چھوڑ آئے وہ گلیاں
بجٹ توخیر میرا موضوع ہی نہیں تھا، بجٹ پر وہ لکھیں ، جن کو اس بجٹ سے کوئی توقع تھی ، میں تو بلوچستان کی ۔۔۔
بجٹ توخیر میرا موضوع ہی نہیں تھا، بجٹ پر وہ لکھیں ، جن کو اس بجٹ سے کوئی توقع تھی ، میں تو بلوچستان کی ''بلامقابلہ حکومت'' پر لکھ رہا تھا ، لیکن 'زیارت' میں قائداعظم ریذیڈنسی کی تباہی کی تفصیلات پڑھ کر طبیعت اس قدر مکدر ہوئی کہ اس پر بھی نہیں لکھا گیا ۔ دل نے کہا ، اب لکھنے کو کیا رہ گیا ہے ۔ جیسا کہ عام طور پرہوتا ہے، دل گرفتگی میں صرف ماضی ہی سکون بخش محسوس ہوتا ہے ۔ سو میں نے بھی ماضی کی گلیوں میں پناہ لی ہے ۔ یہ اُن دنوں کی بات ہے، جب میں پنجاب یونیورسٹی لا کالج میں پڑھ رہا تھااور ہر ہفتے گجرات شہر کا چکر لگتا تھا ۔ یہ ہفتہ کی شام تھی۔ ریل گاڑی پلیٹ فارم میں داخل ہو رہی تھی ۔ اندھیرا چھا چکا تھا۔ چھوٹے شہروں کے ریلوے اسٹیشنوں پر، آپ جانتے ہیں ، شام کو چہل پہل نہ ہونے کے برابر رہ جاتی ہے ۔
مرکزی حصہ کو چھوڑ کر ، جہاں ٹکٹ گھر، انتظار گاہیں اور کھانے پینے کی دُکانیں ہوتی ہیں، باقی اسٹیشن سُونا سُونا سا لگتا ہے۔ لکڑی کے بنچوں پر ، گھنے درختوں کے نیچے ، ریسٹورنٹ کی گول میزوں کے گرد ، جو جہاں بیٹھا ہے ، گہری سوچ میں ڈُوبا ہوا نظر آتا ہے۔ یوں کہ یہاں سے وہاں تک ، ایک بحرِسکوت رواں دواں ہے ۔ لیکن جیسے ہی کوئی گاڑی چنگھاڑتی ہوئی پلیٹ فارم میں داخل ہوتی ہے ، ایکا ایکی سارا اسٹیشن ہڑبڑا کے اُٹھ بیٹھتا ہے ۔ قلیوں کی بھاگ دوڑ ، مسافروں کی دھکم پیل، بیروںکی تعاقب کرتی آوازیں ، ہلچل ، افراتفر ی ، ہنگامہ ۔ میںٹرین سے اُترا۔ تھوڑی دیرتک پلیٹ فارم کی گہماگہمی دیکھنے میں محو رہا اور پھر اسٹیشن سے باہر نکل آیا ۔
جون کا مہینہ تھا ، لیکن ٹھنڈی اور مرطوب ہوا چل رہی تھی ۔ لگ رہا تھا ، بارش ابھی ابھی تھمی ہے ۔ میں نے سوچا، آج پیدل مارچ کرتے ہیں ۔ سارے رستے ، گلیاں ، بازار جانے پہچانے تو ہیں۔ لیکن نہیں جانتا تھا کہ کچھ ہی دیر میں، میں اپنے ہی شہر کی ایک بند گلی میں گُم ہونے والا ہوں۔ چلتا چلتا ، میں شہر کے وسطی حصہ میں پہنچ چکا تھا۔ یہ ڈھکی دروازہ تھا ۔ میرا ارادہ تھاکہ آج سڑک کے راستے گھر جائوں گا ۔ اب ٹھیک سے یاد نہیں کہ کیوں ، لیکن معاً بعد ہی میں سڑک کا رستہ چھوڑ کر ڈھکی دروازہ کے اندر مُڑگیا ۔ یہاںاُوپرمغل دور کا اکبری قلعہ ہے،اس کے گردا گرد یہ رستہ نیچے اُوپر، اُوپر نیچے بل کھاتا ہوا شہر کے مرکزی بازار میں جا نکلتا ہے۔ میں نے گلی میں اُوپرچڑھنا شروع کیا ۔ چڑھائی ختم ہوگئی تھی ۔ سانس لینے کے لیے ْذرا رُکا ۔ بس یہی وہ لمحہ تھا، جب میری نظر اُس گلی پر پڑی۔ اپنے آپ سے کہا ، اچھا توآج اس گلی سے ہو کر چلتے ہیں ۔ میں گلی میں داخل ہوتو گیا ، لیکن اب جس سمت بھی مُڑتا تھا ، آگے سے گلی بند ملتی تھی ۔
عجب پُراسرار گلی تھی ۔ تھک ہار کرمیں ایک مکان کے دروازہ پر بیٹھ گیا ۔ یہ مکان بھی مدتوں کا بند معلوم ہوتا تھا۔ رات 8 یا 9 کا عمل ہوگا، لیکن گلی میںہولناک سناٹا طاری تھا ۔کوئی راہگیر آرہا تھا ، نہ جاآرہا تھا۔ تھوڑی دیر انتظار کرنے کے بعدمیں نے سامنے والے گھر کے دروازے پردستک دی۔ ایک ڈھلتی ہوئی عمر کی عورت باہرنکلی۔ میں نے پوچھا،'' جی ، یہاں سے بازارکی طرف کون سا راستہ جاتا ہے ۔'' پہلے تو اُس نے حیرت سے میری طرف دیکھا اورکہا ،'' آپ اجنبی لگتے ہیں۔'' میں نے کہا ، ''اجنبی تو نہیں ہوں ، پر رستہ بھول گیا ہوں شاید ۔'' وہ تھوڑا سا ہنسی اور کہنے لگی،''آپ دائیں طرف جاکر آگے بائیں طرف کو مُڑجائیں ، تھوڑا آگے جاکے پھر بائیں طرف سیدھے چلتے جائیں، آپ شاہ دولہ چوک پہنچ جائیں گے۔'' میں نے مہربان عورت کا شکریہ ادا کیا۔ تھوڑی دیر میں، میں شاہ دولہ چوک پہنچ گیا۔ لیکن اس روز پہلی بار احساس ہوا کہ جب آپ کوئی شہر چھوڑ دیتے ہیں، تو شہر بھی آپ سے اپناآپ چھپاجاتاہے؛ شہر میں اجنبی ، اجنبی شہر میں ۔
یہ گلی دھندلانے لگی تو ایک دوسری گلی سامنے آ گئی ۔ 'کھوہار' دریائے جہلم کے کنارے پر یہ ایک چھوٹا سا گائوں ہے، ہرے بھرے کھیت ،صاف ستھری آب وہوا اور سادہ رہن سہن ۔ اطلاع ملی کہ ماموں انتقال کر گئے ہیں ۔ ماموں احمدخان، رشتے میں تو ہمارے ماموں تھے ، لیکن چونکہ اُن کی پرورش ہماری والدہ نے ہی کی تھی،اسلیے اُن سے بچپن کی بڑی گہری یادیں جڑی تھیں ۔ گاوں پہنچے تو معلوم ہوا کہ ماموں کی بڑی بیٹی لندن سے روانہ ہو چکی ہیں اور چند گھنٹوں بعد یہاںپہنچنے والی ہیں ۔ کڑاکے کی سردی پڑ رہی تھی ۔ میں ماموں کاسویا سویا چہرہ دیکھ رہا تھا، خاموش اور چپ چاپ کہ دفعتاً میرے ذہن میںکھوہار کی وہ پُراسرارگلی نمودار ہوگئی ، جو اس وقت دیکھی تھی ،جب پہلی بار یہاں آیا تھا۔
میں نے اپنے بھانجے ثاقب سے کہا کہ چلو، ذرا باہر چلتے ہیں۔ سہ پہر کا وقت تھا ، لیکن سورج کہیں نظر نہیں آ رہا تھا۔ دھند میں لپٹا ہوا کھوہار کا یہ چھوٹا سا بازار ، جس میں اس روز اکا دکا دکانیں کھلی تھیں، الف لیلوی نظارہ پیش کر رہا تھا۔ ذرا آگے جاکریہ بازار چُپ چاپ اس گلی میں مُڑجاتا ہے، جس میں ہم جا رہے ہیں۔ خیال تھا کہ گلی کتنی بدل چکی ہوگی۔ لیکن ،میں ٹھٹک کر رہ گیا ، وہی 25 سال پہلے والی گلی ؛ ایک طرف چھوٹی چھوٹی اینٹوں کی شگاف زدہ دیوار، اور وہی اس شگاف میںگڑھا ہوا پیپل کا بوڑھا درخت ، جو لگتا تھا کئی زمانوں سے یہیں گڑھا ہے؛ دوسری طرف پکے مکانوں کی عقبی کھڑکیاں، روشن دان اور دُھواں اُگلتی چمنیاں، اور اُن کے درمیان بچھی یہ پتلی سی ، اُفسردہ سی ڈھلوان گلی۔ برسوں بعد آج یہ گلی دوبارہ دیکھی تو دیکھتاہی رہ گیا ۔ہم چلتے جا رہے ہیں کہ یکدم گلی ختم ہوگئی۔ اترائی پر کھیتوں کا طویل سلسلہ اور آگے تھوڑا دور دریاے جہلم صاف نظر آ رہا تھا۔ میں نے ثاقب سے کہا ، گلی تو ختم ہو گئی ۔ ہم واپس مُڑے اور چلتے چلتے دوبارہ اس گلی میں آ گئے، جہاںسے چلے تھے۔
یہ گلی فیڈآوٹ ہوئی تو منڈی بہائوالدین کی ایک گلی فیڈاِن ہو گئیں ۔ بچپن میں ایک بارکسی شادی پر منڈی بہاوالدین گئے۔ ایک تنگ سی گلی تھی ۔کونے پردلہا کا گھرتھا ، جہاں سرِشام ہی ڈھولک بجنا شروع ہو جاتی تھی۔ ابھی میرج ہالوں کا رواج نہیں ہوا تھا۔ شادی والے گھر کی مہک سے گلی کئی روز تک مہکتی رہتی تھی ۔ یہ گلی مہک رہی تھی ۔ یہ گلی آج بھی مہک رہی ہے۔ یادوں کا ایک دریچہ کھولنے کی دیرہے کہ ڈھولک بجنے لگتی ہے اور منڈی بہائوالدین کی اس گلی کی مہک آلیتی ہے ۔اور اب ایک گلی فیڈاِن ہو رہی ہے۔ ہیلے کالج کا زمانہ ء طالب علمی تھا ،جب بھمبرکے اس پار عبدالرحمان کشمیری کے گاوں گئے۔ جھٹپٹے کا وقت تھا ۔ بس سے اُتر کے تھوڑا آگے گئے تو عبدالرحمان کشمیری نے نعرہ لگایا ، ''یہ سامنے جو پہاڑ نظر آ رہا ہے ناں، اس کے دوسری طرف میرا گاوں ہے۔
رات تک پہنچ جائیں گے، ان شااللہ۔ یہاں ابھی بجلی نہیں آئی تھی، لیکن چاند کی روشنی میں اندھیرا محسوس نہیں ہورہا تھا ۔رات پوری طرح چھا چکی تھی ، جب ہم تھکے ماندے گاوں میں داخل ہوئے۔ رستے میں ایک گلی آئی ، جہاں ایک کچے مکان سے بچے کے اُونچا اُونچا رونے کی آواز آ رہی تھی ۔ پھر اس میںکسی عورت کے بین کرنے کی آواز بھی شامل ہو گئی ۔ چاروں طرف پہاڑ ہی پہاڑ، اوپر آسمان ، چاندبادلوں میں چھپ رہا تھا ، نیچے گلی میں ہمارے قدموں کی دبتی ہوئی چاپ ، پس منظر میں بچے اورعورت کے رونے کی آوازیں۔ گھر پہنچے تو معلوم ہوا کہ اس گلی میں پچھلے دنوں ایک مرگ ہو گئی تھی ۔ بچہ اور عورت اکیلے رہ گئے ہیں ۔ یہ گریہ کرتی گلی کبھی نہیں بھول سکوں گا۔
یادوں کے شہر میں گلیوں کا یہ میلہ پھیلتا چلا جا رہا ہے ؛ گجرات کی گلیاں، وزیر آباد کی گلیاں، سُکھ چین اور دریکڑی کی گلیاں، اندرون راول پنڈی اور اندرون کراچی کی گلیاں۔ پھر وہ گلیاں جہاں کبھی گیا تو نہیں ، لیکن بہت گھوما ہوں؛ شوکت صدیقی کے ناولوں کی گلیاں ، جہاں راتیں جاگتی ہیں، انتظارحسین کے افسانوں کی گلیاں ، جن میںدوپہریں ڈھلتی ہی نہیں ، اے حمید کی آپ بیتی کی گلیاں ، جہاں سرشام ہی اندھیرا چھا جاتا ہے، بادل گرجتا ہے، بجلی چمکتی ہے اور موسلادھار بارش ہونے لگتی ہے۔ گلیوںکا یہ میلہ سمٹنے پر آتا ہے ، تو صرف ایک لمحہ میں پرائمری اسکول کی چاردیواری کے گردسمٹ جاتا ہے، جہاں دن، دن ہوتا تھا ، نہ رات ، رات، بس بچپناہوتا تھا اور محلے کی یہ گلیاں ۔ ایک لمحہ، تنہا ایک چھوٹا سا لمحہ اور برس ہا برس سمٹ جاتے ہیں ۔ یہاں تک لکھ چکا تو کالم کی تنگی ِداماں کا احساس ہوا، لطیف چوہدری صاحب کی تنبیہ یاد آئی ۔ دریاے جہلم کے پار گلزارؔنے کہا تھا ؎
دل درد کا ٹکڑا ہے، پتھر کی ڈلی سی ہے
اک اندھا کنواں ہے یہ ، اک بند گلی سی ہے
اک چھوٹا سا لمحہ ہے ، جو ختم نہیں ہوتا
میں لاکھ جلاتا ہوں، یہ بھسم نہیں ہوتا
مرکزی حصہ کو چھوڑ کر ، جہاں ٹکٹ گھر، انتظار گاہیں اور کھانے پینے کی دُکانیں ہوتی ہیں، باقی اسٹیشن سُونا سُونا سا لگتا ہے۔ لکڑی کے بنچوں پر ، گھنے درختوں کے نیچے ، ریسٹورنٹ کی گول میزوں کے گرد ، جو جہاں بیٹھا ہے ، گہری سوچ میں ڈُوبا ہوا نظر آتا ہے۔ یوں کہ یہاں سے وہاں تک ، ایک بحرِسکوت رواں دواں ہے ۔ لیکن جیسے ہی کوئی گاڑی چنگھاڑتی ہوئی پلیٹ فارم میں داخل ہوتی ہے ، ایکا ایکی سارا اسٹیشن ہڑبڑا کے اُٹھ بیٹھتا ہے ۔ قلیوں کی بھاگ دوڑ ، مسافروں کی دھکم پیل، بیروںکی تعاقب کرتی آوازیں ، ہلچل ، افراتفر ی ، ہنگامہ ۔ میںٹرین سے اُترا۔ تھوڑی دیرتک پلیٹ فارم کی گہماگہمی دیکھنے میں محو رہا اور پھر اسٹیشن سے باہر نکل آیا ۔
جون کا مہینہ تھا ، لیکن ٹھنڈی اور مرطوب ہوا چل رہی تھی ۔ لگ رہا تھا ، بارش ابھی ابھی تھمی ہے ۔ میں نے سوچا، آج پیدل مارچ کرتے ہیں ۔ سارے رستے ، گلیاں ، بازار جانے پہچانے تو ہیں۔ لیکن نہیں جانتا تھا کہ کچھ ہی دیر میں، میں اپنے ہی شہر کی ایک بند گلی میں گُم ہونے والا ہوں۔ چلتا چلتا ، میں شہر کے وسطی حصہ میں پہنچ چکا تھا۔ یہ ڈھکی دروازہ تھا ۔ میرا ارادہ تھاکہ آج سڑک کے راستے گھر جائوں گا ۔ اب ٹھیک سے یاد نہیں کہ کیوں ، لیکن معاً بعد ہی میں سڑک کا رستہ چھوڑ کر ڈھکی دروازہ کے اندر مُڑگیا ۔ یہاںاُوپرمغل دور کا اکبری قلعہ ہے،اس کے گردا گرد یہ رستہ نیچے اُوپر، اُوپر نیچے بل کھاتا ہوا شہر کے مرکزی بازار میں جا نکلتا ہے۔ میں نے گلی میں اُوپرچڑھنا شروع کیا ۔ چڑھائی ختم ہوگئی تھی ۔ سانس لینے کے لیے ْذرا رُکا ۔ بس یہی وہ لمحہ تھا، جب میری نظر اُس گلی پر پڑی۔ اپنے آپ سے کہا ، اچھا توآج اس گلی سے ہو کر چلتے ہیں ۔ میں گلی میں داخل ہوتو گیا ، لیکن اب جس سمت بھی مُڑتا تھا ، آگے سے گلی بند ملتی تھی ۔
عجب پُراسرار گلی تھی ۔ تھک ہار کرمیں ایک مکان کے دروازہ پر بیٹھ گیا ۔ یہ مکان بھی مدتوں کا بند معلوم ہوتا تھا۔ رات 8 یا 9 کا عمل ہوگا، لیکن گلی میںہولناک سناٹا طاری تھا ۔کوئی راہگیر آرہا تھا ، نہ جاآرہا تھا۔ تھوڑی دیر انتظار کرنے کے بعدمیں نے سامنے والے گھر کے دروازے پردستک دی۔ ایک ڈھلتی ہوئی عمر کی عورت باہرنکلی۔ میں نے پوچھا،'' جی ، یہاں سے بازارکی طرف کون سا راستہ جاتا ہے ۔'' پہلے تو اُس نے حیرت سے میری طرف دیکھا اورکہا ،'' آپ اجنبی لگتے ہیں۔'' میں نے کہا ، ''اجنبی تو نہیں ہوں ، پر رستہ بھول گیا ہوں شاید ۔'' وہ تھوڑا سا ہنسی اور کہنے لگی،''آپ دائیں طرف جاکر آگے بائیں طرف کو مُڑجائیں ، تھوڑا آگے جاکے پھر بائیں طرف سیدھے چلتے جائیں، آپ شاہ دولہ چوک پہنچ جائیں گے۔'' میں نے مہربان عورت کا شکریہ ادا کیا۔ تھوڑی دیر میں، میں شاہ دولہ چوک پہنچ گیا۔ لیکن اس روز پہلی بار احساس ہوا کہ جب آپ کوئی شہر چھوڑ دیتے ہیں، تو شہر بھی آپ سے اپناآپ چھپاجاتاہے؛ شہر میں اجنبی ، اجنبی شہر میں ۔
یہ گلی دھندلانے لگی تو ایک دوسری گلی سامنے آ گئی ۔ 'کھوہار' دریائے جہلم کے کنارے پر یہ ایک چھوٹا سا گائوں ہے، ہرے بھرے کھیت ،صاف ستھری آب وہوا اور سادہ رہن سہن ۔ اطلاع ملی کہ ماموں انتقال کر گئے ہیں ۔ ماموں احمدخان، رشتے میں تو ہمارے ماموں تھے ، لیکن چونکہ اُن کی پرورش ہماری والدہ نے ہی کی تھی،اسلیے اُن سے بچپن کی بڑی گہری یادیں جڑی تھیں ۔ گاوں پہنچے تو معلوم ہوا کہ ماموں کی بڑی بیٹی لندن سے روانہ ہو چکی ہیں اور چند گھنٹوں بعد یہاںپہنچنے والی ہیں ۔ کڑاکے کی سردی پڑ رہی تھی ۔ میں ماموں کاسویا سویا چہرہ دیکھ رہا تھا، خاموش اور چپ چاپ کہ دفعتاً میرے ذہن میںکھوہار کی وہ پُراسرارگلی نمودار ہوگئی ، جو اس وقت دیکھی تھی ،جب پہلی بار یہاں آیا تھا۔
میں نے اپنے بھانجے ثاقب سے کہا کہ چلو، ذرا باہر چلتے ہیں۔ سہ پہر کا وقت تھا ، لیکن سورج کہیں نظر نہیں آ رہا تھا۔ دھند میں لپٹا ہوا کھوہار کا یہ چھوٹا سا بازار ، جس میں اس روز اکا دکا دکانیں کھلی تھیں، الف لیلوی نظارہ پیش کر رہا تھا۔ ذرا آگے جاکریہ بازار چُپ چاپ اس گلی میں مُڑجاتا ہے، جس میں ہم جا رہے ہیں۔ خیال تھا کہ گلی کتنی بدل چکی ہوگی۔ لیکن ،میں ٹھٹک کر رہ گیا ، وہی 25 سال پہلے والی گلی ؛ ایک طرف چھوٹی چھوٹی اینٹوں کی شگاف زدہ دیوار، اور وہی اس شگاف میںگڑھا ہوا پیپل کا بوڑھا درخت ، جو لگتا تھا کئی زمانوں سے یہیں گڑھا ہے؛ دوسری طرف پکے مکانوں کی عقبی کھڑکیاں، روشن دان اور دُھواں اُگلتی چمنیاں، اور اُن کے درمیان بچھی یہ پتلی سی ، اُفسردہ سی ڈھلوان گلی۔ برسوں بعد آج یہ گلی دوبارہ دیکھی تو دیکھتاہی رہ گیا ۔ہم چلتے جا رہے ہیں کہ یکدم گلی ختم ہوگئی۔ اترائی پر کھیتوں کا طویل سلسلہ اور آگے تھوڑا دور دریاے جہلم صاف نظر آ رہا تھا۔ میں نے ثاقب سے کہا ، گلی تو ختم ہو گئی ۔ ہم واپس مُڑے اور چلتے چلتے دوبارہ اس گلی میں آ گئے، جہاںسے چلے تھے۔
یہ گلی فیڈآوٹ ہوئی تو منڈی بہائوالدین کی ایک گلی فیڈاِن ہو گئیں ۔ بچپن میں ایک بارکسی شادی پر منڈی بہاوالدین گئے۔ ایک تنگ سی گلی تھی ۔کونے پردلہا کا گھرتھا ، جہاں سرِشام ہی ڈھولک بجنا شروع ہو جاتی تھی۔ ابھی میرج ہالوں کا رواج نہیں ہوا تھا۔ شادی والے گھر کی مہک سے گلی کئی روز تک مہکتی رہتی تھی ۔ یہ گلی مہک رہی تھی ۔ یہ گلی آج بھی مہک رہی ہے۔ یادوں کا ایک دریچہ کھولنے کی دیرہے کہ ڈھولک بجنے لگتی ہے اور منڈی بہائوالدین کی اس گلی کی مہک آلیتی ہے ۔اور اب ایک گلی فیڈاِن ہو رہی ہے۔ ہیلے کالج کا زمانہ ء طالب علمی تھا ،جب بھمبرکے اس پار عبدالرحمان کشمیری کے گاوں گئے۔ جھٹپٹے کا وقت تھا ۔ بس سے اُتر کے تھوڑا آگے گئے تو عبدالرحمان کشمیری نے نعرہ لگایا ، ''یہ سامنے جو پہاڑ نظر آ رہا ہے ناں، اس کے دوسری طرف میرا گاوں ہے۔
رات تک پہنچ جائیں گے، ان شااللہ۔ یہاں ابھی بجلی نہیں آئی تھی، لیکن چاند کی روشنی میں اندھیرا محسوس نہیں ہورہا تھا ۔رات پوری طرح چھا چکی تھی ، جب ہم تھکے ماندے گاوں میں داخل ہوئے۔ رستے میں ایک گلی آئی ، جہاں ایک کچے مکان سے بچے کے اُونچا اُونچا رونے کی آواز آ رہی تھی ۔ پھر اس میںکسی عورت کے بین کرنے کی آواز بھی شامل ہو گئی ۔ چاروں طرف پہاڑ ہی پہاڑ، اوپر آسمان ، چاندبادلوں میں چھپ رہا تھا ، نیچے گلی میں ہمارے قدموں کی دبتی ہوئی چاپ ، پس منظر میں بچے اورعورت کے رونے کی آوازیں۔ گھر پہنچے تو معلوم ہوا کہ اس گلی میں پچھلے دنوں ایک مرگ ہو گئی تھی ۔ بچہ اور عورت اکیلے رہ گئے ہیں ۔ یہ گریہ کرتی گلی کبھی نہیں بھول سکوں گا۔
یادوں کے شہر میں گلیوں کا یہ میلہ پھیلتا چلا جا رہا ہے ؛ گجرات کی گلیاں، وزیر آباد کی گلیاں، سُکھ چین اور دریکڑی کی گلیاں، اندرون راول پنڈی اور اندرون کراچی کی گلیاں۔ پھر وہ گلیاں جہاں کبھی گیا تو نہیں ، لیکن بہت گھوما ہوں؛ شوکت صدیقی کے ناولوں کی گلیاں ، جہاں راتیں جاگتی ہیں، انتظارحسین کے افسانوں کی گلیاں ، جن میںدوپہریں ڈھلتی ہی نہیں ، اے حمید کی آپ بیتی کی گلیاں ، جہاں سرشام ہی اندھیرا چھا جاتا ہے، بادل گرجتا ہے، بجلی چمکتی ہے اور موسلادھار بارش ہونے لگتی ہے۔ گلیوںکا یہ میلہ سمٹنے پر آتا ہے ، تو صرف ایک لمحہ میں پرائمری اسکول کی چاردیواری کے گردسمٹ جاتا ہے، جہاں دن، دن ہوتا تھا ، نہ رات ، رات، بس بچپناہوتا تھا اور محلے کی یہ گلیاں ۔ ایک لمحہ، تنہا ایک چھوٹا سا لمحہ اور برس ہا برس سمٹ جاتے ہیں ۔ یہاں تک لکھ چکا تو کالم کی تنگی ِداماں کا احساس ہوا، لطیف چوہدری صاحب کی تنبیہ یاد آئی ۔ دریاے جہلم کے پار گلزارؔنے کہا تھا ؎
دل درد کا ٹکڑا ہے، پتھر کی ڈلی سی ہے
اک اندھا کنواں ہے یہ ، اک بند گلی سی ہے
اک چھوٹا سا لمحہ ہے ، جو ختم نہیں ہوتا
میں لاکھ جلاتا ہوں، یہ بھسم نہیں ہوتا