اچھے سفر کی شروعات
نو منتخب وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ نئی حکومت کسی قسم کی کرپشن برادشت نہیں کرے گی۔ ڈرون حملوں کا سلسلہ بندہونا۔۔۔
نو منتخب وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ نئی حکومت کسی قسم کی کرپشن برادشت نہیں کرے گی۔ ڈرون حملوں کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ اقربا پروری بے جا نوازشات کا باب بند کردیا ہے۔ مہم جوئی کے دروازے بند ہونے چاہئیں۔ اقتدار نہیں اقدار کی سیاست کا وقت آگیا ہے۔ نئے روشن پاکستان کی بنیاد رکھ دی ہے۔ وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد ایوان سے پہلے خطاب میں انھوں نے کہا کہ بدعنوان عناصر کا احتساب کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہوں جس کی مہربانیوں سے تیسری بار وزیراعظم منتخب ہوا ہوں۔ توانائی کے بحران سمیت تمام مسائل کے حل کے لیے ایک جامع منصوبہ تیار کرلیا گیا ہے جس کا جلد اعلان کیا جائے گا۔ وفاقی حکومت سندھ حکومت سے وہاں کے حالات بہتر کرنے کے لیے بھر پور تعاون کرے گی۔ کیونکہ سندھ میں بدامنی پر دل دکھتا ہے۔
اگر کراچی میں بدامنی ہوتی ہے تو ہم یہاں بیٹھ کر افسردہ ہوتے ہیں۔ نواز شریف نے کہا کہ محدود وسائل کے باوجود تمام چیلنجوں کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔ دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے والے کبھی ترقی نہیں کرسکتے۔ انھوں نے تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کو دعوت دی کہ وہ سب مل بیٹھ کر ایک مشترکہ ایجنڈا بنائیں تاکہ مسائل کو حل کیاجاسکے۔ انھوں نے کہا کہ حالیہ دورہ پاکستان میں چینی وزیراعظم نے مجھ سے کہا تھا کہ چین کے شہر کاشغر سے درہ خنجراب اور وہاں سے کراچی تک ریلوے ٹریک بچھایا جائے۔ جس پر اب عمل کیا جائے گا۔ نو منتخب وزیراعظم نے ڈرون حملے بند کرنے کے لیے مشترکہ لائحہ عمل کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہم دوسروں کی خود مختاری کا احترام کرتے ہیں۔ لازم ہے کہ ہماری خود مختاری کا بھی احترام کیا جائے۔
جب بھی جمہوریت سے منہ موڑا گیا کانٹوں کی فصل پروان چڑھی۔ عوام کی تقدیر بدلنے کے لیے خود چین سے بیٹھوں گا نہ اپنی ٹیم کو چین سے بیٹھنے دوں گا۔ ہمارے پاس جمہوریت کے روشن راستے پر چلنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ قوم سے کچھ نہیں چھپائوں گا، دلکش نظارے دکھائوں گا نہ کسی خیالی جنت کا نقشہ پیش کروں گا۔ تمام قومی اداروں میں تقرریاں میرٹ کی بنیاد پر کی جائیں گی۔ اہل لوگوں کو تعینات کیا جائے گا، ملکی اور غیر ملکی اخبارات میں اشتہارات دیے جائیں گے۔ پنجاب سندھ بلوچستان خیبر پختونخواہ سے بھر پور تعاون کریں گے۔ قوم نے سازشوں کے باوجود جمہوریت کا روشن باب رقم کیا۔ وقت نے ثابت کردیا ہے کہ پاکستان اور جمہوریت لازم و ملزوم ہے۔ خیبر پختونخواہ میں موقع ہونے کے باوجود تحریک انصاف کے لیے میدان خالی چھوڑا۔ معیشت کی حالت ناقابل بیان حد تک خراب ہے۔ کھربوں کی ادائیگیاں سر پر ہیں۔ کوئی جماعت تنہا ان مسائل کو حل نہیں کرسکتی۔
ایوان صدر کی اس تقریب کا قابل ذکر پہلو یہ ہے کہ صدر زرداری نے جذبہ خیر سگالی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایوان صدر کے دروازے پر جاکر میاں صاحب کا استقبال کیا۔ اس موقع پر ان کی صاحبزادی آصفہ زرداری بھی ان کے ہمراہ تھیں۔ صدر نے میاں نواز شریف کو گلدستہ پیش کیا۔ حلف برداری کے بعد صدر نے نہایت پر جوش انداز میں نواز شریف سے مصافحہ کیا۔ ملک اور ایوان صدر کی تاریخ میں یہ پہلا موقعہ تھا کہ حلف برداری کے لیے آنے والے وزیراعظم کا استقبال منتخب صدر نے ایوان کے پورچ میں کیا۔ صدر زرداری نواز شریف کو بالائی فلور پر اپنے آفس میں لے گئے جہاں انھوں نے کچھ دیر قیام کیا اور پھر انھیں لے کر ایوان کے مرکزی ہال میں پہنچے جہاں حلف برداری کی تقریب ہوئی۔ تقریب کے اختتام پر مہمانوں سے ملنے کے بعد صدر وزیراعظم کو ایوان صدر کے رہائشی حصے میں لے گئے جہاں دونوں کے اہل خانہ موجود تھے۔ ان میں بیگم کلثوم نواز، مریم نواز، حسن نواز، حسین نواز، فریال تالپور، آصفہ اور بختاور بھی شامل تھیں۔ تاریخی اہمیت اس تقریب کی یہ بھی تھی کہ نواز شریف صاحب سے ایک منتخب صدر نے خوش دلی سے حلف لیا جن کی پارٹی انتخابات میں شکست کھاگئی تھی۔
عوام کی آنکھیں اس نظارے کو دیکھنے کے لیے ایک مدت سے ترس رہی تھیں۔ آخر کار تیس سال کی محاذ آرائی کے بعد قوم کی زندگی میں یہ خوش کن لمحہ آہی گیا۔ بجلی کے بحران سمیت مسائل بے شمار ہیں مگر صدر زرداری کے اس عمل نے قوم میں سکون و اطمینان کی لہر دوڑا دی ہے۔ ایک ایسی محاذ آرائی جو کئی عشروں تک جاری رہی لیکن عوام اور پاکستان کو کچھ نہیں ملا۔ سوائے نقصان اور تباہی اور قیمتی وقت کے ضیاع کے، جو ان دو پارٹیوں کی آپس میں محاذ آرائی کے بجائے تعمیر پر لگتے تو آج ملک و قوم کو ان مختلف النوع بحرانوں کا سامنا کرنا پڑتا جو اس کو آج درپیش ہیں۔ امید ہے یہ مثبت رویہ آگے بھی جاری رہے گا۔ پارلیمنٹ سے صدر زرداری کا آخری خطاب بھی اسی مفاہمانہ رویے کی عکاسی کرتا ہے جس میں انھوں نے نئی حکومت کو اپنے بھر پور تعاون کا یقین دلایا ہے۔
انھوں نے دوبارہ انتخابی نتائج پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا لیکن ساتھ یہ بھی کہاکہ انھیں جمہوری عمل مکمل ہونے کی خوشی ہے۔ اب جمہوری قوتیں اتنی طاقتور ہوگئی ہیں کہ آصف علی زرداری نے پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ آئین توڑنے والوں کو سزا دینے کی حکمت عملی بنائے ہم تعاون کریں گے۔ اب ملک میں آمریت کی کوئی گنجائش نہیں۔ آئین معطل کرنا یا توڑنا بغاوت ہے۔ صدر نے کہا 1977ء اور 1999ء کے مارشل لاء نے ملکی ترقی کا سلسلہ روک دیا۔ ہمیں جمہوریت دشمنوں کی حوصلہ شکنی کرنی ہوگی۔ پارلیمنٹ کو آئین توڑنے والوں کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے۔ انتخابی عمل کی کامیابی سے غیر جمہوری قوتوں کو جھٹکا لگا ہے۔ ڈرون حملے ملکی خود مختاری اور سلامتی کی خلاف ورزی ہیں جو کسی صورت قبول نہیں۔ عسکریت پسندی قومی سلامتی کے لیے بڑا خطرہ ہے۔ جمہوری قوتوں کو باہمی اعتماد سے انتہا پسند کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ ہمیں بالاتاخیر کچھ ''سخت فیصلے'' کرنے کی ضرورت ہے۔
صدر زرداری نے نہ صرف مسلسل چھٹی بار پارلیمنٹ سے خطاب کا اعزاز حاصل کیا بلکہ وہ پاکستان کے سویلین واحد صدر ہیں جنہوں نے دوسری سویلین حکومت کو اقتدار منتقل کرنے کا کارنامہ انجام دیا۔ اس کا بڑا کریڈٹ نواز شریف کو بھی جاتا ہے ورنہ تو بقول نواز شریف انھیں بڑے لالچ دیے گئے کہ وہ کسی طرح سڑکوں پر آکر سابقہ حکومت کا تختہ الٹ دیں تاکہ ماضی کی تاریخ دہرائی جائے کہ جمہوریت دشمن قوتوں کے سر کڑاہی میں اور انگلیاں گھی میں ہوں۔ آفریں ہے میاں نواز شریف پر کہ وہ اس جال میں نہ پھنسے۔ مسلم لیگ (ن) میں میاں نواز شریف ہی واحد لیڈر تھے جو ان کے عزائم کو سمجھ گئے تھے۔ آج بھی سازشی موقعے کے انتظار میں ہیں۔ (میڈیا سمیت مختلف اداروں میں موجود ہیں) کہ سیاسی مفاہمت کا خاتمہ کرکے محاذ آرائی کا آغاز کیا جائے۔ اگر وہ اپنی سازش میں کامیاب ہوگئے تو میاں نواز شریف برصغیر کے حوالے سے وہ تاریخی کارنامہ انجام نہیں دے سکیں گے جس کے لیے قدرت نے انھیں تیسری بار موقعہ دیا۔
اللہ کا شکر ہے کہ گزشتہ کالم میں 11 سے 14 جون کے عرصے میں گرمی کا زور ٹوٹ جائے کی پیش گوئی پوری ہوئی اور دوسری پیش گوئی جو پوری ہوئی وہ عمران خان کا صحت یاب ہوکر اسپتال سے ڈسچارج ہونا ہے۔ لیکن عمران خان کو یاد رکھنا چاہیے کہ ابھی بھی ان کے لیے احتیاط طلب وقت چل رہا ہے۔ مکمل صحت یابی میں ان کو ''ایک وقت'' لگے گا۔ جولائی کے دوسرے تیسرے ہفتے اور ستمبر اکتوبر میں مزید بہتری آئے گی۔
سیل فون:۔0346-4527997
اگر کراچی میں بدامنی ہوتی ہے تو ہم یہاں بیٹھ کر افسردہ ہوتے ہیں۔ نواز شریف نے کہا کہ محدود وسائل کے باوجود تمام چیلنجوں کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔ دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے والے کبھی ترقی نہیں کرسکتے۔ انھوں نے تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کو دعوت دی کہ وہ سب مل بیٹھ کر ایک مشترکہ ایجنڈا بنائیں تاکہ مسائل کو حل کیاجاسکے۔ انھوں نے کہا کہ حالیہ دورہ پاکستان میں چینی وزیراعظم نے مجھ سے کہا تھا کہ چین کے شہر کاشغر سے درہ خنجراب اور وہاں سے کراچی تک ریلوے ٹریک بچھایا جائے۔ جس پر اب عمل کیا جائے گا۔ نو منتخب وزیراعظم نے ڈرون حملے بند کرنے کے لیے مشترکہ لائحہ عمل کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہم دوسروں کی خود مختاری کا احترام کرتے ہیں۔ لازم ہے کہ ہماری خود مختاری کا بھی احترام کیا جائے۔
جب بھی جمہوریت سے منہ موڑا گیا کانٹوں کی فصل پروان چڑھی۔ عوام کی تقدیر بدلنے کے لیے خود چین سے بیٹھوں گا نہ اپنی ٹیم کو چین سے بیٹھنے دوں گا۔ ہمارے پاس جمہوریت کے روشن راستے پر چلنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ قوم سے کچھ نہیں چھپائوں گا، دلکش نظارے دکھائوں گا نہ کسی خیالی جنت کا نقشہ پیش کروں گا۔ تمام قومی اداروں میں تقرریاں میرٹ کی بنیاد پر کی جائیں گی۔ اہل لوگوں کو تعینات کیا جائے گا، ملکی اور غیر ملکی اخبارات میں اشتہارات دیے جائیں گے۔ پنجاب سندھ بلوچستان خیبر پختونخواہ سے بھر پور تعاون کریں گے۔ قوم نے سازشوں کے باوجود جمہوریت کا روشن باب رقم کیا۔ وقت نے ثابت کردیا ہے کہ پاکستان اور جمہوریت لازم و ملزوم ہے۔ خیبر پختونخواہ میں موقع ہونے کے باوجود تحریک انصاف کے لیے میدان خالی چھوڑا۔ معیشت کی حالت ناقابل بیان حد تک خراب ہے۔ کھربوں کی ادائیگیاں سر پر ہیں۔ کوئی جماعت تنہا ان مسائل کو حل نہیں کرسکتی۔
ایوان صدر کی اس تقریب کا قابل ذکر پہلو یہ ہے کہ صدر زرداری نے جذبہ خیر سگالی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایوان صدر کے دروازے پر جاکر میاں صاحب کا استقبال کیا۔ اس موقع پر ان کی صاحبزادی آصفہ زرداری بھی ان کے ہمراہ تھیں۔ صدر نے میاں نواز شریف کو گلدستہ پیش کیا۔ حلف برداری کے بعد صدر نے نہایت پر جوش انداز میں نواز شریف سے مصافحہ کیا۔ ملک اور ایوان صدر کی تاریخ میں یہ پہلا موقعہ تھا کہ حلف برداری کے لیے آنے والے وزیراعظم کا استقبال منتخب صدر نے ایوان کے پورچ میں کیا۔ صدر زرداری نواز شریف کو بالائی فلور پر اپنے آفس میں لے گئے جہاں انھوں نے کچھ دیر قیام کیا اور پھر انھیں لے کر ایوان کے مرکزی ہال میں پہنچے جہاں حلف برداری کی تقریب ہوئی۔ تقریب کے اختتام پر مہمانوں سے ملنے کے بعد صدر وزیراعظم کو ایوان صدر کے رہائشی حصے میں لے گئے جہاں دونوں کے اہل خانہ موجود تھے۔ ان میں بیگم کلثوم نواز، مریم نواز، حسن نواز، حسین نواز، فریال تالپور، آصفہ اور بختاور بھی شامل تھیں۔ تاریخی اہمیت اس تقریب کی یہ بھی تھی کہ نواز شریف صاحب سے ایک منتخب صدر نے خوش دلی سے حلف لیا جن کی پارٹی انتخابات میں شکست کھاگئی تھی۔
عوام کی آنکھیں اس نظارے کو دیکھنے کے لیے ایک مدت سے ترس رہی تھیں۔ آخر کار تیس سال کی محاذ آرائی کے بعد قوم کی زندگی میں یہ خوش کن لمحہ آہی گیا۔ بجلی کے بحران سمیت مسائل بے شمار ہیں مگر صدر زرداری کے اس عمل نے قوم میں سکون و اطمینان کی لہر دوڑا دی ہے۔ ایک ایسی محاذ آرائی جو کئی عشروں تک جاری رہی لیکن عوام اور پاکستان کو کچھ نہیں ملا۔ سوائے نقصان اور تباہی اور قیمتی وقت کے ضیاع کے، جو ان دو پارٹیوں کی آپس میں محاذ آرائی کے بجائے تعمیر پر لگتے تو آج ملک و قوم کو ان مختلف النوع بحرانوں کا سامنا کرنا پڑتا جو اس کو آج درپیش ہیں۔ امید ہے یہ مثبت رویہ آگے بھی جاری رہے گا۔ پارلیمنٹ سے صدر زرداری کا آخری خطاب بھی اسی مفاہمانہ رویے کی عکاسی کرتا ہے جس میں انھوں نے نئی حکومت کو اپنے بھر پور تعاون کا یقین دلایا ہے۔
انھوں نے دوبارہ انتخابی نتائج پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا لیکن ساتھ یہ بھی کہاکہ انھیں جمہوری عمل مکمل ہونے کی خوشی ہے۔ اب جمہوری قوتیں اتنی طاقتور ہوگئی ہیں کہ آصف علی زرداری نے پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ آئین توڑنے والوں کو سزا دینے کی حکمت عملی بنائے ہم تعاون کریں گے۔ اب ملک میں آمریت کی کوئی گنجائش نہیں۔ آئین معطل کرنا یا توڑنا بغاوت ہے۔ صدر نے کہا 1977ء اور 1999ء کے مارشل لاء نے ملکی ترقی کا سلسلہ روک دیا۔ ہمیں جمہوریت دشمنوں کی حوصلہ شکنی کرنی ہوگی۔ پارلیمنٹ کو آئین توڑنے والوں کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے۔ انتخابی عمل کی کامیابی سے غیر جمہوری قوتوں کو جھٹکا لگا ہے۔ ڈرون حملے ملکی خود مختاری اور سلامتی کی خلاف ورزی ہیں جو کسی صورت قبول نہیں۔ عسکریت پسندی قومی سلامتی کے لیے بڑا خطرہ ہے۔ جمہوری قوتوں کو باہمی اعتماد سے انتہا پسند کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ ہمیں بالاتاخیر کچھ ''سخت فیصلے'' کرنے کی ضرورت ہے۔
صدر زرداری نے نہ صرف مسلسل چھٹی بار پارلیمنٹ سے خطاب کا اعزاز حاصل کیا بلکہ وہ پاکستان کے سویلین واحد صدر ہیں جنہوں نے دوسری سویلین حکومت کو اقتدار منتقل کرنے کا کارنامہ انجام دیا۔ اس کا بڑا کریڈٹ نواز شریف کو بھی جاتا ہے ورنہ تو بقول نواز شریف انھیں بڑے لالچ دیے گئے کہ وہ کسی طرح سڑکوں پر آکر سابقہ حکومت کا تختہ الٹ دیں تاکہ ماضی کی تاریخ دہرائی جائے کہ جمہوریت دشمن قوتوں کے سر کڑاہی میں اور انگلیاں گھی میں ہوں۔ آفریں ہے میاں نواز شریف پر کہ وہ اس جال میں نہ پھنسے۔ مسلم لیگ (ن) میں میاں نواز شریف ہی واحد لیڈر تھے جو ان کے عزائم کو سمجھ گئے تھے۔ آج بھی سازشی موقعے کے انتظار میں ہیں۔ (میڈیا سمیت مختلف اداروں میں موجود ہیں) کہ سیاسی مفاہمت کا خاتمہ کرکے محاذ آرائی کا آغاز کیا جائے۔ اگر وہ اپنی سازش میں کامیاب ہوگئے تو میاں نواز شریف برصغیر کے حوالے سے وہ تاریخی کارنامہ انجام نہیں دے سکیں گے جس کے لیے قدرت نے انھیں تیسری بار موقعہ دیا۔
اللہ کا شکر ہے کہ گزشتہ کالم میں 11 سے 14 جون کے عرصے میں گرمی کا زور ٹوٹ جائے کی پیش گوئی پوری ہوئی اور دوسری پیش گوئی جو پوری ہوئی وہ عمران خان کا صحت یاب ہوکر اسپتال سے ڈسچارج ہونا ہے۔ لیکن عمران خان کو یاد رکھنا چاہیے کہ ابھی بھی ان کے لیے احتیاط طلب وقت چل رہا ہے۔ مکمل صحت یابی میں ان کو ''ایک وقت'' لگے گا۔ جولائی کے دوسرے تیسرے ہفتے اور ستمبر اکتوبر میں مزید بہتری آئے گی۔
سیل فون:۔0346-4527997