سید اظفر رضوی شہید علم و آگہی…

سوچتا ہوں کہ پروفیسر سید اظفر رضوی کی کن خوبیوں اور کون کون سی خدمات کا ذکر کروں تو واقعات اور الفاظ ...

سوچتا ہوں کہ پروفیسر سید اظفر رضوی کی کن خوبیوں اور کون کون سی خدمات کا ذکر کروں تو واقعات اور الفاظ کا انتخاب مشکل ہوجاتا ہے۔ وہ شخص جو اپنی ذات میں ایک انجمن تھا۔ علم و ادب کا پرستار تھا، انسانوں سے محبت کرنے والا۔ وہ صاحب اخلاق بھی تھا، رونق محفل بھی تھا، صاحب گفتار بھی تھا، وہ شفیق استاد بھی تھا، مخلص بھی تھا، محب وطن بھی تھا، جس کے سوچنے کا انداز مثبت اور تعمیری تھا، جس کو مایوسی اور ناامیدی سے کوئی واسطہ نہ تھا۔ وہ دوستوں کا دوست تھا، مگر دشمنوں کا بھی کبھی بدخواہ نہیں رہا۔ سید اظفر رضوی بنیادی طور پر ایک استاد تھے اور اس قول پر یقین رکھتے تھے کہ ''بہترین تحصیل علم وہی ہوتی ہے جس میں انسان خود اپنے ذہن کو وسعت دے کر علم حاصل کرتا ہے''۔

یہ سلیقہ انھیں ورثے میں ملا تھا، ان کے دادا پٹنہ کے معروف طبیب اور علمی و ادبی شخصیت تھے۔ نانا برصغیر پاک و ہند کے نامور عالم دین، استاد الاساتذہ علامہ تمنا عمادی تھے۔ والد سید احمد رضوی مشرقی پاکستان میں سول سروسز سے وابستہ تھے جو فرض شناس افسر اور صاحب طرز شاعر کے طور پر اپنی شناخت رکھتے تھے۔ سید اظفر رضوی نے اسی علم و ادب، تہذیب و تمدن اور سلیقہ و شائستگی کے ماحول میں پرورش پائی تھی۔ سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد ان کے اہل خانہ کو دوسری بار ہجرت کے کرب سے گزرنا پڑا۔ وہ کراچی آگئے۔

سید اظفر رضوی نے کراچی آنے کے بعد اپنی تعلیم مکمل کی اور جامعہ کراچی سے ماسٹرز کیا۔ شعر و ادب، علم و آگہی اور غور و فکر کی خاندانی روایات نے انھیں کراچی میں بھی اپنی طرف مائل رکھا۔ ڈھاکا گروپ آف انسٹی ٹیوشنز کی ابتدا بہت چھوٹے پیمانے پر مگر بڑے عزم کے ساتھ ہوئی اور پھر وہ جس تیزی سے ہر منزل طے کرتے گئے وہ ان کی محنت اور صلاحیتوں کا نتیجہ تھا جو سب پر عیاں ہے۔ وہ اپنی درس و تدریس کی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ علمی اور ادبی سرگرمیوں کے فروغ اور علم دوستی، قلم دوستی اور کتاب دوستی کے نعرے کو عام کرنے کے لیے میدان عمل میں اترے، تب ان علمی اور ادبی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لیے ڈھاکا گروپ آف انسٹی ٹیوشنز اور دائرہ ادب و ثقافت (انٹرنیشنل) کا اشتراک عمل سامنے آیا جس نے لگ بھگ ڈیڑھ عشرے میں اس شہر کراچی میں فروغ علم و ادب کی کاوشوں میں ایک نئی جان ڈال دی اور بڑی علمی و ادبی تقریبات کا سلسلہ دراز کیا جو اس شہر کی ادبی تاریخ کا ایک سنہرا باب ہے۔

دائرہ ادب و ثقافت نے کراچی اور بیرون کراچی کی معروف علمی و ادبی شخصیات کے اعزاز میں تقریب سپاس اور شام منانے کا اہتمام کیا جس میں شوکت صدیقی، جمیل الدین عالی، پروفیسر ڈاکٹر فرمان فتح پوری، ڈاکٹر اسلم فرخی، ڈاکٹر جمیل جالبی، ڈاکٹر محمد علی صدیقی، پروفیسر ڈاکٹر ابوالخیر کشفی سمیت دیگر اکابرین ادب کے نام تقریبات کا اہتمام کیا گیا۔

دائرہ ادب و ثقافت کی علمی اور ادبی کاوشوں کا مقصد محض تقریبات کا انعقاد ہی نہیں تھا بلکہ بامقصد اور ہم ترین موضوعات پر مذاکروں اور سیمینارز کے ذریعے مکالمے، گفتگو اور غوروفکر کی روایات کو آگے بڑھانا تھا، مثال کے طور پر کاروکاری، انسانی حقوق، خواتین کے حقوق، اظہار آزادی، عالمی ماحولیاتی خدشات، ادب کا عالمی کردار، تحریک پاکستان میں اہل قلم کا کردار، مذہبی انتہاپسندی، جدید نو آبادیاتی جبر و استحصال اور دیگر موضوعات پر گفتگو اور مکالمے کو آگے بڑھایا گیا۔

ایسے میں یہ حقیقت بھی احباب دائرہ ادب و ثقافت کے علم میں رہی ہے کہ بیشتر موضوعات اور مذاکروں کے اعلان پر شہر کے بعض حلقوں کی جانب سے اعتراضات اور دباؤ کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ جیسے کاروکاری کے مسئلے کے حوالے سے مذاکرے میں آٹھ مقررین شامل تھے جن میں بیشتر بیرون کراچی سے تعلق رکھتے تھے مگر وہ مذاکرے میں شریک نہیں ہوئے کہ انھیں دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ مذہبی انتہا پسندی اور اعتدال پسند معاشرے کی تشکیل جیسے موضوعات پر بھی بعض حلقوں نے برہمی اور ناپسندیدگی کا اظہار کیا مگر سید اظفر رضوی اور ان کے رفقاء نے ان نامساعد حالات کے باوجود اپنا علمی اور ادبی تحریک کا سفر جاری رکھا۔ نہ اپنی سمت بدلی نہ اپنی فکر گروی رکھی۔ دائرہ ادب و ثقافت کی ادبی سرگرمیوں میں معروف اہل قلم اور اہل دانش کی کتابوں کی رونمائی کی تقریبات کے انعقاد کا بھی ایک طویل سلسلہ دراز رہا، جس کو اہل کراچی نے بہت سراہا۔

سید اظفر رضوی واقعی ایک باکمال شخصیت کے مالک تھے، زمانے کی ڈگر سے ہٹ کر صاحب اقتدار حلقوں، بااختیار اعلیٰ عہدیداروں اور حلقہ امراء میں اپنی جگہ بنانے کے بجائے ہمیشہ اہل قلم اور اہل علم کی نیم شکستہ اوطاقوں اور بوسیدہ کتب خانوں میں اپنا وقت صرف کرنے، اہل دانش کے ہاتھ چومنے، ان کے اعزاز میں محفلیں سجانے اور علم و فن کو خراج تحسین پیش کرنے اور اہل شہر کو دعوتوں میں شریک کرنے کا سودا ان کے قلب و ذہن میں تادم مرگ سمایا رہا۔ وہ بزرگوں کے احترام کو اپنا اولین فرض سمجھتے تھے اور اکثر یہ شعر پڑھتے اور دوسروں کو بھی سنایا کرتے تھے کہ:


خوش نصیبی ادب سکھاتی ہے

با ادب با نصیب ہوتا ہے

دوسرے لفظوں میں وہ خود بھی اس شعر کی تشریح تھے۔ اس کی ایک مثال عالی جی سے سید اظفر رضوی کی محبت اور عقیدت ہے۔ عالی جی نے بھی انھیں ہمیشہ عزیز رکھا۔ سید اظفر رضوی نے عالی جی سے اپنی محبت اور عقیدت کو پوری سعادت مندی سے لفظوں میں ڈھال کر ایک یادگار کتاب ''میرے عالی جی'' تخلیق کی، جو واقعی عالی جی کی شخصیت اور ان کے بزرگوں کے کارناموں پر یہ ایک اہم دستاویز بھی ہے۔

سید اظفر رضوی کی انتھک جدوجہد اور علمی و ادبی کاوشوں اور بے لوث خدمات پر نظر ڈالیں تو ان کے لیے دل کی گہرائیوں سے دعا نکلتی ہے کہ اس دور نفسانفسی اور کتاب سے بیزاری کے دور میں سید اظفر رضوی جیسی بے ضرر، بے لوث شخصیت جس کی حب الوطنی، انسان دوستی اور ادب نوازی سے انکار ممکن نہیں اس دور پرآشوب میں بہت کم دکھائی دیتی ہے۔

افسوس صد افسوس کہ سید اظفر رضوی آج ہمارے بیچ نہیں۔ اس المیے کو کیا عنوان دیں کہ وہ اپنی آخری سانسوں تک اس شہر میں علم کی روشنی بکھیرنے کی جستجو کرتے رہے، وہ امن، محبت، مذہبی اور سماجی رواداری کے فروغ کی جستجو کرتے رہے، مگر پھر بھی اس سپوت شہر کو اپنے ہی شہر میں گولیوں کا نشانہ بننا پڑا۔

مقام غور و فکر یہ ہے کہ کوتوال شہر نے بعداز قتل شہر میں پہرے بٹھادیے، محضر نامہ تیار ہوا، تفتیش ہوئی کہ گولی کس نے چلائی، کیسے چلائی اور کب چلائی؟ مگر یہ تفتیش اور تحقیق ان قاتلوں کو گرفتار کرنے کے لیے تھی جنہوں نے سید اظفر رضوی کو اپنی گولیوں کا نشانہ بنایا۔ یہ معمول کی کارروائی ہے جو ہر سانحے کے بعد جاری رہتی ہے۔

مگر اے ساکنان شہر یہ تو بتاؤ!

اس قتل کا محضرنامہ کون تیار کرے گا جو علم و آگہی کی روشن کرنوں کا ہوا ہے؟ اس قتل کا محضرنامہ کون تیار کرے گا جو انسانی اور اخلاقی اقدار کا ہوا ہے؟ اس قتل کا محضرنامہ کون تیار کرے گا جو وضع داری، شائستگی اور میانہ روی کا ہوا ہے؟ سید اظفر رضوی سمیت اور بہت سے انسان دوست انسان اس شہر وحشت میں دہشت گردی اور بربریت کی بھینٹ چڑھ گئے۔ گولیوں سے چھلنی اور دھماکوں سے اڑا دیے گئے۔
Load Next Story