منیر نیازی‘ ایک جادوگر…

منیر نیازی کی شاعری پر اور ان کی شخصیت پر کافی کچھ لکھا جاچکا ہے اور لکھا بھی جانا چاہیے۔ منیر نیازی نے اپنے...

منیر نیازی کی شاعری پر اور ان کی شخصیت پر کافی کچھ لکھا جاچکا ہے اور لکھا بھی جانا چاہیے۔ منیر نیازی نے اپنے لیے جو لحن وضع کیا وہ نہ صرف خود اس کے کافی حد تک اسیر رہے یا ہوکر رہ گئے بلکہ انھوں نے اپنے قاری کو بھی اس میں مبتلا کرلیا۔ انھوں نے اپنی زندگی کے آخری 25 سال میں شاید ہی کوئی شعر کہا ہو۔ یہ ایک الگ بحث ہے، لیکن اگر ان کی مجموعی شاعری کو ہم 2 حصوں میں بانٹیں تو منیر نیازی کی شاعری کا ایک حصہ تو واجبی نوعیت کا ہے جس میں کوئی طمطراق نہیں ہے، جو کسی بھی شاعر کے ساتھ ہوسکتا ہے لیکن دوسرے حصے میں منیر مقبولیت خاص و عام کی حد پھلانگتے ہوئے نظر آتے ہیں اور اس وقت ان کا کوئی دوسرا ہمعصر ان کے پاس نظر نہیں آتا۔

اب عمر کے آخری برسوں میں منیر نیازی جیسے کینوس کا شاعر اگر چپ سادھ لے تو خود وہ جمود کا شکار ہوجاتا ہے، حقیقتاً بڑا شاعر کبھی خودستائی نہیں کیا کرتا کیونکہ منکسرالمزاجی کے ہوتے ہوئے یہ وصف آ نہیں سکتا، یعنی بڑا ادیب اور شاعر منکسرالمزاج ہوا کرتا ہے۔ مطالعہ نت نئے رجحانات دریافت کرنے کا نام ہے، دیگر جملہ زبانوں کا ادب ایک تحریک پیدا کیا کرتا ہے جو کسی بھی ادیب یا شاعر کو اس کو اپنے ہم عصروں سے مختلف زاویہ نظر دیا کرتا ہے، منیر مطالعہ جیسی نعمت سے محروم رہے، مگر منیر نیازی کی شاعری منیر کی اس عادت کے نہ ہوتے ہوئے بھی دوسرے شعراء سے مختلف ہے۔

افراتفری کے عالم میں جس نے نازک آنچل، بے تاب دھڑکتی ہوئی موجوں کو شعری قالب میں ڈھالا اور انسانی جذبوں کے ایسے ناگزیر پہلوؤں کو بھی شعری آہنگ دیا وہ بلاشبہ منیر ہی کا خاصہ ہے، بحیثیت قاری ہم زمانوں سے ایک بنے بنائے انداز اظہار، ایک مانوس طرز فکر اور ایک معین کردہ اسالیب اور روندے ہوئے اسلوب بیان ہی کو دیکھتے آئے ہیں۔ منیر اس معاملے میں روایت پسند ہوتے ہوئے بھی، روایت شکن نکلے۔ ان کی شاعری میں ملال کی سی کیفیت ملتی ہے، شاید اس کی ایک وجہ منیر کی زندگی سے جڑے وہ مصائب و الم ہوں جس کو جھیلتے جھیلتے زندگی تپتے ہوئے ریگزاروں میں تلملاتا ہوا وجود بن جایا کرتی ہے، ان کی شاعری میں تلملاہٹ بہت خوبصورت انداز میں بیان ہوئی ہے۔

منیر نیازی جس کیفیت کے شاعر تھے آپ یوں سمجھ لیں اس عالم آب وگل میں خواب دیکھنے والا خود خواب ہوجایا کرتا ہے۔ منیر نے بلاشبہ اپنے قاری کے دامن میں خوبصورت نظموں اور غزلوں کے پھول بھردیے، منیر اپنے ہم عصر شعراء سے الگ ہٹ کر آگے کی سمت ہی بڑھتے رہے شاید اس کی وجہ ان کی انفرادیت رہی ہو جو پھیل کر انانیت تک جا پہنچی ہو۔ منیر کی شاعری بظاہر بہت سلیس، بہت سیدھی سادی سی نظر آتی ہو مگر ان کا بین السطور منصور حلاج کے نعرہ اناالحق کی طرح گمبھیر ہے۔ انھوں نے اپنی زندگی کے تمام تر مشاہدے اپنی شاعری میں بیان کردیے ہیں، ان کی شاعری میں ایک ڈسا ہوا، سہما ہوا، لرزتا ہوا ایک شخص نظر آتا ہے جس کے لیے کہیں جائے پناہ نہیں ہے، لیکن یہ بھی تو سچ ہی ہے کہ ہر اچھا فنکار تنہا ہی ہوتا ہے، وہ کسی بھی حال میں قناعت نہیں کرسکتا، وہ اپنے گرد پھیلی اس پھنکارتی، چنگھاڑتی دنیا میں خوبصورتی کا متلاشی ہے۔ شاید اسی لیے تنہا ہے۔

میں نے کہا کہ منیر نیازی اپنے ہم عصروں سے آگے رہے، جن کی اڑانیں بہت بلندوبالا تھیں، وہ کہتے رہے، بیان کرتے رہے سب سر دھنتے رہے اور جہاں منیر نے کلام شروع کیا لوگ سر دھنتے رہے اور سوچوں میں گم ہوگئے اور ان کے ذہنوں پر منیر کا کہا ایک ایک لفظ، پانی کی اس بوند کی طرح پڑتا رہا جو بالآخر اپنے لیے چھوٹا سا گڑھا بنا لیتا ہے۔ منیر کی شاعری پڑھ کر یہ خیال تو آتا ہی ہے کہ وہ درمیانی سطح کے بڑے شاعر ہیں بلکہ خالصتاً شاعر ہیں، نہ وہ شاعر عوام ہیں نہ ہی وہ شاعر انقلاب ہیں، نہ ہی وہ کوئی قصیدہ گو واقع ہوئے ہیں، وہ سر تاپا شاعر ہیں۔ میں منیر نیازی کا ایک قاری ہونے کی حیثیت سے خواب دیکھا کرتا ہوں اور لاشعور سے تحت الشعور کے بیچ کے سفر میں ایک خوف سے ڈرے ہوئے آدمی کے خواب کچھ اسی طرح کے ہوتے ہیں، تنہا آدمی اپنے سائے سے بھی خوفزدہ رہتا ہے، لیکن عالم خوفزدگی میں رہتے ہوئے بھی منیر کہتے ہیں ''خوف میری طاقت ہے، زندگی سے بیزار کرداروں کو اپنے سامنے شور شرابا، چیختے پھنکارتے ہوئے دیکھتا ہوں''۔


منیر کی شاعری میں انسانی زندگی کے جہنمی ریگزار بھی ہیں اور بندہ بشر کی کھوئی ہوئی جنت بھی ہے، یعنی اگر ایک طرف قتل و بربریت کی وارداتیں ہیں تو دوسری جانب خیر سے آشنائیاں ہیں منیر نیازی نے جو بھی شاعری تخلیق کی اس سے پہلے اس طرح کی شاعری قارئین ادب کو پڑھنے اور سننے کو نہیں ملی۔ منیر نے ایک دفعہ کہا ''شاعروں کو نسلوں، عمروں اور جدید وقدیم کے پیمانوںسے نہ سمجھا جاسکتا ہے نہ ان خانوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے''۔ بالعموم شاعر نازک طبع واقع ہوتے ہیں ان پر ہجرتوں کے غم، اپنوں سے دوری کے رنج، فکرجاناں اور فکردوراں کے مصائب، محبتوں میں جدائی کے غم ان کو چھلکتے ہوئے پیمانے اور حد درجہ حساس بنادیتے ہیں، ایسے میں وہ بھیڑ میں بھی تنہا رہ جاتے ہیں اور یہ وہ کیفیت ہے جو ان سے ادب تخلیق کروایا کرتی ہے، ناصر کاظمی کو انبالہ چھوڑنے کا غم رہا، تو جون ایلیا کو علاقہ مردم خیز امروہہ چھوڑنے کا غم، منیر کو جوت کے غم سے لے کر غم روزگار تک ہر غم رہا اور ہر غم نے قارئین ادب کو شاہکار نظمیں اور غزلیں دیں۔

اسے زہریلی خوشبوؤں کے رنگین ہار دیتا ہوں

میں جس سے پیار کرتا ہوں اسے مار دیتا ہوں

عشق اگر قوت حیات ہے اور انسانی شخصیت کی نمومیں مثبت کردار ادا کرتا ہے تو یہ قوت فنا بھی ہے، منیر نیازی کی شاعری میں جب حسن و عشق کی منفی کیفیات سامنے آتی ہیں تو وہم سانپوںکا روپ دھارن کر لیتے ہیں اور کم سن لڑکیاں چڑیلیں بن جایا کرتی ہیں۔ منیر نیازی کی شاعری کے پس منظر میں بڑی دلآویز حسین دوشیزہ کی چھایا ہے، جس کی شرمیلی، رسیلی دمکتی آنکھوں سے شاعری چھلکتی ہے۔

دراصل منیر نیازی خود ہی جادوگر ہے، اس کی شاعری بھی ایک جادو ہے، ایک ایسا ہوشربا طلسم جو حواسوں پر چھا جاتا ہے اور پھر یہ جادو کسی بھی منظر کو بدل سکتا ہے، منیر نیازی کے یہاں حسن کا ڈر اور خوف کی علامت میں ڈھل جانا یا دہشت ناک منظر میں تبدیل ہوجانا بعض اہم نفسیاتی کیفیات کی سمت بھی اشارہ کرتا ہے، آپ منیر نیازی کے شعری مجموعوں ''تیز ہوا اور تنہا پھول'' ، ''جنگل میں دھنک'' ، ''دشمنوں کے درمیاں شاعر''، ''ماہ منیر''، ''چھ رنگین دروازے''، ''اس بے وفا کا شہر ہے'' اور ''کلیات منیر'' میں شامل باقی ماندہ نظمیں اور غزلیات اٹھاکر دیکھیے تو ایسا گمان ہوتا ہے کہ شاعری یورش آلام پر حیران و مضطرب ہونے کے ساتھ ساتھ جہاں ظلم پر خواب بن دینے کا کام ہے، ایسا نہیں کہ وہ یورش آلام کے سامنے ہتھیار ڈال دینے ہی میں عافیت سمجھتا ہے لیکن کچھ نا کرسکنے کا غم زیادہ شدت سے محسوس ہوتا ہے۔

منیر نیازی جیسا ایک مضبوط و توانا شاعر آج ہمارے درمیان نہیں، وہ صحیح معنوں میں شاعر اور صرف شاعر تھا، وہ بلاشبہ ایک legend ہیں اور شاید ان جیسا بے باک شاعر اب نا آسکے۔
Load Next Story