سعودی بادشاہ نے عمران خان کا ہاتھ تھام لیا ہے

سعودی عرب کے دارالحکومت میں خان صاحب کے خطاب کی بازگشت ساری دُنیا میں سنائی دی گئی ہے۔


Tanveer Qaisar Shahid October 26, 2018
[email protected]

وزیر اعظم عمران خان کا یہ دوسرا دورئہ سعودی عرب اپنے مقاصد اور خواہشات کے پس منظر میں کامیابی سے ہمکنار ہُوا ہے۔کوئی پانچ ہفتے قبل بھی خان صاحب نے اپنی کابینہ کے چند اہم اور چنیدہ وزرا کے ساتھ سعودیہ کا دَورہ کیا تھا۔ انھیں اپنے سیاسی حریفوں کی طرف سے طعنے مہنے بھی سننا اور سہنا پڑے تھے کہ آپ تو کہتے تھے کہ تین مہینے سے پہلے کوئی غیر ملکی دَورہ نہیں کروں گا، تو اَب سعودی عرب کا دَورہ کیوں؟

جبریہ حالات میں یہ دَورہ مالی دباؤ میں ریلیف حاصل کرنے کے لیے کیا گیا تھا ۔ خام الحرمین الشریفین شاہ سلمان اور ولئی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے بھی ملاقاتیں ہُوئی تھیں ، لیکن گوہرِ مراد ہاتھ نہیں لگا تھا۔

اِس نے یقینا ہمارے وزیر اعظم صاحب کے ذہنی دباؤ میں اضافہ کیا ہوگا۔ پہلے دَورئہ سعودیہ کے بعد ہی آئی ایم ایف کا وفد بھی پاکستان یاترا پر آیا تھا۔ یہ جائزہ لینے کے لیے کہ پاکستان شدت سے دس ارب ڈالر سے زائد کا قرضہ مانگ رہا ہے تو کیا ہماری (سخت)شرائط مان بھی جائے گا؟فریقین کے درمیان کوئی خاص سلسلہ جنبانی تو ہُوا ہے لیکن پاکستانی عوام تک اس کی خبر نہیں پہنچی ہے۔ آئی ایم ایف کے ڈرے پاکستانی عوام تک بس اتنی سے بات ضرور پہنچی کہ اربوں ڈالر کا نیا قرضہ لینے کی صورت میں پاکستانی عوام کو کمر شکن مہنگائی کے ایک نئے طوفان کا سامنا کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہنا چاہیے۔

عوام بیچارے حیران اور پریشان ہیں کہ عالمی مالیاتی اداروں سے اربوں ڈالر کے قرضے لے کر ہمارے حکمران کھا پی جاتے ہیں لیکن کمر تڑوانے کو عوام رہ جاتے ہیں۔ خان صاحب بھی قرضے نہ لینے اور آئی ایم ایف کے پاس نہ جانے کے دعوے اور وعدے کرتے رہے ہیں لیکن اب حکومت میں آئے ہیں تو پتہ چلا ہے کہ دریا کی موجوں کا اندازہ کنارے پر کھڑے لوگ نہیں لگا سکتے۔ پاکستان ایسے تہی دست و تہی دامن ممالک اُس گنجی کی طرح ہوتے ہیں جن کے پاس نہانے کو کچھ ہوتا ہے نہ نچوڑنے کو۔

سچی بات یہ ہے کہ خان صاحب نے کھلے اور غیر محجوب اسلوب میں پاکستانی معیشت کی بدحالی اور خالی خزانے کا مسلسل ذکر کے ایک ڈپریشن پھیلا دیا ۔ ایک جوہری مملکت کی یہ معاشی بدحالی ہونی نہیں چاہیے تھی۔ ہمارے وزیر اعظم شائد اس انداز میں خود بھی اپنے پیٹ سے کپڑا نہ ہٹانا چاہتے ہوں گے لیکن دگرگوں اقتصادی حالت نے انھیں ایسا کرنے پر مجبور کر دیا۔

چار دن پہلے عمران خان جب اپنے دوسرے دَورئہ سعودی عرب پر روانہ ہُوئے تو یہ بظاہر سعودی دارالحکومت، ریاض، میں برپا کی گئی ایک عالمی سرمایہ کاری کانفرنس (FIIC) میں شرکت تھی ۔ ہم مگر سب جانتے ہیں کہ جناب وزیر اعظم اس اُمید پر روانہ ہُوئے تھے کہ شائد سعودی بادشاہ کی جانب سے پاکستان کی دستگیری کی کوئی صورت نکل آئے۔

عمالِ حکومت کی طرف سے اشاروں کنایوں میں کہا جارہا تھا کہ اگر خادم الحرمین الشریفین اِن پُر آزمائش لمحات میں جناب عمران خان کا ہاتھ تھام لیں تو زیر غور اکنامک بیل آؤٹ پروگرام کے لیے اگر آئی ایم ایف کے پاس جانا بھی پڑے تو سخت شرائط کو ممکنہ حد تک نرم کیا جا سکے گا۔

ریاض میں منعقد ہونے والی مذکورہ سرمایہ کاری کانفرنس (FIIC) دراصل سعودی ولئی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا برین چائلڈ ہے۔یہ طاقتور شہزادے کے ''وژن2030ء'' کا ایک عملی مظہر بھی ہے۔ یہ اپنی نوعیت کی دوسری کانفرنس تھی جس کا مقصدسعودی عرب کو مزید جدید، انٹر نیشنل انویسٹمنٹ فرینڈلی اور ارب پتی عالمی شہرت یافتہ سرمایہ کاروں کے لیے پُر کشش بنانا ہے ۔ سیال سونے کے ختم یا کم تر ہونے کی صورت میں سعودی عرب کو مالی طور پر متبادل فراہم کرنے کی ایک شاندار اور قابلِ تقلید کوشش۔ پچھلے سال بھی اِسی موضوع پر منعقد کی گئی کانفرنس بے حد کامیاب رہی تھی۔

جس طرح عالمی سرمایہ کار کمپنیوں نے ریاض میں یلغار کی تھی، یہ دراصل شہزادہ محمد بن سلمان کی ذات اور شخصیت پر بھی اعتماد کا اظہار تھا۔ مکرم شہزادے کو نیا حوصلہ ملا تھا۔ اگرچہ 2اکتوبر کو رُونما ہونے والے ایک تازہ واقعہ کی اساس پر سعودی عرب کچھ دباؤ میں تھا اور کئی مغربی و امریکی سرمایہ کار کمپنیوں نے کانفرنس میں شرکت سے انکار کیا لیکن پھر بھی تازہ کانفرنس کئی لحاظ سے کامیاب قرار دی گئی ہے۔ ہمارے وزیر اعظم، عمران خان، کا اس کانفرنس میں خطاب ایک خاصے کی چیز تھی۔ خطاب کے بعد انھوں نے جس اعتماد اور وقار کے ساتھ اہم سوالوں کے جواب دیے، اس سے پاکستانیوں کو بھی مسرت اور اطمینان ملا ہے۔

وزیر اعظم صاحب پاکستان کے بہترین سفیر بھی ثابت ہُوئے ہیں۔ عمران خان نے ریاض کے اس فورم پر بھی ڈنکے کی چوٹ کہا ہے کہ نیا پاکستان دراصل قائد اعظم کے آدرشوں کا حامل پاکستان ہے، پاکستان میں کرپشن کو پنپنے نہیں دیا جائے گا، میرٹ کا پرچم بلند ہوگا، ہمسایہ ممالک سے دوستی قائم کرنے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے، سی پیک کو معراج تک پہنچا کر دَم لیں گے، پاکستان کی معاشی بہتری کے لیے بیرونِ ملک پاکستانیوں سے تعاون حاصل کریں گے، ملک میں آئی ٹی کو فروغ دیں گے۔

سعودی عرب کے دارالحکومت میں خان صاحب کے خطاب کی بازگشت ساری دُنیا میں سنائی دی گئی ہے۔ ملک کی بہتری کے لیے اُن کی اس کوشش کو نظرِ استحسان سے دیکھا گیا ہے ۔ لیکن سعودی عرب کا یہ دوسرا دَورہ زیادہ تر اس لیے کامیاب ٹھہرایا جا رہا ہے کہ سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبد العزیزنے کمال فراخ دلی اور محبت سے پاکستان اور پاکستان کے نَو منتخب وزیر اعظم کا ہاتھ تھام لیا ہے۔ ساری دُنیا کے مسلمانوں کی محبوب سرزمین کے رکھوالے محترم و مکرم حکمران کی جانب سے پاکستان کے لیے 6 ارب ڈالر کے امدادی پیکیج کا اعلان کیا گیا ہے۔ ایم اویوز پر پاکستانی اسد عمر اور سعودی محمد عبداللہ الجد ان کے دستخط بھی ثبت ہو چکے ہیں۔

اس منظر سے پاکستان، پاکستانی عوام اور پاکستان کے نئے حکمرانوں کو سُکھ اور ریلیف کا سانس ملا ہے۔ عام فہم زبان میں کہا جا سکتا ہے کہ مہربان سعودی عرب کی طرف سے پاکستان کے خزانے میں (بیلنس آف پیمنٹ کے لیے) نقد تین ارب ڈالر رکھے جائیں گے اور تین سال تک پاکستان کو ہر سال تین ارب ڈالر کا ادھار تیل فراہم کیا جائے گا۔ اس سہولت کی مدت میں اضافہ بھی ممکن ہے، بشرطیکہ ہمارے اطوار درست نہج پر رہیں۔ہم سب کو اس مہربانی اور فوری دستگیری پر سعودی فرمانروا اور ولئی عہد شہزادے کا شکر گزار ہونا چاہیے۔

یہ اعانت وامداد صرف عمران خان کے لیے نہیں ہے۔ سارا پاکستان اس سے مستفید اور متمتع ہو سکے گا۔ ممکن ہے تیل کی قیمتیں مزید نہ بڑھ سکیں۔ یوں مہنگائی کا طوفان وقتی طور پر ٹلا رہے گا ۔ حکمران بھی عوامی غصے سے محفوظ رہ سکیں گے۔ کہا جا سکتا ہے کہ نئی سعودی مالی امداد پاکستان کے معاشی جہاز کے لیے لنگر ثابت ہُوا ہے ۔ یہ لنگر اسے کچھ عرصہ کے لیے متوازن رکھتے ہُوئے سہارا دیے رکھے گا۔

اس اعانت نے ڈالر کی قیمت بھی کم کر دی ہے اور پاکستان کی اسٹاک ایکسچینج کا گراف بھی بڑھا دیا ہے۔ سعودی عرب نے اپنے مسائل کے باوجود پاکستان کا ہاتھ تھام کر ایک بار پھر ہم پر احسان کیا ہے۔ ایک نجیب اور شریف قوم کے ناتے ہمیں اس احسان کو یاد رکھنا چاہیے۔ شدیدمالی بد حالی کے رواں لمحات میں دُنیا کا کوئی بھی ملک پاکستان کا ہاتھ تھامنے پر تیار نظر نہیں آرہا تھا۔ ایسے مایوس کن حالات میں خادم الحرمین الشریفین نے پاکستانی وزیر اعظم کو گلے لگا کر تعاون کرنے والے بڑے بھائی کا مستحسن ثبوت دیا ہے۔

واقعہ یہ ہے کہ سعودی حکمرانوں نے ہر آزمائش کے موقع پر پاکستان کا ساتھ نبھایا ہے۔ ہمارے کئی اسٹرٹیجک پراجیکٹوں کی تکمیل و تعمیر میں سعودی کردار تو کبھی فراموش کیا ہی نہیں جا سکتا۔پاکستان میں جتنی ہمت اور استطاعت ہے، وہ بھی سعودی عرب کا ساتھ دینے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ عمران خان کا تازہ دَورئہ سعودی عرب اس لیے بھی کامیاب گردانا گیا ہے کہ ولئی عہد نے پاکستانیوں کے لیے ویزہ فیس کم کرنے پر بھی اتفاق کیا ہے۔ اس سہولت سے سعودی عرب میں بروئے کار لاکھوں پاکستانیوں کو فائدہ ملے گا۔ اپنے تازہ خطاب میں بھی وزیر اعظم نے قوم کو مطمئن کرنے کی کوشش تو کی ہے لیکن جنہیں مطمئن نہیں ہونا ہے ، وہ کبھی مطمئن نہیں ہوں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔