تبدیلی ایک دم نہیں آتی

میری ارکان اسمبلی اور میڈیا گروپس سے گزارش ہے کہ خدارا تبدیلی آنے دیجیے، اس کی راہ میں رکاوٹ نہ ڈالیے

میری ارکان اسمبلی اور میڈیا گروپس سے گزارش ہے کہ خدارا تبدیلی آنے دیجیے، اس کی راہ میں رکاوٹ نہ ڈالیے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

KARACHI:
الیکشن کے بعد تحریک انصاف کی حکومت آئی تو ہر طرف سے اس نعرے کی گونج سنائی دے رہی تھی کہ تبدیلی آ نہیں رہی، تبدیلی آگئی ہے۔ اور یہ بات بھی عام تھی کہ اب نئے پاکستان میں کرپشن نہیں ہوگی، نئے پاکستان میں قانون سب کےلیے برابر ہوگا، اب نئے پاکستان میں پرٹوکول نہیں ہوگا۔ لیکن بدقسمتی سے کرپشن نظر آرہی تھی، پروٹوکول نظر آرہا تھا، قانون سب کےلیے برابر نظر نہیں آرہا تھا۔ میرے جسے تشکیک کے مارے ذہنوں میں یہ شبہ تھا کہ کیا یہی تبدیلی ہے؟ یہ تو اللہ بھلا کرے بشریٰ بی بی کا جنہوں نے یہ بتایا کہ تبدیلی ایک دم نہیں آتی، تبدیلی تو آہستہ آہستہ آتی ہے۔

آخر یہ تبدیلی کی رفتار اتنی سست کیوں ہوگئی ہے؟ الیکشن سے پہلے تو تبدیلی خرگوش کی طرح دوڑتی نظر آرہی تھی لیکن حکومت بننے کے بعد تو تبدیلی نے کچھوے کا روپ دھار لیا۔ اس تبدیلی کےلیے عمران خان نے کیا کچھ نہیں کیا، حکومت میں آتے ہی انہوں نے وزیراعظم ہاؤس کی بھینسیں بیچ دیں، گاڑیاں نیلام کردیں۔ لوگوں کو پروٹوکول کے جھنجھٹ سے بچانے کےلیے ہیلی کاپٹرکا استعمال شروع کر دیا۔ لیکن پھر بھی تبدیلی سست روی کا شکار ہے۔

اس تبدیلی میں رکاوٹ کوئی اور نہیں، پی ٹی آئی کے اپنے ارکان ہیں جو آئے روز سپریم کورٹ طلب کیے جاتے ہیں۔ کوئی منشا بم کی حمایت کررہا ہے تو کوئی ڈی پی او کے تبادلے میں ملوث ہے۔ پھر سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کے ریمارکس، تبدیلی کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوتے ہیں۔ اس سب میں عمران خان کا کیا قصور؟ خان صاحب نے تو اس مقبول تھیوری پر عمل کیا تھا کہ چور کو پکڑنے کےلیے چور سے ہاتھ ملانا پڑتا ہے، ٹھگوں کو ختم کرنے کےلیے ٹھگ کا روپ دھارنا پڑتا ہے، برے سسٹم کو ختم کرنے کےلیے اس سسٹم کا حصہ بننا پڑتا ہے۔ اب بچارے خاں صاحب کو کیا پتا تھا کہ کل یہی لوگ میرے لیے مشکلات پیدا کردیں گے۔ کس کو کیا پتا اگر میں نے ہاتھ ملایا تو کل یہ لوگ میرا بازو پکڑ لیں گے۔


یہ تو سراسر زیاتی ہے، خاں صاحب کو بدنام کرنے کی سازش ہے۔ پہلے تو یہ تھا کہ اگر کوئی رہنما پی ٹی آئی میں شامل ہوتا تھا تو اس کے پہلے کے گناہ تو ختم ہو جاتے تھے اور اگلے گناہوں سے وہ توبہ کرلیتا تھا۔ لیکن اب تو صورت حال ہی مختلف ہے۔ پہلے گناہ ختم ہوئے نہیں اور ہمارے ارکان اسمبلی منشا بم کی حمایت میں مصروف ہیں۔

تبدیلی میں ایک اور بڑی رکاوٹ میڈیا گروپس ہیں۔ اب اگر حکومت نے میڈیا سے تین ماہ کا وقت مانگ ہی لیا ہے اور یہ لوگ تین ماہ خاموش رہ جائیں تو ان کا کیا جاتا ہے؟ ہمارے وزیر اطلات کہہ چکے ہیں ہم میڈیا گروپ میں انٹرٹینمنٹ پر زیادہ یقین کرتے ہیں، اب اگر میڈیا والے تین ماہ تک لوگوں کوانٹر ٹینمنٹ میں مصروف رکھیں توحکومت کا بھی بھلا ہوگا لوگ بھی خوش رہیں گے۔ یہ ضروری تو نہیں کہ ہر وقت چیف جسٹس کے ریمارکس میڈیا کی زینت بنے رہیں۔ کچھ دن پہلے بھی چیف جسٹس نے پی ٹی آئی کے خلاف ریمارکس دیئے تھے۔

میری تو ارکان اسمبلی اور میڈیا گروپس، دونوں ہی سے دست بستہ گزارش ہے کہ خدارا آپ لوگ تبدیلی کی راہ میں رکاوٹ نہ بنیے۔ تبدیلی ایک دم نہیں آتی، یہ تو آہستہ آہستہ آیا کرتی ہے۔ آپ تبدیلی کو آہستہ آہستہ چلنے دیجیے اور اللہ کا شکر ادا کیجیے کہ اس نے آپ لوگوں کو عمران خان جیسا لیڈر دیا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story