نظریہ ملک دشمنی
پشتون اب پاکستان کا حصہ ہیں افغانستان سے ملنے کا وہ مفروضہ بھی اب ختم ہو چکا ہے۔
بڑی مدت کے بعد بلکہ ''آنکھیں ترستیاں'' کے بعد ایک ایسی تحریر پڑھنے کو ملی ہے جس پر عش عش کرتے ہوئے نہ صرف غش کھا گئے بلکہ یہ سوچ کر پھڑک پھڑک بھی اٹھے کہ:
ابھی کچھ لوگ ہیں باقی جہاں میں
اگلے زمانوں میں اس قسم کے کالم بہت آیا کرتے تھے کہ فلاں کے پیچھے پاکستان کے دشمنوں کا ہاتھ ہے، اسے پکڑ کر فوراً تختہ دار پر لٹکا دیا جائے ورنہ پاکستان کا بلکہ نظریہ پاکستان کا نازک آئینہ چور چور ہو جائے گا خاص طور پر پشتون تو اس معاملے میں رسوائے عالم ہوا کرتے تھے۔ اگر کوئی اپنی زبان کو ''علاقائی زبان'' کے بجائے نام سے یاد کر لیتا تھا یا بھول چوک سے بھی اپنے آپ کو پشتون کہہ بیٹھتا تھا تو نظریہ پاکستان کے بھڑوں کا چھتا اس کے پیچھے پڑ جاتا تھا۔
دراصل یہ ایک پورا قبیلہ ہے جو بنگالیوں کو کیفرکردار تک پہنچانے کے بعد تھوڑا سا ''شانت'' ہو گیا اور اپنا جمع کردہ شہد چاٹنے میں مصروف ہو گیا تھا اور ابھی تک زیادہ تر مصروف بھی ہیں کہ شہد بھی وافر ہے اور کوئی روک ٹوک والا بھی نہیں ہے۔ لیکن ہمیں خوشی ہوئی کہ ایک مرتبہ پھر یہ بھولا بسرا نظریہ ملک دشمنی جاگ اٹھا ہے اور کمال کی بات یہ ہے کہ اس کی ابتدا ایک خاتون کالم نگار نے ایک مقامی اخبار میں کی۔
ہم تو اس خاتون کالم نگار کا نغمہ سن کر یاحبیبی یاحبیبی پکار کر سر دھننے لگے کیونکہ اس نے ایک مرتبہ پھر خطرے کی وہ گھنٹی بجا دی ہے کہ سارے دنیا کے سارے ممالک اور خاص طور پر یہود و ہنود اپنا سارا کام کاج چھوڑ کر پاکستان کے خلاف سازشوں میں مصروف ہو گئے ہیں، یہ لوگ چونکہ پاکستان کے بے پناہ حسن و جمال ، مثالی حکومتوں ، لاثانی نظام اور ہر طرف فتوحات ہی فتوحات سے جلتے ہیں اس لیے نظریہ پاکستان کے آبگینے کو ٹھیس پہنچانے والوں کو حکومت فوراً کارروائی کر کے کیفر کردار تک پہنچا ئے ورنہ :
اٹھو وگرنہ حشر نہیں ہوگا پھر کبھی
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا
اس نے ایسی قوتوں کو نشانے پر رکھتے ہوئے یہ ٹریگر دبایا ہے کہ اس نے خود وہ ڈالروں، روپوں اور زر و جواہر کے لدے ہوئے اونٹ ،گدھے اورخچر دیکھے ہیں جو قطار اندر قطار نظریہ پاکستان کے مخالفوں کو مال پہنچا رہے ہیں اور وہ پاکستان کو بس توڑنے پھوڑنے والے ہیں' گویا پاکستان نہ ہوا کوئی آئینہ ہوا جسے نائی کے استرے، درزی کی قینچی،عورت کی آواز اور قدموں کی چاپ سے بھی چور چور ہونے کا خطرہ رہتا تھا اور رہتا ہے حالانکہ پاکستان کو خود ''اپنے آپ'' کے سوا نہ کوئی خطرہ پہلے تھا نہ اب ہے۔ ہم نہیں جانتے اور ہماری ساری معلومات اخباروں تک ہی محدود ہیں ۔
صرف یہ کہ پشتونوں کو آخر کسی مجرم پشتون کا ہمنام ہونے کی وجہ سے کیوںطعنہ مارا جا رہا ہے، حالانکہ جو مجرم تھے یا مجرم ہیں وہ یا تو نکل لیے اور یا ''پالے'' ہوئے ہیں۔
نہ تو عام اور غریب پشتونوں نے جاکر امریکا سے استدعا کی تھی کہ ہمارے گھر آکر اسے روس کے خلاف میدان جنگ بناؤ نہ طالبان کو مجاہدان اسلام پشتونوں نے کہا تھا اور نہ ہی امریکی فتویٰ کے بعد انھیں دشمنان اسلام بنایا ہے یعنی کسی بھی بات میںعام پشتونوں کا ہاتھ نہ تھا اور نہ ہے ۔
ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
جو چاہے سو آپ کرے ہے ہم کو عبث بدنام کیا
یاں کے ''سپید و سیہ'' میں ہم کو دخل جو ہے سو اتنا ہے
رات کو رو رو صبح کیا، یا دن کو جوں توں شام کیا
ایسے میں اگر پشتون اپنی جرم بے گناہی میں ''سزا'' کے خلاف روئیں پیٹیں تو اس میں گناہ کیا ہے۔بے گناہ اور عام پشتون بچارے تو چکی کے دو پاٹوں کے بیچ آئے ہوئے ہیں، ایک طرف والے بھی آکر انھیں روندتے ہیں اوردوسری طرف والے بھی۔ ایسے میں کیا آواز بے گناہی اور سزائے بے جرم اٹھانا جرم ہے۔ حالانکہ وہ زمانے گئے جب اندھیرے میں تیر چلائے جاتے تھے، پشتون اب پاکستان کا حصہ ہیں افغانستان سے ملنے کا وہ مفروضہ بھی اب ختم ہو چکا ہے کیونکہ افغانستان کے پختون اب ہمارے رہے ہی نہیں، فارسی کے ہو چکے ہیں۔
ان کا اور ہمارا ملن ناممکن ہے اور اگر ایسی کوئی حرکت ہو تو پشتونوں کو ان ہی عذابوں سے گزرنا ہو گا جن عذابوں سے ہند کے مسلمان تقسیم کے وقت سے گزرے تھے، بلکہ اب بھی گزر رہے ہیں۔ ہمارے پشتونوں کی ایک بہت بڑی آبادی کراچی، لاہور، اسلام آباد، فیصل آباد، سرگودھا بلکہ ہر شہر کے ملوں، کوئلے کی کانوں اور مزدوری کے مقامات پر منتشر ہے ۔
پشتون خوا کے پشتونوں کا جینا مرنا اب پاکستان کے ساتھ ہے، ہماری آنتیں تک شریک ہو چکی ہیں، ایسے میں علیحدگی یا افغانستان سے ملنے کا مطلب تباہی ہی تباہی ہے لیکن شکوہ شکایت تو اپنوں میں رہتی ہے، دکاندار بھی اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے تنظیمیں بناتے اور اجتماع وغیرہ کرتے ہیں ہاں اگر آپ استحصالی تلوار لے کر ہمیں کاٹ دینا چاہتے ہیں تو وہ اور بات ہے۔
ابھی کچھ لوگ ہیں باقی جہاں میں
اگلے زمانوں میں اس قسم کے کالم بہت آیا کرتے تھے کہ فلاں کے پیچھے پاکستان کے دشمنوں کا ہاتھ ہے، اسے پکڑ کر فوراً تختہ دار پر لٹکا دیا جائے ورنہ پاکستان کا بلکہ نظریہ پاکستان کا نازک آئینہ چور چور ہو جائے گا خاص طور پر پشتون تو اس معاملے میں رسوائے عالم ہوا کرتے تھے۔ اگر کوئی اپنی زبان کو ''علاقائی زبان'' کے بجائے نام سے یاد کر لیتا تھا یا بھول چوک سے بھی اپنے آپ کو پشتون کہہ بیٹھتا تھا تو نظریہ پاکستان کے بھڑوں کا چھتا اس کے پیچھے پڑ جاتا تھا۔
دراصل یہ ایک پورا قبیلہ ہے جو بنگالیوں کو کیفرکردار تک پہنچانے کے بعد تھوڑا سا ''شانت'' ہو گیا اور اپنا جمع کردہ شہد چاٹنے میں مصروف ہو گیا تھا اور ابھی تک زیادہ تر مصروف بھی ہیں کہ شہد بھی وافر ہے اور کوئی روک ٹوک والا بھی نہیں ہے۔ لیکن ہمیں خوشی ہوئی کہ ایک مرتبہ پھر یہ بھولا بسرا نظریہ ملک دشمنی جاگ اٹھا ہے اور کمال کی بات یہ ہے کہ اس کی ابتدا ایک خاتون کالم نگار نے ایک مقامی اخبار میں کی۔
ہم تو اس خاتون کالم نگار کا نغمہ سن کر یاحبیبی یاحبیبی پکار کر سر دھننے لگے کیونکہ اس نے ایک مرتبہ پھر خطرے کی وہ گھنٹی بجا دی ہے کہ سارے دنیا کے سارے ممالک اور خاص طور پر یہود و ہنود اپنا سارا کام کاج چھوڑ کر پاکستان کے خلاف سازشوں میں مصروف ہو گئے ہیں، یہ لوگ چونکہ پاکستان کے بے پناہ حسن و جمال ، مثالی حکومتوں ، لاثانی نظام اور ہر طرف فتوحات ہی فتوحات سے جلتے ہیں اس لیے نظریہ پاکستان کے آبگینے کو ٹھیس پہنچانے والوں کو حکومت فوراً کارروائی کر کے کیفر کردار تک پہنچا ئے ورنہ :
اٹھو وگرنہ حشر نہیں ہوگا پھر کبھی
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا
اس نے ایسی قوتوں کو نشانے پر رکھتے ہوئے یہ ٹریگر دبایا ہے کہ اس نے خود وہ ڈالروں، روپوں اور زر و جواہر کے لدے ہوئے اونٹ ،گدھے اورخچر دیکھے ہیں جو قطار اندر قطار نظریہ پاکستان کے مخالفوں کو مال پہنچا رہے ہیں اور وہ پاکستان کو بس توڑنے پھوڑنے والے ہیں' گویا پاکستان نہ ہوا کوئی آئینہ ہوا جسے نائی کے استرے، درزی کی قینچی،عورت کی آواز اور قدموں کی چاپ سے بھی چور چور ہونے کا خطرہ رہتا تھا اور رہتا ہے حالانکہ پاکستان کو خود ''اپنے آپ'' کے سوا نہ کوئی خطرہ پہلے تھا نہ اب ہے۔ ہم نہیں جانتے اور ہماری ساری معلومات اخباروں تک ہی محدود ہیں ۔
صرف یہ کہ پشتونوں کو آخر کسی مجرم پشتون کا ہمنام ہونے کی وجہ سے کیوںطعنہ مارا جا رہا ہے، حالانکہ جو مجرم تھے یا مجرم ہیں وہ یا تو نکل لیے اور یا ''پالے'' ہوئے ہیں۔
نہ تو عام اور غریب پشتونوں نے جاکر امریکا سے استدعا کی تھی کہ ہمارے گھر آکر اسے روس کے خلاف میدان جنگ بناؤ نہ طالبان کو مجاہدان اسلام پشتونوں نے کہا تھا اور نہ ہی امریکی فتویٰ کے بعد انھیں دشمنان اسلام بنایا ہے یعنی کسی بھی بات میںعام پشتونوں کا ہاتھ نہ تھا اور نہ ہے ۔
ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
جو چاہے سو آپ کرے ہے ہم کو عبث بدنام کیا
یاں کے ''سپید و سیہ'' میں ہم کو دخل جو ہے سو اتنا ہے
رات کو رو رو صبح کیا، یا دن کو جوں توں شام کیا
ایسے میں اگر پشتون اپنی جرم بے گناہی میں ''سزا'' کے خلاف روئیں پیٹیں تو اس میں گناہ کیا ہے۔بے گناہ اور عام پشتون بچارے تو چکی کے دو پاٹوں کے بیچ آئے ہوئے ہیں، ایک طرف والے بھی آکر انھیں روندتے ہیں اوردوسری طرف والے بھی۔ ایسے میں کیا آواز بے گناہی اور سزائے بے جرم اٹھانا جرم ہے۔ حالانکہ وہ زمانے گئے جب اندھیرے میں تیر چلائے جاتے تھے، پشتون اب پاکستان کا حصہ ہیں افغانستان سے ملنے کا وہ مفروضہ بھی اب ختم ہو چکا ہے کیونکہ افغانستان کے پختون اب ہمارے رہے ہی نہیں، فارسی کے ہو چکے ہیں۔
ان کا اور ہمارا ملن ناممکن ہے اور اگر ایسی کوئی حرکت ہو تو پشتونوں کو ان ہی عذابوں سے گزرنا ہو گا جن عذابوں سے ہند کے مسلمان تقسیم کے وقت سے گزرے تھے، بلکہ اب بھی گزر رہے ہیں۔ ہمارے پشتونوں کی ایک بہت بڑی آبادی کراچی، لاہور، اسلام آباد، فیصل آباد، سرگودھا بلکہ ہر شہر کے ملوں، کوئلے کی کانوں اور مزدوری کے مقامات پر منتشر ہے ۔
پشتون خوا کے پشتونوں کا جینا مرنا اب پاکستان کے ساتھ ہے، ہماری آنتیں تک شریک ہو چکی ہیں، ایسے میں علیحدگی یا افغانستان سے ملنے کا مطلب تباہی ہی تباہی ہے لیکن شکوہ شکایت تو اپنوں میں رہتی ہے، دکاندار بھی اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے تنظیمیں بناتے اور اجتماع وغیرہ کرتے ہیں ہاں اگر آپ استحصالی تلوار لے کر ہمیں کاٹ دینا چاہتے ہیں تو وہ اور بات ہے۔