ایک رشتہ بڑا بد نام
ہر سوتیلی ماں ظالم اور بری نہیں ہوتی
دنیا کے سب سے عظیم رشتے ماں کا ایک روپ یہ بھی ہے کہ تقدیر کا کوئی موڑ اسے اس رشتے سے منسلک کر دیتا ہے۔
اس کی اولاد کی پیدایش کسی اور عورت کے ہاں ہوئی ہوتی ہے، البتہ اب ان کی تربیت اور پرورش کی ذمہ داریوں کا اچھا خاصا کردار اس کے سپرد ہوچکا ہوتا ہے، جسے ہم ''سوتیلی ماں'' سے تعبیر کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں اس لفظ کا تاثر اتنا منفی کر دیا گیا ہے کہ اسے ایک ظالم اور برے کردار کے معنوں میں استعمال کیا جانے لگا۔ اس ہی سے جُڑا ایک استعارہ ''سوتیلا پن'' سامنے آیا جو کسی کے لیے ظلم، برائی اور نفرت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، مگر جس طرح پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں اسی طرح دنیا کی ساری سوتیلی مائیں بھی ایک جیسی نہیں ہوتیں۔
ہمارے معاشرے کی عمومی رائے یہ ہے کہ سوتیلی ماں اپنے بچوں کے ساتھ انتہائی متعصب، پرتشدد اور ناروا سلوک رکھتی ہے اور کچھ مشاہدات کی بنا پر ہمیں یہ سب حقیقت پر مبنی بھی دکھائی دیتا ہے، مگر اس منصب پر فائز ہونے والی کسی بھی خاتون سے پہلے ہی بری رائے قائم کر لینا نہایت غیر مناسب فعل ہے۔ وہ جب ایک ایسے شادی شدہ مرد کو جس کے بچے بھی ہوتے ہیں وہ اسے جب اپنے جیون ساتھی کے طور پر اپناتی ہے تو ان بچوں کو بھی بخوشی قبول کرتی ہے۔ عورت کا ضمیر محبت وایثار، وفا وخلوص سے اٹھا ہے اور قدرت نے ہر عورت کے اندر ممتا کا جذبہ رکھا ہے۔ اگر ایک عورت اپنے شوہر کے بچوں کو صدق دل سے اپنانے کی کوشش بھی کرتی ہے، تو ہمارے معاشرے کی یہ منفی سوچ کہ سوتیلی ماں تو نام ہی ظالم جابر اور خطرناک شخصیت کا ہے، جو اپنے سوتیلے بچوں کی زندگیوں کو اجیرن کر دیتی ہے۔
وہ اپنی کوشش میں ناکام ہو جاتی ہے۔ سوتیلی ماں کو ایک ہٹلر کے روپ میں پیش کرنے کا اہم کردار رشتے دار اور دوست احباب بہت مستعدی اور دل جمعی سے ادا کرتے ہیں۔ اگر کوئی شخص دوسری شادی کرتا ہے اور اپنے بچوں کے لیے دوسری ماں لے کر آتا ہے تو سب سے پہلے ان بچوں کے قریبی رشتہ دار ننھے منّے بچوں کے کچے اذہان میں یہ زہر ڈالتے ہیں کہ ''بچوں تمہارے ابو نے تمہاری ماں کی جگہ اس عورت کو دے دی'' یا تمہاری سوتیلی ماں تمہارے ساتھ ایسا کرے گی اور ویسا کرے گی وغیرہ وغیرہ اور بچوں کے معصوم ذہنوں میں کہانیوں اور ڈراموں کی سوتیلی ماں کا کردار گھومنے لگتاہے، جو وہ سنتے، پڑھتے یا دیکھتے آئے ہیں۔ جس کے نتیجے میں وہ آنے والی نئی ماں سے بدگمان اور خوف زدہ ہو جاتے ہیں۔ یہی رشتے دار آگے بھی ان کی نفسیات کو بگاڑنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ وہ بچوں کو ماں سے بد تمیزی اور نافرمانی کرنے پر اُکساتے ہیں۔
اگر نئی ماں بچوں کے لیے نیک جذبات لے کر گھر میں آتی ہے تو بچوں کے اس قدر ناروا سلوک پر وہ بھی اپنی اچھائی کو لپیٹ کر ایک جانب رکھ دیتی ہے۔ ایسی صورت حال میں عام طور پر بچوں کے ننھیال والے بچوں کے ذہنوں کو نئی ماں کے خلاف آلودہ کرتے ہیں، حالاں کہ ایسا کرتے ہوئے وہ یہ بات یک سر فراموش کر دیتے ہیں کہ اس تمام معاملات میں سب سے زیادہ نقصان بچوں کا ہی ہوتا ہے۔ ان کی شخصیت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتی ہے اور وہ عدم تحفظ کے احساس میں مبتلا ہو جاتے ہیں، کیوں کہ وہ دوسری شادی کرنے پر اپنے باپ سے بھی متنفر ہو جاتے ہیں یا اگر سوتیلی ماں بننے والی کوئی خاتون اپنے شوہر کے بچوں سے محبت سے پیش آئے اور انہیں مطمئن کرنے کی کوشش کرے تو قریبی رشتہ دار بچوں کو بد گمان کر کے مسائل پیدا کرتے ہیں۔ اگر بچے سمجھ داری کی عمر کو پہنچ چکے ہوں تو بعض اوقات وہ اس طرح کی باتوں کو رد بھی کر دیتے ہیں۔
یہ بدگمانی صرف بچوں کو ان کی نئی ماں سے ہی دور نہیں کرتی بلکہ بعض اوقات اس گھر میں عورت کی کمی کو پورا کرنے والی خاتون کو شدید ذہنی اذیت اور کوفت سے دوچار کرتی ہے اور یہ صورت ایک بار پھر طلاق اور علیحدگی پر منتج ہوتی ہے۔ اس حقیقت سے قطعاً انکار نہیں کہ حقیقی ماں کائنات کی ہر چیز، ہر رشتے سے زیادہ عزیز ہوتی ہے اور جن بد نصیب لوگوں کی ماں انہیں بہت کم عمری میں چھوڑ کر چلی جاتی ہے، ان کے لیے کسی دوسری عورت کو اپنی ماں کے روپ میں قبول کرنا دنیا کا مشکل ترین کام لگتا ہے، چاہے کسی کی ماں دنیا میں نہ ہو یا پھر شوہر سے علیحدگی کی صورت میں اس کے باپ کے ساتھ نہ رہتی ہو، کسی انسان خصوصاً بچوں کے لیے دوسری عورت کو اپنی ماں کا درجہ دینا بہت کٹھن ہوتا ہے، مگر جب تقدیر کے مارے ایسی صورت حال سے دو چار ہونا پڑتا ہے، تو آپ کو اعلا ظرفی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ اگر آپ بالغ باشعور ہیں تو اپنی سوتیلی ماں کا احترام آپ پر لازم ہے اور اگر بچے چھوٹے ہیں تو والد پر بھاری ذمہ داری عاید ہوتی ہے کہ وہ انہیں ایسے لوگوں کی صحبت سے بچائے جو ان کے ذہنوںمیں زہر گھول رہے ہیں۔
ساتھ ہی ایسی خواتین جب کسی مرد کی دوسری بیوی بننے کا فیصلہ کرتی ہیں، تو اس کے ساتھ ساتھ اپنے دل ودماغ کو اپنے شوہر کی پہلی اولادوں کو بھی قبول کرنے کے لیے تیار کر لیں کیوں کہ ان پر بھی یہ لازم ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے شوہر کی اولاد سے محبت وخلوص اور شفقت سے پیش آئیں اور اس سوچ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں کہ سوتیلی ماں ایک خوف ناک عفریت ہوتی ہے، بلکہ اپنے کردار اور عمل سے معاشرے کو منوائیں کہ ماں تو صرف ماں ہوتی ہے، چاہے سگی ماں ہو یا صرف پرورش کرنے والی! دونوں صورتوں میں وہ صرف سراپا محبت، شفقت، ایثار و حلاوت کا پیکر ہوتی ہے۔
اس کی اولاد کی پیدایش کسی اور عورت کے ہاں ہوئی ہوتی ہے، البتہ اب ان کی تربیت اور پرورش کی ذمہ داریوں کا اچھا خاصا کردار اس کے سپرد ہوچکا ہوتا ہے، جسے ہم ''سوتیلی ماں'' سے تعبیر کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں اس لفظ کا تاثر اتنا منفی کر دیا گیا ہے کہ اسے ایک ظالم اور برے کردار کے معنوں میں استعمال کیا جانے لگا۔ اس ہی سے جُڑا ایک استعارہ ''سوتیلا پن'' سامنے آیا جو کسی کے لیے ظلم، برائی اور نفرت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، مگر جس طرح پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں اسی طرح دنیا کی ساری سوتیلی مائیں بھی ایک جیسی نہیں ہوتیں۔
ہمارے معاشرے کی عمومی رائے یہ ہے کہ سوتیلی ماں اپنے بچوں کے ساتھ انتہائی متعصب، پرتشدد اور ناروا سلوک رکھتی ہے اور کچھ مشاہدات کی بنا پر ہمیں یہ سب حقیقت پر مبنی بھی دکھائی دیتا ہے، مگر اس منصب پر فائز ہونے والی کسی بھی خاتون سے پہلے ہی بری رائے قائم کر لینا نہایت غیر مناسب فعل ہے۔ وہ جب ایک ایسے شادی شدہ مرد کو جس کے بچے بھی ہوتے ہیں وہ اسے جب اپنے جیون ساتھی کے طور پر اپناتی ہے تو ان بچوں کو بھی بخوشی قبول کرتی ہے۔ عورت کا ضمیر محبت وایثار، وفا وخلوص سے اٹھا ہے اور قدرت نے ہر عورت کے اندر ممتا کا جذبہ رکھا ہے۔ اگر ایک عورت اپنے شوہر کے بچوں کو صدق دل سے اپنانے کی کوشش بھی کرتی ہے، تو ہمارے معاشرے کی یہ منفی سوچ کہ سوتیلی ماں تو نام ہی ظالم جابر اور خطرناک شخصیت کا ہے، جو اپنے سوتیلے بچوں کی زندگیوں کو اجیرن کر دیتی ہے۔
وہ اپنی کوشش میں ناکام ہو جاتی ہے۔ سوتیلی ماں کو ایک ہٹلر کے روپ میں پیش کرنے کا اہم کردار رشتے دار اور دوست احباب بہت مستعدی اور دل جمعی سے ادا کرتے ہیں۔ اگر کوئی شخص دوسری شادی کرتا ہے اور اپنے بچوں کے لیے دوسری ماں لے کر آتا ہے تو سب سے پہلے ان بچوں کے قریبی رشتہ دار ننھے منّے بچوں کے کچے اذہان میں یہ زہر ڈالتے ہیں کہ ''بچوں تمہارے ابو نے تمہاری ماں کی جگہ اس عورت کو دے دی'' یا تمہاری سوتیلی ماں تمہارے ساتھ ایسا کرے گی اور ویسا کرے گی وغیرہ وغیرہ اور بچوں کے معصوم ذہنوں میں کہانیوں اور ڈراموں کی سوتیلی ماں کا کردار گھومنے لگتاہے، جو وہ سنتے، پڑھتے یا دیکھتے آئے ہیں۔ جس کے نتیجے میں وہ آنے والی نئی ماں سے بدگمان اور خوف زدہ ہو جاتے ہیں۔ یہی رشتے دار آگے بھی ان کی نفسیات کو بگاڑنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ وہ بچوں کو ماں سے بد تمیزی اور نافرمانی کرنے پر اُکساتے ہیں۔
اگر نئی ماں بچوں کے لیے نیک جذبات لے کر گھر میں آتی ہے تو بچوں کے اس قدر ناروا سلوک پر وہ بھی اپنی اچھائی کو لپیٹ کر ایک جانب رکھ دیتی ہے۔ ایسی صورت حال میں عام طور پر بچوں کے ننھیال والے بچوں کے ذہنوں کو نئی ماں کے خلاف آلودہ کرتے ہیں، حالاں کہ ایسا کرتے ہوئے وہ یہ بات یک سر فراموش کر دیتے ہیں کہ اس تمام معاملات میں سب سے زیادہ نقصان بچوں کا ہی ہوتا ہے۔ ان کی شخصیت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتی ہے اور وہ عدم تحفظ کے احساس میں مبتلا ہو جاتے ہیں، کیوں کہ وہ دوسری شادی کرنے پر اپنے باپ سے بھی متنفر ہو جاتے ہیں یا اگر سوتیلی ماں بننے والی کوئی خاتون اپنے شوہر کے بچوں سے محبت سے پیش آئے اور انہیں مطمئن کرنے کی کوشش کرے تو قریبی رشتہ دار بچوں کو بد گمان کر کے مسائل پیدا کرتے ہیں۔ اگر بچے سمجھ داری کی عمر کو پہنچ چکے ہوں تو بعض اوقات وہ اس طرح کی باتوں کو رد بھی کر دیتے ہیں۔
یہ بدگمانی صرف بچوں کو ان کی نئی ماں سے ہی دور نہیں کرتی بلکہ بعض اوقات اس گھر میں عورت کی کمی کو پورا کرنے والی خاتون کو شدید ذہنی اذیت اور کوفت سے دوچار کرتی ہے اور یہ صورت ایک بار پھر طلاق اور علیحدگی پر منتج ہوتی ہے۔ اس حقیقت سے قطعاً انکار نہیں کہ حقیقی ماں کائنات کی ہر چیز، ہر رشتے سے زیادہ عزیز ہوتی ہے اور جن بد نصیب لوگوں کی ماں انہیں بہت کم عمری میں چھوڑ کر چلی جاتی ہے، ان کے لیے کسی دوسری عورت کو اپنی ماں کے روپ میں قبول کرنا دنیا کا مشکل ترین کام لگتا ہے، چاہے کسی کی ماں دنیا میں نہ ہو یا پھر شوہر سے علیحدگی کی صورت میں اس کے باپ کے ساتھ نہ رہتی ہو، کسی انسان خصوصاً بچوں کے لیے دوسری عورت کو اپنی ماں کا درجہ دینا بہت کٹھن ہوتا ہے، مگر جب تقدیر کے مارے ایسی صورت حال سے دو چار ہونا پڑتا ہے، تو آپ کو اعلا ظرفی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ اگر آپ بالغ باشعور ہیں تو اپنی سوتیلی ماں کا احترام آپ پر لازم ہے اور اگر بچے چھوٹے ہیں تو والد پر بھاری ذمہ داری عاید ہوتی ہے کہ وہ انہیں ایسے لوگوں کی صحبت سے بچائے جو ان کے ذہنوںمیں زہر گھول رہے ہیں۔
ساتھ ہی ایسی خواتین جب کسی مرد کی دوسری بیوی بننے کا فیصلہ کرتی ہیں، تو اس کے ساتھ ساتھ اپنے دل ودماغ کو اپنے شوہر کی پہلی اولادوں کو بھی قبول کرنے کے لیے تیار کر لیں کیوں کہ ان پر بھی یہ لازم ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے شوہر کی اولاد سے محبت وخلوص اور شفقت سے پیش آئیں اور اس سوچ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں کہ سوتیلی ماں ایک خوف ناک عفریت ہوتی ہے، بلکہ اپنے کردار اور عمل سے معاشرے کو منوائیں کہ ماں تو صرف ماں ہوتی ہے، چاہے سگی ماں ہو یا صرف پرورش کرنے والی! دونوں صورتوں میں وہ صرف سراپا محبت، شفقت، ایثار و حلاوت کا پیکر ہوتی ہے۔