غیر حقیقی نرخ

واپڈا کے بجلی فراہمی کے اداروں کے اپنے اور کے الیکٹرک کے اپنے نرخ مقرر ہیں۔


Muhammad Saeed Arain October 26, 2018

ملک میں تین سرکاری ادارے ایسے ہیں جو یوٹیلیٹی کہلاتے ہیں اور عوام کا ان سے بہت قریبی تعلق ہے اور تینوں اداروں سے عوام ہی زیادہ متاثر ہوتے ہیں جب کہ سرکار کے اعلیٰ افسروں اور سرکاری اداروں پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ ان تینوں اداروں میں سب سے بڑا ادارہ واپڈا ہے جو اب ملک میں، فیسکو، لیسکو، سیپکو، گیپکو، میپکو، حیسکو، پیسکو وغیرہ کے نام سے پکارا جاتا ہے جن پر ملک بھر میں بجلی کی فراہمی کی ذمے داری ہی عائد نہیں ہوتی بلکہ بجلی پیدا کرنے اور نجی اداروں سے بجلی خرید کر ملک میں فراہم بھی کرتا ہے۔

ملک میں صرف ایک ایسا بااثر ادارہ کے الیکٹرک ہے جس کو نیشنل گرڈ سسٹم سے ساڑھے چھ سو میگا واٹ بجلی فراہم کی جاتی ہے اور کے الیکٹرک معاہدہ کے مطابق اپنی بچت کے لیے خود بجلی پیدا نہیں کرتا مگر اس خلاف ورزی پر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) نے اپنی حکومتوں کے دس سالوں میں کے الیکٹرک کے خلاف کبھی کارروائی نہیں کی اور توقع یہی ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت بھی اس کے آگے بے بس رہے گی کیونکہ تینوں پارٹیوں کو خلیجی حکمرانوں سے اپنے تعلقات برقرار رکھنے ہیں اور صارفین بجلی منتظر ہی ہیں کہ کب عوام کی شنوائی ہو اور عوام کو ریلیف ملے۔

واپڈا کے بجلی فراہمی کے اداروں کے اپنے اور کے الیکٹرک کے اپنے نرخ مقرر ہیں۔ کے الیکٹرک صرف کمانے کے لیے ہے جسے حکومت پاکستان مالی مدد بھی دیتی ہے جب کہ واپڈا اپنے ذرایع سے آمدنی حاصل کرتی ہے اور حکومت بھی مدد کرتی ہے۔ واپڈا کے اداروں اور کے الیکٹرک کے بقول بجلی کی چوری بہت ہے اور سرکاری اداروں پر ان کے اربوں روپے کے بقایا جاتا ہیں اور ان کا بس صرف نجی صارفین بجلی پر چلتا ہے جو ان کے مظالم کا مسلسل شکار چلے آرہے ہیں۔

کراچی واٹر سیوریج بورڈ کے فراہمی و نکاسی آب کے ماہانہ بل بہت مناسب تو ہیں مگر گھریلو صارفین جتنا پانی چاہیں استعمال کرلیں مگر بہت سے غیر ذمے دار افراد واٹر بل بھی ذمے داری سے ادا نہیں کرتے کیونکہ انھیں پتا ہے کہ عدم ادائیگی کے باوجود فراہمی ونکاسی آب متاثر نہیں ہوگی جب کہ بجلی اور گیس کے بل عدم ادائیگی پر بجلی کٹنے اور گیس بند کیے جانے کا خطرہ رہتا ہے اس لیے وہ دونوں بل قطاروں میں لگ کر بھی جمع کرانے پر مجبور ہیں اور تاخیر پر لیٹ فیس بھی ادا کرتے ہیں۔ نئے پاکستان کی دعویدار حکومت نے سوئی گیس کے نرخوں میں 143 فیصد اضافہ کرکے وہ اضافہ کیا ہے جس کی ماضی میں کوئی بھی حکومت مثال قائم نہیں کرسکی تھی۔

سوئی گیس کے صارفین جن کی ملک بھر میں تعداد تقریباً 25 فیصد ہے وہ پہلے ہی غیر حقیقی نرخوں کا شکار تھے اب مزید عذاب میں آگئے ہیں۔ گھریلو صارفین پر اب تین سو یونٹ تک دس سے پندرہ فیصد اضافہ کرکے ان پر مالی بوجھ بڑھا دیا ہے جو وہ خود برداشت کریں گے۔ کیونکہ جن صنعتی و تجارتی اداروں کے گیس نرخ بڑھے ہیں وہ تو اپنے صارفین پر یہ بوجھ منتقل کردیں گے جس سے مہنگائی مزید بڑھے گی اور سزا عوام کو ملے گی اور نئے پاکستان کی کابینہ میں مسلسل اضافہ کرنے اور پارٹی والوں اور ذاتی دوستوں کو نوازنے والے حکمران کو عوام پر بڑھایا جانے والا مالی بوجھ نظر نہیں آرہا۔ سوئی گیس کے گھریلو صارفین پر ایک سو یونٹ تک نرخ ساڑھے چار روپے یونٹ تھا جب کہ گیس میٹر کا کرایہ بیس روپے ماہانہ اور نہ جانے کون سے اسٹینڈرڈ ٹیکس کی رقم الگ ہے۔

ایک سو یونٹ سے صرف ایک یونٹ بڑھ جانے پر 101 یونٹ پر ڈبل نرخ نو روپے چارج کیے جا رہے تھے جو جنریٹر یا گیزر کے باعث تین سو یونٹ تک نو روپے تھے اور اگر 301 یونٹ ہوجائیں تو نو روپے فی یونٹ سے تین سو فیصد بڑھ کر 26 روپے یونٹ چارج کیے جا رہے تھے۔ صرف سو سے صرف 101 یونٹ پر ساڑھے چار سے نو روپے یونٹ اور تین سو ایک یونٹ ہوجانے پر 26 روپے مکمل یونٹوں پر چارجنگ انتہائی غیر حقیقی ہے۔

واپڈا یا کے الیکٹرک بھی تین سو یونٹ تک دو کیٹیگری میں بل وصول کرتی ہیں مگر یہ کہاں کا انصاف ہے کہ 101 یونٹ یعنی صرف ایک یونٹ بڑھنے پر بل نو روپے یونٹ اور 305 یونٹ ہوجانے پر فی یونٹ 26 روپے یونٹ وصول کیے جائیں۔ سو یونٹ تک تو ساڑھے چار روپے یونٹ چارج کرنا درست ہے مگر صرف ایک یونٹ استعمال بڑھنے پر 101 یونٹ رقم ڈبل اور 300 یونٹ سے دو چار یونٹ بڑھ جانے پر تمام یونٹ 26 روپے یونٹ کا بل بھیج دینا گھریلو صارفین کے ساتھ ناانصافی کی انتہا ہے جس پر اب تک سپریم کورٹ کی نظر مرکوز نہیں ہوئی وگرنہ موبائل پر عائد 25 فیصد ٹیکس پر ایکشن کی طرح سوموٹو ایکشن لیا جاچکا ہوتا اور لوگ گیس کے اس ٹیکس سے بچ جاتے۔

سوئی گیس کے گھریلو یہ نرخ 27 ستمبر سے قبل کے ہیں اور حال ہی میں 143 فیصد جو اضافہ کیا گیا ہے اس کے تحت اب گھریلو صارفین ماہانہ دو سو مکعب میٹر گیس استعمال کرنے پر اب سوئی گیس پر 20 فیصد اضافی بل ادا کرنا پڑے گا۔ بجلی بنانے والے کارخانے اور صنعتیں بڑھائے گئے نرخ اپنے صارفین پر مہنگائی بڑھا کر اپنے اضافی خرچے سے بڑھا کر ہی وصول کریں گے اور ان کی آمدنی مزید بڑھے گی جب کہ گھروں پر تین سو مکعب میٹر گیس استعمال کرنے والوں پر 25 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ دو سو سے ایک یونٹ بڑھنے پر یہ اضافہ بیس سے پچیس فیصد ہوجائے گا۔

سوئی سدرن گیس نے بھی اپنی ہی لیبارٹری میں میٹر چیک کرا کر سلو قرار دینے کا کے الیکٹرک والا اضافی کمائی کا طریقہ بھی اپنالیا ہے جس کے تحت ہزاروں روپے کے اضافی بل بھیج کر وہ بل درست نہیں کیے جاتے اور قسط کرا کر ہر صورت ادا کرنا پڑتے ہیں جس سے صارفین گیس پہلے ہی عذاب میں مبتلا ہیں اور اب مزید بڑھادیا گیا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں