ایک بار پھر
فن کاروں کے ہیلتھ کارڈ اور اجتماعی انشورنس کے ساتھ ان کی فلاح کے کئی اور منصوبے بھی زیر غور ہیں۔
کلچر کی تعریف' تلاش اور اس کی تعمیر میں فنون لطیفہ کے کردار اور اظہار کی آزادی کا ذکر بار بار آتا ہے کہ انسانی تہذیب کے جتنے بھی مظاہر ہیں ان سب میں یہ دونوں حوالے مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔
کچھ عرصہ قبل مجھے نئی حکومت پنجاب کے وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان اور ان کی کلچرل ایڈوائزر عائشہ بھٹہ کی طرف سے اسی سلسلے میں ترتیب دی گئی ایک میٹنگ میں شرکت کا دعوت نامہ ملا جو الحمرا آرٹ کونسل کے میٹنگ روم میں ہوئی، حسب معمول ہر شعبے کے نمایندوں نے اپنے اپنے مسائل اور تقاضوں کا ذکر کیا اور حسب دستور مختلف کمیٹیاں بنا دی گئیں کہ وہ اپنی اپنی رپورٹ مرتب کریں تاکہ ایک جامع کلچر پالیسی اور متعلقہ مسائل کا حل ڈھونڈا جا سکے۔
سابقہ تجربات اور مشاہدات کے پیش نظر مجھے یقین تھا کہ یہ میٹنگ بھی ''نشستند و گفتند و برخواستند'' کی فائل میں ہمیشہ کے لیے دفن ہو جائے گی کہ دونوں پارٹیاں یعنی سرکار اور فن کار نہ تو پوری طرح سے سنجیدہ ہوتے ہیں اور نہ ہی ان کے ذہن صاف ہوتے ہیں کہ اصل میں کیا اور کس طرح سے کرنا چاہیے لیکن اس کمیٹی کی انچارج نے اگلے دن سے ہی مسلسل رابطے کا جو سلسلہ شروع کیا اور جس طرح سے ممبران کو ہر بات سے آگاہ اور متحرک رکھا وہ ایک خلاف معمول مگر خوش آیند واقعہ تھا۔
پاکستانی کلچر کے خدوخال کے تعین کے ضمن میں کام کا آغاز اگرچہ فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور میں ہی شروع ہو گیا تھا لیکن اسے باقاعدہ شکل ستر کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں بھٹو صاحب کی حکومت میں ملی کہ اس دور میں نہ صرف فیض صاحب کی سرکردگی میں ایک باقاعدہ رپورٹ تیار کی گئی بلکہ ٹی وی اور اخبارات میں مباحث کا ایک سلسلہ بھی شروع ہوا جس میں ہر متعلقہ شعبے کے ماہرین اور نمایندوں نے حصہ لیا۔ اُسی زمانے میں مرکز میں نیف ڈیک اور صوبائی سطح پر آرٹ کونسلز کے قیام کا بھی آغاز ہوا جن کا مقصد فنون لطیفہ اور پرفارمنگ آرٹس کے فروغ کے ساتھ ساتھ علاقائی کلچر اور زبانوں کی ترویج و ترقی بھی تھی۔
مجھے یاد ہے انھی دنوں ادیبوں کی جماعت پاکستان رائٹرز گلڈ کی طرح ایک آرٹسٹس ایکویٹی کا قیام بھی عمل میں لایا گیا تھا جس میں اس زمانے کے فن کاروں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا اور غالباً میاں اعجاز الحسن' قوی خان اور طارق عزیز اس کے ابتدائی عہدیداروں میں سے تھے لیکن جلد ہی یہ ایکویٹی معمول کی شخصی اور سیاسی پارٹی بازی کا شکار ہو گئی۔
آگے چل کر اگرچہ ادیبوں اور فن کاروں کے لیے اکیڈمی آف لیٹرز اور پی این سی اے جیسے ادارے بھی وجود میں آئے مگر یہ صرف دفتری خانہ پری تک محدود رہے اور کلچر کے فروغ یا فنون لطیفہ کی ترقی کے ضمن میں کوئی خاطر خواہ سرگرمی دیکھنے میں نہیں آئی۔ کچھ بیمار' معذور اور فن پسند فن کاروں کے معمولی سے ماہانہ وظائف تو جاری ہو گئے مگر فنون کی تربیت' فن کاروں کی بہبود اور تہذیبی پہچان اور اس حوالے سے قومی اتحاد اور مشترکہ تہذیبی عناصر کے باہمی تعامل کو کوئی باقاعدہ صورت نہ دی جا سکی۔
اس دوران میں سرکاری سطح پر مختلف وقتوں میں دو کلچر پالیسیاں بھی سامنے آئیں مگر اُن پر ''ریاست'' سے زیادہ ''حکومت'' کا اثر تھا چنانچہ وہ اپنے باقاعدہ نفاذ سے پہلے حکومتی تبدیلی کا رزق بن کر گم ہو گئیں۔ یہ تھا وہ پس منظر جس میں اس نئی کمیٹی کا ڈول ڈالا گیا۔
پنجاب کے وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان کے بیانات اپنی مخصوص بے تکلفی کے باعث اکثر میڈیا کی زینت بنتے رہتے ہیں لیکن جس دلچسپی اور ذمے داری کے ساتھ انھوں نے اس مشن کو آگے بڑھایا ہے اس کی داد نہ دینا زیادتی ہو گی، اس کی تازہ تر مثال اس کمیٹی کے ممبران کی وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار صاحب سے وہ ملاقات بھی ہے جس میں بہت کھل کر ہر ایک نے اپنے دل کی بات کی، اس کے شرکاء میں پنجاب اسمبلی کی کچھ ممبر خواتین کو بھی شامل کیا گیا تھا جب کہ مختلف شعبوں کی طرف سے سید نور' میاں یوسف صلاح الدین' اداکار شان' انجمن' گلوکارہ حمیرا ارشد اور شاہدہ منی' محترمہ طلعت عظیم' افضل ریمبو' واسع چوہدری' عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی کے صاحبزادے سانول اور ساحر علی بگا سمیت فیشن انڈسٹری کے کچھ نمایندوں نے بھی گفتگو میں بھرپور حصہ لیا اور کم و بیش ہر ایک نے ہی موضوع کے کسی نہ کسی اہم گوشے سے پردہ اٹھایا۔
ایک بات جس پر سب متفق نظر آئے علاقائی تہواروں' میلوں ٹھیلوں اور گم ہوتی ہوئی روایتوں کا احیاء تھا میاں یوسف صلاح الدین نے بسنت کے تہوار کو ثقافت' سیاحت اور غیرملکی زرمبادلہ کی ملک میں آمد کے حوالے سے اہم قرار دیا اور بتایا کہ اس سے متعلق خدشات اور تحفظات کو دور کر کے اسے ایک باقاعدہ اور بڑے تہوار کی شکل دینی چاہیے۔
اسی طرح حمیرا ارشد نے میوزک کے پروگراموں کے ذکر میں سرکاری پابندیوں' بے شمار ٹیکسوں اور متعلقہ عملے کی غیرذمے داری کا ذکر کیا جس کی وجہ سے بے شمار فن کار اظہار اور روز گار دونوں سے محروم ہو گئے ہیں اور اس ضمن میں پنجاب میں عائد شادی کی تقریب کے مختصر دورانیے پر بھی تنقید کی کہ یہ بھی گانے والوں کے لیے ایک روز گار کا موقع ہوتا ہے۔
وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے اپنی ابتدائی اور اختتامی گفتگو میں اپنے مکمل تعاون کا یقین دلایا اور یہ بھی بتایا کہ اس سلسلے میں وہ ہارس اینڈ کیٹل شو کے پھر سے آغاز کا بھی سوچ رہے ہیں کہ اس کے ذریعے سے علاقائی فنون اور تہذیبی اقدار کے ساتھ ساتھ ایک ''اجتماعیت'' کا پیغام بھی ملتا تھا۔ فیاض الحسن چوہان نے بتایا کہ وہ اسی نہج پر نئے گلوکاروں کی تلاش اور حوصلہ افزائی کا بھی ایک سلسلہ شروع کر رہے ہیں جب کہ فن کاروں کے ہیلتھ کارڈ اور اجتماعی انشورنس کے ساتھ ان کی فلاح کے کئی اور منصوبے بھی زیر غور ہیں۔
تقریب کے اختتام پر گھر لوٹتے وقت ان اچھی اچھی باتوں کے خوشگوار اثر کے ساتھ ساتھ ایک خدشہ بھی دل و دماغ کو گھیرے رہا کہ کہیں یہ مثبت سوچ بھی اپنے سے پہلوں کی طرح بے معنی لفظوں اور بے برکت عمل کا ایک نیا باب بن کر نہ رہ جائے۔ یہ ملک ہم سب کا ہے سیاسی اور نظریاتی اختلافات اپنی جگہ مگر بطور قوم ہمیں اپنی تہذیب اور فن کاروں کی مل کر حفاظت کرنی ہے کہ یہ زمانہ Presentation کا ہے، سو اچھی سوچ کو اس اجتماعی تائید اور اونر شپ کی بھی ضرورت ہے جس سے قومیں اور معاشرے اپنی منفرد پہچان کو قائم اور استوار کرتے ہیں۔
کچھ عرصہ قبل مجھے نئی حکومت پنجاب کے وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان اور ان کی کلچرل ایڈوائزر عائشہ بھٹہ کی طرف سے اسی سلسلے میں ترتیب دی گئی ایک میٹنگ میں شرکت کا دعوت نامہ ملا جو الحمرا آرٹ کونسل کے میٹنگ روم میں ہوئی، حسب معمول ہر شعبے کے نمایندوں نے اپنے اپنے مسائل اور تقاضوں کا ذکر کیا اور حسب دستور مختلف کمیٹیاں بنا دی گئیں کہ وہ اپنی اپنی رپورٹ مرتب کریں تاکہ ایک جامع کلچر پالیسی اور متعلقہ مسائل کا حل ڈھونڈا جا سکے۔
سابقہ تجربات اور مشاہدات کے پیش نظر مجھے یقین تھا کہ یہ میٹنگ بھی ''نشستند و گفتند و برخواستند'' کی فائل میں ہمیشہ کے لیے دفن ہو جائے گی کہ دونوں پارٹیاں یعنی سرکار اور فن کار نہ تو پوری طرح سے سنجیدہ ہوتے ہیں اور نہ ہی ان کے ذہن صاف ہوتے ہیں کہ اصل میں کیا اور کس طرح سے کرنا چاہیے لیکن اس کمیٹی کی انچارج نے اگلے دن سے ہی مسلسل رابطے کا جو سلسلہ شروع کیا اور جس طرح سے ممبران کو ہر بات سے آگاہ اور متحرک رکھا وہ ایک خلاف معمول مگر خوش آیند واقعہ تھا۔
پاکستانی کلچر کے خدوخال کے تعین کے ضمن میں کام کا آغاز اگرچہ فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور میں ہی شروع ہو گیا تھا لیکن اسے باقاعدہ شکل ستر کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں بھٹو صاحب کی حکومت میں ملی کہ اس دور میں نہ صرف فیض صاحب کی سرکردگی میں ایک باقاعدہ رپورٹ تیار کی گئی بلکہ ٹی وی اور اخبارات میں مباحث کا ایک سلسلہ بھی شروع ہوا جس میں ہر متعلقہ شعبے کے ماہرین اور نمایندوں نے حصہ لیا۔ اُسی زمانے میں مرکز میں نیف ڈیک اور صوبائی سطح پر آرٹ کونسلز کے قیام کا بھی آغاز ہوا جن کا مقصد فنون لطیفہ اور پرفارمنگ آرٹس کے فروغ کے ساتھ ساتھ علاقائی کلچر اور زبانوں کی ترویج و ترقی بھی تھی۔
مجھے یاد ہے انھی دنوں ادیبوں کی جماعت پاکستان رائٹرز گلڈ کی طرح ایک آرٹسٹس ایکویٹی کا قیام بھی عمل میں لایا گیا تھا جس میں اس زمانے کے فن کاروں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا اور غالباً میاں اعجاز الحسن' قوی خان اور طارق عزیز اس کے ابتدائی عہدیداروں میں سے تھے لیکن جلد ہی یہ ایکویٹی معمول کی شخصی اور سیاسی پارٹی بازی کا شکار ہو گئی۔
آگے چل کر اگرچہ ادیبوں اور فن کاروں کے لیے اکیڈمی آف لیٹرز اور پی این سی اے جیسے ادارے بھی وجود میں آئے مگر یہ صرف دفتری خانہ پری تک محدود رہے اور کلچر کے فروغ یا فنون لطیفہ کی ترقی کے ضمن میں کوئی خاطر خواہ سرگرمی دیکھنے میں نہیں آئی۔ کچھ بیمار' معذور اور فن پسند فن کاروں کے معمولی سے ماہانہ وظائف تو جاری ہو گئے مگر فنون کی تربیت' فن کاروں کی بہبود اور تہذیبی پہچان اور اس حوالے سے قومی اتحاد اور مشترکہ تہذیبی عناصر کے باہمی تعامل کو کوئی باقاعدہ صورت نہ دی جا سکی۔
اس دوران میں سرکاری سطح پر مختلف وقتوں میں دو کلچر پالیسیاں بھی سامنے آئیں مگر اُن پر ''ریاست'' سے زیادہ ''حکومت'' کا اثر تھا چنانچہ وہ اپنے باقاعدہ نفاذ سے پہلے حکومتی تبدیلی کا رزق بن کر گم ہو گئیں۔ یہ تھا وہ پس منظر جس میں اس نئی کمیٹی کا ڈول ڈالا گیا۔
پنجاب کے وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان کے بیانات اپنی مخصوص بے تکلفی کے باعث اکثر میڈیا کی زینت بنتے رہتے ہیں لیکن جس دلچسپی اور ذمے داری کے ساتھ انھوں نے اس مشن کو آگے بڑھایا ہے اس کی داد نہ دینا زیادتی ہو گی، اس کی تازہ تر مثال اس کمیٹی کے ممبران کی وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار صاحب سے وہ ملاقات بھی ہے جس میں بہت کھل کر ہر ایک نے اپنے دل کی بات کی، اس کے شرکاء میں پنجاب اسمبلی کی کچھ ممبر خواتین کو بھی شامل کیا گیا تھا جب کہ مختلف شعبوں کی طرف سے سید نور' میاں یوسف صلاح الدین' اداکار شان' انجمن' گلوکارہ حمیرا ارشد اور شاہدہ منی' محترمہ طلعت عظیم' افضل ریمبو' واسع چوہدری' عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی کے صاحبزادے سانول اور ساحر علی بگا سمیت فیشن انڈسٹری کے کچھ نمایندوں نے بھی گفتگو میں بھرپور حصہ لیا اور کم و بیش ہر ایک نے ہی موضوع کے کسی نہ کسی اہم گوشے سے پردہ اٹھایا۔
ایک بات جس پر سب متفق نظر آئے علاقائی تہواروں' میلوں ٹھیلوں اور گم ہوتی ہوئی روایتوں کا احیاء تھا میاں یوسف صلاح الدین نے بسنت کے تہوار کو ثقافت' سیاحت اور غیرملکی زرمبادلہ کی ملک میں آمد کے حوالے سے اہم قرار دیا اور بتایا کہ اس سے متعلق خدشات اور تحفظات کو دور کر کے اسے ایک باقاعدہ اور بڑے تہوار کی شکل دینی چاہیے۔
اسی طرح حمیرا ارشد نے میوزک کے پروگراموں کے ذکر میں سرکاری پابندیوں' بے شمار ٹیکسوں اور متعلقہ عملے کی غیرذمے داری کا ذکر کیا جس کی وجہ سے بے شمار فن کار اظہار اور روز گار دونوں سے محروم ہو گئے ہیں اور اس ضمن میں پنجاب میں عائد شادی کی تقریب کے مختصر دورانیے پر بھی تنقید کی کہ یہ بھی گانے والوں کے لیے ایک روز گار کا موقع ہوتا ہے۔
وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے اپنی ابتدائی اور اختتامی گفتگو میں اپنے مکمل تعاون کا یقین دلایا اور یہ بھی بتایا کہ اس سلسلے میں وہ ہارس اینڈ کیٹل شو کے پھر سے آغاز کا بھی سوچ رہے ہیں کہ اس کے ذریعے سے علاقائی فنون اور تہذیبی اقدار کے ساتھ ساتھ ایک ''اجتماعیت'' کا پیغام بھی ملتا تھا۔ فیاض الحسن چوہان نے بتایا کہ وہ اسی نہج پر نئے گلوکاروں کی تلاش اور حوصلہ افزائی کا بھی ایک سلسلہ شروع کر رہے ہیں جب کہ فن کاروں کے ہیلتھ کارڈ اور اجتماعی انشورنس کے ساتھ ان کی فلاح کے کئی اور منصوبے بھی زیر غور ہیں۔
تقریب کے اختتام پر گھر لوٹتے وقت ان اچھی اچھی باتوں کے خوشگوار اثر کے ساتھ ساتھ ایک خدشہ بھی دل و دماغ کو گھیرے رہا کہ کہیں یہ مثبت سوچ بھی اپنے سے پہلوں کی طرح بے معنی لفظوں اور بے برکت عمل کا ایک نیا باب بن کر نہ رہ جائے۔ یہ ملک ہم سب کا ہے سیاسی اور نظریاتی اختلافات اپنی جگہ مگر بطور قوم ہمیں اپنی تہذیب اور فن کاروں کی مل کر حفاظت کرنی ہے کہ یہ زمانہ Presentation کا ہے، سو اچھی سوچ کو اس اجتماعی تائید اور اونر شپ کی بھی ضرورت ہے جس سے قومیں اور معاشرے اپنی منفرد پہچان کو قائم اور استوار کرتے ہیں۔