بلوچستان کے ’نئے مالک‘

دنیا بھر میں میڈیا جہاں کارپوریشن کی شکل اختیار کرلیتا ہے، وہاں یہ عوامی رائے پر اثر انداز ہی نہیں ہوتا بلکہ رائے...


عابد میر June 16, 2013
[email protected]

دنیا بھر میں میڈیا جہاں کارپوریشن کی شکل اختیار کرلیتا ہے، وہاں یہ عوامی رائے پر اثر انداز ہی نہیں ہوتا بلکہ رائے سازی میں بھی کردار ادا کرنے لگتا ہے۔ مابعد نائن الیون والی دنیا میں عالم ترین سمجھے جانے والے یورپ کے عوام کو عراق اور افغانستان سے متعلق ایک دَہائی تک حکمرانوں کے جھوٹ کے سحر میں مبتلا رکھنے کا میڈیا کا کمال ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں۔

اور یہ بھی قومیت کے نام پردکانداری کرنے والا میڈیا ہی تھا جس نے صدام حسین اور کرنل قذافی جیسے آمروں کو ناقابلِ تسخیر قومی ہیرو کے ایک ایسے سحر میں جکڑے رکھا، جس سے وہ تب تک نہ نکل پائے جب تک کہ انھیں زیر زمین غاروں اور بدبودارگٹروں میں پناہ نہ لینی پڑی۔ پاکستان میں میڈیا ابھی کارپوریٹ بننے کے مراحل میں ہے، اس لیے یہاں بھی اس نے فیصلہ سازی میں خود کوحصے دار سمجھنا شروع کردیا ہے۔ اس زعم میں بعض اوقات (شعوری طور پر یا لاعلمی کے باعث) یہ ایسی رائے عامہ ہموار کرنے میں لگ جاتا ہے، جس کا نتیجہ کسی صورت 'ہموار' نہیں ہوتا۔

بلوچستان کی قسمت کے نئے مالک، ڈاکٹر مالک بلوچ کے انتخاب پر جب انھیں بعض اخبارات میں نیلسن منڈیلا کے ہم پلہ قرار دیا گیا تواس غریب رہنما سے متعلق ہماری تشویش فطری تھی، کہ یہی وہ سیڑھی ہے جس پہ اکثر رہنمائوں کو اوپر اٹھا کر پھراپنے مقصد کے تحت ایک دم سے یہ سیڑھی کچھ یوں کھینچ لی جاتی ہے، کہ اس کے سوار کے لیے توازن قائم رکھنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو جیسا جینئس اسی سیڑھی کا شکار ہوا۔ ڈاکٹر مالک جیسے حقیقت پسند اور طبعاً منکسرالمزاج آدمی سے اس 'جال 'میں نہ آنے کی توقع تو کی جا سکتی ہے لیکن یہاں کی سیاسی تاریخ اور تجربہ یہ بتاتے ہیں کہ اقتدار کی غلام گردشوں میں داخل ہونے کے بعد آدمی اپنے خول میں نہیں رہتا، یا شاید اپنے اصل خول میں آجاتا ہے۔

بچے کے پیدا ہوتے ہی اس کی خصلتوں سے متعلق اندازوں اور پیش گوئیوں کو اچھا شگون نہیں سمجھا جاتا، ایسے ہی ایک ایسی نئی حکومت جس نے ابھی تک ٹھیک سے فائلوں کی گرد تک نہ جھاڑی ہو، اس کے مستقبل پر بات کرنا شاید کچھ اچھی بات نہ ہو۔ اور پھر ایک نوآموز لکھاری کی طرف سے ایک ایسے سیاست دان کو ، جس کا سیاسی تجربہ اس کی عمر سے زیادہ ہو، مشورہ سازی یوں بھی چھوٹا منہ اور بڑی بات لگتی ہے، لیکن کچھ خوابوں کو شیئر کرنے میں بھلا برائی بھی کیا ہے...!

بلوچستان کے اولین غیر سردار، پڑھے لکھے اور مڈل کلاس حکمران کے طور پر ڈاکٹر مالک سے جو توقعات وابستہ کی گئی ہیں، وہ اپنی جگہ... مجھے صرف کچھ ان باتوں کا تذکرہ کرنا ہے جو ایک غیر سردار، پڑھے لکھے اور مڈل کلاس حکمران کو حلف اٹھاتے ہی کرنی چاہئیں تھیں ،جو انھوں نے نہیں کیں۔

خود کوعدم تشدد والے نیلسن منڈیلا کا پیروکار بتانے والے ڈاکٹر مالک کسی زمانے میں بلوچستان کی متشدد تحریک سے متاثر رہے ہیں۔ آج جس عوامی جمہوری جدوجہد کی وہ دعویداری کررہے ہیں، کسی زمانے میں وہ اِس خطے میں عوامی جمہوری جدوجہد کے سرخیل غوث بخش بزنجوکے مخالف رہے ہیں۔ اس خطے کی اور بالخصوص ڈاکٹر مالک کی ہم عصر نسل کی سیاسی تربیت کرنے والے اس عظیم آدمی کوڈاکٹر مالک ہی کی ہم عصر نسل نے انتخابات میں مل کر ہرایا۔ عمر بھر سامراجی قوتوں کے ساتھ آہنی عزم اور استقلال سے مقابلہ کرنے والا یہ مضبوط اعصاب کا مالک اپنے سیاسی شاگردوں کے ہاتھوں شکست کو برداشت نہ کر سکا اور اسی برس چل دیا۔ وقت کا جبر ڈاکٹر مالک کو بالآخر فکر بزنجو کی راہ پہ واپس لایا۔ اُسی کی آل کے ساتھ مل کر انھوں نے ایک نئی سیاسی راہ اپنائی، جس نے انھیں بلوچستان کی تقدیر کا مالک بنادیا۔کتنا اچھا ہوتا اگر وہ حلف لینے کے بعد اسی پارلیمنٹ میں اپنے اس بزرگ کی فکر کے ناقابلِ تسخیر ہونے کا اعلان کرتے، ان کی فکر کی آبیاری کا اعادہ کرتے۔

بالخصوص بلوچستان اور کسی حد تک بیرونِ بلوچستان سول سوسائٹی کہلوانے والے این جی اوز کے اتحاد میں نیشنل پارٹی کے ہمدردوں کی خاطر خواہ تعداد ہونے کے باوجود خدا جانے ،بلوچستان کی اس پڑھی لکھی قیادت کو اس بات کا علم بھی ہوگا کہ نہیں کہ اُن کی نامزدگی کے لیے پاکستان کی ایک سو اَسی سے زائد غیرسرکاری تنظیموں نے ایک کامیاب آن لائن مہم چلائی۔ بلوچستان کے وہ تمام پڑھے لکھے دانشور جنھیں بیرونِ بلوچستان بالخصوص پنجاب میں احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، انھوں نے پنجاب کی انٹیلی جینشیاکے استفسار پہ بعض اختلافات کے باوجود وزارتِ اعلیٰ کے لیے سرداروں اور سردار نما قائدین کے مقابلے میں ڈاکٹر مالک بلوچ کے نام کی بھرپور حمایت کی۔

کتنا پسند کیا جاتا اگر وہ حلف لیتے ہی اپنی اولین تقریر میں بلوچستان کی پہلی انٹی لیکچوئل کانفرنس کے انعقاد کا اعلان کردیتے، جس میں سول سوسائٹی سمیت نہ صرف بلوچستان کے اہم دانشوروں بلکہ بلوچستان کے معاملات پر نظر رکھنے والے ملکی اور بین الاقوامی بلوچ دوست دانشوروں کو بلوچستان کے مسائل کے حل میں معاونت کی دعوت دی جاتی۔ بلوچستان اور دنیا بھر سے جمع کیے گئے منتخب دانشوروں کو ایک جگہ جمع کرکے ان سے گزارش کی جاتی کہ سر جوڑ کر بیٹھ جائیں، اور ہمیں ایک لائحہ عمل بنا کر دیں کہ وہ کون سے کام ہیں جو اس حکومت کو آیندہ پانچ برسوں میں کرنے چاہئیں، اور کون سے کام ہیں جو نہیں کرنے چاہئیں۔

حکمرانوں کو آسمان پہ بٹھانے والا میڈیا جس طرح پانچ برسوں تک ایک غیر سنجیدہ قیادت کے مضحکہ خیز بیانات کو ہنسی مذاق میں اڑاتا رہا، متوقع ہے کہ عین اسی طرح نئے حکمرانوں کی ہر بات کومدلل، تدبر ،دانائی اور فہم و فراست کا منبع بنا کر پیش کر ے گا۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ یہ فہمیدہ قیادت میڈیا کو محض خامیوں کی نشاندہی کا کہنے کی بجائے ایک ایسی میڈیا ٹیم بنا دیتی تو ہر روز انھیں ان کی خامیوں سے آگاہ کرتی رہے۔ آپ کے ہر حکم کو بجا اور باہر سب اچھا بتانے والے بہت ہوں گے،آپ کے نہ چاہتے ہوئے بھی اخبارات کی منتخب خبروں اور پسندیدہ لکھاریوں کے 'واہ واہ ' سے بھرے تبصروں کی کٹنگز والی فائلز کے ذریعے یہ آپ کے گرد ایسا جال بُن دیں گے ،جہاں سے باہر کی حقیقی تصویر آپ کو تب تک نظر نہیں آئے گی ، جب تک آپ سی ایم ہائوس سے نکل کرکبیر بلڈنگ کے عوامی سید ہوٹل پہ کارکنوں کے ساتھ بیٹھ کرچائے پینے واپس نہیں آجاتے۔ اس لیے بہتر ہوتا کہ پہلے ہی دن سے ایک ایسی ٹیم بنا دی جاتی جو ہر روز دفتر پہنچتے ہی آپ کی ٹیبل پر گزشتہ روز کی غلطیوں اور خامیوں کی تفصیل پیش کر دیتی ، تاکہ اس کی روشنی میں نئے دن کا آغاز ہو سکے۔

جس وقت بلوچستان کی نئی مڈل کلاس قیادت صوبے کی مالکی کا حلف لے رہی تھی، عین اُسی روز بلوچستان میں دو مزید مسخ شدہ لاشیں پھینک دی گئیں۔

کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ پائلو کوہلوکو شوق سے پڑھنے والے مطالعے کے رسیا ڈاکٹر مالک بلوچ اپنی اس عادت کو ہی برقرار رکھ سکیں۔ سرکاری امور میں دن بھر وہ خواہ پندرہ گھنٹے گزاریں یا اٹھارہ گھنٹے، لیکن ہر روز ایک گھنٹے کے مطالعے کی بدپرہیزی نہ کریں۔ اور اگر یہ عادت برقرار ہو تو کیا ہی اچھا ہو کہ وہ اپنے پیش رو نیلسن منڈیلا کی آپ بیتی 'لانگ واک ٹو فریڈم ' ایک بار پھر پڑھ لیں۔ منڈیلا کا یہ عام فہم جملہ تو ان کے ہر کارکن کی گفتگو کا لازمی حصہ ہوتا ہے کہ علم وہ طاقت ور ترین ہتھیار ہے ، جس سے آپ دنیا کو تبدیل کر سکتے ہیں، لیکن محض ان کی یاددہانی کے لیے اسی منڈیلا کی آپ بیتی میں سے اس کا یہ جملہ دہرائے دیتا ہوںکہ،''ایک اچھا قائد یہ جانتے ہوئے بلاتکلف اور مکمل طور پرمباحثے میں شامل ہوتا ہے کہ بالآخر اس کے نتیجے میں وہ اور فریقِ مخالف ایک دوسرے کے قریب آجائیں گے اور یہ انھیں مضبوط بنائے گا،لیکن جب تک آپ متکبر،سطحی اور لاعلم ہیں،یہ خیال آپ کے ذہن میں نہیں آتا ۔''

امید ہے بلوچی کے اس اچھے افسانہ نگار کو اقتدار کی غلام گردشوں کے تجربے میں کچھ اچھی کہانیوں کے 'پلاٹ' ضرور مل پائیں گے۔ اس کے لیے اُن کے اچھے قاری، پانچ برس تک ان کی واپسی کا انتظار کر لیں گے!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں