ماں کے سہارے

والدین کی راہ نمائی لڑکیوں کے لیے مشعل راہ ہے


مدیحہ خالد June 17, 2013
والدین کی راہ نمائی لڑکیوں کے لیے مشعل راہ ہے۔ فوٹو: فائل

آج کی لڑکی ماضی کے مقابلے میں زیادہ وسیع نظریات و خیالات کی حامل ہے۔ آج وہ بہت کچھ کرنا چاہتی ہے۔

اعلا تعلیم کے حصول سے زندگی کے ہر شعبے تک وہ معاشرے کی آنکھ سے آنکھ ملا کر ہر رکاوٹ کو جدوجہد سے عبور کرنا چاہتی ہے۔ وہ جانتی ہے والدین نے جس بھروسے و یقین کے ساتھ اسے گھر کی دہلیز پار کرنے کی اجازت دی ہے۔ وہ ہر گز اسے ٹھیس نہیں پہنچائے گی۔ اس لیے والدین کی عزّت و وقار قائم و دائم رکھنا اس کا اولین مقصد ہوتا ہے۔ وہ جانتی ہے، والدین نے کن مشکلات و مصائب کا سامنا کر کے اسے گھر سے روانہ کیا تھا۔ پھر جب اُس نے ملازمت کی اجازت مانگی تو والدین کی سانس پھر اٹک گئی۔ وہ پیاری بیٹی کی امنگوں سے بھر پور خواہش رد نہیں کرنا چاہتے۔ وہ جانتے ہیں کہ بیٹی بھی بیٹوں کی طرح اُن کا سہارا بن کر معاشی بوجھ ہلکا کرنا چاہتی ہے۔

وہ بیٹی کی خواہش کا مان رکھتے ہوئے اسے اعلا تعلیم کے بعد ملازمت کی اجازت بھی دے دیتے ہیں۔ ساتھ ہی باہر کی دنیا میں احتیاطوں کے لیے اچھی نصیحت بھی ہم سفر کرتے ہیں۔ والدین کو اس بات کا خوف رہتا ہے کہ کہیں لوگ ان کی بچی کی طرف انگلیاں نہ اٹھائیں اور کوئی بات نہ بنائیں۔ بیٹی ان ساری باتوں کو اپنے پلو سے باندھے باہر نکلتی ہے۔ والدین اور گھر والوں نے اس پر کتنا بھروسا کیا ہے، لہٰذا اب وہ بھی ہر صورت میں اسے کسی بھی ٹھیس سے بچائے گی۔ دوسری طرف کچھ عاقبت نااندیش لڑکیاں ان باتوں کو چٹکیوں میں اڑا دیتی ہیں۔ گھر کی چار دیواری سے نکل کر خود کو آزاد پنچھی کی طرح ہوائوں میں اڑتا محسوس کرتی ہیں۔ اس خوش فہمی میں مبتلا رہتی ہیں کہ دنیا ایک اشارے پر اُن کی مرضی کے مطابق چل پڑے گی۔ جیسا وہ چاہیں گی، بس ویسا ہی ہوگا۔

وہ یہ نہیں جانتیں زمانہ تو ویسے بھی بہت مطلب شناس ہے۔ بڑے بڑے سورمائوں کو اپنے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ وہ تو پھر ایک نازم اندام چڑیا کی مانند جس کے پَروں نے ابھی صرف پھڑ پھڑانا ہی سیکھا ہے۔ کھلے آسمان میں پرواز تو اُسے ابھی سیکھنا ہے۔ جب ہی تجربے کی بھٹی میں سرخ ہوجانے والے والدین نے ہر، ہر پہلو پر غور کر کے ہی زمانے کی اونچ نیچ سے آگاہ کیا۔ نصیحتوں کی پوٹلی وعدے کے ساتھ نبھانے کو کہا، مگر بہت سی نادان لڑکیاں نہیں سمجھتیں۔ کبھی تو راہ پر چلتے ہوشیار بازوں کے چنگل میں پھنس جاتی ہیں، تو کبھی دفتروں میں ترقی کے سہانے خوابوں کے پیچھے پشیمانی اٹھاتی ہیں۔ نادان عمر میں اندھی محبت کے کچے سپنوں کو عمر بھر کا سہارا سمجھ کر اپنی ذات کو ریت کے ریگزاروں کے سپرد کردیتی ہیں۔ وہ یہ نہیں جانتیں، یہ سب ماں باپ کے لیے کتنا درد ناک ہوگا۔ جب وقت کا پہیا سِرکتا ہے تو غلطیوں کا گہرا احساس ندامت بن کر بہت ستاتا ہے۔

فرماں بردار بیٹیاں پیار سے بھرپور نصیحتوں کو اپنے لیے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنا کر اس کے سہارے آگے بڑھتی رہتی ہیں اور دنیا میں بھی کام یابی سمیٹتی ہیں اور والدین کی نظروں میں بھی سرخرو رہتی ہیں۔ وہ یہ سوچتی ہیں کہ میری ترقی میرے والدین کی عزت و نیک نامی کی صورت میں ہی ممکن ہے۔ مجھے اُن کے وقار کو برقرار رکھنا ہے۔ یہی چیز مجھے تعلیم سے درست معنوں سے روشناس کرائے گی او ر میں اپنے وقار اور کردار کو مضبوط رکھ کر ہی معاشرے کی بھٹکتی نگاہوں کا مقابلہ کر سکوں گی۔ مستقبل کی خوشیوں کی ضامن اس کی ناپختہ سوچ نہیں بلکہ والدین کی دعا ئیں ہی بنیں گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں