سعودی عرب میں پاکستان کو کرپٹ ملک کے طور پر پیش کیا گیامولانا فضل الرحمان
عمران خان نے سعودی عرب میں پاکستان کی جو پوزیشن دکھائی ہے ایسا کوئی احمق انسان بھی نہیں کر سکتا، مولانا فضل الرحمان
جمیعت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ سعودی عرب میں پاکستان کو ایک کرپٹ ملک کے طور پر پیش کیا گیا ایسا کوئی احمق انسان بھی نہیں کر سکتا۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے جمیعت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب میں پاکستان کو ایک کرپٹ ملک کے طور پر پیش کیا گیا، عمران خان نے سعودی عرب میں پاکستان کی جو پوزیشن دکھائی ہے ایسا کوئی احمق انسان بھی نہیں کر سکتا، انہوں نے پاکستان کو ایک قلاش، بدعنوان اور دیوالیہ ملک کی حیثیت سے پیش کیا تاہم قوم سے خطاب کے دوران وہ اس طرح بات کررہے تھے جیسے کشمیر فتح کرکے آئے ہوں۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ وزیراعظم جعلی ہیں ان کے پاس مینڈیٹ نہیں، وہ دھمکیاں نہ دیں، یہ احتساب نہیں سیاسی انتقام ہے جو مخالفین سے لیا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ رابطے آخری مراحل میں ہیں، جمہوری نظام کے تحفظ کے لیے مل کر ملک کو بچائیں گے۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ سابق حکومت میں ڈالر 106 روپے پر رہا لیکن اب خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ یہ 150 روپے تک جاسکتا ہے جب کہ جولائی سے ستمبر تک براہ راست سرمایہ کاری میں کمی آگئی ہے۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے جمیعت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب میں پاکستان کو ایک کرپٹ ملک کے طور پر پیش کیا گیا، عمران خان نے سعودی عرب میں پاکستان کی جو پوزیشن دکھائی ہے ایسا کوئی احمق انسان بھی نہیں کر سکتا، انہوں نے پاکستان کو ایک قلاش، بدعنوان اور دیوالیہ ملک کی حیثیت سے پیش کیا تاہم قوم سے خطاب کے دوران وہ اس طرح بات کررہے تھے جیسے کشمیر فتح کرکے آئے ہوں۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ وزیراعظم جعلی ہیں ان کے پاس مینڈیٹ نہیں، وہ دھمکیاں نہ دیں، یہ احتساب نہیں سیاسی انتقام ہے جو مخالفین سے لیا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ رابطے آخری مراحل میں ہیں، جمہوری نظام کے تحفظ کے لیے مل کر ملک کو بچائیں گے۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ سابق حکومت میں ڈالر 106 روپے پر رہا لیکن اب خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ یہ 150 روپے تک جاسکتا ہے جب کہ جولائی سے ستمبر تک براہ راست سرمایہ کاری میں کمی آگئی ہے۔