تحریر اسکوائر سے تقسیم اسکوائر تک
معاشی نا انصافیوں کے نظام نے دنیا بھر کے عوام میں جو بے چینی اوراضطراب پیدا کردیا ہے وہ مختلف ملکوں میں۔۔۔
معاشی نا انصافیوں کے نظام نے دنیا بھر کے عوام میں جو بے چینی اوراضطراب پیدا کردیا ہے وہ مختلف ملکوں میں، مختلف شکلوں میں، مختلف عنوانوں کے ساتھ باہر آرہا ہے۔مشرق وسطیٰ نا مکمل عرب بہار کے دور سے گزرچکا۔ اس عرب بہار نے لیبیا، مصر،تیونس کی حکومتوں کا تختہ ہی نہیں الٹا بلکہ ان ملکوں کے حکمرانوں کو اپنی نفرتوں کا ایسا نشانہ بنایا کہ یہ حکمران نشان عبرت بن گئے۔ لیبیا کا معمر قذافی جو کسی زمانے میں نہ صرف مسلم دنیا کا ایک مقبول ترین حکمران تھا بلکہ جس کی عزت بین الاقوامی سطح پرکی جاتی تھی ۔
اسے لیبیا کے عوام نے سڑکوں پر گھسیٹ گھسیٹ کر مار دیا۔ مصر کے صدر حسنی مبارک جو عشروں تک عرب دنیا کا مرکزی کردار بنے ہوئے تھے آج وہ لوہے کے پنجرے میں عدالتوں اور جیلوں کے درمیان رل رہے ہیں۔ تیونس کے حکمران کا حشر بھی دنیا نے دیکھ لیا۔ سوال یہ ہے کہ ان عوامی انقلابات کے بعد ان ملکوں میں سکون ہونا تھا ان ملکوں کے عوام میں اطمینان ہونا تھا لیکن ایسا کیوں نہیں ہورہاہے؟ مصر میں اخوان کی حکومت قائم ہوئی، مرسی اس حکومت کے سربراہ ہیں، یہ حکومت انتخابات کے ذریعے قائم ہوئی تھی لیکن حسنی مبارک کے خلاف جو تحریر اسکوائر لاکھوں مصریوں سے بھرا رہتاتھا وہ مرسی حکومت کے خلاف لاکھوں مصریوں سے کیوں بھرا ہوا ہے؟
ترکی مسلم ملکوں میں بڑا محترم ملک رہا ہے۔ مصطفی کمال نے ترکی کو صدیوں پر پھیلے قدامت پرستانہ نظام سے نکال کر جدید ترکی کی شناخت دی اور اتاترک کے بعد اگرچہ کئی حکومتیں آئی گئیں لیکن ترکی کی مسلح افواج نے اتاترک کے جدید ترکی کی شناخت کو قائم رکھا۔ پھر ہوا یہ کہ ترکی میں فوج کی بالادستی اور اتاترک کے سیکولر فلسفے کے خلاف وہاں کی مذہبی جماعت جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی نے عوام کو متحرک کیا۔ عوام نے اس پارٹی کا ساتھ دیا اور طیب اردگان کو حکومت کا اختیار دیا۔ طیب حکومت نے کچھ معاشی اصلاحات کیں جس کا چرچا عالم اسلام خاص طورپر پاکستان میں خوب ہوا۔ ہمارے بہت سارے لکھاریوں نے ترکی کو رول ماڈل کا اعزاز دیا۔
اب اس ترکی مرکزی شہر استنبول کا تقسیم اسکوائر مصر کے تحریر اسکوائر میں بدل گیا ہے اور ترکی کے 65 سے زیادہ شہر تحریر اور تقسیم اسکوائر بنے ہوئے ہیں جہاں لاکھوں لوگ سرخ جھنڈے اٹھائے طیب اردگان حکومت کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔ اگرچہ اس احتجاج کی ابتدا این جی اوز کے ایک پارک کے تنازع سے ہوئی لیکن سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیا ایک چھوٹے سے پارک کا مسئلہ اتنا بڑا تھا کہ ترکی کے65سے زیادہ شہر اس کی لپیٹ میں آگئے اور سارا ترکی ہل کر رہ گیا؟ کہاجارہاہے کہ استنبول کے لاکھوں مظاہرین کہہ رہے ہیں کہ ''یہ تقسیم اسکوائر نہیں بلکہ روس کا ریڈ اسکوائر ہے'' ان مظاہرین کے ہاتھوں میں سرخ جھنڈے ہیں جو کہہ رہے ہیں ''انقلاب کے لیے کاندھے سے کاندھا ملاکر چلو'' مصر اور ترکی میں کٹر مذہبی جماعتوں کی حکومت ہے جو اپنے ملکوں میں اسلامی نظام قائم کرنے کی داعی ہیں۔ ہر چند کہ سرخ جھنڈے اور انقلاب کے نعرے سابق سوویت روس کی پہچان ہیں۔ لیکن سابق سوویت سرخ روس تو اب کچھ اور ہوگیاہے۔ پھر سرخ جھنڈوں اور انقلاب کے نعروں کا مقصد کیا ہے؟
مسلم ملکوں میں مختلف صورتوں میں اضطراب کی جو لہریں اٹھتی دکھائی دے رہی ہیں در اصل یہ لہریں نہ کسی گروہ کی پیدا کردہ ہیں نہ کسی جماعت کی۔ بلکہ یہ لہریں اس نامنصفانہ سرمایہ دارانہ نظام کی پیدا کردہ ہیں جس نے دنیا کے چھ ارب سے زیادہ انسانوں کو اس قدر مشتعل، اس قدر متنفر کردیا ہے کہ وہ ہر قیمت پر اس استحصالی نظام سے چھٹکارا چاہتے ہیں۔ اضطراب کی ایسی ہی لہر پچھلے دنوں امریکا میں وال اسٹریٹ پر قبضہ کروکے نعرے کے ساتھ اٹھی اور دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کے80ملکوں اور 800شہروں میں پھیل گئی۔ تحریر اور تقسیم اسکوائر اسی کی آواز باز گشت ہیں۔ اس سیدھے سیدھے اقتصادی نا انصافی کے مسئلے کو لبرل ازم اور مذہبی جماعتوں کی لڑائی کے پردے میں چھپاکر سادہ لوح انسانوں کو فکری انتشار میں مبتلا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مصر اور ترکی میں مذہبی جماعتوں کی ناکامی نے یہ ثابت کردیا ہے کہ اب معاشی ناانصافی کے اس نظام کو مذہبی جماعتیں اور ان کے فلسفے بھی تحفظ فراہم نہیں کرسکتے۔
مذہبیت لبرل ازم اور سیکولرازم انسانوں کے درمیان تقسیم اور اتحاد کا کردار انجام دیتے ہیں۔ ان کا معاشی نا انصافیوں یا معاشی انصاف کے حوالے سے کوئی کردار نہیں۔ لیکن سرمایہ دارانہ نظام کے پالیسی سازوںنے ان نظریات کو برسر پیکار کرکے عوام کی توجہ اس معاشی نا انصافی سے ہٹانے کی کوشش کی جو خود اس کی پیداوار ہے۔ مشرق وسطیٰ میں کرنل قذافی اور حسنی مبارک کی حکومتوں کے خلاف اس لیے اٹھ کھڑے ہوئے کہ یہ حکومتیں سرسے پیر تک کرپشن میں ملوث تھیں۔ اب مصرکی مرسی اور ترکی کی طیب حکومتوں کے خلاف تحریر اور تقسیم اسکوائر اس لیے سج رہے ہیں کہ یہ حکومتیں بھی کرپشن میں ڈوب رہی ہیں اور جہاں کرپشن ہوگی وہاں عوام محرومیوں کا شکار رہیںگے اور جب یہ محرومیاں اپنی انتہا پر پہنچیںگی تو تحریر اسکوائر تقسیم اسکوائر اور وال اسٹریٹ انسانوں کے سمندر میں بدل جائیںگے۔کیا ان غضب ناک سمندروں کو واٹر کین، لاٹھی ڈنڈوں اور گولیوں سے روکا جاسکتاہے؟
دوسری عالمی جنگ کے بعد سوشلسٹ معیشت جب تیزی سے دنیا بھر میں مقبول ہونے لگی تو سامراجی ملکوں نے اس کی پیش قدمی کو روکنے کے لیے مختلف حربے استعمال کیے۔ ان میں سے ایک ویلفیئر اسٹیٹ کا حربہ تھا۔ ویلفیئر اسٹیٹ کا مقصد عوام کے مسائل کا حل بتایاگیا۔ لیکن اس حقیقت کو چھپانے کی کوشش کی گئی کہ کوئی ویلفیئر اسٹیٹ سرمایہ دارانہ نظام کی عطا کردہ معاشی نا انصافیوں، سماجی عدم مساوات کو ختم نہیں کرسکتی۔ پچھلے عرصے میں ملیشیا اور انڈونیشیا کو بھی معاشی حوالے سے ماڈل اسٹیٹ کہاگیا لیکن بہت کم عرصے میں سرمایہ دارانہ نظام کی ناگزیرکرپشن میں یہ ماڈل اسٹیٹ ڈوب گئیں۔ ایک وقت میں جاپان دنیا کا سب سے اہم صنعتی ملک تھا اور اس کی ترقی کا سورج ہر جگہ اپنی روشنی بکھیر رہاتھا لیکن اس روشنی کو بھی منڈی کی معیشت نے اندھیروں میں ڈبودیا۔ آج چین ترقی کے آسمان کا تابندہ سورج ہے لیکن اگر کرپشن زندہ ہے تو وہ اس سوج کو بھی گہنا دے گی۔
مصر اور ترکی میں لاکھوں عوام کا احتجاج بظاہر اپنی حکومتوں کے خلاف احتجاج لگتاہے لیکن دراصل یہ احتجاج اس معاشی نظام کے خلاف ہے جو سرمایہ دارانہ نظام کا پیدا کردہ ہے۔ اس ظلم کو نہ قذافی کی حکومت روک سکی نہ حسنی مبارک کی نہ مرسی کی حکومت روک سکتی ہے نہ طیب اردگان کی حکومت روک سکتی ہے، نہ مشرق وسطیٰ کی مضبوط مستحکم بادشاہت روک سکی ہیں نہ خوشحال شیوخ کی امارات کیونکہ ان تمام ملکوں میں خوشحالی حکمران طبقات کے محل سرائوں میں قید رہتی ہے اور عوام کو ان محل سرائوں سے بہت دور رکھاجاتاہے۔ لیکن ایک وقت آتا ہے جب عوام کو محل سرائوں سے دور رکھنا ممکن نہیں رہتا۔ عوام نہ صرف ان محل سرائوں میں داخل ہوجاتے ہیں بلکہ ان کے باسیوں کے گلے میں رسی ڈال کر انھیں سڑکوں پر گھسیٹتے ہیں اور اپنے آپ کو قوت کا اصلی سرچشمہ ثابت کردیتے ہیں۔ جو لوگ ان حقائق کا ادراک رکھتے ہیں وہ دیکھ رہے ہیں کہ اب التحریر اسکوائر اور تقسیم اسکوائر صرف مصر یا ترکی تک محدود نہیں رہیںگے بلکہ جلد یا بدیر ہر اس ملک میں تحریر اور تقسیم اسکوائر جنم لیںگے جہاں طبقاتی استحصال کا نظام موجود ہے۔