انگریزی نصاب اور طریقہ تعلیم کاازسرنو جائزہ لینے کی ضرورت
ہر سال بی اے میں 50 فیصد سے زائد طلبہ صرف انگریزی کے مضمون میں فیل ہو جاتے ہیں
انگلش ایک بین الاقوامی اور پاکستان میں تیزی سے نفوس پذیر ہونے والی زبان ہے۔
پاکستانی قوم دنیا بھر میں انگلش بولنے والی 9 ویں جبکہ ایشیا کی تیسری بڑی قوم ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا بڑا ملک پاکستان اس وقت شرح خواندگی اور تعلیمی ترقی کے اعتبار سے دنیا بھر کے257 ممالک میں سے پہلے 100 ممالک میں بھی شمار نہیں ہوتا۔ اگر ہم اپنے ملک کی شرح خواندگی کا مقابلہ خطے کے دیگر ممالک سے کریں تو ہمیں اپنی پسماندگی پر شرمندگی کا احساس ضرور ہوگا۔ بدقسمتی سے پاکستان میں روز اول سے ہی تعلیمی اور سماجی امور پر بہت کم توجہ دی گئی۔ پاکستان کا شمار دنیا کے ان 8 ممالک میں ہوتا ہے جہاں کل ناخواندہ افراد کا دو تہائی بستا ہے۔ شرح خواندگی کے اعتبار سے سارک کے خطے میں انڈیا، بنگلہ دیش، اور سری لنکا تک پاکستان سے آگے ہیں۔ اقتصادی سروے برائے 2010-11 کے مطابق پاکستان میں شرح خواندگی 58.5 ہے۔
پاکستان میں جو لوگ تعلیم حاصل کررہے ہیں، ان کی بھی شرح اگر دیکھی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں بالخصوص کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر پاسنگ کی شرح انتہائی کم ہے جو پالیسی میکرز، پالیسی پلانرز اورماہرین تعلیم کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ پنجاب یونیورسٹی سے ہر سال ڈیڑھ لاکھ کے لگ بھگ طلبہ بی اے کا امتحان دیتے ہیں مگر ان میں کامیاب ہونے والوں کی تعداد40 فیصد بھی نہیں ہوتی۔ ناکام ہونے والوں میں بڑی تعداد ایسی ہے جو انگلش کے مضمون میں فیل ہوتے ہیں اور کئی تو تواتر کے ساتھ اس مضمون میں ناکام ہوتے چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ وہ مایوس ہوکر تعلیم کو خیرباد کہہ دیتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق صرف 5 فیصد طلباء ہی پوسٹ گریجویٹ سطح تک پہنچ پاتے ہیں اور جو پاس ہوتے ہیں وہ اچھے تعلیمی اداروں میں داخلے کے قابل بھی نہیں ہوتے۔ ناکامی کی یہ بڑھتی ہوئی شرح اور اس سے مایوس ہوکر طلبہ کی کثیر تعداد کا تعلیم کو خیرباد کہہ دینا ، نہ صرف طلباء کے کیرئیر کو تباہ کررہا ہے بلکہ یہ ایک طرح سے قومی نقصان بھی ہے۔ ان حالات کا ذمہ دار کون ہے؟ اور نتائج کو کیسے بہتر کیا جاسکتا ہے، پالیسی سازوں نے آج تک اس پر غور کرنے کی جسارت ہی نہیں کی۔
کہا تو یہ جاتا ہے کہ تعلیم ہر فرد کا بنیادی حق ہے مگر نصاب کی صورت میں اس کا استحصال بھی جاری ہے۔ کوئی بھی تعلیمی نظام اور نصاب نہ صرف ایک سوچ بلکہ معاشرہ، تہذیب اور قوم غرض سبھی کو اپنے انداز میں ڈھالنے کی کوشش کرتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارے ارباب اختیار نے وطن عزیز کی سیاست، آئین اور معاشرت کے ساتھ ساتھ ہماری تاریخ اور تہذیب حتیٰ کہ ہماری تعلیم کو بھی تباہ کر دیا ہے۔ ہمارا نصاب تعلیم معاشرے، حالات اور طالبعلم کی سوچ سے موافقت نہیں رکھتا اور تعلیمی میدان میں پیچھے رہ جانا بھی اسی کا شاخسانہ ہے۔ پاکستان کے نصاب تعلیم میں اصلاح اور تبدیلی کی بہت گنجائش موجود ہے۔ آج ہمارے ہاں سب سے بڑا ظلم ہی تعلیم کے نام پر ہورہا ہے۔ ہمیں جو تعلیم دی جارہی ہے اور جو تربیت ہماری ہورہی ہے وہ آج بھی ہمارے مقصد حیات سے متصادم ہے۔
ہمارا نظام تعلیم کانٹے بورہا ہے تو پھر ہماری نسلوں کے دامن خالی ہی رہیں گے، جس تعلیم کی کوئی سمت نہ ہو اور جو تعلیم کوئی مقصد نہ رکھتی ہو وہ فرد کو کیا سنوارے گی اور معاشرے کو کیا دے گی؟ آج جہاں ہماری ترجمانی اجنبی زبانیں کررہی ہیں وہیں ہماری تصویر بھی ہماری تاریخ کا منہ چڑا رہی ہے...اور ہم تماشائی بن کر اپنی اقدار کا قتل اور اپنی تہذیب کی تذلیل دیکھ رہے ہیں۔ ہماری توقیر، تکریم اور تحفظ ہمارے اپنے تشخص میں ہے، ہمارے نہ تو کوئی عقائد ہیں اور نہ ہی نظریات ، تشخص اور پہچان۔ ہم باشعور ہوتے ہوئے بھی مسلسل آگے بڑھتے جارہے ہیں اور ہر قدم پر بربادی ہمارا استقبال کررہی ہے۔
پاکستان میں تعلیم کا شعبہ جس زبوں حالی کا شکار ہے اس کا اندازہ اس صورتحال سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ پرائمری سطح پر ہی تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کی تعداد مڈل، اور بعد ازاں کالج تک پہنچتے پہنچتے آدھی سے بھی کم رہ جاتی ہے۔ کالج اور یونیورسٹی کی سطح تک پہنچنے والے طلبہ و طالبات سہانے سپنوں اور بہت شوق کے ساتھ ڈگری کے حصول کے لئے آتے ہیں مگر ایک بڑی تعداد بالخصوص انگلش کے مضمون میں ناکامی اور بعدازاں متواتر ناکامی کی وجہ سے ڈگری کی تگ و دو چھوڑ کر تعلیم کو خیر باد کہہ دیتے ہیں۔
المیہ تو یہ ہے کہ اکثر ڈگری کالجوں کے نتائج صفر فیصد سے آگے ہی نہیں بڑھتے کیونکہ ایک تو انگریزی پڑھانے والے اساتذہ ہی ناپید ہیں اور دوسری وجہ طلبہ کا انگریزی کے مضمون میں فیل ہوجانا ہے۔ صفر نتائج پر ان اداروں کے سربراہان کے خلاف کارروائی تو کی جاتی ہے مگر مسئلے کا اصل حل تلاش کرنے کی جانب توجہ نہیں دی جاتی۔ انٹرمیڈیٹ اور بی اے کی انگلش طلبہ کی ذہنی سطح کو مدنظر رکھ کر بنائی ہی نہیں گئی جس کا ثبوت ہر سال 50 سے60 فیصد سے زائد طلباء کا فیل ہونا ہے۔ اس تمام صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان کا تعلیمی ماحول قومی وحدت اور ملی ہم آہنگی کا شعور و جذبہ پیدا کرنے میں 100 فیصد ناکام رہا ہے، حقائق کو بالائے طاق رکھ کر ہم الزام ہمیشہ اپنے ایجوکیشن سسٹم اور اساتذہ کو دیتے ہیں۔ نصاب میں غیر ضروری مواد کی وجہ سے آج بی اے پاس کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف بن چکا ہے۔
پنجاب یونیورسٹی میں گذشتہ تعلیمی سیشن میں بی اے کا امتحان دینے والوں کی مجموعی تعداد 143750 تھی جن میں سے 57,284 طلباء کامیاب ہوسکے ، یعنی کامیابی کا تناسب صرف 39 فیصد رہا۔ اس سے پیوستہ سال بی اے کا امتحان دینے والے طلبہ کی تعداد 172,000 تھی جبکہ کامیابی کا تناسب بھی قابل ذکر نہیں تھا۔ ان دونوں سالوں کا اگر موازنہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ گذشتہ سال کی نسبت اس مرتبہ بی اے کا امتحان دینے والوں کی تعداد میں 28 ہزار طلبہ کی کمی واقع ہوئی ہے۔ یاد رہے کہ ناکامی کے اس تناسب میں ابھی دیگر یونیورسٹیوں اور دوسرے صوبوں کے نتائج کو شامل نہیں کیا گیا۔ اسی طرح انٹرمیڈیٹ کی سطح پر اگر جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ لاہور بورڈ میں 2012 ء کے انٹرمیڈیٹ کے امتحانات میں 151,646 میں سے صرف 86,213 طلباء پاس ہوسکے۔ 65,433 طلباء کے حصے میں ناکامی آئی، اس سے قبل 2011ء میں کامیابی کی شرح 46 فیصد رہی، ملتان بورڈ کے امتحانات میں کامیابی کی شرح 50.12 جبکہ راولپنڈی بورڈ کا نتیجہ 50.22 فیصد رہا۔ یہاں بھی فیل ہونے والے طلباء میں زیادہ تر تعداد انگلش میں ناکامی والوں کی تھی۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ یہاں طلبہ کو روزِ اول ہی سے انگریزی تو پڑھائی جارہی ہے مگر طلباء خود کو صرف رٹے بازی تک محدود رکھے ہوئے ہیں۔ ہمارے طلبہ انگلش سمجھنے کی بجائے اسے محض پاس کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ طالبعلموں کا زیادہ وقت زبان کی گرائمر، لغت سیکھنے اور سبق کو رٹنے میں صرف ہونے لگا ہے۔ ہمیں میٹرک پاس کرنے کیلئے بھی انگلش کی گائیڈوں اور خلاصوں کو سہارا لینا پڑتا ہے۔ پنجم کے بعد ہم پارٹس آف اسپیچ اور Tenses سیکھنے پر لگتے ہیں تو بی اے تک سیکھتے ہی چلے جاتے ہیں۔ مگر نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بی اے میں پہنچنے اور آٹھ سال مسلسل انگلش کو رٹا لگانے کے باوجود بھی ہم ٹھیک طریقے سے انگلش نہ تو بول پاتے ہیں اور نہ ہی سمجھ نہیں پاتے ہیں ، ہمیں معلوم ہی نہیں ہوتا کہ Noun ، پرونائون ، Verb وغیرہ کیا ہوتے ہیں ، ان کی پہچان کیا ہے حالانکہ ہم نے 8 سال انگلش گائیڈز اور گرامروں سے مغز کھپائی کی ہوتی ہے مگر ہم اس کی بنیاد (Basics) بھی بتانے کے قابل نہیں ہوتے۔
ہم انگلش سمجھنے کیلئے مختلف اداروں میں داخلہ لیتے ہیں مگر انگلش پر کمانڈ یا دسترس حاصل نہیں کرپاتے۔ جو انگلش ہم 8 سالوں میں نہ سیکھ پائے وہ 3 یا 6 ماہ میں بھلا کیا سیکھ پائیں گے۔ ہم جتنی مرضی یونیورسٹیاں اور کالج بنالیں ، ان کا اس وقت تک کوئی فائدہ نہیں جب تک نصاب کو آسان اور حالات کے مطابق نہیں کیا جاتا۔ ریسرچ کے بعد یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ پاکستانی طلبہ، کالج انتظامیہ، امتحانی عملے اور بورڈ حکام کیلئے سب سے برا دن وہ ہوتا ہے جس روز کسی بھی جماعت کا انگریزی کا پرچہ ہوتا ہے۔ سب کو ڈر ہوتا ہے کہ آج نقل زیادہ ہوگی، امتحانی کیس زیادہ بنیں گے، طلباء کے نتائج کی شرح نیچے گرے گی وغیرہ وغیرہ۔ انگلش میں طلباء کی ایک بڑی تعداد کا ناکام ہوجانا ارباب اختیار کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ انھیں اس کا حل سوچنا چاہئے۔
مقام افسوس یہ بھی ہے کہ پاکستان جنوبی ایشیا کا سب سے ناخواندہ ملک ہے جو 1947 ء سے آج تک 14 سے زائد تعلیمی پالیساں دیکھ چکا ہے مگر آج تک یہاں کوئی مستقل اور مستند تعلیمی پالیسی نہیں بن سکی اور نہ ہی نصاب میں کوئی تحقیق وترقی ہو سکی۔ ہم تعلیمی زبوں حالی کا شکار کیوں ہیں، اس کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ ہم نے بین الاقوامی دوڑ میں شامل ہونے کے لالچ میں اپنے ہی طلبہ کیلئے مشکلات کے پہاڑ کھڑے کردیئے ہیں۔ انگریزی کی افادیت سے انکار نہیں۔ اگر ہم انگلش سیکھیں اور پڑھیں گے تو اس سے ہماری قومی یا مادری حیثیت پر کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ یہ ہماری قومی، تعلیمی اور عالمی ضرورت بن چکی ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر ہم نے ترقی کے زینے پر قدم رکھنا اور دنیا کے ساتھ چلنا ہے تو اسی سسٹم کو اپنانا ہوگا جو عالمی معیار کو چھوتا ہو اور ہمیں ان علوم تک رسائی دے جو عملی زندگی میں ہماری مدد کرسکیں۔
پاکستان کے ہر سطح کے طلبہ کی ایک بڑی تعداد کیلئے انگلش میں پاس ہونا ایک مشکل ہدف ہے تاہم بی اے کے طلباء کیلئے اس مضمون کا لازمی حیثیت سے ہونا یا کم از کم اس کے مندرجات ایک اضافی بوجھ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے تقریباً 60 فیصد بچے انگلش کے مضمون میں کمزور ہیں۔ انٹر اور گریجویشن لیول پر انگلش میں سپلی آنے کی بڑی وجہ بھی یہی ہے کہ انگلش کا مضمون ان کی ذہنی سطح کو مدنظر رکھ کر تیار نہیں کیا جاتا۔ ہمارے دیہاتوں میں موجود طلبہ جو عموماً میٹرک تک اردو میں تعلیم حاصل کرتے ہیں انھیں کالج میں یکسر انگلش کتب پڑھنی پڑیں تو مشکل ہوتی ہے اور یہ امر نتائج کی خرابی اور تعلیم سے فرار کا ذمہ دار بھی بنتا ہے۔
ماضی میں اگرچہ نصاب کی تبدیلی کی کوششیں کی گئیں مگر وہ ناکام اس لئے ہوئیں کیونکہ معاشرے کی ضرورت کے مطابق نہیں تھیں، کسی نے اسے طلبہ کی ذہنی سطح کے مطابق ڈھالنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ طلبہ مایوسی اور بیچارگی کی کیفیت میں مبتلا ہیں جس سے نکالنے کیلئے انٹر اور بی اے کی سطح پر انگلش کا نصاب فی الفور تبدیل ہونا چاہئے۔ یہ خیبر سے کراچی تک ہر طالبعلم کے دل کی آواز ہے۔ طلباء کو اس صورتحال سے نکالنے کیلئے یہ اقدام کرنا لازم ہے۔ نصاب تعلیم کو تبدیل کرلینے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ہم دیگر ممالک سے ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جائیں گے یا کسی کے ساتھ ہمارے تعلقات خراب ہوجائیں گے۔ تمام مسائل کا حل ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے۔ بین الاقوامی معیار کے مطابق تعلیم اگرچہ ایک ضروری امر ہے لیکن چند تبدیلیاں کرلینے سے اس کے معیار میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہمارا مطمع نظر یہ ہونا چاہئے کہ ہم نے اپنے نصاب تعلیم کے بل بوتے پر ہی دنیا میں اپنا لوہا منوانا ہے۔
ہم نے اپنے طلباء کیلئے مشکل نہیں آسانی پیدا کرنی ہے۔ اپنی بقا کی جنگ ہمیں خود لڑنی ہے۔ اپنی بقا کی جنگ میں مشکل فیصلے کرنے والی قومیں ہمیشہ سرخرو ہوتی ہیں۔ پاکستان میں اس وقت انٹر اور بی اے کی سطح پر انگلش کا جو نصاب رائج ہے اس میں تقریباً تمام کریکٹر غیرملکی ہیں جبکہ تمام اسباق اورشاعری (Poems) میں بھی ملکی، معاشرتی ، اخلاقی یا اسلامی حوالے سے کوئی بات موجود نہیں۔ انٹرمیڈیٹ میں مسٹر چپس ... اور بی اے میں اولڈ مین اینڈ دی سی اور دیگر مضامین میں کوئی بھی مواد ایسا نہیں جو ہمارے طلباء کے بچپن یا ان کی سابقہ کلاسوں کے انگلش کے نصاب ماحول یا طلباء کی ذہنی سطح سے مطابقت رکھتا ہو۔ ہمارے طلبہ بچپن سے اپنے بڑوں سے عالمی، اسلامی اور قومی قائدین کے واقعات اور معلوماتی کہانیاں سنتے اور دیگر نصابی کتب سے انہی کریکٹرز کا مطالعہ کرتے چلے آرہے ہیں۔ حضور نبی کریمﷺ ، قائداعظمؒ ، علامہ اقبالؒ، مشاہیر اور آزادی کے ہیروں اور اسلامی قائدین ، تاریخی جگہوں اور ایسے ہی دیگر کے بارے میں پڑھتے اور سنتے چلے آرہے ہیں۔
مگر بڑی کلاسز میں یک دم غیرملکی ہیروز اور کریکٹرز کا کثرت کے ساتھ مطالعہ ان میں بیزاری پیدا کررہا ہے کیونکہ ماضی میں طلباء کا ان کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں رہا ہوتا۔ اگر یہ مضامین محدود ہوں تو زیادہ مشکل نہیں ہوتی لیکن ان کا طوالت کے ساتھ اور لازمی حیثیت سے نصاب میں شامل ہونا طلبہ کو مشکل میں ڈالے ہوئے ہے۔ دوسری جانب ہمارے طلباء کی ایک بڑی تعداد پسماندہ علاقوں (دیہاتوں) سے تعلق رکھتی ہے جہاں اردو ،پنجابی اور علاقائی زبانوں کا استعمال زیادہ ہوتا ہے۔ ان طلباء کیلئے انگلش کے مضمون کو سمجھنا اور اسے اپنے ذہنوں میں منتقل کرنا ناممکن کی حیثیت رکھتا ہے۔ ان کیلئے انگلش ناپسندیدہ مضمون تو نہیں مگر اس کے مندرجات / موضوعات ذہنی سطح سے مبراء ہیں۔ ان کیلئے ایک غیرملکی کریکٹر کو پڑھنا، سمجھنا اور اَزبر کرنا اتنا آسان نہیں جتنا اس کریکٹر حالات زندگی کو ازبر کرنا ہے جس کا ذکر ہم بچپن سے پڑھتے اور سنتے آرہے ہیں۔
پالیسی میکرز اور پلانرز کیلئے یہ صورتحال لمحہ فکریہ ہے۔ یہ صورتحال نہ صرف طلباء کے کیرئیر کو تباہ کررہی ہے بلکہ انھیں تعلیم سے بھی راہ فرار اختیار کرنے پر مجبور کررہی ہے۔ ہمارے نزدیک طلباء کو اس مشکل سے نکالنے کا ایک حل موجود ہے۔ نصاب میں مشاہیر آزادی ، قومی و اسلامی ہیروز اور طلباء کی ذات سے وابستہ کریکٹرز یا ان کی دلچسپی سے متعلقہ روزمرہ موضوعات کو شامل کیا جائے اور کچھ نہیں تو کم از کم انٹر کی انگلش میں مسٹر چپس کی جگہ پر حضرت محمدؐ کے حالات زندگی، اخلاق و کردار ، تعلیمات اور دیگر پہلوئوں پر مشتمل ایک مکمل ناول شامل اور بی اے کی انگلش میں ناول اولڈ مین کی جگہ خلفائے راشدین یا چند صحابہؓ کا تفصیلی تذکرہ شامل کیا جائے جو ان کی زندگی کے تمام پہلوئوں کا احاطہ کرے تاکہ طلبہ میں اپنے راہبروں ، معتقدین ، متعلقین اور مقصد حیات سے آگاہی پیدا ہو۔
اگر اس کی توفیق نہیں ہوتی تو کم از کم قائداعظمؒ یا علامہ اقبالؒکی مکمل سوانح حیات کو اس کی جگہ شامل کیا جاسکتا ہے۔ جن سیاستدانوں ، علماء کرام یا سوشل سیکٹر سے تعلق رکھنے والے نمایاں افراد نے ملک کیلئے گرانقدر خدمات سرانجام دی ہیں انھیں بھی خراج تحسین پیش کرنے کے ضمن میں نصابی مضامین کا حصہ بنایا جاسکتا ہے۔ ہماری اپنی تاریخ و شخصیات اور ماڈل ہیں۔ ''ہیرو ازم'' کی تشریح تبدیل نہیں ہونی چاہئے۔ مسلمان اساتذہ کی ایک بڑی تعداد ماڈل شخصیات کے طور پر تاریخ کا حصہ ہیں۔ طلبہ کو ایسا ماحول فراہم کیا جائے تو ناکامی کا تناسب نمایاں طور پر کم ہوگا، شرح خواندگی میں بھی اضافہ ہوگا اور کوئی بھی طالبعلم تعلیم سے نہیں بھاگے گا۔ نوجوان مستقبل کے درخشندہ ستارے ہیں اور قوم کو ان سے بڑی امیدیں وابستہ ہیں اور اگر یہی مایوس ہوکر تعلیم کو چھوڑنے لگ گئے تو وہ وقت دور نہیں جب ہم شرح خواندگی میں آخری نمبر پر پہنچ جائیں گے۔
پاکستانی قوم دنیا بھر میں انگلش بولنے والی 9 ویں جبکہ ایشیا کی تیسری بڑی قوم ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا بڑا ملک پاکستان اس وقت شرح خواندگی اور تعلیمی ترقی کے اعتبار سے دنیا بھر کے257 ممالک میں سے پہلے 100 ممالک میں بھی شمار نہیں ہوتا۔ اگر ہم اپنے ملک کی شرح خواندگی کا مقابلہ خطے کے دیگر ممالک سے کریں تو ہمیں اپنی پسماندگی پر شرمندگی کا احساس ضرور ہوگا۔ بدقسمتی سے پاکستان میں روز اول سے ہی تعلیمی اور سماجی امور پر بہت کم توجہ دی گئی۔ پاکستان کا شمار دنیا کے ان 8 ممالک میں ہوتا ہے جہاں کل ناخواندہ افراد کا دو تہائی بستا ہے۔ شرح خواندگی کے اعتبار سے سارک کے خطے میں انڈیا، بنگلہ دیش، اور سری لنکا تک پاکستان سے آگے ہیں۔ اقتصادی سروے برائے 2010-11 کے مطابق پاکستان میں شرح خواندگی 58.5 ہے۔
پاکستان میں جو لوگ تعلیم حاصل کررہے ہیں، ان کی بھی شرح اگر دیکھی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں بالخصوص کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر پاسنگ کی شرح انتہائی کم ہے جو پالیسی میکرز، پالیسی پلانرز اورماہرین تعلیم کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ پنجاب یونیورسٹی سے ہر سال ڈیڑھ لاکھ کے لگ بھگ طلبہ بی اے کا امتحان دیتے ہیں مگر ان میں کامیاب ہونے والوں کی تعداد40 فیصد بھی نہیں ہوتی۔ ناکام ہونے والوں میں بڑی تعداد ایسی ہے جو انگلش کے مضمون میں فیل ہوتے ہیں اور کئی تو تواتر کے ساتھ اس مضمون میں ناکام ہوتے چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ وہ مایوس ہوکر تعلیم کو خیرباد کہہ دیتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق صرف 5 فیصد طلباء ہی پوسٹ گریجویٹ سطح تک پہنچ پاتے ہیں اور جو پاس ہوتے ہیں وہ اچھے تعلیمی اداروں میں داخلے کے قابل بھی نہیں ہوتے۔ ناکامی کی یہ بڑھتی ہوئی شرح اور اس سے مایوس ہوکر طلبہ کی کثیر تعداد کا تعلیم کو خیرباد کہہ دینا ، نہ صرف طلباء کے کیرئیر کو تباہ کررہا ہے بلکہ یہ ایک طرح سے قومی نقصان بھی ہے۔ ان حالات کا ذمہ دار کون ہے؟ اور نتائج کو کیسے بہتر کیا جاسکتا ہے، پالیسی سازوں نے آج تک اس پر غور کرنے کی جسارت ہی نہیں کی۔
کہا تو یہ جاتا ہے کہ تعلیم ہر فرد کا بنیادی حق ہے مگر نصاب کی صورت میں اس کا استحصال بھی جاری ہے۔ کوئی بھی تعلیمی نظام اور نصاب نہ صرف ایک سوچ بلکہ معاشرہ، تہذیب اور قوم غرض سبھی کو اپنے انداز میں ڈھالنے کی کوشش کرتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارے ارباب اختیار نے وطن عزیز کی سیاست، آئین اور معاشرت کے ساتھ ساتھ ہماری تاریخ اور تہذیب حتیٰ کہ ہماری تعلیم کو بھی تباہ کر دیا ہے۔ ہمارا نصاب تعلیم معاشرے، حالات اور طالبعلم کی سوچ سے موافقت نہیں رکھتا اور تعلیمی میدان میں پیچھے رہ جانا بھی اسی کا شاخسانہ ہے۔ پاکستان کے نصاب تعلیم میں اصلاح اور تبدیلی کی بہت گنجائش موجود ہے۔ آج ہمارے ہاں سب سے بڑا ظلم ہی تعلیم کے نام پر ہورہا ہے۔ ہمیں جو تعلیم دی جارہی ہے اور جو تربیت ہماری ہورہی ہے وہ آج بھی ہمارے مقصد حیات سے متصادم ہے۔
ہمارا نظام تعلیم کانٹے بورہا ہے تو پھر ہماری نسلوں کے دامن خالی ہی رہیں گے، جس تعلیم کی کوئی سمت نہ ہو اور جو تعلیم کوئی مقصد نہ رکھتی ہو وہ فرد کو کیا سنوارے گی اور معاشرے کو کیا دے گی؟ آج جہاں ہماری ترجمانی اجنبی زبانیں کررہی ہیں وہیں ہماری تصویر بھی ہماری تاریخ کا منہ چڑا رہی ہے...اور ہم تماشائی بن کر اپنی اقدار کا قتل اور اپنی تہذیب کی تذلیل دیکھ رہے ہیں۔ ہماری توقیر، تکریم اور تحفظ ہمارے اپنے تشخص میں ہے، ہمارے نہ تو کوئی عقائد ہیں اور نہ ہی نظریات ، تشخص اور پہچان۔ ہم باشعور ہوتے ہوئے بھی مسلسل آگے بڑھتے جارہے ہیں اور ہر قدم پر بربادی ہمارا استقبال کررہی ہے۔
پاکستان میں تعلیم کا شعبہ جس زبوں حالی کا شکار ہے اس کا اندازہ اس صورتحال سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ پرائمری سطح پر ہی تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کی تعداد مڈل، اور بعد ازاں کالج تک پہنچتے پہنچتے آدھی سے بھی کم رہ جاتی ہے۔ کالج اور یونیورسٹی کی سطح تک پہنچنے والے طلبہ و طالبات سہانے سپنوں اور بہت شوق کے ساتھ ڈگری کے حصول کے لئے آتے ہیں مگر ایک بڑی تعداد بالخصوص انگلش کے مضمون میں ناکامی اور بعدازاں متواتر ناکامی کی وجہ سے ڈگری کی تگ و دو چھوڑ کر تعلیم کو خیر باد کہہ دیتے ہیں۔
المیہ تو یہ ہے کہ اکثر ڈگری کالجوں کے نتائج صفر فیصد سے آگے ہی نہیں بڑھتے کیونکہ ایک تو انگریزی پڑھانے والے اساتذہ ہی ناپید ہیں اور دوسری وجہ طلبہ کا انگریزی کے مضمون میں فیل ہوجانا ہے۔ صفر نتائج پر ان اداروں کے سربراہان کے خلاف کارروائی تو کی جاتی ہے مگر مسئلے کا اصل حل تلاش کرنے کی جانب توجہ نہیں دی جاتی۔ انٹرمیڈیٹ اور بی اے کی انگلش طلبہ کی ذہنی سطح کو مدنظر رکھ کر بنائی ہی نہیں گئی جس کا ثبوت ہر سال 50 سے60 فیصد سے زائد طلباء کا فیل ہونا ہے۔ اس تمام صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان کا تعلیمی ماحول قومی وحدت اور ملی ہم آہنگی کا شعور و جذبہ پیدا کرنے میں 100 فیصد ناکام رہا ہے، حقائق کو بالائے طاق رکھ کر ہم الزام ہمیشہ اپنے ایجوکیشن سسٹم اور اساتذہ کو دیتے ہیں۔ نصاب میں غیر ضروری مواد کی وجہ سے آج بی اے پاس کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف بن چکا ہے۔
پنجاب یونیورسٹی میں گذشتہ تعلیمی سیشن میں بی اے کا امتحان دینے والوں کی مجموعی تعداد 143750 تھی جن میں سے 57,284 طلباء کامیاب ہوسکے ، یعنی کامیابی کا تناسب صرف 39 فیصد رہا۔ اس سے پیوستہ سال بی اے کا امتحان دینے والے طلبہ کی تعداد 172,000 تھی جبکہ کامیابی کا تناسب بھی قابل ذکر نہیں تھا۔ ان دونوں سالوں کا اگر موازنہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ گذشتہ سال کی نسبت اس مرتبہ بی اے کا امتحان دینے والوں کی تعداد میں 28 ہزار طلبہ کی کمی واقع ہوئی ہے۔ یاد رہے کہ ناکامی کے اس تناسب میں ابھی دیگر یونیورسٹیوں اور دوسرے صوبوں کے نتائج کو شامل نہیں کیا گیا۔ اسی طرح انٹرمیڈیٹ کی سطح پر اگر جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ لاہور بورڈ میں 2012 ء کے انٹرمیڈیٹ کے امتحانات میں 151,646 میں سے صرف 86,213 طلباء پاس ہوسکے۔ 65,433 طلباء کے حصے میں ناکامی آئی، اس سے قبل 2011ء میں کامیابی کی شرح 46 فیصد رہی، ملتان بورڈ کے امتحانات میں کامیابی کی شرح 50.12 جبکہ راولپنڈی بورڈ کا نتیجہ 50.22 فیصد رہا۔ یہاں بھی فیل ہونے والے طلباء میں زیادہ تر تعداد انگلش میں ناکامی والوں کی تھی۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ یہاں طلبہ کو روزِ اول ہی سے انگریزی تو پڑھائی جارہی ہے مگر طلباء خود کو صرف رٹے بازی تک محدود رکھے ہوئے ہیں۔ ہمارے طلبہ انگلش سمجھنے کی بجائے اسے محض پاس کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ طالبعلموں کا زیادہ وقت زبان کی گرائمر، لغت سیکھنے اور سبق کو رٹنے میں صرف ہونے لگا ہے۔ ہمیں میٹرک پاس کرنے کیلئے بھی انگلش کی گائیڈوں اور خلاصوں کو سہارا لینا پڑتا ہے۔ پنجم کے بعد ہم پارٹس آف اسپیچ اور Tenses سیکھنے پر لگتے ہیں تو بی اے تک سیکھتے ہی چلے جاتے ہیں۔ مگر نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بی اے میں پہنچنے اور آٹھ سال مسلسل انگلش کو رٹا لگانے کے باوجود بھی ہم ٹھیک طریقے سے انگلش نہ تو بول پاتے ہیں اور نہ ہی سمجھ نہیں پاتے ہیں ، ہمیں معلوم ہی نہیں ہوتا کہ Noun ، پرونائون ، Verb وغیرہ کیا ہوتے ہیں ، ان کی پہچان کیا ہے حالانکہ ہم نے 8 سال انگلش گائیڈز اور گرامروں سے مغز کھپائی کی ہوتی ہے مگر ہم اس کی بنیاد (Basics) بھی بتانے کے قابل نہیں ہوتے۔
ہم انگلش سمجھنے کیلئے مختلف اداروں میں داخلہ لیتے ہیں مگر انگلش پر کمانڈ یا دسترس حاصل نہیں کرپاتے۔ جو انگلش ہم 8 سالوں میں نہ سیکھ پائے وہ 3 یا 6 ماہ میں بھلا کیا سیکھ پائیں گے۔ ہم جتنی مرضی یونیورسٹیاں اور کالج بنالیں ، ان کا اس وقت تک کوئی فائدہ نہیں جب تک نصاب کو آسان اور حالات کے مطابق نہیں کیا جاتا۔ ریسرچ کے بعد یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ پاکستانی طلبہ، کالج انتظامیہ، امتحانی عملے اور بورڈ حکام کیلئے سب سے برا دن وہ ہوتا ہے جس روز کسی بھی جماعت کا انگریزی کا پرچہ ہوتا ہے۔ سب کو ڈر ہوتا ہے کہ آج نقل زیادہ ہوگی، امتحانی کیس زیادہ بنیں گے، طلباء کے نتائج کی شرح نیچے گرے گی وغیرہ وغیرہ۔ انگلش میں طلباء کی ایک بڑی تعداد کا ناکام ہوجانا ارباب اختیار کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ انھیں اس کا حل سوچنا چاہئے۔
مقام افسوس یہ بھی ہے کہ پاکستان جنوبی ایشیا کا سب سے ناخواندہ ملک ہے جو 1947 ء سے آج تک 14 سے زائد تعلیمی پالیساں دیکھ چکا ہے مگر آج تک یہاں کوئی مستقل اور مستند تعلیمی پالیسی نہیں بن سکی اور نہ ہی نصاب میں کوئی تحقیق وترقی ہو سکی۔ ہم تعلیمی زبوں حالی کا شکار کیوں ہیں، اس کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ ہم نے بین الاقوامی دوڑ میں شامل ہونے کے لالچ میں اپنے ہی طلبہ کیلئے مشکلات کے پہاڑ کھڑے کردیئے ہیں۔ انگریزی کی افادیت سے انکار نہیں۔ اگر ہم انگلش سیکھیں اور پڑھیں گے تو اس سے ہماری قومی یا مادری حیثیت پر کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ یہ ہماری قومی، تعلیمی اور عالمی ضرورت بن چکی ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر ہم نے ترقی کے زینے پر قدم رکھنا اور دنیا کے ساتھ چلنا ہے تو اسی سسٹم کو اپنانا ہوگا جو عالمی معیار کو چھوتا ہو اور ہمیں ان علوم تک رسائی دے جو عملی زندگی میں ہماری مدد کرسکیں۔
پاکستان کے ہر سطح کے طلبہ کی ایک بڑی تعداد کیلئے انگلش میں پاس ہونا ایک مشکل ہدف ہے تاہم بی اے کے طلباء کیلئے اس مضمون کا لازمی حیثیت سے ہونا یا کم از کم اس کے مندرجات ایک اضافی بوجھ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے تقریباً 60 فیصد بچے انگلش کے مضمون میں کمزور ہیں۔ انٹر اور گریجویشن لیول پر انگلش میں سپلی آنے کی بڑی وجہ بھی یہی ہے کہ انگلش کا مضمون ان کی ذہنی سطح کو مدنظر رکھ کر تیار نہیں کیا جاتا۔ ہمارے دیہاتوں میں موجود طلبہ جو عموماً میٹرک تک اردو میں تعلیم حاصل کرتے ہیں انھیں کالج میں یکسر انگلش کتب پڑھنی پڑیں تو مشکل ہوتی ہے اور یہ امر نتائج کی خرابی اور تعلیم سے فرار کا ذمہ دار بھی بنتا ہے۔
ماضی میں اگرچہ نصاب کی تبدیلی کی کوششیں کی گئیں مگر وہ ناکام اس لئے ہوئیں کیونکہ معاشرے کی ضرورت کے مطابق نہیں تھیں، کسی نے اسے طلبہ کی ذہنی سطح کے مطابق ڈھالنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ طلبہ مایوسی اور بیچارگی کی کیفیت میں مبتلا ہیں جس سے نکالنے کیلئے انٹر اور بی اے کی سطح پر انگلش کا نصاب فی الفور تبدیل ہونا چاہئے۔ یہ خیبر سے کراچی تک ہر طالبعلم کے دل کی آواز ہے۔ طلباء کو اس صورتحال سے نکالنے کیلئے یہ اقدام کرنا لازم ہے۔ نصاب تعلیم کو تبدیل کرلینے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ہم دیگر ممالک سے ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جائیں گے یا کسی کے ساتھ ہمارے تعلقات خراب ہوجائیں گے۔ تمام مسائل کا حل ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے۔ بین الاقوامی معیار کے مطابق تعلیم اگرچہ ایک ضروری امر ہے لیکن چند تبدیلیاں کرلینے سے اس کے معیار میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہمارا مطمع نظر یہ ہونا چاہئے کہ ہم نے اپنے نصاب تعلیم کے بل بوتے پر ہی دنیا میں اپنا لوہا منوانا ہے۔
ہم نے اپنے طلباء کیلئے مشکل نہیں آسانی پیدا کرنی ہے۔ اپنی بقا کی جنگ ہمیں خود لڑنی ہے۔ اپنی بقا کی جنگ میں مشکل فیصلے کرنے والی قومیں ہمیشہ سرخرو ہوتی ہیں۔ پاکستان میں اس وقت انٹر اور بی اے کی سطح پر انگلش کا جو نصاب رائج ہے اس میں تقریباً تمام کریکٹر غیرملکی ہیں جبکہ تمام اسباق اورشاعری (Poems) میں بھی ملکی، معاشرتی ، اخلاقی یا اسلامی حوالے سے کوئی بات موجود نہیں۔ انٹرمیڈیٹ میں مسٹر چپس ... اور بی اے میں اولڈ مین اینڈ دی سی اور دیگر مضامین میں کوئی بھی مواد ایسا نہیں جو ہمارے طلباء کے بچپن یا ان کی سابقہ کلاسوں کے انگلش کے نصاب ماحول یا طلباء کی ذہنی سطح سے مطابقت رکھتا ہو۔ ہمارے طلبہ بچپن سے اپنے بڑوں سے عالمی، اسلامی اور قومی قائدین کے واقعات اور معلوماتی کہانیاں سنتے اور دیگر نصابی کتب سے انہی کریکٹرز کا مطالعہ کرتے چلے آرہے ہیں۔ حضور نبی کریمﷺ ، قائداعظمؒ ، علامہ اقبالؒ، مشاہیر اور آزادی کے ہیروں اور اسلامی قائدین ، تاریخی جگہوں اور ایسے ہی دیگر کے بارے میں پڑھتے اور سنتے چلے آرہے ہیں۔
مگر بڑی کلاسز میں یک دم غیرملکی ہیروز اور کریکٹرز کا کثرت کے ساتھ مطالعہ ان میں بیزاری پیدا کررہا ہے کیونکہ ماضی میں طلباء کا ان کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں رہا ہوتا۔ اگر یہ مضامین محدود ہوں تو زیادہ مشکل نہیں ہوتی لیکن ان کا طوالت کے ساتھ اور لازمی حیثیت سے نصاب میں شامل ہونا طلبہ کو مشکل میں ڈالے ہوئے ہے۔ دوسری جانب ہمارے طلباء کی ایک بڑی تعداد پسماندہ علاقوں (دیہاتوں) سے تعلق رکھتی ہے جہاں اردو ،پنجابی اور علاقائی زبانوں کا استعمال زیادہ ہوتا ہے۔ ان طلباء کیلئے انگلش کے مضمون کو سمجھنا اور اسے اپنے ذہنوں میں منتقل کرنا ناممکن کی حیثیت رکھتا ہے۔ ان کیلئے انگلش ناپسندیدہ مضمون تو نہیں مگر اس کے مندرجات / موضوعات ذہنی سطح سے مبراء ہیں۔ ان کیلئے ایک غیرملکی کریکٹر کو پڑھنا، سمجھنا اور اَزبر کرنا اتنا آسان نہیں جتنا اس کریکٹر حالات زندگی کو ازبر کرنا ہے جس کا ذکر ہم بچپن سے پڑھتے اور سنتے آرہے ہیں۔
پالیسی میکرز اور پلانرز کیلئے یہ صورتحال لمحہ فکریہ ہے۔ یہ صورتحال نہ صرف طلباء کے کیرئیر کو تباہ کررہی ہے بلکہ انھیں تعلیم سے بھی راہ فرار اختیار کرنے پر مجبور کررہی ہے۔ ہمارے نزدیک طلباء کو اس مشکل سے نکالنے کا ایک حل موجود ہے۔ نصاب میں مشاہیر آزادی ، قومی و اسلامی ہیروز اور طلباء کی ذات سے وابستہ کریکٹرز یا ان کی دلچسپی سے متعلقہ روزمرہ موضوعات کو شامل کیا جائے اور کچھ نہیں تو کم از کم انٹر کی انگلش میں مسٹر چپس کی جگہ پر حضرت محمدؐ کے حالات زندگی، اخلاق و کردار ، تعلیمات اور دیگر پہلوئوں پر مشتمل ایک مکمل ناول شامل اور بی اے کی انگلش میں ناول اولڈ مین کی جگہ خلفائے راشدین یا چند صحابہؓ کا تفصیلی تذکرہ شامل کیا جائے جو ان کی زندگی کے تمام پہلوئوں کا احاطہ کرے تاکہ طلبہ میں اپنے راہبروں ، معتقدین ، متعلقین اور مقصد حیات سے آگاہی پیدا ہو۔
اگر اس کی توفیق نہیں ہوتی تو کم از کم قائداعظمؒ یا علامہ اقبالؒکی مکمل سوانح حیات کو اس کی جگہ شامل کیا جاسکتا ہے۔ جن سیاستدانوں ، علماء کرام یا سوشل سیکٹر سے تعلق رکھنے والے نمایاں افراد نے ملک کیلئے گرانقدر خدمات سرانجام دی ہیں انھیں بھی خراج تحسین پیش کرنے کے ضمن میں نصابی مضامین کا حصہ بنایا جاسکتا ہے۔ ہماری اپنی تاریخ و شخصیات اور ماڈل ہیں۔ ''ہیرو ازم'' کی تشریح تبدیل نہیں ہونی چاہئے۔ مسلمان اساتذہ کی ایک بڑی تعداد ماڈل شخصیات کے طور پر تاریخ کا حصہ ہیں۔ طلبہ کو ایسا ماحول فراہم کیا جائے تو ناکامی کا تناسب نمایاں طور پر کم ہوگا، شرح خواندگی میں بھی اضافہ ہوگا اور کوئی بھی طالبعلم تعلیم سے نہیں بھاگے گا۔ نوجوان مستقبل کے درخشندہ ستارے ہیں اور قوم کو ان سے بڑی امیدیں وابستہ ہیں اور اگر یہی مایوس ہوکر تعلیم کو چھوڑنے لگ گئے تو وہ وقت دور نہیں جب ہم شرح خواندگی میں آخری نمبر پر پہنچ جائیں گے۔