بلوچستان میں بدترین دہشت گردی

نئی جمہوری حکومت آنے کے بعد پہلی بار کوئٹہ میں دہشت گردی کے سنگین واقعات رونما ہوئے...

اب وقت آگیا ہے کہ حکومت کو دہشت گردی کے واقعات کی روک تھام کے لیے بلا امتیاز سخت کارروائی کرنا ہو گی. پولیس۔ فوٹو: ایکسپریس

نئی جمہوری حکومت آنے کے بعد پہلی بار کوئٹہ میں دہشت گردی کے سنگین واقعات رونما ہوئے۔ کوئٹہ میں ویمن یونیورسٹی کی بس اور بولان میڈیکل اسپتال میں بم دھماکوں اور فائرنگ سے ڈپٹی کمشنر، 14طالبات' ایک ڈاکٹر' چار نرسوں' چار اہلکاروں سمیت 26 افراد شہید جب کہ 55 زخمی ہو گئے۔ دہشت گردوں نے طالبات کی بس کو ریموٹ کنٹرول بم کے ذریعے اس وقت نشانہ بنایا جب وہ گھر واپسی کے لیے بس میں سوار ہو رہی تھیں۔

کوئٹہ میں ہونے والا دہشت گردی کا یہ واقعہ انتہائی افسوسناک اور شرمناک بھی ہے۔ بلوچ روایات میں خواتین کے احترام کا درس دیا گیا ہے اور کبھی بے گناہ خواتین کو نشانہ نہیں بنایا گیا۔ بلوچ تاریخ میں شاید ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ دہشت گردوں نے بے گناہ خواتین کو نشانہ بنایا ہے۔ آخر ان طالبات کا کیا قصور تھا' وہ معصوم تو علم حاصل کرنے گھر سے نکلی تھیں مگر دہشت گردوں نے انھیں ہلاک کر کے بزدلی کا ثبوت دیا ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق لشکر جھنگوی نے اس واقعے کی ذمے داری قبول کر لی ہے۔ کارروائی کرنے والے گروہ کو یہ امر نہیں بھولنا چاہیے کہ اسلام خواتین کے بھرپور احترام اور عزت کا درس دیتا اور انھیں بھرپور تحفظ فراہم کرتا ہے حتیٰ کہ بے گناہ غیر مسلم خواتین پر بھی ہاتھ اٹھانے کی اجازت نہیں دی گئی۔

اب وقت آگیا ہے کہ حکومت کو دہشت گردی کے واقعات کی روک تھام کے لیے بلا امتیاز سخت کارروائی کرنا ہو گی۔ یہ ظلم کی انتہا ہے کہ بے گناہ خواتین کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ دوسرے افسوسناک واقعے میں زیارت میں بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح کے آخری ایام کی رہائش گاہ تاریخی عمارت قائداعظم ریزیڈنسی کو دھماکوں سے اڑا دیا گیا جس سے نہ صرف لکڑی سے بنی یہ عمارت تباہ ہو گئی بلکہ بانی پاکستان کے زیر استعمال جن اشیا کو قومی ورثے کے طور پر محفوظ کیا گیا تھا وہ بھی جل کر خاکستر ہو گئیں۔ کالعدم تنظیم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے اس دھماکے کی ذمے داری قبول کر لی ہے۔ قائداعظم کی ریزیڈنسی پر حملے کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ قائداعظم جو پاکستان کے بانی ہیں کی ریزیڈنسی کو دہشت گردوں نے نشانہ بنا کر یہ عندیہ دیا ہے کہ وہ پاکستان کے مخالف اور باغی ہیں اور اپنی کارروائیوں میں کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں ۔


ذرایع کے مطابق حملہ آوروں نے ریزیڈنسی پر نصب پاکستان کا پرچم اتار کر بی ایل اے کا پرچم بھی لہرایا۔ نئی جمہوری حکومت نے آتے ہی تمام گروہوں کو مذاکرات کی دعوت دیتے ہوئے ملک کی ترقی کے لیے مل جل کر جدوجہد کرنے کا پیغام دیا تھا۔ بلوچستان کے مسئلے کے حل کے لیے بھی ناراض بلوچ رہنمائوں کو مذاکرات کی دعوت دی گئی تھی تاکہ بات چیت کے ذریعے ماضی کی تمام رنجشوں کو دور کر کے علاقے میں امن و امان کی صورتحال بہتر بنائی جا سکے۔ مگربلوچستان کی نئی حکومت کو بھی اقتدار سنبھالے تھوڑے ہی دن ہوئے ہیں کہ قائداعظم کی ریزیڈنسی کو نشانہ بنادیاگیا۔ اب حکومت کو بھی یہ سوچنا پڑے گا کہ ایسے گروہ جو پاکستان کی سالمیت کی علامتوں پر کھلم کھلا حملے کر رہے ہیں ان کے خلاف اسے اب سخت ایکشن لینا ہو گا۔ پاکستان اس وقت حالت جنگ میں ہے اور اس جنگ کو اپنے منطقی انجام تک پہنچانے کے لییریاست کے اقتدار اعلیٰ کو چیلنج کرنے والے گروہوں کے خلاف ہر صورت بھرپور کارروائی کرنا ہوگی۔

اسی جانب وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے پارلیمنٹ ہائوس میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے اشارہ کیا ہے کہ شدت پسندوں سے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا' تشدد کا رویہ اختیار کرنے والوں کو سختی سے جواب دیں گے۔ اب حکومت کو بھی دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے لیے فوری فیصلہ کرنا ہو گا 'کسی بھی قسم کی تاخیر کا مطلب دہشت گردوں کو مزید کارروائی کے لیے کھلی چھوٹ دینے کے مترادف ہے۔ آج قائداعظم کی ریزیڈنسی کو نشانہ بنایاگیا ہے کل کو کوئی بھی اہم اور تاریخی عمارت محفوظ نہیں رہے گی۔ زیارت ایک پرامن علاقہ ہے وہاں عموماً تخریب کاری کی وارداتیں رونما نہیں ہوتیں' اس لیے قائد کی ریزیڈنسی پر حفاظتی انتظامات بھی مناسب نہیں کیے گئے تھے۔ جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے شرپسند با آسانی عمارت میں داخل ہو گئے اور وہاں متعدد بم نصب کر دیے، انھوں نے عمارت کی سیکیورٹی پر تعینات ایک پولیس اہلکار کو بھی شہید کر دیا۔ حکومت کو آیندہ دہشت گردی کے واقعات کے سدباب کے لیے ان تمام راستوں اور چینلز کو بند کرنا ہو گا جہاں سے ان دہشت گردوں کو آشیر باد مل رہی ہے۔

ان دہشت گردوں کے پاس اسلحہ کہاں سے آرہا ہے، وہ کون لوگ ہیں جو دہشت گردوں کی پشت پناہی کرتے ہوئے انھیں اسلحہ اور مالی امداد فراہم کررہے ہیں۔ زیارت کے مقامی ضلعی پولیس افسر کے مطابق حملہ آوروں نے ریزیڈنسی پر راکٹ بھی فائر کیے۔ آخر دہشت گردوں کے پاس یہ راکٹ کہاں سے آئے۔ یہ صورتحال اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ بلوچستان میں بہت سے ایسے راستے ہیں جہاں سے خطرناک اسلحہ بلا رکاوٹ آ رہا ہے۔ حکومت کو سب سے پہلے اسلحہ کی ترسیل کے تمام راستے بند کرنا ہوں گے۔افسوسناک امر یہ ہے کہ بلوچستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں ایک طویل عرصے سے جاری ہیں۔ اخباری خبر کے مطابق 2004ء سے 2013ء تک ہونے والے حملوں میں ہزاروں افراد جاں بحق اور ہزاروں زخمی ہوئے اور سیکڑوں قومی تنصیبات کو بم دھماکوں سے اڑا دیا گیا ہے۔ سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں اور چوکیوں پر حملے روز مرہ کا معمول بن چکے جس میں اب تک درجنوں سیکیورٹی اہلکار شہید ہو چکے ہیں۔

کوئٹہ میں وویمن یونیورسٹی میں 14 طالبات' 4نرسوں' ایک ڈاکٹر اور چار اہلکاروں کی شہادت اور زیارت میں قائداعظم کی ریزیڈنسی پر حملے کے خلاف ملک بھر کی فضا سوگوار رہی۔ سینیٹ اور قومی اسمبلی میں کوئٹہ دھماکوں اور زیارت میں حملوں کے خلاف قرار داد مذمت منظور کی گئی۔ حکومت کو اب قرار دادوں سے آگے بڑھ کر دہشت گردوں کے خلاف بھرپور کارروائی کرنا ہو گی۔ اگر دہشت گردوں کے خلاف ابھی سے آپریشن کا آغاز نہ کیا گیا تو وہ کل کو مزید کارروائیاں کریں گے جو کسی بڑے نقصان کا باعث بن سکتی ہیں۔کوئی بھی حکومت دہشت گردوں کا تنہا مقابلہ نہیں کرسکتی 'اس کے لیے یہ امر ناگزیر ہے کہ تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں ملک کی بقا ، سلامتی اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے تمام اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہو کر حکومت کا ساتھ دیں۔
Load Next Story