قوم اب کسی سے کچھ نہیں چاہتی…
مارشل لاء کی آڑ میں ملک کو لوٹنے والے آمروں سے دونوں سے قوم کچھ مزید نہیں چاہتی۔
لیکن اللہ کی پناہ چاہتی ہے،آپ جیسے تمام جھوٹے، دغا باز، انتہائی کرپٹ، وعدہ خلاف، سیاستدانوں سے اور مارشل لاء کی آڑ میں ملک کو لوٹنے والے آمروں سے دونوں سے قوم کچھ مزید نہیں چاہتی۔ آپ حضرات ان کے لیے خدا را کچھ کرنا چھوڑ دیں۔
اب ان کے حال پر رحم فرمائیں، ان سے ٹی وی پر مخاطب نہ ہوں، انھیں نت نئے جدید نظام نہ دیں، ان سے نا کہیں کہ اب ملک لوٹنے والوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا، ملک سے باہر منتقل کی گئی دولت ملک میں واپس لائی جائے گی، ووٹ کو عزت دو، تبدیلی آگئی ہے، قوم انھیں سننے سے بیزار ہے۔ویسے آپ جوکچھ کریں، ملکی دولت فراوانی سے لوٹیں، ملک کی بنیادوں کوکھوکھلا کر دیں،اسے امریکا یا کسی بھی عالمی طاقت کو بیچ دیں۔
اس پر بھی قوم کوکوئی اعتراض نہیں یعنی خاموشی ہے۔کوئی شک نہیں آپ سب نے مل کر قوم کی بڑی خدمت کی جیسے ایک چینل پر سابق صدر پرویز مشرف سے جب یہ پوچھا گیا کہ آپ کے پاس یہ اربوں روپے کی جائیداد کہاں سے آگئی؟ آپ تو ملازمت کرتے رہے ہیں، وہ فرماتے ہیں میرے پاس یہ دولت سعودی فرما رواؤں کی عطا کردہ ہے وہ مجھے قیمتی تحائف دیا کرتے تھے'' اب کوئی ان سے پوچھے کہ جناب وہ آپ کی کس بات سے خوش ہوکرآپ کو تحائف دیا کرتے تھے؟ اس کا جواب ان کے پاس نہیں ہے، وہ چپ سادھ لیتے ہیں۔
ستر سال ہوگئے آپ سبھی نے تقریبًا قوم کا بھلا کرنے کی کوشش کی، موجودہ حکومت جس کا نعرہ ہی کرپشن سے چھٹکارا تھا، عمران خان جو دن کے چوبیس گھنٹوں سے بھی زیادہ قوم کو سابقہ حکمرانوں کی کرپشن کی غضب کہانیاں سنایا کرتے تھے جب حکومت میں آئے تو فرمانے لگے کہ انھیں بھی ابتدا میں ان ہی پرانے کرپٹ لوگوں کے ساتھ چلنا ہوگا۔ لہٰذا حال یہ ہوگیا کہ قوم نے اکیسویں صدی میں اپنے ملک کے سیاستدانوں اور آمروں سے اللہ کی پناہ مانگی اور خود کو اللہ کے سپرد کردیا۔
غضب خدا کا جس ملک کے سیاستدان جمہوریت کا تسلسل فوج کی مدد سے چاہتے ہوں وہاں کیسی جمہوریت کہاں کے الیکشن، حالانکہ انھیں نظام کی بحالی کے لیے لڑنا چاہیے یا اس کے خاتمے میں شریک ہونا چاہیے۔ قوم کو ستر برس سے ایک اور خبر کا سامنا بھی رہا ''ملک نازک دور سے گزر رہا ہے'' لہٰذا آپ کو قربانی دینی ہوگی، چلیں جی ٹھیک، مہنگائی در مہنگائی قوم بیچاری پس رہی ہے لیکن مرتی نہیں۔
اقوامِ عالم کے پوچھنے پرکہتی ہے کوئی مسئلہ نہیں، ہم اپنا ملک تعمیرکر رہے ہیں پھر ملک تعمیر ہوا یا نہیں قوم پس گئی یا مرگئی۔ یہ مرگئی پر بھی ایک اعتراض یہ بدبخت کرتے ہیں کہ کس نے کہا مرگئی قوم تو زندہ ہے۔ان کافروں کو اب کون سمجھائے کہ موت کتنی حالتوں میں آتی ہے۔
ایک باپ جب اپنی بیٹی کوگھر سے رخصت کرے اور اس کے پاس کسی کوکھلانے کے لیے ایک وقت کا کھانا بھی نہ ہو،کسی مجبور ماں کا بچہ بیماری میں تڑپ تڑپ کر جان دے رہا ہو اور اس کے پاس نہ ڈاکٹرکی فیس ہو نہ دوائی کے پیسے، تو موت آجاتی ہے ایک غریب کے بچے بھوک سے بلبلا رہے ہوں کھانا مانگتے ہوں اور والدین سوچتے ہوں کہ کاش وہ پیدا ہی نا ہوتے تو موت آجاتی ہے کون ان لٹیروں کو سمجھائے کہ یہ جو اربوں،کھربوں لو ٹ کر لے جاتے ہیں ملک کی بجلی،گیس،گندم، چاول سستے داموں باہر بیچ دیتے ہیں اس کے بعد قوم کو فاقے کرنے پڑتے ہیں تو قوم کو موت آجاتی ہے، جب تم سب مل کر انھیں دھوکا دیتے ہو ہر بار نئے خواب دکھاکر لوٹ لیتے ہو ان کے اعتبارکو بری طرح توڑ دیتے ہو تب موت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
کون انھیں موت کی اقسام سے آگاہ کرے کون انھیں بتائے کہ قوم انھیں کتنی دعائیں دیتی ہے کیا جذبات ہیں قوم کے دل میں ان کے لیے،جسے دیکھو قوم کا ہمدرد بنا پھرتا ہے بڑے بڑے دعوے '' فلاں کہتا ہے تم کیا سمجھو گے قوم کا درد '' دوسرا جوابًا کہتا ہے۔
''ارے چھوڑو تم سے بڑا لٹیرا کوئی نہیں، لوٹ لیا تم نے ملک و قوم کے اتنے سوکھرب کھا گئے۔ آج ملک کے ایک بچے پر دو لاکھ روپے کا قرض ہے وہ اپنی پیدائش سے ہی مقروض ہوتا ہے تم کیا قوم کے مسائل سمجھوگے بلکہ تمہیں تو اب ہم دیکھیں گے اور تم سے وہ سب لوٹا ہوا روپیہ پائی پائی وصول کریں گے، تمہیں سڑکوں پر نہ گھسیٹا تو ہمارا نام بدل دینا، ٹکٹکی پر نا لٹکایا تو ہم خادمِ قوم نہیں۔'' لہٰذا قوم کسی بھی مسیحا سے کیا توقعات کرسکتی ہے؟
اس نے بس کی لیکن یہ کم بخت بس کرنے کے موڈ میں نہیں جب کہ اب نہ ملک میں دم باقی رہا نہ قوم میں دونوں ادھ موئے ہوچکے، سیاست بہرحال جاری ہے حکومت موجود ہے اسے لانے چلانے والے بھی زندہ ہیں اور ملکوں ملک کے دورے پر ہیں کبھی چین ،کبھی اردن توکبھی سعودی عرب، یہ سعودی عرب کا معاملہ بھی عجیب ہے، لیکن درحقیقت امریکا اور یورپ کا پٹھو اس حد تک کے ان کے حکم پرکسی مسلم ملک پر بھی حملہ کرنے کے لیے تیار یا امریکا اگرکسی مسلم ملک پر بم برسا رہا ہو تو اسے ایندھن سعودی حکومت فراہم کرتی ہے، طیارے بھی وہیں سے اڑان بھرتے ہیں، لیکن کیونکہ دولت بے انتہا ہے، لہٰذا لیڈر تو مانا جاتا ہے۔
قوم کی حالتِ زار آج میرا موضوعِ گفتگو ہے تو ایک اور بات کو ضبطِ تحریر ہونا چاہیے کہ سابقہ حکمرانوں نے بھی قوم سے جھوٹے وعدے کیے، لیکن واہ رے عمران خان جنھیں یہ عالمی اعزاز جاتا ہے کہ ان کے جھوٹے وعدے اور جھوٹ اپنے پیشرو تمام وزرائے اعظم پر سبقت لے گئے وہ جیت گئے سب سے آگے رہے بھئی کمال کردیا اور اس پر مستزاد فواد چوہدری جیسا لائق وزیرِاطلاعات،کیا بات ہے،آفرین ہے ان پر اور انھیں لانے والوں پر جنہوں نے پانچ سال شیخ رشید پرکوئی اعتراض کیا نہ کوئی ٹویٹ جو جی ایچ کیوکے ترجمان بنے رہے اورکھلم کھلا کہتے رہے کہ آرمی اور خفیہ ایجنسی ان کی پشت پر موجود ہیں ان کی مدد کر رہی ہیں، لیکن رانا مشہود کے بیان پر فوراً ٹویٹ کرکے خبر کو یکسر غلط قرار دیا۔
یہ کٹھ پتلی حکومتیں آپ کا پہلا کارنامہ نہیں، ماضی میں آپ ہمیشہ یہی کچھ کرتے رہے۔بنگلہ دیش ٹوٹ گیا،کشمیر ہم سے چھن گیا آپ اپنی بڑائی میں مصروف رہے۔ ایک پہلی تقریرکے بعد آپ کرتے کیا ہیں؟ آخر چیف جسٹس پرویز مشرف کیس میں بار بار انھیں یقین دلا تو رہے ہیں کہ آپ تشریف لے آئیں ہم آپ کی سیکیورٹی کا ہر ممکن بندوبست کرواکر دیں گے۔
اپنے خلاف کیسزکا سامنا کریں آپ تو خود کوکمانڈوکہلواتے رہے، سپاہی بتاتے رہے اب بہادری کا مظاہرہ بھی فرمایے لیکن وہ ٹس سے مس ہوکر نہیں دیتے، یہ بھائی صاحب بھی قوم کے بڑے مسیحاؤں میں سے ایک تھے۔
حالیہ الیکشن میں، میں نے خود عمران خان کے ایک جلسے میں جو کرک کے علاقے میں منعقد ہوا ان کی تقریر میں سنا کہ آزاد اراکین الیکشن میں اس لیے حصہ لیتے ہیں کہ انھیں اپنی قیمت وصول کرنی ہوتی ہے اور اگر میری حکومت اکثریت میں نہ آسکے تو یہ آزاد اراکین براہِ کرم میرے پاس تشریف نہ لائیں، پھر میں نے جہانگیر ترین کے ذاتی طیارے میں آزاد اراکین کو آتے ہوئے بھی دیکھا اور بکتے ہوئے بھی،کیا یہ لوگ قوم کی توقعات پر پورا اتریں گے؟
ہرگز نہیں یہ جھوٹے اورخائن لوگ، صرف حکومت چاہتے ہیں اورکچھ نہیں۔ انھوں نے پاکستان کا مذاق بنایا ہوا ہے قوم کا تماشہ، ان سے قوم کوکچھ نہیں چاہیے نہ پچھلے والوں سے جن کے سمدھی اسحاق ڈار، بھائی بھتیجے یہ ملک لوٹ کر ختم کرگئے،کھوکھلا کردیا ملک کو اور اب بھی دعویٰ ہے کہ ہم سے سچا پاکستانی کون، قوم کا خادم کون، تبدیلی کا خواہاں کون اللہ اپنے حفظ و امان میں رکھے۔