ایسے منصوبے بنائیں کہ عوام کو ریلیف ملے
ملک میں احتساب اور انصاف ہوتے نظر آنے چاہیے اور وہ ایک جیسے معیار پر ہونے چاہیے۔
ایک تو میں طبعاً ''مسافر''،دوسرا اپنے ملک کو لے کر احساس کمتری کا شکاراور تیسرا تنقید کاروں کی فہرست میں سب سے آگے۔ یہ کیفیت گزشتہ روز کی ہے جب میں امریکا سے واپسی پر لاہور ائیر پورٹ پر اُترا، نیویارک، اٹلی اور دبئی جیسے ائیر پورٹس دیکھنے کے بعد اپنے ملک کے ائیر پورٹس دیکھنے کو دل ہی نہیں کرتا، یہاں اُترتے ہی ایک ایسی بے ہنگم سی زندگی شروع ہوجاتی ہے، کہ بندہ پریشان اور افسردہ ہو جاتا ہے۔
مجھ جیسے لوگ دور کھڑے پروٹوکول لینے والوں کو حسرت بھری اور اکثر اوقات کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ لیکن اس بار کچھ عجیب اور نیا ہوا، امریکا سے واپسی پر جب میں لاہور ائیر پورٹ میں داخل ہوا توپہلی بار یہ دیکھا کہ کسی کے پاس کوئی پروٹرکول نہیں تھا۔ سب لوگ لائن میں کھڑے اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے، پہلے تو یہ ہوتا تھا کہ ایک دو بندے پروٹوکول کے ساتھ امیگریشن کراتے اور پھر دیکھا دیکھی باقی لوگ بھی لائن توڑ دیتے اور ایک ہنگامہ بپا ہو جاتا۔
میں بھی فخر سے لائن میں کھڑا تھااور اندر ہی اندر خوشی محسوس کر رہا تھا کہ آج امیگریشن کرانا پہلے کی نسبت اچھا لگ رہا تھا۔ ایسا کیوں ہوا؟ کیا عمران خان یا عثمان بزدار یہاں کا ہنگامی دورہ کرکے گئے ہیں؟ نہیں بلکہ کرپشن، کام چوری اُس وقت جڑیں پکڑتی ہے جب اوپر بیٹھے لوگ کرپٹ ہوں۔ جب حکمران ایماندار ہوں تو نیچے والا عملہ خود بخود ٹھیک ہو جاتا ہے۔
حالانکہ اس سے پہلے بھی اعلان ضرور ہوتے رہے ہیں کہ ہم پروٹوکول سسٹم ختم کر دیں گے مگر ایسا ہوا نہیں۔ ہوا تو کبھی یہ بھی نہیں تھا کہ سعودی عرب نے پاکستان کے لیے اتنے بڑے پیکیج کا اعلان کر دیا ہو۔ لیکن اس پر بھی مخالفین تنقید کرنے سے باز نہیں آئے، ویسے بھی ناقد ہونے کا سب سے بڑا نقصان ہی یہی ہوتا ہے کہ آپ کڑھتے رہتے ہیں، مثبت چیزیں بھی منفی لگنے لگتی ہیں، اور جس طرح جوانی میں نہ مرنے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ بہت سے نقصان سہنے پڑتے ہیں۔
اب جب کہ دورہ سعودی عرب میں پاکستان کے لیے 12 ارب ڈالر کے امدادی پیکیج کا اعلان کر دیاگیا ہے۔ جس کے مطابق پاکستان کو ادائیگیوں کے توازن کے لیے 3 ارب ڈالر ملنے کے علاوہ 3 سال تک 9 ارب ڈالر کا تیل بھی ادھار ملے گا۔ یہ بات تو ہمیں ماننا پڑے گی کہ پاکستان کو جب بھی کسی مشکل کا سامنا ہوا ، سعودی عرب نے پاکستان کا ساتھ دیا ہے۔پاک ، بھارت جنگ کے دوران اور جنرل ضیاء الحق کے دور میں جب افغانستان پر روسی فوج نے یلغار کی تو لاکھوں افغان باشندے ہجرت کرکے پاکستان پہنچے۔
سعودی عرب افغان پناہ گزینوں کی بحالی کے لیے امداد فراہم کرنے والا پہلا ملک تھا، جس نے 35 ملین ڈالر کی امداد فراہم کی۔ ضیاء الحق کی طیارہ حادثے میں وفات کے بعد پاکستان سیاسی طور پر عدم استحکام کا شکار رہا تاہم اس عرصے میں بننے والی بینظیر اور نواز شریف کی حکومتوں کے ساتھ بھی ریاض کے تعلقات یکساں رہے۔
1998ء میں جب پاکستان نے ایٹمی دھماکوں کا فیصلہ کیا تو پوری دنیا نے بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں اسلام آباد کو دھماکوں سے روکنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ مگر سعودی عرب نے پاکستانی حکومت کے حوصلے بلند رکھے۔ یوں پاکستان کے ایٹمی دھماکوں میں سعودی عرب کی منشاء بھی شامل تھی۔سابق فوجی صدر اور سعودی عرب کے درمیان آغاز میں تعلقات اچھے رہے۔ دونوں ملکوں کی مسلح افواج نے متعدد مرتبہ مشترکہ جنگی مشقیں بھی کیں۔ تاہم مشرف کے آخری دور، صدر آصف زرداری اور نواز شریف کے پانچ پانچ سالہ دور حکومت میں سعودی عرب سے تعلق قدرے سرد مہری کا شکار رہے تھے۔
عمران خان اپنے متعدد بیانات اور انٹرویوز میں واضح طور پر یہ بات کہہ چکے ہیں کہ پاکستانی معیشت تاریخ کی بدترین حالت میں ہے اور اس صورتحال سے نکلنے کیلے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) اور دوست ممالک سے قرض کا حصول ناگزیر ہے۔ اسی اُمید ہی کی بدولت گرتی ہوئی معیشت کو سنبھالا دینے کے لیے عمران خان بالآخر کامیاب ہوگئے ہیں۔ اور چین سے 2 سے چار ارب روپے ملنے کی توقع ہے، ملائشیا سے بھی 2 سے چار ارب ڈالر ملنے کی توقع ہے۔ اور اسی دوران حکومت پاکستان آئی ایم ایف سے بھی آسان شرائط پر کم سے کم قرض لیا جائے تاکہ معیشت کو ریلیف مل سکے۔
عوام کو اس حوالے سے اُمید ضرور ہوئی ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے ملک کو''ٹریک'' پر ڈال دیا ہے ۔ اور اُمید کی جاسکتی ہے کہ عمران خان پہلے سو دن میں ہی عوام کو بتا دیں گے کہ وہ ملک کے لیے کیا کر سکتے ہیں۔
رہی بات مہنگائی کی تو اس میں اُتار چڑھاؤ وقت کے ساتھ آتا رہتا ہے۔کیسی بات ہے کہ ایک بندہ ہمیں ہیلمٹ پہنا رہا ہے اور ہم اُسی پر تنقید کر رہے ہیں۔ ملائشیا، انڈیا، بنگلہ دیش اور تھائی لینڈ میں اس قانون پر سختی سے عمل کیا جاتا ہے۔یہاں حد تو یہ ہے کہ اُس نے ہیلمٹ کا کہا، لوگوں نے ہیلمٹ کی قیمت بڑھا دی۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اگر ایک حکمران مخلص ہو کر اس ملک کو ٹریک پر چڑھانے کی کوشش کر رہا ہے تو ہمیں بھی اپنے آپ کو بدلنے کی ضرورت ہے۔
ایک مخصوص مافیا جس کو عمران خان کے آنے سے نقصان ہو رہا ہے اُس نے تو سردھڑ کی بازی لگائی ہوئی ہے کہ کسی طرح عمران خان سے جان چھڑائی جائے، وہ اگر پانچ سال میں ایک نیا پاکستان اس قوم کو دے جاتے ہیں تو یہ ہماری تقدیر بدل دے گا، ویلڈن عمران خان ! اس کی ٹیم کو بھی چاہیے کہ وہ عوام کو مہنگائی کے نئے طوفان سے نبردآزما ہونے کے لیے ذہنی طور پر تیار کریں۔ اسی کے ساتھ وزیراعظم عمران خان سے درخواست ہے کہ وہ ملک کی ترقی، تبدیلی اور خوشحالی کے لیے لانگ ٹرم منصوبے ضرور بنائیں لیکن سب سے پہلے عوام کے لیے ایسا منصوبہ بنائیں جس سے غریب آدمی کو فوری ریلیف ملے۔
میرے خیال میں اگر سخت مانیٹرنگ کا نظام قائم کرنے میں، کرپشن کا راستہ روکنے میں اور عوام کو بچت کی عادت ڈالنے میں اگر عمران خان ڈیڑھ دو سال میں کامیاب ہوگئے تو یہ قوم اس حکومت کے تیسرے سال میں ایک نئی اور مضبوط قوم بن کر سامنے آئے گی ۔ لیکن یہ سچ ہے کہ آسانی ہمیشہ مشکل کے بعد ہی آتی ہے۔ اب یہ قوم پر منحصر ہوگا کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ اب ہم یہ طے کر لیں کہ ملک میں اب قانون اور آئین کی حکمرانی رہے گی۔ قانون اور آئین کی حکمرانی ہمیشہ اوپر سے نیچے تک ہوتی ہے۔ خواہ وہ ہیلمٹ کا قانون ہو یا وہ احتساب کے لیے نیب کا قانون یا ادارہ ہو۔ ملک میں احتساب اور انصاف ہوتے نظر آنے چاہیے اور وہ ایک جیسے معیار پر ہونے چاہیے۔
اگر ہم یہ کرنے میں کامیاب ہوگئے تو انشاء اللہ ملک ترقی کی منازل طے کرنا شروع کردے گا۔یہی وجہ ہے کہ عمران خان کو بار بار سابقہ حکمرانوں کی کرپشن کو عوام کے سامنے لانے کی بات کرنا پڑتی ہے اور بتانا پڑتا ہے کہ اس وقت ملک کی معاشی صورتحال کیا ہے؟ بہرکیف عمران خان کی ٹیم کو بھی چاہیے کہ وہ عوام کو مہنگائی کے نئے طوفان سے نبردآزما ہونے کے لیے ذہنی طور پر تیار کریں۔
جیسا کہ وزیراعظم کا کہنا ہے کہ ملک پر مشکل وقت ہے اس حقیقت کو کھلے دل سے قبول کرنے اور نمٹنے کے لیے پوری قوم کو تیا رہنا چاہیے۔ عمران خان ملک کی ترقی، تبدیلی اور خوشحالی کے لیے لانگ ٹرم منصوبے ضرور بنائیںلیکن سب سے پہلے عوام کے لیے ایسا منصوبہ بنائیں جس سے غریب آدمی کو فوری ریلیف ملے۔
مجھ جیسے لوگ دور کھڑے پروٹوکول لینے والوں کو حسرت بھری اور اکثر اوقات کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ لیکن اس بار کچھ عجیب اور نیا ہوا، امریکا سے واپسی پر جب میں لاہور ائیر پورٹ میں داخل ہوا توپہلی بار یہ دیکھا کہ کسی کے پاس کوئی پروٹرکول نہیں تھا۔ سب لوگ لائن میں کھڑے اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے، پہلے تو یہ ہوتا تھا کہ ایک دو بندے پروٹوکول کے ساتھ امیگریشن کراتے اور پھر دیکھا دیکھی باقی لوگ بھی لائن توڑ دیتے اور ایک ہنگامہ بپا ہو جاتا۔
میں بھی فخر سے لائن میں کھڑا تھااور اندر ہی اندر خوشی محسوس کر رہا تھا کہ آج امیگریشن کرانا پہلے کی نسبت اچھا لگ رہا تھا۔ ایسا کیوں ہوا؟ کیا عمران خان یا عثمان بزدار یہاں کا ہنگامی دورہ کرکے گئے ہیں؟ نہیں بلکہ کرپشن، کام چوری اُس وقت جڑیں پکڑتی ہے جب اوپر بیٹھے لوگ کرپٹ ہوں۔ جب حکمران ایماندار ہوں تو نیچے والا عملہ خود بخود ٹھیک ہو جاتا ہے۔
حالانکہ اس سے پہلے بھی اعلان ضرور ہوتے رہے ہیں کہ ہم پروٹوکول سسٹم ختم کر دیں گے مگر ایسا ہوا نہیں۔ ہوا تو کبھی یہ بھی نہیں تھا کہ سعودی عرب نے پاکستان کے لیے اتنے بڑے پیکیج کا اعلان کر دیا ہو۔ لیکن اس پر بھی مخالفین تنقید کرنے سے باز نہیں آئے، ویسے بھی ناقد ہونے کا سب سے بڑا نقصان ہی یہی ہوتا ہے کہ آپ کڑھتے رہتے ہیں، مثبت چیزیں بھی منفی لگنے لگتی ہیں، اور جس طرح جوانی میں نہ مرنے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ بہت سے نقصان سہنے پڑتے ہیں۔
اب جب کہ دورہ سعودی عرب میں پاکستان کے لیے 12 ارب ڈالر کے امدادی پیکیج کا اعلان کر دیاگیا ہے۔ جس کے مطابق پاکستان کو ادائیگیوں کے توازن کے لیے 3 ارب ڈالر ملنے کے علاوہ 3 سال تک 9 ارب ڈالر کا تیل بھی ادھار ملے گا۔ یہ بات تو ہمیں ماننا پڑے گی کہ پاکستان کو جب بھی کسی مشکل کا سامنا ہوا ، سعودی عرب نے پاکستان کا ساتھ دیا ہے۔پاک ، بھارت جنگ کے دوران اور جنرل ضیاء الحق کے دور میں جب افغانستان پر روسی فوج نے یلغار کی تو لاکھوں افغان باشندے ہجرت کرکے پاکستان پہنچے۔
سعودی عرب افغان پناہ گزینوں کی بحالی کے لیے امداد فراہم کرنے والا پہلا ملک تھا، جس نے 35 ملین ڈالر کی امداد فراہم کی۔ ضیاء الحق کی طیارہ حادثے میں وفات کے بعد پاکستان سیاسی طور پر عدم استحکام کا شکار رہا تاہم اس عرصے میں بننے والی بینظیر اور نواز شریف کی حکومتوں کے ساتھ بھی ریاض کے تعلقات یکساں رہے۔
1998ء میں جب پاکستان نے ایٹمی دھماکوں کا فیصلہ کیا تو پوری دنیا نے بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں اسلام آباد کو دھماکوں سے روکنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ مگر سعودی عرب نے پاکستانی حکومت کے حوصلے بلند رکھے۔ یوں پاکستان کے ایٹمی دھماکوں میں سعودی عرب کی منشاء بھی شامل تھی۔سابق فوجی صدر اور سعودی عرب کے درمیان آغاز میں تعلقات اچھے رہے۔ دونوں ملکوں کی مسلح افواج نے متعدد مرتبہ مشترکہ جنگی مشقیں بھی کیں۔ تاہم مشرف کے آخری دور، صدر آصف زرداری اور نواز شریف کے پانچ پانچ سالہ دور حکومت میں سعودی عرب سے تعلق قدرے سرد مہری کا شکار رہے تھے۔
عمران خان اپنے متعدد بیانات اور انٹرویوز میں واضح طور پر یہ بات کہہ چکے ہیں کہ پاکستانی معیشت تاریخ کی بدترین حالت میں ہے اور اس صورتحال سے نکلنے کیلے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) اور دوست ممالک سے قرض کا حصول ناگزیر ہے۔ اسی اُمید ہی کی بدولت گرتی ہوئی معیشت کو سنبھالا دینے کے لیے عمران خان بالآخر کامیاب ہوگئے ہیں۔ اور چین سے 2 سے چار ارب روپے ملنے کی توقع ہے، ملائشیا سے بھی 2 سے چار ارب ڈالر ملنے کی توقع ہے۔ اور اسی دوران حکومت پاکستان آئی ایم ایف سے بھی آسان شرائط پر کم سے کم قرض لیا جائے تاکہ معیشت کو ریلیف مل سکے۔
عوام کو اس حوالے سے اُمید ضرور ہوئی ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے ملک کو''ٹریک'' پر ڈال دیا ہے ۔ اور اُمید کی جاسکتی ہے کہ عمران خان پہلے سو دن میں ہی عوام کو بتا دیں گے کہ وہ ملک کے لیے کیا کر سکتے ہیں۔
رہی بات مہنگائی کی تو اس میں اُتار چڑھاؤ وقت کے ساتھ آتا رہتا ہے۔کیسی بات ہے کہ ایک بندہ ہمیں ہیلمٹ پہنا رہا ہے اور ہم اُسی پر تنقید کر رہے ہیں۔ ملائشیا، انڈیا، بنگلہ دیش اور تھائی لینڈ میں اس قانون پر سختی سے عمل کیا جاتا ہے۔یہاں حد تو یہ ہے کہ اُس نے ہیلمٹ کا کہا، لوگوں نے ہیلمٹ کی قیمت بڑھا دی۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اگر ایک حکمران مخلص ہو کر اس ملک کو ٹریک پر چڑھانے کی کوشش کر رہا ہے تو ہمیں بھی اپنے آپ کو بدلنے کی ضرورت ہے۔
ایک مخصوص مافیا جس کو عمران خان کے آنے سے نقصان ہو رہا ہے اُس نے تو سردھڑ کی بازی لگائی ہوئی ہے کہ کسی طرح عمران خان سے جان چھڑائی جائے، وہ اگر پانچ سال میں ایک نیا پاکستان اس قوم کو دے جاتے ہیں تو یہ ہماری تقدیر بدل دے گا، ویلڈن عمران خان ! اس کی ٹیم کو بھی چاہیے کہ وہ عوام کو مہنگائی کے نئے طوفان سے نبردآزما ہونے کے لیے ذہنی طور پر تیار کریں۔ اسی کے ساتھ وزیراعظم عمران خان سے درخواست ہے کہ وہ ملک کی ترقی، تبدیلی اور خوشحالی کے لیے لانگ ٹرم منصوبے ضرور بنائیں لیکن سب سے پہلے عوام کے لیے ایسا منصوبہ بنائیں جس سے غریب آدمی کو فوری ریلیف ملے۔
میرے خیال میں اگر سخت مانیٹرنگ کا نظام قائم کرنے میں، کرپشن کا راستہ روکنے میں اور عوام کو بچت کی عادت ڈالنے میں اگر عمران خان ڈیڑھ دو سال میں کامیاب ہوگئے تو یہ قوم اس حکومت کے تیسرے سال میں ایک نئی اور مضبوط قوم بن کر سامنے آئے گی ۔ لیکن یہ سچ ہے کہ آسانی ہمیشہ مشکل کے بعد ہی آتی ہے۔ اب یہ قوم پر منحصر ہوگا کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ اب ہم یہ طے کر لیں کہ ملک میں اب قانون اور آئین کی حکمرانی رہے گی۔ قانون اور آئین کی حکمرانی ہمیشہ اوپر سے نیچے تک ہوتی ہے۔ خواہ وہ ہیلمٹ کا قانون ہو یا وہ احتساب کے لیے نیب کا قانون یا ادارہ ہو۔ ملک میں احتساب اور انصاف ہوتے نظر آنے چاہیے اور وہ ایک جیسے معیار پر ہونے چاہیے۔
اگر ہم یہ کرنے میں کامیاب ہوگئے تو انشاء اللہ ملک ترقی کی منازل طے کرنا شروع کردے گا۔یہی وجہ ہے کہ عمران خان کو بار بار سابقہ حکمرانوں کی کرپشن کو عوام کے سامنے لانے کی بات کرنا پڑتی ہے اور بتانا پڑتا ہے کہ اس وقت ملک کی معاشی صورتحال کیا ہے؟ بہرکیف عمران خان کی ٹیم کو بھی چاہیے کہ وہ عوام کو مہنگائی کے نئے طوفان سے نبردآزما ہونے کے لیے ذہنی طور پر تیار کریں۔
جیسا کہ وزیراعظم کا کہنا ہے کہ ملک پر مشکل وقت ہے اس حقیقت کو کھلے دل سے قبول کرنے اور نمٹنے کے لیے پوری قوم کو تیا رہنا چاہیے۔ عمران خان ملک کی ترقی، تبدیلی اور خوشحالی کے لیے لانگ ٹرم منصوبے ضرور بنائیںلیکن سب سے پہلے عوام کے لیے ایسا منصوبہ بنائیں جس سے غریب آدمی کو فوری ریلیف ملے۔