسٹیٹس کو بحال کرنا ہے۔
اسٹیٹس کوکے ٹوٹنے سے یعنی اشرافیائی حکومت کے خاتمے سے اشرافیہ سب سے زیادہ پریشان اور مایوس اس لیے ہے کہ اس نے بڑی محنت اور منصوبہ بندی سے آیندہ اقتدار سنبھالنے کے لیے شہزادوں، شہزادیوں، ولی عہدوں کی جو فوج تیار کی تھی اس کا اقتدار میں آنا اب مشکل ہوگیا ہے۔
جمہوری بادشاہوں کو یہ فکر لاحق ہے کہ اگر عمران حکومت کو سال دو سال حکومت کرنے کا موقعہ مل گیا تو وہ ملک کو لوٹ مار کے نظام سے نکال کر ترقی کے راستے پر لگا دے گی اور ایک بار عوام نئی حکومت کی کارکردگی سے مطمئن ہوجائیں تو یہ اشرافیہ کے مستقبل کو تباہ کرنے کا باعث بن جائیں گے۔
فراڈ اور اشرافیائی جمہوریت کے نام پر پاکستانی عوام کو بے وقوف بنایا جارہا ہے جمہوریت میں اقتدار کے مالک عوام ہوتے ہیں لیکن اشرافیہ نے بڑی چالاکی اور منصوبہ بندی سے ملک کے مالکوں کو غلام بناکر رکھ دیا ہے، اگر عمران حکومت بھی اسی راستے پر چلتی ہے تو عوام اسے بھی اقتدار سے نکال کر باہر پھینک دیں گے۔
عوام یہ توقع کرنے میں حق بجانب ہیں کہ اشرافیائی مظالم اور لوٹ مار سے یہ مڈل کلاس حکومت عوام کو نجات دلا دے گی۔ نئی حکومت ابھی تک قدم جمانے میں جن وجوہات سے کامیاب نہیں ہوسکی اس کی ایک وجہ اس کے میڈیا سیل کا نکما پن ہے حکومت کا میڈیا سیل اپوزیشن کے مقابلے میں مکمل طور پر ناکام ہو رہا ہے جس پر توجہ دینا ضروری ہے۔